دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری
دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری

اقبال کی قرآن فہمی پہلی قسط

اقبال کی قرآن فہمی پہلی قسط میاں محمد سعید شاد

اقبالؒ کی شاعری دراصل قرآن و سنت کی ترجمانی ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔ پہلے قرآنی آیت کا ترجمہ ہے۔ اسکے نیچے اقبال کے اشعار ہیں۔

القرآن سورہ محمد (آیت 38) ترجمہ: ”ہاں تم ہی وہ لوگ ہو جنہیں دعوت دی جاتی ہے کہ اپنے مال خرچ کرو اللہ کی راہ میں پس تم میں سے کچھ بخل کرنے لگتے ہیں اور جو شخص بخل کرتا ہے تو وہ اپنی ذات سے بخل کر رہا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ تو غنی ہے (کسی کا محتاج نہیں) بلکہ تم اسکے محتاج ہو اور اگر تم روگردانی کرو گے تو اس سعادت سے محروم کر دئیے جا گے اور تمہارے عوض وہ دوسری قوم لے آئےگا پھر وہ تم جیسے نہ ہونگے


یعنی جب قوم اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوشاں رہتی ہے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اسکے شامل حال رہتی ہے لیکن جب کوئی قوم اس نعمت کی قدر نہیں کرتی۔ اللہ کی راہ میں جان دینے سے کتراتی ہے اور مال خرچ کرنے میں بخل سے کام لینے لگتی ہے‘ اسکی قوت عمل میں کاہلی اور سستی کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں تو اس کو مناسب انداز سے اسکی کوتاہیوں پر متنبہ کیا جاتا ہے۔ اگر پھر بھی وہ اپنی اصلاح نہیں کرتی تو اسے اس منصب جلیل سے ہٹا دیا جاتا ہے اور کسی دوسری قوم کو وہ منصب سنبھالنے کی عزت بخشی جاتی ہے۔ وہ نئی قوم نہ جان کی بازی لگانے میں پس و پیش کرتی ہے اور نہ مال خرچ کرنے میں دریغ کرتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور قرآن کریم کا فیصلہ ہے کہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ جو قومیں بلکہ جو افراد اس منصب پر فائز ہیں انہیں اپنے اس منصب کی اس نازک ذمہ داریوں کا پورا پورا احساس ہونا چاہئے اور انہیں ہر لحاظ سے چوکنا رہنا چاہئے کہ ادائےگی فرائض میں ان سے کوئی کوتاہی ہی سرزد نہ ہونے پائے۔ اقبالؒ

 

مسلمان فاقہ مست و ژندہ پوش است

زکاوش جبرائیل اندر خروش است

بیا نقش دگر ملت بہ ریزم

کہ ایں ملت جہاں را بار دوش است

القرآن: قسم ہے زمانہ کی یقیناً انسان خسارہ میں ہے بجز ان (خوش نصیبوں) کے جو ایمان لے آئے اور نیک عمل کرتے رہے نیز ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے رہے اور ایک دوسرے کو صبر کی تاکید کرتے رہے۔ (سورة العصر 103(4,1) اقبالؒ

بال جبریل میں ”مسجد قرطبہ“ کے زیرعنوان یہ ابتدائی چند اشعار سورة العصر کی تشریح ہیں:

سلسلہ روز و شب، نقش گر حادثات

سلسلہ روز و شب، اصل حیات و ممات

سلسلہ روز و شب، تار حریر دو رنگ

جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات

سلسلہ روز و شب، ساز ازل کی فغاں

جس سے دکھاتی ہے ذات زیروبم ممکنات

تجھ کو پرکھتا ہے یہ، مجھ کو پرکھتا ہے یہ

سسلہ روز و شب صبر فی کائنات

تو ہو اگر کم عیار، میں ہوں اگر کم عیار

موت ہے تیری برات، موت ہے میری برات

تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا

ایک زمانے کی رو، جس میں نہ دن ہے نہ رات

القرآن ق (آیت 15) ترجمہ: تو کیا ہم تھک گئے ہیں پہلی مرتبہ مخلوق پیدا کر کے۔ ایسا نہیں بلکہ یہ کفار ازسرنو پیدا ہونے کے بارے میں شک میں ہیں (آیت 15) ”بلاشبہ ہم ہی نے انسان پیدا کیا ہے اور ہم خوب جانتے ہیں اس کا نفس جو وسوسے ڈالتا ہے اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں“ یعنی اے اہل مکہ! تم سمجھتے ہو کہ ان گنت اور بے شمار انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنا بڑا ہی مشکل کام ہے کیا ہم آسمان اور زمین کا یہ وسیع و عریض اور پیچیدہ نظام پیدا کرنے کے بعد تھک گئے ہیں؟ اب ہم میں یہ سکت نہیں رہی کہ تمہیں ازسرنو زندہ کر سکیں؟ تم بچوں کی طرح کیسی بہکی بہکی باتیں کرتے رہتے ہو۔“ .... اقبال

چہ گویم قصہ دین و وطن را

کہ نتواں فاش گفتن ایں سخن را

مرنج از من کہ از بے مہرئی تو

بنا کر دم ہماں دہر کہن را

مسلمانے کہ دربند فرنگ است

دلش در دست او آساں نیاید

زسیمائے کہ سو دم بر در غیر

سجودے بوذرؓ و سلمانؓ نیاید

القرآن المجید

سورة الکہف (57: 18)ترجمہ: ہم نے ڈال دیے انکے دلوں پر پردے تاکہ وہ قرآن کو نہ سمجھ سکیں اور انکے کانوں میں گرانی پیدا کر دی اور تم بلا انہیں ہدایت کی طرف تو جب بھی وہ ہدایت قبول نہیں کریں گے۔ اور آپکا پروردگار تو بہت بخشنے والا بڑی ہی رحمت والا ہے۔ اگر وہ پکڑ لیتا انہیں ان کے کئے پر تو جلد ان پر عذاب بھیجتا (وہ ایسا نہیں کرتا) بلکہ اس کو سزا دینے کا ایک وقت مقرر ہے۔ نہیں پائیں گے اس وقت ان کے بغیر کوئی پناہ۔“ .... اقبال

(1)

گر تو می خواہی مسلماں زیستن

نیست ممکن جز بقرآں زیستن

خواہ از مہجوری قرآں شدی

شکوہ سنج گردش دوراں شدی

(2)

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر

اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

القرآن الحکیم .... سورہ آل عمران (آیت 139) ترجمہ: ”اور نہ ہمت ہارو اور نہ غم کرو اور تمہی سربلند ہو گے اگر تم سچے مومن ہو۔“ اقبالؒ (غیرمطبوعہ کلام)

خوف شر کیوں ہو اگر خیر ہے مقصد تیرا

تری تسخیر تو ابلیس کو لرزاں کر دے

جہاں اقبال (عبدالرحمن طارق)

و اذا مرضت فھو یشفین (سورة الشعرا 80:26)

ترجمہ: ”اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے صحت بخشتا ہے۔

اقبالؒ کا پختہ یقین تھا کہ جب انسان بیمار ہوتا ہے تو اللہ ہی اسے شفا دیتا ہے اس لئے آپ نے ہمیشہ طب نبویﷺ کو ڈاکٹری طریقہ علاج پر ترجیح دی اور جڑی بوٹیوںسے اپنا علاج کرانا ہمیشہ پسند فرمایا: جیسا کہ ان دو واقعات سے ثابت ہوتا ہے:

1۔ عبدالوہاب حکیم نابینا انصاری کو اللہ کی توفیق سے نبض شناسی پر ایسی قدرت حاصل تھی کہ بڑے بڑے طبیب اسکی حسرت کرتے تھے۔ علامہ اقبال ؒ کو حکیم نابینا صاحب کی معالجانہ سوجھ بوجھ پر بڑا اعتماد تھا۔ ایک بار انکے گردے میں پتھری پیدا ہو گئی۔ ڈاکٹروں کی رائے میں آپریشن کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ تھا اور آپریشن کےلئے طے پایا کہ ویانا میں ہو تو بہتر ہے۔ کچھ دوستوں کے مشورے سے حکیم نابینا صاحب کا علاج شروع کیا گیا۔ حکیم صاحب نے پتھریاں نکالنے والی یونانی دوائیں استعمال کرائیں۔ اس موقع پر وہ حجر الیہود کا ایک خاص کشتہ اپنے طریق سے تیار کرتے تھے اور اسکو بھی دوسری دوائیوں کےساتھ دیا کرتے تھے۔ اللہ کے فضل سے ڈاکٹر اقبالؒ صاحب کی سب پتھریاں نکل گئیں۔ دوبارہ ایکسرے میں نظر نہیں آئیں اور پھر ڈاکٹر اقبالؒ کو کبھی یہ تکلیف نہ ہوئی۔

2۔ 1934ء میں ایک بار علامہ اقبالؒ لاہور میں بہت زیادہ بیمار ہو گئے۔ ڈاکٹروں کو انکی زندگی کی امید باقی نہ رہی۔ گھر کے لوگ بھی مایوس ہو گئے۔

لیکن علامہ اقبالؒ کی خواہش پر حکیم نابینا صاحب سے رجوع کیا گیا۔ ان دنوں حکیم صاحب دلی میں تھے۔ انہوں نے بغور تمام حالات سن کر یہ تشخیص کیا کہ اعضائے رئیسہ پر غیرمعمولی دبا پڑنے کی وجہ سے انتہائی ضعف و نقاہت پیدا ہو گئی ہے۔ انہوں نے مقوی اعضائے رئیسہ دوائیں دینے کےساتھ ساتھ اپنے خاص بکس کی مشہور دوا ”روح الذہب“ (یہ ایک خاص مرکب تھا جس میں سونے کا جزو بھی شامل تھا) ڈاکٹر اقبالؒ کو بھیجی۔ .... (جاری)

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد