مفتی محمد صادق حسین قاسمی کریم نگری sadiq.taqi@yahoo.com
دانائے راز،شاعر ِ مشرق علامہ اقبالؒ(۱۸۷۷ء۔۱۹۳۸ء)کی شہرۂ آفاق شخصیت کی
عظمت صرف اس لئے نہیں ہے کہ آپ ایک بلند پایہ شاعر، اور عظیم فلسفی ،اور
مغربی علوم کے شناور تھے،بلکہ آپ کی ذات کو عالم اسلام میں مقبولیت اور خاص
وعام میں یکساںجو محبوبیت حاصل ہوئی ہیں
یہ تاریخی حقائق علامہ اقبال ؒ کی ابتدائی زندگی کے ہیں جب کہ آپ نے
فتنہ قادیانیت کو واضح طور پر نہیں دیکھا ،اور ایک رفاہی اور قوم کی خدمت
گذار تحریک سمجھ کر انسانیت کی فلاح و بہبودی میں اپنی شرکت کو بھی مناسب
محسوس کیا،ورنہ اقبالؒ غدارانِ دین و نبی کے ساتھ کسی لمحہ بھی طرف دار
نہیں رہے ۔
علامہ اقبال ؒ اور حقیقت ِ قادیانیت کا انکشاف:
علامہ اقبال ؒ ابتداء میں چوںکہ قادیانیوں سے سماجی تعلقات رکھتے تھے،اسی
بنیاد پر وہ کشمیر کمیٹی کے تحت فلاحی کاموں میں اپنا حصہ بھی ڈلواتے رہیں
لیکن ۱۹۳۲ ء میں جب علامہ کو مرزا بشیر الدین محمود کے ساتھ کام کرنے کا
اتفاق ہوا ،اور بہت قریب سے قادیانی ٹولہ کی فریب کاریوں کو دیکھے نے اور
ان کی ملمع سازیوں سے واقف ہو نے موقع ملا،علامہ نے محسوس کیا کہ احمدی
تحریک کشمیر کمیٹی کے نام پر،اور ہمدردی و خیر خواہی کے عنوان پر اپنے
افکار و عقائد کی تبلیغ میں مصروف ہے۔جیسے ہی علامہ نے حقیقت ِ حال کو اپنی
آنکھوں سے دیکھ لیافوری کمیٹی کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے ،دوسری طرف اسی
زمانہ میں پروفیسر الیاس برنی صاحب کی کتاب “قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ”
زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کر علمی و دینی حلقوں میںدادِ کمال حاصل کررہی
تھی ،چناں چہ اس کتاب نے بھی اس فتنہ قادیانیت کو کھول کرعلامہ کے سامنے
رکھ دیا، اورپھراپنی تحریروں میں بھر پور انداز میں ختم ِ نبوت کا دفاع بھی
کیا ،اور عشق و محبت میںڈوب کر رسولِ کریم ﷺ سے اپنے والہانہ تعلق کا ثبوت
بھی دیا۔آئیے تاریخی حوالوں سے اس انکشاف کو ملاحظہ کریں:
شکیل عثمانی صاحب تحریر فرماتے ہیں:
اقبال کو جب ۳۲ا۔۱۹۳۱ء کے دوران مرزا بشیر الدین محمود کے ساتھ آل انڈیا کشمیر کمیٹی میں کام
کرنے کااتفاق ہواتو انہوں نے اس کا مشاہدہ کیا کہ مسئلہ چاہے اجتماعی یا قومی کیوں نہ ہو ،قادیانی
اپنے گروہی مفادات کی سطح سے اوپر نہیں اٹھ سکتے اور وہ صرف اپنے امام کی اطاعت کے پابند ہیں
۔۔۔اسی سال پروفیسر الیاس برنی کی کتاب “قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ” شائع ہو ئی ،۔۔یہی کتاب
ہے جس سے اقبال قادیانیوں کے عقائد سے مکمل طور پر واقف ہوئے۔(اقبال اور قادیانیت:دیباچہ)
علامہ اقبال ؒ ہی کے الفاظ میں اب اس انکشاف کو ملاحظہ فرمائیے:
مجھے یہ تسلیم کرنے میں کو ئی باک نہیں کہ اب سے ربع صدی پیشتر مجھے اس تحریک سے اچھے
نتائج کی امید تھی۔۔۔۔لیکن کسی مذہبی تحریک کی اصل روح ایک دن میں نمایاں نہیں ہوجاتی
اچھی طرح ظاہر ہونے کے لئے برسوں چاہیئں۔۔۔۔ذاتی طور پر میں اس تحریک سے اس
وقت بیزار ہوا تھا جب ایک نئی نبوت بانی اسلام کی نبوت سے اعلی تر نبوت کا دعوی کیا تھا،اور
تمام مسلمانوں کو کافر قرار دیاگیا،بعد میںیہ بیزاری بغاوت کی حد پہنچ گئی۔جب میںنے
اس تحریک کے ایک رکن کو اپنے کانوں نے سے آں حضرت ﷺ کے متعلق نازیبا کلمات
کہتے سنا ۔درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔اگر میرے موجودہ رویہ میں کوئی تناقض ہے
تو یہ بھی ایک زندہ اور سوچنے والے انسان کا حق ہے کہ وہ اپنی رائے بدل سکے۔
(حرفِ اقبال:۱۱۲،لطیف احمد خان شیروانی،علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد،۱۹۸۴ء)
قادیانیت علامہ اقبالؒ کی نظر میں:
جب قادیانیت کی حقیقت اور اس کی شر انگیزی ، اسلام اور پیغمبرؐ اسلام کے
خلاف دریدہ ذہنی علامہ اقبال ؒ کے سامنے آچکی ،تو علامہ اقبال ؒ نے اپنی
صلاحیتوں کو ان غداران اسلام کے خلاف استعمال کرنی شروع کیں،اور اپنی
تحریروں ،تقریروں ،مجلسوں ،میں دلائل و براہین اور اور حکیمانہ اشعار کے
ذریعہ اور فکر و فلسفہ کے ساتھ قادیانیت کی اور ان کے افکار و نظریات کی
تردیداوران کے عقائد کا ابطال کرنے لگے اسی کے چند اقتباسات آپ کے خطبات و
تحریروں کے سلسلہ میں مستند مانی جانے والی کتاب حرفِ اقبال سے پیش
ہیں۔علامہ فرماتے ہیں کہ:
اس طرح مسلمانانِ ہند یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ تحریک قادیانیت جو تمام دنیائے اسلام کو
کافر قرار دیتی ہیں اور اس سے معاشرتی مقاطعہ کرتی ہیں۔(حرف اقبال :۱۲۳)
۱۹۳۵ء میں علامہ کا ایک جوابی خط اخبار اسٹیٹمین میںشائع ہواتھاجس میںانہوںنے قادیانیوں کو دوٹوک انداز میں کہاکہ:
اوّلا :اسلام ایک دینی جماعت ہے ،جس کے حدود مقرر ہیںیعنی وحدت الوہیت
پر ایمان،انبیاء پر ایمان اور رسولِ کریم ؐکی ختم رسالت پرایمان۔
میری رائے میں قادیانیوں کے سامنے صرف دو راہیں ہیںیا تو وہ بہائیوں کی تقلید
کریں،یا پھر ختم نبوت کی تاویلیں چھوڑکر اس اصول کو اس کے پورے مفہوم کے
ساتھ قبول کرلیں،ان کی جدید تاویلیں محض اس غرض سے ہیں کہ ان کا شمار حلقہ
اسلام میں ہوتا رہے تاکہ انہیں سیاسی فوائد پہنچ سکیں۔
ثانیا:ہمیں قادیانیو ں کی حکمت علمی اور دنیا ئے اسلام سے متعلق ان کے رویے کو
فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ بانیٔ تحریک نے ملت اسلامیہ کو سڑے ہوئے دودھ
سے تشبیہ دی تھی اور اپنی جماعت کو تازہ دودھ سے۔(حرف اقبال:۱۱۸)
شہید ِ ختمِ نبوت حضرت مولانا یوسف لدھیانویؒفرماتے ہیں کہ :
علامہ مرحوم جدید تعلیم یافتہ طبقے میں پہلے شخص تھے جن کو فتنہ قادیانیت کی سنگینی نے
بے چین کر رکھا تھا۔ان کی تقریر و تحریر میں قادیا نی ٹولے کو”غدارانِ اسلام” اور
” باغیا ن محمد” سے یاد کیا جاتا تھا۔(علامہ اقبال او رفتنہ قادیانیت :۴۷۷متین خالد ،
مجلس عالمی تحفظ ختمِ نبوت ۔،ملتان)
مشہور ادیب اورتحفظ ختم ِ نبوت کے مردِ جاں باز شورش کاشمیریؒعلامہ کے ایک خط کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ :
(قادیانی مذہب کے خلاف) میں نے یہ مقالہ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ بہترین
نیتوں اور نیک ترین ارادوں میں ڈوب کر لکھا ہے تھا ، میں اس باب میں کوئی شک نہیں
رکھتا کہ یہ احمدی اسلام اور ہندوستان دونوں کے غدار ہیں۔(اقبالیاتِ شورش:۲۸۵
مرتب،مولانا مشتاق احمد،حرا فاؤنڈیشن پاکستان)
اقبال ؒ نے مدعیانِ نبوت اور خاص کر قادیانی فتنہ کے خلاف اسلام کا اصول پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
چناں چہ ہر ایسی مذہبی جماعت جو تاریخی طور پر اسلام سے وابستہ ہو ،لیکن اپنی بناء
نئی نبوت پر رکھے ،اور بزعم ِ خود اپنے الہامات پر اعتقاد نہ رکھنے والے تمام مسلمانوں
کو کافر سمجھے ،مسلمان اسے اسلام کی وحدت کے لئے ایک خطرہ تصور کرے گا،اور
یہ اس لئے کہ اسلامی وحدت ختم ِ نبوت سے ہی استوار ہوتی ہے۔(حرفِ اقبال:۱۰۳)
علامہ اقبالؒ نے قادیانیت کو تنسیخ ِ جہاد کے لئے انگریزوں کی پیداوار بلکہ
آلہ کار بھی قرار دیا۔اور آپ کو اپنی عمر کی آخر ی منزلوں میں اس فتنے کی
بابت سخت فکر بھی لاحق ہوگئی تھی ،آپ کی مجلسوں میں بھی اکثر یہی موضوع زیر
بحث رہتا ،جس میںعلامہ بڑی فکر و کڑھن کے ساتھ اپنے جذبات کا اظہار
فرماتے،اورخاص کراہل ِ علم کی مجلسوں میں دلائل کے ساتھ اس فتنے کے خدوخال
کو نمایاں کرتے۔
علامہ اقبالؒ اور علامہ کشمیریؒ:
تحفظ ِ ختم ِ نبوت کی تحریک کو اپنے خونِ جگر سے سینچنے والے علماء اور ردّ
ِ قادیانیت کے لئے جان و تن لگادینے والے علماء میں امام العصر حضرت علامہ
انور شا ہ کشمیری ؒ (۱۸۷۵ء۔۱۹۳۳ء)کا نام نامی اسم گرامی ممتاز رہاہے
،علامہ کشمیریؒجو علم و فضل میں اس دور میں بلا شبہ مرکزی شخصیت تھی ،آپ نے
اپنے تلامذہ میں بھی بے نظیراصحابِ علم وتحقیق اور خدام ِ تحفظ ِ ختم
ِنبوت تیار کئے تھے،اور جب فتنہ قادیانیت رونماں ہواتو آپ نے اپنی تمام تر
توجہ اس فتنہ کے سدِ باب میں مبذول کردی، اور چوں کہ علامہ اقبالؒ کو ہم
عصر علماء میں علامہ کشمیریؒ سے قلبی تعلق تھا،اور آپ حضرت کشمیریؒ کے علمی
تفوق کے معترف اور فضل و کمال کے قائل تھے ،اس لئے بہت سارے علمی مسائل
اورتحقیق طلب امور میں حضرت کشمیریؒ سے خط و کتابت فرماتے،اور آپ کے جوابات
سے تسکین پاتے ۔علامہ اقبال ؒ یہاں تک فرمایا کرتے تھے کہ:
اس وقت روئے زمین پر انور شاہ سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں ۔(انوا رالسوانح:۴۱۰ڈاکٹر غلام محمد کچھی
دار الکتاب لاہور۔۲۰۱۰)
علامہ اقبال ؒ نے حضرت کشمیریؒ کی وفات پر تعزیتی جلسہ سے خطاب کر تے ہوئے کہا تھاکہ:
مولانا انور شاہ صاحب کی مثال پیش کرنے سے اسلام کی پانچ سو سال کی تاریخ عاجز ہے۔
(اقبال کے ممدوح علماء:۴۷،مکتبہ الحق جوگیشوری ممبئی،۲۰۰۸)
بہرحال ان تعلقات سے دراصل بتا نا مقصود یہ ہے کہ جب فتنہ قادیانیت ظہور
میں آیا تو علامہ کشمیریؒ نے اقبالؒ کی فکری رہنمائی بھی فرمائی اور اس
ایمان سوز فتنہ کے خطرناکیوں سے آگاہ بھی کیا،اور اپنی فکر و کوشش سے علامہ
اقبال کو بھی قافلہ تحفظ ِ ختم ِ نبوت کا ایک عظیم فداکا ر و جاں نثار بنا
دیا ۔اس سلسلہ میں ایک یمان افروز واقعہ ملاحظہ فرمائیں:
ایک دفعہ حضرت مولانا انور شاہ صاحب کشمیریؒدیوبند سے لاہور تشر یف لائے میں
( ڈاکٹر جلال الدین)ان کو اسٹیشن پر لینے کے لئے گیا۔میں نے کہا حضرت گھر تشریف
لائیں۔مولانا نے فرمایا کہ آج میں نے صرف ڈاکٹر اقبال سے ملنا ہے اور ابھی سیدھا
وہیں جانا ہے لہذا مجھے وہیں چھوڑدیجئے۔مولانا کو ڈاکٹر محمد اقبال کے گھر پہنچادیااور میں
باہر موجود رہا۔حضرت انور شاہ کشمیریؒاور علامہ اقبالؒبند کمرے میںکافی دیر تک گفتگو
کرتے رہے،جب دروازہ کھلاتو میں نے دیکھا کہ ڈاکٹرمحمد اقبالؒ بچوں کی طرح آنسو
بہارہے ہیں،اور زاروقطار رورہے تھے۔حضرت نے اسی وقت مجھے فرمایاکہ مجھے اسٹیشن
چھوڑدیجئے۔میں آپ کو اسٹیشن پر لے چلا۔راستہ میں اپنے گھرلے جانے پر اصرار کیا تو
فرمایا کہ آج میںمسئلہ قادیانیت علامہ اقبال کو سمجھانے کے لئے آیا تھا۔اس کام میں اور
کوئی کا م شر یک نہیں کرتا۔اب سیدھے واپس جا نا ہے اسٹیشن سے اسی وقت دیوبند
واپس ہوگئے۔(تذکرۂ مجاہدین ِ ختم ِ نبوت:۳۴۔مولانا اللہ وسایا۔عالمی مجلس ِ تحفظ ختم
نبوت لاہور۔۱۹۹۰ء)
قاضی ا فضل حق قریشی لکھتے ہیں کہ:
۔۔۔پھر برکت علی محمڈن ہال میںاپنے اہتمام سے جلسہ کا انعقاد فرمایا،ختم نبوت اور
ردّ ِ قادیانیت کا حضرت کا بیان ہوا، ڈاکٹر صاحب پر اس قدر اثر ہوا کہ ردّ ِ قادیا نیت
کے لئے کمربستہ ہوگئے۔(اقبال کے ممدوح علماء:۴۷)
حضرت کشمیری ؒ کی محنت رنگ لائی کہ علامہ اقبالؒ ردّ قادیانیت میں اپنے علم
و فلسفہ کی بنیاد پر بھی جدید طبقہ میں زبر دست مبلغ اور فدائے ختم نبوت
کے طور پر اپنی خدما ت چھوڑ گئے۔
علامہ اقبالؒ کی شاعری اور ختم ِ نبوت:
اب آخرمیں ایک نظر علامہ اقبا ل ؒ کی اس شاعری پر ڈالتے ہیں جو انہوں نے
ردّ قادیانیت میں فرمائی ہیں،اوراپنے حکیمانہ اور ناصحانہ اشعارمیں اہمیت ِ
ختم نبوت کو بیان بھی کیااور قادیانیت کے شیش محل کو مسمار بھی کیا۔علامہ
اقبال ؒ کے بے شمار اشعار ہیں جس میں آپ نے عقیدہ ٔ ختم ِ نبوت کو بیا ن
کیا اور اس کی ضرورت پر شاعرانہ و فلسفیانہ اسلوب میں کلام بھی کیا،اگلی
سطور میں صرف نمونے کے لئے چند اشعار پیش کئے جارہے ہیں ،تفصیل کے علامہ کے
کلام کا مطالعہ مفید اور چشم ِ کشا رہے گا۔ فارسی میں علامہ ؒ نے
فرمایاکہ:
پس خد ا برما شریعت ختم کرد بر رسولِ ما رسالت ختم کرد
( خدا نے ہم پر شریعت کو اور ہمارے رسولؐپر رسالت کو ختم فرمادیا)
رونق از ما محفل ایامِ ِ را او رسل را ختم و ما اقوام را
(ہمارے رسول ؐپر سلسلہ انبیاء اور ہم پر سلسلہ اقوام ختم ہوچکا،بزمِ جہاں کی رونق ہم سے ہے)
لا بنی بعدی ز احسانِ خدا است پردۂ ناموس دین مصطفے است
(رسولِ خدا کا فرمان لانبی بعدی اللہ کے احسانات میں ایک احسان ہے،دین مصطفے کی عزت کا محافظ بھی یہی ہے)
قوم را سرمایہ ٔ قوت ازو حفظ سرّ ِ وحدت ملت ازو
(مسلمانوں کا سرمایہ یہی عقیدۂ ختم ِ نبوت ہے،اور اسی میں وحدت ملت کا تحفظ کا راز بھی پوشیدہ ہے)
اردو میں بہت کچھ علامہ ؒ نے اس موضوع پر کہا ہے ،اور مختلف پیرایوں میں اس کی عظمت کو پیش کیا ۔فرماتے ہیں کہ:
نہ میں عارف ، نہ مجدد، نہ محدث، نہ فقیہ
مجھ کو معلوم نہیں کیا ہے نبوت کا مقام
ہاں مگر عالم اسلام پر رکھتا ہوں نظر
فاش ہے مجھ پہ ضمیر فلک ِ نیلی فام
وہ نبوت ہے مسلماں کے لئے برگِ حشیش
جس نبوت میں نہیں قوت و شوکت کا پیام
(کلیات ِ اقبال ؛ضربِ کلیم:۵۷۰لاہور)
ایک جگہ علامہ ؒقادیانیت پر زبر دست تنقید کرتے ہوئے فرمایاکہ:
پنجاب کے ا ربابِ نبوت کی شریعت
کہتی ہے کہ یہ مومن ِ پارینہ ہے کافر
( کلیات اقبال:۵۴۰)
علامہ اقبالؒ نے بارہا اپنی مجلسوں میں اس کا اظہار کیا تھا کہ قادیانیت کی
داغ بیل در اصل جذبۂ جہاد کو ختم کر کے انگریزوں کا غلام بنانے کے لئے
ڈالی گئی تھی ،اور مرزا انگریزوں کا آلہ ٔ کار بن کر ابھر ا تھااسی کو
علامہ ؒ نے اپنے کلام میں یوں ارشاد فرمایا کہ:
فتوی ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے
دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کار گر
لیکن جناب شیخ کو معلو م نہیں کیا؟
مسجد میں یہ وعظ ہے بے سود و بے اثر
ہم پوچھتے ہیں شیخ ِ کلیسا نوا ز سے
مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر
(کلیات ِ اقبال: ۵۴۲)
آخری بات:
دلائل و حقائق کی روشنی میں یہ بات واضح ہو گئی کہ علامہ اقبال ؒ کی جانب
قادیانیت کی نسبت جہالت و لا علمی ہی پر مبنی ہو سکتی ہے ۔ وہ اس سے بالکل
بری ہیںاور محاذ ِ تحفظ ختم ِ نبوت کے نہایت پر جوش سپاہی رہے ہیں،اور آپ
نے قادیانیت کو ہر اعتبارسے دین و دنیا،ملک و ملت کے لئے دشمن قرار دیا،اور
آپ نے ان کی تحریروں کا ،اور تاویلوں کا عقل و نقل کی بنیاد پر مسکت جواب
بھی دیا ۔اقبالیات کے ماہرین نے علامہ اقبال ؒ سے منسوب جن جن عنوانات کو
موضوعِ بحث بنایا،اور ہر پہلو و ہر گوشے سے خوب سے خوب نکھارا ہے اس میں اس
فتنہ ٔ قادیانیت اور علامہ اقبال ؒ بھی ایک تحقیقی موضوع رہا ،جس پر
اقبالؒ کے چاہنے والوں نے بہترین تجزیہ بھی فرمایا،اور مخالفین کو دندان
شکن جواب دے کر اس مسئلہ کو بھی بے غبار کردیا،اور بتا دیاکہ اقبال ؒ تو وہ
عظیم انسان ہے جو محمد ﷺ کے خلاف ایک جملہ بھی نازیبا سننے کو گوارا نہیں
کرتا تھا،اور ہر وقت وہ تصور ِ مدینہ میں جینے والا ،اور محمد عربی ﷺ کی
محبت میں نثار ہونے والا تھا۔اقبالؒ نے ہی یہ انسانوں کو پیغام دیاکہ:
؎ قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسم ِ محمد ؐ سے اجالا کردے
(بصیرت فیچرسروس)
http://baseeratonline.com/2014/02/13/%D8%B9%D9%84%D8%A7%D9%85%DB%81-%D8%A7%D9%82%D8%A8%D8%A7%D9%84-%D8%B1%D8%AD%D9%85%DB%83-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%D8%B9%D9%84%DB%8C%DB%81-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%85%D8%B3%D8%A6%D9%84%DB%81-%D8%AE%D8%AA/