دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری
دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری

علامہ اقبال رح کا پیغام خودی

علامہ اقبال رح کا پیغام خودی( قیوم نظامی)

آج علامہ اقبال کا یوم ولادت ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کی مستند تحقیق کے مطابق وہ 9 نومبر 1877ءکو سیالکوٹ کے لوئر مڈل کلاس کے تاجر شیخ نور محمد کے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ علامہ اقبال کے والد کو صوفیاءاور علماءکی محفلوں میں بیٹھنے کا شوق تھا۔ وہ شریعت اور طریقت کے رموز سے آگاہ تھے۔ 

  علامہ اقبال کی والدہ محترمہ امام بی بی ان پڑھ ہونے کے باوجود ایک مدبر، نیک صفت اور معاملہ فہم خاتون تھیں۔ غریب پروری ان کی نمایاں خصوصیت تھی۔ ان کی امانت اور دیانت کی وجہ سے محلے کی خواتین اپنی امانتیں سونا اور نقدی وغیرہ ان کے پاس رکھوایا کرتی تھیں۔ علامہ اقبال کو اپنے دور کے مسلمانوں کے زوال کے بارے میں سخت تشویش تھی۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ مسلمان ہدایت کی کتاب کے باوجود زبوں حالی کا شکار ہیں۔ وہ ایک طرح سے انگریزوں ہندوﺅں کے غلام بن کررہ گئے ہیں ۔مایوسی و نااُمیدی ان کا مقدر بن چکی ہے۔ علامہ اقبال ایک مفکر اور فلاسفر تھے وہ تین سال گوشہ نشیں رہے۔ انہوں نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ مسلمانوں کی حالت زار پر غور وفکر اور تدبر کیا اور 1910ءمیں ”مثنوی اسرار خودی “ قلم بند کرنا شروع کی۔ اقبال کے پیغام نے ہندوستان کے مایوس مسلمانوں میں اُمید کی ایک نئی روح پھونک دی اور انہوں نے قائداعظم کی مثالی ولولہ انگیز قیادت میں اپنے لیے ایک آزاد ملک پاکستان حاصل کرلیا۔

افسوس کی بات ہے کہ قیام پاکستان کے بعد علامہ اقبال کے پیغام کو نئی نسل تک نہیں پہنچایا جاسکا۔ اگر پاکستان کے قائدین اور حکمران علامہ اقبال کے پیغامِ خودی کو منصوبہ بندی کے تحت نصاب کا حصہ بناتے تو آج پاکستان گو ناگوں مصائب اور مشکلات کا شکار نہ ہوتا۔ بدقسمتی سے آج صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کے بزرگ اور نوجوان علامہ اقبال کے پیغامِ خودی کو پوری طرح سمجھنے سے ہی قاصر ہیں۔ حالانکہ علامہ اقبال نے خود بھی اپنے پیغام کو شاعری کے علاوہ نثری مضامین میں بھی بڑے آسان لفظوں میں تفصیل کے ساتھ بیان کردیا تھا مگر ہم نے اس پیغام کی طرف جو دراصل ایک نسخہ کیمیا تھا توجہ ہی نہیں دی۔ علامہ اقبال نے اپنے تصورِ خودی کو ”اسرارِ خودی“ میں ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔
”اخلاقی نقطہ¿ نظر سے لفظ خودی (جیسا کہ میں نے اسے استعمال کیا ہے) کا مطلب ہے خود اعتمادی، خودداری، اپنی ذات پر بھروسہ، حفاظتِ ذات بلکہ اپنے آپ کو غالب کرنے کی کوشش جیسا کہ ایسا کرنا زندگی کے مقاصد کے لیے اور صداقت، انصاف اور فرض کے تقاضوں کو پورا کرنے کی قوت کے لیے ضروری ہے۔ اس قسم کا کردار میرے خیال میں اخلاقی ہے کیونکہ وہ خودی کو اپنے قویٰ کے مجتمع کرنے میں مدد دیتا ہے اور اس طرح تحلیل و انتشار کی قوتوں کے خلاف خودی کو سخت کردیتا ہے۔ عملی طور پر مابعد الطبیعاتی (روحانی) ایگو (خودی) دو بڑے حقوق کی علم بردار ہے۔ اول زندہ رہنے کا حق اور دوم آزاد رہنے کا حق جیسا کہ خداوندی قانون نے مقرر کیا ہو“۔[زندہ اقبال صفحہ 113]
علامہ اقبال نے اکبر الہ آبادی کے نام ایک خط بتاریخ 20 جولائی 1918ءمیں خودی کے بارے میں تحریر کیا ”میں اس خودی کا حامی ہوں جو سچی بے خودی سے پیدا ہوتی ہے یعنی جو نتیجہ ہے ہجرت الی الحق کرنے کا اور جو باطل کے مقابلے میں پہاڑ کی طرح مضبوط ہے“۔ علامہ اقبال کو اپنے دور کے دانشوروں کی جانب سے فلسفہِ خودی کے بارے میں بہت سے سوالوں کا سامنا کرنا پڑا جن کا انہوں نے بھرپور اور جامع جواب دیا۔ انہوں نے پروفیسر نکلسن کے نام ایک خط میں تحریر کیا۔
”انسان کا اخلاقی اور مذہبی نصب العین نفی¿ ذات نہیں بلکہ اثباتِ ذات ہے اور وہ یہ نصب العین زیادہ سے زیادہ یکتا اور منفرد بن کر حاصل کرسکتا ہے۔ انسان اپنے اندر خدائی صفات پیدا کرکے بے مثل ذات کے قریب ہوسکتا ہے۔ یہ قرب اُسے مکمل ترین انسان بنا دیتا ہے مگر وہ خدا کی ذات میں جذب نہیں ہوجاتا بلکہ وہ خدا کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے۔ حقیقی انسان نہ صرف مادہ کی دنیا کو جذب کرتا ہے بلکہ وہ اسے مسخر کرتے ہوئے خدا کو بھی اپنی خودی میں جذب کرلیتا ہے۔ زندگی ایک مستعد، جذب کرنے والی حرکت ہے۔ یہ اپنی پیش قدمی میں تمام رکاوٹوں کو جذب کرتے ہوئے ہٹا دیتی ہے“۔[زندہ اقبال صفحہ 114]
علامہ اقبال کے نزدیک انفرادی زندگی کے جز کو قومی زندگی کے کُل میں شامل کرنا قومی ترقی کے استحکام کے لئے بے حد ضروری ہے اسی کا نام خودی ہے۔ فرد کو ملت میں گم ہوجانا چاہیئے مگر اس طرح جیسے قطرہ سمندر میں مل کر جذب نہیں ہوجاتا بلکہ اپنی خودی اور انفرادیت کو قائم رکھتے ہوئے قطرے سے گوہر بننے کی جدوجہد کرتا ہے۔ علامہ اقبال کے یہ اشعار انکے پیغامِ خودی کے ترجمان ہیں۔
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
تیری زندگی اسی سے تیری آبرو اسی سے
جو رہی خودی تو شاہی نہ رہی تو رو سیاہی
کسے نہیں ہے تمنائے سروری لیکن
خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے
ایک مو¿رخ کے مطابق ”علامہ اقبال کے نزدیک صداقت کا معیار بھی عمل ہے۔ نیکی اور سچائی وہ ہے جس سے شخصیت کی تقویت ہو۔ جس سے خودی کمزور ہو وہ بدی ہے جھوٹ ہے اور فریب کاری ہے۔زندگی کیا ہے خودی کا ثبوت، نیکی کیا ہے خودی کی پختگی، بدی کیا ہے خودی کی خامی، موت کیا ہے خودی کی بیماری۔ علامہ اقبال کے نزدیک چھ عوامل انسان کی خودی کو مستحکم بناتے ہیں۔ عشق، فقر، جرات، برداشت، کسب حلال، تخلیق اور چار عوامل خودی کو کمزور کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ خوف، بھیک، غلامی اور فخر“۔(سید عبدالواحد:Iqbal His Art and Thoughts صفحہ 45)
علامہ اقبال رزق حلال کو خودی کی نشوو نما کے لیے لازم قراردیتے ہیں۔ ان کے خیال میں بھیک مانگنے سے انسانی خودی کمزور ہوجاتی ہے چاہے کسی سے سوال ہاتھ پھیلا کر کیا جائے یا ایسا طرز عمل اختیار کیا جائے جس کی وجہ سے ذہن اور روح کی آزادی قائم نہ رہے۔ جو فرد یا قوم دوسروں سے بھیک مانگنا شروع کردے اس کی خودی اس قدر کمزور ہوجاتی ہے کہ پھر اسکی آزادی اور خودمختاری بھی سلب ہوکر رہ جاتی ہے۔علامہ اقبال نے فرمایا۔
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
وہی ناں ہے اس کے لیے ارجمند
رہے جس سے دنیا میں گردن بلند
کاش کہ نوجوان نسل جو علامہ اقبال کے نزدیک شاہینوں کا درجہ رکھتے تھے علامہ اقبال کے پیغامِ خودی کو سمجھ کر موجودہ حالات کو تبدیل کرنے پر مائل ہوجائیں کیونکہ علامہ اقبال کے پیغامِ خودی کی جتنی ضرورت آج ہے اتنی شاید پہلے کبھی نہیں تھی۔


با تشکر :

http://www.nawaiwaqt.com.pk/adarate-mazameen/09-Nov-2013/255746


نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد