دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری
دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری

اسرار خودی

اسرار خودی   (چوہدری طالب حسین)

مقدمہ "اسرار خودی" از پروفیسر نکلسن مغربی دنیا میں علامہ محمد اقبال کے فکر و فلسفہ کا ابتدائی تعارف اس وقت ہوا جب کمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر آر-اے-نکلسن (م ١٩٤٥)نے مثنوی "اسرار خودی" کا انگریزی ترجمہ کیا.پروفیسر نکلسن نے اپنے مقدمے میں لکھا تھا

ادامه مطلب ...

اگر اقبال رح زندہ ہوتے

عرفان صدیقی 

مجھے نہیں معلوم کہ 133 برس قبل، سیالکوٹ میں پیدا ہونے اور شب غلامی کی گھنی تاریکیوں میں حریت کی چاندنی بونے والا دانائے راز، آج زندہ ہوتا تو اس کا شمار کس قبیلے میں کیا جاتا۔ گماں یہی ہے کہ خودی کو ایک طوق بناکر اس کے گلے میں ڈالدیا جاتا،

ادامه مطلب ...

علامہ اقبال اردو سائبر لائبریری


علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی کتب
اقبال کاترانہ بانگ دراہےگویا
ہوتاہےجادہ پیماپھرکارواں ہمارا
اس سیکشن میں علامہ اقبال کی اردو،فارسی،عربی کتب شامل ہیں۔اس کےعلاوہ دیگرزبانوں میں علامہ کی مختلف کتب کاترجمہ بھی شامل ہے۔
بانگ درا – Bang – e – Dra (اردو)علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ
بایل جبریل ۔ Bal – e – Jibree(اردو) علامہ محمداقبال(رحمۃ اللہ علیہ)
ضرب کلیم ۔ Zarb – e – Kaleem (اردو) علامہ محمداقبال(رحمۃ اللہ علیہ)
ارمغان حجاز – Armaghan – e Hijaz (اردو) علامہ محمد اقبال (رحمۃ اللہ علیہ)
اسرار و رموز – Asrar – o – Ramooz (فارسی) علامہ محمد اقبال (رحمۃ اللہ علیہ)
پیام مشرق – Payam-e-Masriq (فارسی) علامہ محمد اقبال (رحمۃ اللہ علیہ)
زبور عجم – Zaboor-e-Ajam (فارسی) علامہ محمد اقبال (رحمۃ اللہ علیہ)
جاوید نامہ – Javed Nama (فارسی) علامہ محمد اقبال (رحمۃ اللہ علیہ)
پس چاہ بیاد کرد – Pas Chaih Bayad Kar (فارسی) علامہ محمد اقبال(رحمۃ اللہ علیہ)
ارمغان حجاز – Armaghan-e-Hajaz (فارسی) علامہ محمد اقبال(رحمۃ اللہ علیہ)
تجدید فکریت اسلام – Tajdeed-e-Fikriyat-e-Islam(اردو) ڈاکٹر وحید عشرت
دیوان محمد اقبال – Deewan-e-Muhammad Iqbal(عربی – والیم نمبر1) علامہ محمد اقبال(رحمۃ اللہ علیہ)
دیوان محمد اقبال – Deewan-e-Muhammad Iqbal(عربی – والیم نمبر2) علامہ محمد اقبال(رحمۃ اللہ علیہ)
دیوان محمد اقبال – Deewan-e-Muhammad Iqbal(عربی – والیم نمبر3) علامہ محمد اقبال(رحمۃ اللہ علیہ)
دیوان محمد اقبال – Deewan-e-Muhammad Iqbal(عربی – والیم نمبر4) علامہ محمد اقبال(رحمۃ اللہ علیہ)

دیوان محمد اقبال – Deewan-e-Muhammad Iqbal(عربی – والیم نمبر5) علامہ محمد اقبال(رحمۃ اللہ علیہ)
دیوان محمد اقبال – Deewan-e-Muhammad Iqbal(عربی – والیم نمبر6) علامہ محمد اقبال(رحمۃ اللہ علیہ)
دیوان محمد اقبال – Deewan-e-Muhammad Iqbal(عربی – والیم نمبر7) علامہ محمد اقبال(رحمۃ اللہ علیہ)
دیوان محمد اقبال – Deewan-e-Muhammad Iqbal(عربی – والیم نمبر8) علامہ محمد اقبال(رحمۃ اللہ علیہ)
دیوان محمد اقبال – Deewan-e-Muhammad Iqbal(عربی – والیم نمبر9) علامہ محمد اقبال(رحمۃ اللہ علیہ)
دیوان محمد اقبال – Deewan-e-Muhammad Iqbal(عربی – والیم نمبر10) علامہ محمد اقبال(رحمۃ اللہ علیہ)
بانگ درا – Bang-e-Dra (اردو – والیم نمبر1)(ماہ فرہنگ – مشکل الفاظ کےمعنوں کےساتھـ) علامہ محمداقبال(رحمۃ اللہ علیہ)
بانگ درا – Bang-e-Dra (اردو – والیم نمبر2)( ماہ فرہنگ – مشکل الفاظ کےمعنوں کےساتھـ) علامہ محمداقبال(رحمۃ اللہ علیہ)
بال جبریل – Bal-e-Jibreel(اردو)( ماہ فرہنگ – مشکل الفاظ کےمعنوں کےساتھـ) علامہ محمداقبال(رحمۃ اللہ علیہ)
ضرب کلیم – Zarb-e-Kaleem(اردو)( ماہ فرہنگ – مشکل الفاظ کےمعنوں کےساتھـ) علامہ محمداقبال(رحمۃ اللہ علیہ)
ارمغان حجاز – Armaghan-e-Hijaz(اردو)( ماہ فرہنگ – مشکل الفاظ کےمعنوں کےساتھـ) علامہ محمداقبال(رحمۃ اللہ علیہ)


اقبال کا نظریہ فن

شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو

جس سے نفس افسردہ ہو وہ باد سحر کیا

بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں

جو ضرب کلیمی نہیں رکھتی و ہ ہنر کیا


نظریہ فن کے بارے میں اقبال اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اوّل یہ کہ آرٹ کی غرض محض حسن کا احساس پیدا کرناہے اور دوم یہ کہ آرٹ سے انسانی زندگی کوفائدہ پہنچنا چاہیے۔

ادامه مطلب ...

خودی

اقبال کا پیغام یا فلسفہ حیات کیا ہے اگر چاہیں تو اس کے جواب میں صرف ایک لفظ ”خودی“ کہہ سکتے ہیں اس لئے کہ یہی ان کی فکر و نظر کے جملہ مباحث کا محور ہے اور انہوں نے اپنے پیغام یا فلسفہ حیات کو اسی نام سے موسوم کیا ہے۔ اس محور تک اقبال کی رسائی ذات و کائنات کے بارے میں بعض سوالوں کے جوابات کی تلاش میں ہوئی ہے۔

ادامه مطلب ...

خودی کا نشیمن تیرے دل میں ہے

سید ماجدحسین رضوی

علامہ اقبال ایک ایسی شخصیت ہے جس کو دنیا شاعر مشرق کے نام سے جانتی ہے دنیا اقبال کے تعارف کی محتاج نہیں ہے ۔اقبال نے دنیا کے مسلمانوں کو ایک عظیم فکر دی جس سے مسلمان بیدار ہوگئے ۔ 

ادامه مطلب ...

علامہ اقبال کا تصورِ خودی

تحریر : طارق حسین بٹ

یو اے میں قلندرانِ اقبال نے فکرِ اقبال کے حوالے سے شعرو ادب کے ایک نئے انداز کی بنیاد رکھی ہے جس کا بنیادی مقصد اقبال کے فلسفے ، اس کے نظریات اور شاعری کو عام آدمی تک پہنچا نا اور آگاہ کرنا ہے

ادامه مطلب ...

اقبال ؒ اور خودی

اقبال ؒ اور خودی (حضرت واصف علی واصف)
حضرت واصف علی واصف ؒ کی ایک نایاب غیر مطبوعہ تحریر

اقبالؒ خودی کی نگہبانی کا درس دیتا ہے۔خودداری کا پیغام دیتا ہے۔اقبالؒ کی خودی’ زندگی ہے،حیاتِ جاوداں ہے۔یہ ملّتِ اسلامیہ کے لئے ایک عظیم ذریعۂ حصول ِ قوت ہے۔ خدا ہمیں خودی کے اس بلند مقام سے آگاہ فرمائے جہاں

خدا بندے سے خود پوچھے’بتا تیری رضا کیا ہے

ادامه مطلب ...

اقبال کا تصور قدر

سید آصف جلال

محترم قارئین ! السلام علیکم! تصور قدر کے بارے مین آج علامہ اقبال ؒ کے نظریے کی مختصر وضاحت پیش ہے۔

قارئین،تقدیر کا لفظ قدر سے نکلا ہے جس کے معنی ہے اندازہ لگا نا۔معاملات زندگی کا ‘مدارج زندگی کا‘ کائنات کا اندازہ۔۔۔تو مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا اندازہ کہ فلاں شخص اس ماحول اور حالات میں یہی کچھ کر سکے گا تصور تقدیر ہے۔۔۔تقدیر میں جو کچھ لکھ دیا گیا وہ پورا ہو گا۔۔۔تقدیر نہیں۔۔۔ بلکہ جو زندگی اور موجودہحالات و ماحول میں رہتے ہوئے انسان کر سکتا ہے اس کے اندازے ک نام تقدیر ہے ۔

ادامه مطلب ...

اقبال شناسی یا اقبال تراشی؟ ۹

علامہ نائب ناظم اور علامہ ندوی (بہ روایت زبانی ڈاکٹر غلام محمد) اس بارے میں پوری طرح ہم خیال ہیں کہ " اجتہاد کی صلاحیت ... یقینا اقبال میں نہیں پائی جاتی ..."("احیائے علوم"، شمارہ 14، ص13)اقبال کے بارے میں یہ فتویٰ ان دیگر فتووں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں جو ان کی زندگی میں اور بعد کے زمانے میں جاری کیے جاتے رہے ہیں اور اس کا انجام بھی سابقہ فتووں سے مختلف ہونے والا نہیں۔ ان فتووں سے قطع نظر، اقبال نے جدید مغربی تعلیم کی روشنی میں پرانے تخیلات اور تقلیدپرستی سے پیدا ہونے والی خامیوں کو رفع کر کے برصغیر کے مسلمان کے نقطۂ نظر سے مذہب کی معنویت کو نئے سرے سے متعین کیا اور یہ دکھانے کی کوشش کی کہ جدید دور کے تقاضوں کے مدنظر مذہبی فکر میں کس قسم کی تبدیلیاں کرنا ضروری ہے اور اس اصلاح شدہ مذہبی فکر پر مبنی انفرادی اور اجتماعی عملی فیصلوں کی کیا صورت اس دور کے لیے ممکن اور مناسب ہے۔ اقبال کے پڑھنے والوں کا حق ہے کہ وہ ان کی تحریروں کو ان کے درست تناظر میں پڑھ کر اپنی رائے قائم کریں اور تاویل وغیرہ کے حربوں سے اقبال کے نقطۂ نظر کی صورت مسخ کرنے کی کوششوں کی بھرپورمزاحمت کریں۔

اقبال شناسی یا اقبال تراشی؟ ۸

اقبال اکیڈمی کے سابق ناظم مرزا منور نشان دہی کرتے ہیں کہ اقبال کی فکر خطبات تک پہنچ کر رک نہ گئی تھی۔ موجودہ ناظم سہیل عمر سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر اقبال صرف شاعری کرتے اور خطبات نہ لکھتے تو ان کا مقام کیا ہوتا۔ اقبال کا مقام تو خیر جو کچھ بھی ہوتا،یہ بات یقینی ہے کہ اگرانھوں نے خطبات نہ لکھے ہوتے تو اقبال اکیڈمی کے کارپردازان کی زندگی زیادہ آسان ہوتی

ادامه مطلب ...

علامہ اقبال اور فلسفہ خودی

 جاوید عباس رضوی

علامہ اقبال ایک ایسی شخصیت ہے جس کو دنیا شاعر مشرق کے نام سے جانتی ہے۔ دنیا اقبال کے تعارف کی محتاج نہیں ہے، اقبال نے دنیا کے مسلمانوں کو ایک عظیم فکر دی، جس سے مسلمان بیدار ہوگئے، اقبال کے اندر مسلمانوں کے لئے ایک ایسا درد تھا جس نے اقبا ل کو بے قرار کیا، جس نے اقبال سے سکون چھین لیا، جس نے اقبال سے نالے اگلوائے،

ادامه مطلب ...

اقبال کا پیغام خودی


اقبال کے پیغام اور فکر کا مرکزی نقطہ ان کا تصور خودی ہے۔ یہ وہی تصور خودی ہے کہ جس نے اقبال کی شخصیت کو بقاء دوام عطا کیا اور یہی وہ ہے تصور ہے جس نے اقبال کو نظریہ پاکستان دینے پر مجبور کیا اور اسی تصور خودی میں خود پاکستان کی بقاء اور ملت اسلامیہ کا عروج مضمر ہے ۔ ۔ ۔

ادامه مطلب ...

علامہ اور پیغام وحدت امت

علامہ محمد اقبال اور پیغام وحدت امت

’’ پیغام وحدت امت‘‘ خالصتاً فکر اسلامی ہے جس پہ کوئی وہم کا گذر بھی نہیں۔ تصورِ اتحادِ امت اسلامی تصور ہے جس کا مرکزی نقطہ انفرادیت کو اجتماعیت میں ضم کرنا ہے۔ حضرت اقبال نے جب یورپی قومیت کا پورے طریقے سے تجزیہ کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ قومیت ایک سیاسی نظام کی حیثیت سے غیر انسانی نظام ہے۔ یورپ سے انہوں نے اس کے عملی نتائج دیکھے تو انہیں یہ خدشہ ہوا کہ یہ جذبہ اسلامی ممالک کے لئے نہایت خطرناک ہے۔

ادامه مطلب ...

شاعر مشرق کی تعلیم و تربیت


………محمد افضل گُھرکی

علامہ اقبال کے حوالے سے کچھ لکھنے کو دل چاہا‘ سوچا کیا لکھوں؟ جو ہماری نوجوان نسل کے لیے مشعل راہ ہو‘ کبھی سوچا کہ علامہ اقبال کی شاعری پہ کچھ لکھوں‘ سیاست پہ لکھوں یا ان کے اس خواب کے بارے میں لکھوں جو انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست کا دیکھا تھا یہ تمام باتیں ایک طرف۔ میرے ذہن میں جو بات آئی وہ یہ کہ میں آج مفکر پاکستان‘ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی ’’تعلیم و تربیت‘‘ کے بارے میں قارئین کو آگاہ کروں۔

ادامه مطلب ...

اسلامی اخلاق از نظر علامہ

علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ اور اسلامی اخلاق حافظ شکیل احمد طاہر

حکیم الامت، فلسفی اسلام علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ اسلامیان عالم کی آنکھوں کا تارا۔ ان کی فکر رسا نے فکر و عمل کے ہر میدان میں سامانِ ہدایت فراہم کیا۔ افکارِ اقبال، نظریاتِ اقبال اور تصورات اقبال کو جمع کرلیا جائے تو حاصل تصورات جمیع ’’تصور اخلاق اسلامی‘‘ ہے۔ تصور خودی، تصور بے خودی، تصور انسان کامل، تصور شاہین اور تصور فقر کا حاصل تصور اخلاق اسلامی ہے۔ حضرت حکیم الامت علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ کے تمام تر تصور کا اساسی نقطہ یہی ہے۔ :

ادامه مطلب ...

اقبال شناسی یا اقبال تراشی؟ ۱

لاہور سے شائع ہونے والے ماہانہ رسالے "احیائے علوم"میں پچھلے کچھ شماروں سے اجتہاد کے موضوع پر مضامین اور پڑھنے والوں کے خطوط کا ایک سلسلہ جاری ہے۔ اسی دوران کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ کے رسالے "جریدہ" کے شمارہ 33میں اقبال کے ان خطبات پر، جن کے مجموعے کا عنوان Reconstruction of Religious Thought in Islam ہے، قدامت پرست مذہبی نقطۂ نظر سے کیے گئے طویل تبصرے شائع کیے گئے

ادامه مطلب ...

اقبال شناسی یا اقبال تراشی؟ ۲

خرم علی شفیق نے ان تبصروں کے علامہ ندوی سے انتساب کے سلسلے میں کئی بیانات دیے ہیں: "امالی کے ملفوظات سید سلیمان ندوی صاحب سے منسوب کیے گئے ہیں (اگرچہ اس دعوے کو قبول کرنے میں مجھے تامل ہے)"۔..."کسی ثبوت کے بغیر یہ ماننے کو دل نہیں چاہتا کہ یہ ]علامہ ندوی[ہی کے ارشادات ہیں۔ جب تک ثبوت نہ مل جائے ہمیں مصلحت پسندی کا یہ چہرہ ]علامہ ندوی[ پر چپکانے کی کوئی ضرورت نہیں۔" ("احیائے علوم"، شمارہ 14، صفحہ 27۔)

ادامه مطلب ...

اقبال شناسی یا اقبال تراشی؟ ۳

جہاں تک خطبات کے بعد اقبال کی طرف سے مختلف موضوعات پر اپنے موقف سے مفروضہ رجوع یا اس پرنظرثانی کا تعلق ہے، خرم علی شفیق نے مرزا منور، خالد جامعی، علامہ ندوی (یا چلیے ان کے راوی ڈاکٹر غلام محمد) وغیرہم کے مفروضات و دعاوی کا بڑی خوبی سے سدباب کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خطبات کے بین الاقوامی ایڈیشن کے لیے متن کو اقبال نے خود حتمی شکل دی اور یہ ایڈیشن 1934 میں شائع ہوا۔ "

ادامه مطلب ...

اقبال شناسی یا اقبال تراشی؟ ۴

سہیل عمر کی تصنیف "خطبات اقبال نئے تناظر میں" ان کے ایم فل کے مقالے کا کتابی روپ ہے۔ اس تصنیف میں سہیل عمر نے "خطبات اقبال" کے مباحث کے تجزیے کی بنیاد مندرجہ ذیل تین مفروضات پر استوار کی ہے:

(1)پہلا مفروضہ یہ ہے کہ خطبات اقبال کے مخاطبین ایک خاص ذہنی پس منظر رکھتے تھے جو اقبال کے اپنے ذہنی پس منظر سے جدا تھا۔اس مفروضے کی تفصیل سہیل عمر کے الفاظ میں یہ ہے:

ادامه مطلب ...

اقبال شناسی یا اقبال تراشی؟ ۵

آئیے خطبات میںاظہار پانے والے اقبال کے نقطۂ نظر کے بعض ایسے نکتوں پر نظر ڈالیںجن سے سہیل عمر متفق نہیں ہیں اورجو "جریدہ" میں شائع کیے جانے والے ان اعتراضات کا بھی ہدف بنے ہیں جن کو علامہ ندوی سے منسوب کیا گیا ہے۔اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں ان نکات پر کم و بیش ایک ہی ردعمل ظاہر کر رہے ہیں، فرق ہے تو بس جذبے کی شدت اور لفظوں کے انتخاب کا۔ خطبات کے درج ذیل اقتباسات میں سہیل عمر کی کتاب "خطبات اقبال نئے تناظر میں" سے نقل کر رہا ہوں

ادامه مطلب ...

اقبال شناسی یا اقبال تراشی؟ ۶

اقبال خطبات میں ظاہر کیے گئے اپنے خیالات سے جزوی یا کلی طور پر رجوع کرنے پر آمادہ تھے یا نہیں، یہ بحث بہت سے لوگوں نے مختلف موقعوں پر اٹھائی ہے۔ پروفیسر مرزا منور کی رائے خود سہیل عمر نے (تائید اور تحسین کے انداز میں)درج کی ہے کہ "علامہ کی سوچ 1929ء تک پہنچ کے رک نہ گئی تھی۔ 'فکراقبال تشکیل جدید کے بعد' ایک مستقل کتاب کا تقاضا کرنے والا عنوان ہے۔" یہ مستقل کتاب میری معلومات کے مطابق اب تک نہیں لکھی گئی،اس لیے اس کے مفروضہ نتائج کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا ممکن نہیں،

ادامه مطلب ...

اقبال شناسی یا اقبال تراشی؟ ۷

"خطبات اقبال" پر علامہ ندوی سے منسوب تبصروں پر اقبال اکیڈمی کے نائب ناظم احمد جاوید نے بھی اظہارخیال فرمایا ہے۔ اس اظہارخیال کی ترکیب استعمال کو ان سے منسوب مضمون کے آخری پیراگراف میں یوں بیان کیا گیا ہے:

ان امالی کے بنیادی اعتراضات پر جو تبصرے کیے گئے ہیںوہ بھی فی البدیہہ ہیں انہیں اسی طرح سے پڑھنا چاہیے۔ جیسے کسی گفتگو کا مطالعہ کیا جائے۔ باقاعدہ تحقیقی جواب لکھنے کے لیے وقت بھی زیادہ چاہیے تھا اور تحریر میں طوالت بھی پیدا ہو جاتی اس لیے اس کی نوبت نہیں آئی ۔ ویسے بھی یہ اعتراضات علمی انداز میں نہیں کیے گئے۔ ان پر گفتگو کا یہی اسلوب مناسب تھا۔("احیائے علوم"،شمارہ 14، صفحہ26)

نائب ناظم موصوف کی ابتدائی وجہ شہرت چند برس پیشتر کی وہ گفتگو تھی جو انھوں نے اپنے دو عدد مرعوب مداحوں، آصف فرخی اور قیصرعالم کے ساتھ فرمائی تھی اور جس کا موضوع تینوں محوگفتگوحضرات کے سابق پیرومرشدمحمد حسن عسکری کے کمالات تھے۔ (اس گفتگو کے غیرمدون متن کو الٰہ آباد کے مرحوم رسالے "شب خون" میں شائع کیا گیا تھا، لیکن جب اس گفتگو کے غیرمہذب لہجے اور اوٹ پٹانگ نفس مضمون پر دو غیرمرعوب نقادوں مبین مرزا اور صابر وسیم نے سختی سے گرفت کی تو اس متن کو پاکستان میں شائع کرانے کا ارادہ مصلحتاً ٹال دیا گیا۔اس گفتگوکو پاکستان میں اب تک شائع نہیں کرایا گیا ہے۔ ) معلوم ہوتا ہے بے تکان زبانی گفتگونے احمد جاوید کے اظہارذات کے اصل اسلوب کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔

ادامه مطلب ...

اقبال سے محبت۔۔مگر کیسے‘‘

حافظ مظفر محسنؔ101۔چراغ پارک شاد باغ لاہور+92003009449527muzaffarmohsin@yahoo.com

مسجد تو بنا دی شب بھر میں

ایماں کی حرارت والوں نے

من اپنا پرانا پاپی ہے

برسوں سے نمازی بن نہ سکا

اقبال شناسی کیسے ممکن ہے شاید اس کے لئے اقبالؒ کے اشعار میں ڈوب جانا ہو گا؟ میں اقبال ؒ شناس ہوں یا نہیں۔۔۔؟! میں علامہ سے کس قدر محبت کرتا ہوں۔۔۔؟! میں علامہ اقبالؒ کو کس مقام و مرتبہ پر فائز دیکھتا ہوں۔۔۔میں نے آنکھیں بند کیں اور اقبالؒ کے اشعار دل ہی دل میں پڑھتا چلا گیا۔۔۔ شکوہ اور جواب شکوہ شروع ہوا تو اشعار اترتے چلے گئے۔۔۔کہیں بریک لگنے کا احتمال نہ تھا۔۔۔ایک خاص کیفیت طاری ہوتی چلی جا رہی تھی ۔کلام اقبالؒ ہمارے دلوں میں بچپن سے موجود ہے اپنی پوری سپرٹ کے ساتھ۔۔ اس دوران۔۔کہیں موسیقیت بھی وارد ہو جاتی ۔۔۔خاص طور پر جہاں محترمہ نور جہاں کا پڑھا ہوا وہ حصہ۔۔آ جاتا۔۔۔ہے جو سننے والوں کے دلوں کو منور کر دیتا ہے۔۔۔ایک ایک لفظ اپنی طرف کھنچتا چلا جاتا ہے۔۔اس قرآنی تعلیمات کی تفسیر بیان کرنے والے عظیم شاعرکا کہ زمانہ جس سے بہت پیار کرتا ہے۔

ادامه مطلب ...

اقبال کی آفاقی شاعری کے حفاظ


حافظ مظفر محسنؔ101۔چراغ پارک شاد باغ لاہور+92003009449527muzaffarmohsin@yahoo.com

’’اقبال کی آفاقی شاعری کے حفاظ‘‘

مسجد تو بنا دی شب بھر میں

ایماں کی حرارت والوں نے

من اپنا پرانا پاپی ہے

برسوں سے نمازی بن نہ سکا

اقبالؒ شناسی کیسے ممکن ہے شاید اس کے لئے اقبالؒ کے اشعار میں ڈوب جانا ہو گا؟ میں اقبال ؒ شناس ہوں یا نہیں۔۔۔؟! میں علامہ سے کس قدر محبت کرتا ہوں۔۔۔؟! میں علامہ اقبالؒ کو کس مقام و مرتبہ پر فائز دیکھتا ہوں۔۔۔میں نے آنکھیں بند کیں اور اقبالؒ کے اشعار دل ہی دل میں پڑھتا چلا گیا۔۔۔ شکوہ اور جواب شکوہ شروع ہوا تو اشعار اترتے چلے گئے۔۔۔کہیں بریک لگنے کا احتمال نہ تھا۔۔۔ایک خاص کیفیت طاری ہوتی چلی جا رہی تھی ۔کلام اقبالؒ ہمارے دلوں میں بچپن سے موجود ہے اپنی پوری سپرٹ کے ساتھ۔۔ اس دوران۔۔کہیں موسیقیت بھی وارد ہو جاتی ۔۔۔خاص طور پر جہاں محترمہ نور جہاں کا پڑھا ہوا وہ حصہ۔۔آ جاتا۔۔۔ہے جو سننے والوں کے دلوں کو منور کر دیتا ہے۔۔۔ایک ایک لفظ اپنی طرف کھنچتا چلا جاتا ہے۔۔اس قرآنی تعلیمات کی تفسیر بیان کرنے والے عظیم شاعرکا کہ زمانہ جس سے بہت پیار کرتا ہے۔

ادامه مطلب ...

خطبات اقبال پر علامہ ندوی کا تبصرہ

خطبات اقبال پر علامہ سلیمان ندوی کا تبصرہ

سائنس اور فلسفے کی ضرورت:

اقبال مرحوم امام غزالی سے سخت نالاں تھے اور سمجھتے تھے کہ غزالی اور قدیم متکلمین اور فقہا نے فلسفے کی مذمت کر کے مسلمانوں پر ترقی، ارتقا اور سائنسی انقلاب کے دروازے بند کردیے ہیں۔ اگر یہ فقہا اور خصوصاً امام غزالی پیدا نہ ہوتے اور عالم اسلام میں فلسفے کی موت واقع نہ ہوتی تو مسلمانوں پر زوال نہ آتا۔ لیکن ان کے پاس اس سوال کا جواب نہ تھا کہ رسول اللہ اور صحابہ کرام کے پاس تو کوئی فلسفہ نہ تھا لیکن قیصر و کسریٰ کیسے فتح ہوگئے تھے؟۔۔۔وہ مغرب کی تمام تر ترقی کو اسلام ہی کا اثاثہ سمجھتے تھے جو بہت بڑی غلط فہمی تھی اور رفتہ رفتہ یہ غلط فہمی دور ہوگئی تھی۔ ان سے بار بار یہ پوچھتا تھا کہ اگر قرآن نے تفکرون تدبرون تعلقون کی دعوت دے کر تجربیت ، حواس کے استعمال کے ذریعے مغرب کی اس ترقی کو ممکن بنایا اور رسول اللہ کی آمد سے مغرب مغرب ہوگیا اور اسلام ہی نے تجربیت، عقلیت، ترقی، ارتقا کا درس دیا اور قرآن و سنت و خلافت راشدہ کا اسی لیے زریں دور تھاتو خود عہد اسلامی میں سائنس کا وہ ارتقا کیوں نہ ہوا جو مغرب میں ممکن ہوا؟ کیا کسی پیغمبر نے ایجادات سے انقلاب برپا کیا یا دعوت سے۔۔۔

اگر سائنس ترقی کی اصل اساس ہے تو انبیا کم از کم سائنس داں تو ہوتے اور انسانیت کے لیے کچھ ایجادات تو کرتے لیکن تاریخ اس تصور سے خالی ہے۔۔

۔جب مسلمانوں کے سامنے عاد ثمود اہرام مصر موجود تھے تو مسلمان قرآنی تجربیت کے ذریعے ان جیسی عمارتیں چودہ صدیوں میں کیوں نہ بنا سکے؟

ادامه مطلب ...

مقدمہ "اسرار خودی

مقدمہ "اسرار خودی" از پروفیسر نکلسن.
مغربی دنیا میں علامہ محمد اقبال کے فکر و فلسفہ کا ابتدائی تعارف اس وقت ہوا جب کمبرج یو نیورسٹی کے پروفیسر آر-اے-نکلسن (م ١٩٤٥)نے مثنوی "اسرار خودی" کا انگریزی ترجمہ کیا.پروفیسر نکلسن نے اپنے مقدمے میں لکھا تھا .

ادامه مطلب ...

آئیے…اقبال سے ملتے ہیں

نومبر تو اصل میں اقبال کا ہی مہینا ہے۔ بڑے ناموں اور کاموں سے جڑنے والے دن، مہینے اور جگہیں اپنے آپ بڑی اور اہم ہو جاتی ہیں۔
’’
میں نے رومی کی طرح حرم میں آذاں دی
اور اسی سے اسرارِ جان سیکھے۔ دورِ کہن میں رومی تھا اور اور عصرِ رواں میں، میں ہوں۔ (ہم دونوں کو ایک ہی جیسے حالات کا سامنا ہے)
ء۹ نومبر کو دنیا میں لاکھوں لوگ پیدا ہوئے ہوں گے مگر ان میں سیالکوٹ کے محلہ چودھری وہاب (موجودہ اقبال سٹریٹ)میں شیخ نور محمد ولد شیخ محمد رفیق کے ہاں پیدا ہونے والا محمد اقبال کے ہی اقبال ایسے بلند ہوئے کہ شمس العلماء مولوی سید میر حسن جیسے استاد سے واسطہ پڑا کہ جس کے بارے میں خود اقبال نے کہا:
مجھے اقبال اس سید کے گھر سے فیض پہنچا ہے
پکے جو اس کے دامن میں وہی کچھ بن کر نکلے ہیں

ادامه مطلب ...

اقبال کی شگفتہ مزاجی

علامہ اقبال سنجیدہ اور متین ہونے کے باوجود بڑے بذلہ سنج اور خوش طبع تھے۔ گفتگو خواہ کسی قسم کی ہو، مزاح کا پہلو ضرور ڈھونڈ لیتے۔ مہذب و شائستہ لطائف کی قدر کرتے۔ خود بھی لطائف بنا کر دوست احباب کو ہنساتے رہتے، بعض اوقات لطائف کے ذریعے اہم مسائل بھی حل کر دیتے تھے۔

ادامه مطلب ...

حکمِ اذاں

حکمِ اذاں
(علامہ اقبال کی نظم ’’لاالٰہ الا اللہ‘‘ کا مطالعہ)
حکیم الامّت، شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری کا خاصہ یہ ہے کہ انہوں نے فن اور مقصد کو یوں یک جان کر دیا جیسا ان سے پہلے کسی سے نہ ہوا تھا۔ علامہ کی شاعری میں زبان و بیان کی چاشنی کے ساتھ ساتھ عمیق افکار کا وہ رچاؤ پایا جاتا ہے جس کی مثال اردو شاعری میں کہیں اور نہیں ملتی۔ ان کے کلام کی خاص بات عالمانہ سلاست ہے۔فنِ شعر کی عمومی اصطلاح ’’سلاست‘‘ اقبال کے کلام پر یوں موزوں نہیں بیٹھتی کہ ان کے ہاں سادہ اور آسان فہم الفاظ کی بجائے فارسی کی بھاری بھرکم تراکیب زیادہ مستعمل ہیں۔ سحرطرازی کی بات یہ ہے قاری کو ان تراکیب کی ثقالت کا احساس تک نہیں ہوتا، اور وہ انہیں سلاست کے ساتھ پڑھتا چلا جاتا ہے۔ ان کی تلمیحات ان کی دقیق بصیرت کا پتہ دیتی ہیں، بلکہ بہت سے مقامات پر یہ تلمیحات استعارے بن جاتی ہیں۔ کلامِ اقبال کے اسی وصفِ خاص کو ہم نے ’’عالمانہ سلاست‘‘ کا نام دیا ہے۔
ادامه مطلب ...