دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری
دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری

اگر اقبال رح زندہ ہوتے

عرفان صدیقی 

مجھے نہیں معلوم کہ 133 برس قبل، سیالکوٹ میں پیدا ہونے اور شب غلامی کی گھنی تاریکیوں میں حریت کی چاندنی بونے والا دانائے راز، آج زندہ ہوتا تو اس کا شمار کس قبیلے میں کیا جاتا۔ گماں یہی ہے کہ خودی کو ایک طوق بناکر اس کے گلے میں ڈالدیا جاتا،

عزت نفس کو ایک عریاں گالی کی شکل دیکر اس کی روشن پیشانی پر چسپاں کردیا جاتا۔ اس کا عشق و جنوں، تمسخر اور تضحیک کے تیروں کا نشانہ ہوتا اور دانش فروش بھانڈوں کا بازاری گروہ، آدم خور وحشیوں کی طرح اس کے گرد رقص کرتے ہوئے اس کی پیٹھ پر مسلسل غیرت و حمیت کے تازیانے برسا رہا ہوتا۔وہ اپنے عہد میں دو رکعت کے اماموں اور کٹھ ملاؤں کے سنگ الزام اور تیر دشنام کا ہدف تھا کہ وہ اس کے عشق کی گہرائیوں اور اس کے فکر کی بلندیوں کا احاطہ کرنے سے عاجز تھے۔ اس نے باری تعالیٰ سے شکر و شکایت کا اظہار یوں کیا تھا۔

اک ولولہ تازہ دیا میں نے دلوں کو

لاہور سے تاخاک بخارا و سمرقند

تاثیر ہے یہ میرے نفس کی کہ خزاں میں

مرغان سحر خواں مری صحبت میں ہیں خورسند

لیکن مجھے پیدا کیا اس دیس میں تو نے

جس دیس کے بندے ہیں غلامی پہ رضامند

آج وہ زندہ ہوتا تو اپنی بوٹیاں نوچنے والے بھیڑیوں کو جانے کیا نام دیتا جو اس کے عشق بلاخیز کے ڈانڈے جانے کس کس سے ملا دیتے۔ یقینا اس کا شمار بھی دہشتگردوں میں کیا جاتا۔ وہ پرلے درجے کا انتہا پسند قرار پاتا۔ اس کے کلام سے شواہد نکال نکال کر بتایا جارہا ہوتا کہ اس کے ذہن میں طالبانی فکر نے گھونسلے بنا رکھے ہیں۔ وہ خودی، غیرت، جہاد پیہم، جہد مسلسل اور ذوق عمل جیسی اصطلاحات کے ذریعے عوام الناس کو بھڑکا رہا ہے۔ دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے۔ شہادت سے مطلوب و مقصود مومن کہہ کر وہ دراصل خودکش حملہ اوروں کو تھپکی دے رہا ہے۔ جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا؟ کے معنی یہ ہیں کہ وہ طالبان کو امریکیوں پر ٹوٹ پڑنے کی شہہ دے رہا ہے اور یہ شعر تو اس نے اسامہ بن لادن اور ملا محمد عمر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ۔

کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ

مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

اس کے صاف صاف معنی یہ ہیں کہ اگرچہ امریکہ اور نیٹو افواج کے پاس جدید ترین اور ہلاکت آفرین اسلحہ ہے لیکن تم مومن ہو اور مومن کا جذبہ ایمانی ہی اس کا اصل ہتھیار ہوتا ہے سو اٹھو اور ان ظالموں سے ٹکرا جاؤ چونکہ 133 سال قبل سیالکوٹ میں پیدا ہونے اور پوری دنیا میں نام پانے والے علامہ محمد اقبال کا سارا اردو اور فارسی کلام خودی، غیرت اور حمیت کی حرارت سے سلگ رہا ہے اس لئے لامحالہ اسے بھی غیرت لابی میں دھکیل دیا جاتا۔ غیرت لالی کا حزب اختلاف (جسے وہ خود ہی کوئی نام دے سکتا ہے) ایڑیاں اٹھا اٹھا کر ہالبروک، ہیلری کلنٹن اور بارک اوباما کو بتا رہا ہوتا کہ جب تک یہ شخص زندہ ہے۔ مسلمان قوم کو انتہا پسندی، دہشت گردی، قتل و غارتگری، مہم جوئی اور تلوار زنی جیسے امراض کہن سے نجات نہیں دلائی جاسکتی۔ اسے ایک بہت بڑا قلمی دہشت گرد اور میڈیا طالبان ثابت کرنے کیلئے اس کے اشعار کے انگریزی تراجم امریکی اور برطانوی سفارتخانوں کو فراہم کئے جاتے غیرت لابی کا قائد حزب اختلاف علامہ اقبال کو طالبانی فکر کا سر خیل قرار دیتے ہوئے ہیلری کلنٹن کے سامنے حاضر ہوتا اور دست بستہ عرض کرتا۔ ملکہ عالیہ! آپ کو اصل بیماری کا سراغ لگانا ہوتو۔ یہ فضل اللہ، یہ بیت اللہ، یہ نیک محمد، یہ حکیم اللہ۔ یہ تو اس شخص کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ اقبال سیالکوٹی کا تدارک کئے بغیر آپ کبھی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکتے۔ دیکھئے! اس نے افغانستان کے حوالے سے کیا کہا ہے۔ آج کل اس کی ایک نظم بچے بچے کی زبان پر ہے جن کا عنوان ہے۔ ابلیس کا فرمان، اپنے سیاسی فرزندوں کے نام۔ دراصل وہ آپ کو ابلیس یعنی شیطان اور وارآن ٹیرر میں آپ کے ساتھیوں کو آپ کے سیاسی فرزند قرار دے رہا ہے۔ ذرا سنئے اقبال سیالکوٹی کے الفاظ میں آپ اپنے ساتھیوں سے کیا کہہ رہے ہیں۔

(غیرت لابی کا قائد حزب اختلاف لہک لہک کر پڑھتا ہے)

لاکر برہمنوں کو سیاست کے بیچ میں

زناریوں کو دیر کہن سے نکال دو!

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا

روح محمدﷺ اس کے بدن سے نکال دو!

فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات

اسلام کو حجاز ویمن سے نکال دو!

افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ علاج

ملا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو

اہل حرم سے ان کی روایات چھین لو

آہو کو مرغزار ختن سے نکال دو!

اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز

ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو!

ملکہ عالیہ! اگرچہ آپ کی سوچ ہو بہو یہی ہے۔ آپ سو فیصد یہی چاہتی ہیں کہ موت سے نہ ڈرنے والے فاقہ کشوں کو روح محمدﷺ سے محروم کردیا جائے، اگرچہ آپ کا مشن یہی ہے کہ افغانیوں کی دینی غیرت و حمیت کا موثر علاج کرنے کیلئے ملا محمد عمر اور اس جیسے ہر صاحب جنوں کو افغانستان کے پہاڑوں اور گھاٹیوں سے بے دخل کردیا جائے لیکن اقبال سیالکوٹی نے آپ کی سوچ اور آپ کی حکمت عملی کو یوں آشکارا کرکے کس قدر اشتعال پھیلایا ہے اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ اپنے بم اور میزائل ضائع نہ کریں۔ ایک ڈرون اٹیک میکلوڈ روڈ لاہور کی جاوید منزل پہ کریں جہاں یہ شخص اپنی ڈیوڑھی میں کھری چارپائی پہ دراز حقہ پی رہا ہوتا ہے اور دیکھئے! وہ آپ کے مقابلے میں آنیوالے سرپھروں کا حوصلہ بڑھانے کیلئے کیسی کیسی باتیں کرتا ہے۔ کہتا ہے۔

اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسہ

ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا

اس دور میں بھی مرد خدا کو ہے میسر

جو معجزہ پربت کو بنا سکتا ہے رائی

بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں

جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا!

شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن

نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

ملکہ عالیہ! ہم کیا کیا بتائیں اور تو اور وہ ایرانیوں سے بھی ملا ہوا ہے۔ ان سے مل کر مغرب کے خلاف سازشیں کررہا ہے۔ کہتا ہے

تہراں ہو اگر عالم مشرق کا جینوا

شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے

اقبال زندہ ہوتا تو غیرت کو گالی بنا دینے والے فرزندان وقت کس طرح انگاروں پہ لوٹ رہے ہوتے؟ کیسے کیسے ہاتھ اس مرد قلندر کے گریباں کی طرف اٹھ رہے ہوتے؟ کیسی کیسی زبانیں زہر اگل رہی ہوتیں؟ کیسے کیسے قلم تبریٰ بھیج رہے ہوتے اسے اپنے عہد کے بندوں سے شکایت تھی کہ وہ غلامی پہ رضامند ہیں۔ اور آج جانے اس پر کیا گزرتی۔ جب وہ دیکھتا کہ دانش گردوں کا ایک گروہ نہ صرف غلامی پہ رضا مند ہے بلکہ اسے اپنی پیشانی کا جھومر اور سر کا تاج سمجھتا اور غیرت حمیت کو ننگی گالی سے تعبیر کرتا ہے۔

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد