دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری
دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری

علامہ اقبال اور عشق رسول ﷺ

مثلِ بو قید ہے غنچے میں ، پریشاں ہو جا

رخت بردوش ہے ہوائے چمنستاں ہو جا

ہے تنک مایہ ، توذری سے بیاباں ہو جا

نغمہ موج سے ہنگامہ طوفاں ہو جا

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

دہر میں اسم ِ محمد سے اجالا کر دے

عشق وہ والہانہ جذبہ ہے جو حضرت انسان کو دوسرے اقوام سے ممتاز کرتی ہے۔ یہ جذبہ بناوٹ، عیاری، امید ( معشوق سے کچھ حاصل کرنے کی) ۔ لالچ سے ماورا ہوتی ہے۔ یہ جذبہ انسان کو ایک جست میں اس بلندی اور آفاقیت تک لے جاتی ہے۔جس کا ہم خیال بھی نہیں کر سکتے ۔ اس قوت سے یقین و ایمان میں پختگی آتی ہے۔ اور اسی جذبہ کے تحت ایمان بل غیب پر یقین آجاتا ہے۔

حضرت سید محمد ذوقی شاہ اپنی کتاب ” سر ِ دلبراں “ میں لکھتے ہیں،

 

عشق ایک مقناطیسی کشش ہے جو کسی کو کسی کی جانب سے ایذا پانا، وصال سے سیر ہونا ، اس کی ہستی میں اپنی ہستی کو گم کر دینا یہ سب عشق و محبت کے کرشمے ہیں۔

 

عاشقی چیست؟ بگو بندہ جاناں بودن

دل بدست دگرے دا دن و حیراں بودن

 

اور جب یہ تعلق یا کشش سیدنا محمد مصطفی سے ہو تو پھر کیا کہنا ۔ ان کی ہستی تو ایک بحر ذخار کے مانند ہے جس کی موجوجیں آسمان کو چھوتی ہیں۔ جس کی تعلیمات محبت ، اخوت، مساوات اور رواداری کا درس دیتی ہیں ۔ جو لوگوں کو حیات نو عطا کرتی ہیں۔ اُس کے اخلاق کے بارے میں خود اللہ فرماتے ہیں کہ،

 

”’ اے حبیب بے شک تو اخلاق کے بلند درجے پر ہے۔

 

جن کو نبوت سے پہلے امین اور صادق کے خطاب دئیے گئے رشک کی بات ہے کہ اقبال کو اس عظیم بندے سے عشق تھا اور اس آفتاب کے نور سے اقبال کی شاعری منور ہے۔

 

می ندانی عشق و مستی از کجا ست؟

ایں شعاع افتاب مصطفی ست

 

مولانا عبدالسلام ندوی ”اقبال کامل “ میں لکھتے ہیں،

 

ڈاکٹر صاحب کی شاعری محبت ِ وطن اور محبت قوم سے شروع ہوتی ہے اور محبت الہٰی اور محبت رسول پر اس کا خاتمہ ہوا۔

والہانہ عشق

اقبال کو حضور سے جو والہانہ عشق ہے اس کا اظہار اس کی اردو اور فارسی کے ہر دور میں ہوتا رہا ہے۔ اقبال کی انفرادیت ہے کہ انہوں نے اردو فارسی دونوں زبانوں میں مدح رسول اکرم کو ایک نئے اسلوب اور نئے آہنگ کے ساتھ اختیار کیا۔

خوشا وہ وقت کہ یثرب مقام تھا اس کا

خو شا وہ دور کہ دیدار عام تھا اس کا

اقبال سردار دو عالم کی سیرت پاک کا غائر مطالعہ کرنے کے اور مطالب قرانی پر عبور حاصل کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ آنحضرت کی ذات ِ بابرکات جامع الحثیات ہے ۔ تمام کما لات ظاہر و باطن کی ، اور سرچشمہ ہے تمام مظاہر حقیقت و مجاز کا۔ کلام اقبال اٹھا کر دیکھ لیں تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پیغام ِ اقبال اصل میں حُب رسول ہے۔ کیونکہ انہی کی ذات گرامی سرچشمہ دیں ہے۔

بہ مصطفی برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست

اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبی است

 

 

سوز و گداز

اقبال کی طبیعت میں سوز و گداز اور حب رسول اس قدرتھا کہ جب کبھی ذکر رسول ہوتا تو آپ بے تاب ہو جاتے اور دیر تک روتے رہتے ۔ ”روزگار فقیر “ میں سید وحید الدین لکھتے ہیں۔

اقبال کی شاعری کا خلاصہ جو ہر اور لب لباب عشق رسول اور اطاعت رسول ہے۔ ان کا دل عشق رسول نے گداز کر رکھا تھا زندگی کے آخری زمانے میں یہ کیفیت اس انتہا کو پہنچ گئی تھی کہ ہچکی بند جاتی ۔ آواز بھرا جاتی تھی اور وہ کئی کئی منٹ سکوت اختیار کر لیتے تھے۔ تاکہ اپنے جذبات پر قابو پا سکیں۔

اتباع رسول

 

عشق و محبت کا یہ مرتبہ ایمان کا خلاصہ ہے ۔ اتباع رسول کے بغیر محبت رسول ناممکن ہے۔ آپ کی ذات گرامی رحمتہ اللعالمین تھی۔ اس لئے مومن کو بھی رحمت و شفقت کا آئینہ ہونا چاہیے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ مسلمان کی سرشت ایک موتی کی طرح ہے جس کو آب و تاب بحر ِ رسول سے حاصل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال اسوہ حسنہ کی تقلید کا سبق دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے مومن تو باغِ مصطفویٰ کی ایک کلی ہے۔ بہار مصطفویٰ کی ہوائوں سے کھل کر پھول بن جاؤ۔

غنچہ از شاخسار ِ مصطفی

گل شو از باد بہار مصطفی

 

اقبال کے نزدیک خالق کائنات نے جب اس دنیا میں اپنی کاریگری کا آغاز کیا اور حضرت انسان کی شکل میں اپنے چھپے ہوئے خزانے کو عیاں کیا پھر جب ارتقاءکے منازل طے ہوتے گئے اور قوائے انسانی اپنے پورے کمال پر آگئے تو رب العالمین نے محمد کو معبوث فرمایا ۔ جو سب کے لئے رحمت ، ہادی ، راہ نما ، اور مہربان تھے۔

 

خلق و تقدیر و ہدایت ابتداست

رحمتہ للعالمینی انتہا ست

 

 

عشق کا محور

 

کلام اقبال میں عشق رسول کے اظہار میں جب شیفتگی و وارفتگی کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ وہ بزرگانِ دین کا فیضانِ نظر تھا ۔ اس میں مکتب کی کرامت کا دخل نہیں تھا۔ آپ کے کلام میں شیخ عطار ، نظام الدین اولیا ، حضرت مجدد الف ثانی ، مولانا روم، اور امام غزالی کا تذکرہ اس امر پر شاہد ہے۔ اقبال ایک جگہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی تمام تر عقل اور فلسفہ دانی کو نبی کریم کے قدموں میں ڈھیر کر دیا ہے۔ اقبال کے ذہن میں عشق و مستی کا اوّل اور آخری محور ایک ہی ہونا چاہیے اور وہ محور ہے نبی کریم کی ذات جو ذات ِ تجلیات ہے جو کہ بقول حضرت عائشہ کہ

 

قرآن ہی ان کے اخلاق ہیں۔

 

نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر

وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسیں وہی طہٰ

سالار کارواں

 

اقبال حضور کو اپنے کارواں کا سالار قرار دیتے ہوئے ان کی تقلید میں لبیک کہتے ہیں اور تن ، من ، دھن ، ان کی محبت میں قربان کرنے کو اولیت دیتے ہیں اور انہی کی لیڈر شپ میں زندگی کی قربانی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس لئے اپنی مشہور نظم ”ترانہ ملی“ میں لکھتے ہیں،

 

سالار کاروا ں ہے میر حجاز اپنا

اس نام سے ہے باقی آرام جاں ہمارا

 

 

حسن و جمال

 

حسن و جمال میں حضور کی خوبی و محبوبی کسی سے پوشیدہ نہیں پر وقار انداز ، شگفتہ گفتگو ، خوبصورت چہرہ، مناسب قد الغرض ہر چیز اور ہر زاویے میں لازوال تھے۔ اسی لئے علامہ نے ان کی خوبصورتی کو یوسف ، عیسیٰ اور موسیٰ پر ترجیح دی ہے۔

 

حسنِ یوسف دمِ عیسیٰ ید بےضا داری

آنچ خوباں ہمہ دارند تو اتنہا داری

 

 

نیکی کی علامت

 

اقبال کے ذہن میں انسانی زندگی کے دو بڑے دھارے ہیں۔ نیکی اور بدی وہ نیکی کو محمد سے منسلک کرتے ہیں جبکہ بدی کو ابولہب سے وہ ابو لہب کو بدی کا خدا تصور کرتے ہیں اور نیکی کی علامت کے لئے پیکر جمیل کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عشق اور عقل کی تقسیم میں عشق کو محمد اور عقل کو عیاری کی بنا ءپر ابولہب کے حصے میں رکھتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں

 

تازہ میر ے ضمیر میں معرکہ کہن ہوا

عشق تمام مصطفی عقل تمام بولہب

 

اقبال کے خیال میں نیکی اور بدی کی قوتوں کے درمیان یہ معرکے ازل سے جاری ہیں اور بدی کی قوتوں کا انداز ابتداء سے مکارانہ اور عیارانہ ہے۔ جس کے مقابلے میں نیکی معصوم اور پاک ہوتی ہے۔

 

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا اِمروز

چراغِ مصطفوی سے شرار بو لہبی

قیام یورپ اور عشق رسول

 

یہ عشق نبوی کا ہی فیض ہے کہ یورپ میں ایک طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود اقبا ل دین ِ محمدی سے منحرف نہ ہوئے اور نہ ان کے اقدار میں تبدیلی ہوئی۔ اس لئے جب وہ لوٹے تھے اسی طرح عشق رسول سے سرشار تھے۔

 

خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوہء دانشِ فرنگ

سرمہ ہے مری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف

نظم” حضور رسالت ماب

 

جس دور میں اقبال نے شکوہ اور جواب شکوہ جیسی نظمیں تخلیق کیں وہ مسلماناں عالم کے لئے ایک عالمگیر انحطاط و انتشار کا زمانہ تھا اقبا ل مسلمانان عالم کی اس عمومی صورت حال پر ہمہ وقت بے تاب و بے قرار رہتے تھے۔ جواب شکوہ لکھنے سے کچھ عرصہ پیشتر اقبال نے طرابلس کے شہیدوں کے حوالے سے ایک نظم ” حضور رسالت مآب لکھی۔ یہ نظم بارگاہ نبوی میں شاعری کی ایک خیالی حضوری کو بیان کرتی ہے۔ فرشتے شاعر کو بزم رسالت میں حضور کے سایہ رحمت میں لے جاتے ہیں۔ بارگاہ نبوی سے شاعر سے خطاب کیا جاتا ہے۔

 

کہا حضور نے اے عندلیبِ باغِ حجاز

کلی کلی ہے تری گرمئ نوا سے گداز

اللہ تک رسائی کا زینہ

 

اقبال کا مطالعہ اسلام اور قرآن بہت ہی اچھا تھا۔ انہوں نے اپنی شاعری میں آیاتِ قرآنی کو جگہ دی ہے۔ کیونکہ اقبال کو پتہ تھا کہ اللہ کے کتابوں میں یہ آخری اور واحد کتاب ہے جس میں تبدیلی اور غلط بیانی کسی کی بس کی بات نہیں ۔ اور اس کی خالص شکل لوح محفوظ میں موجود ہے اور اسی قرآن میں اللہ تعالٰیٰ فرماتے ہیں کہ،

 

ترجمہ:۔ اے نبی کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری تا بعداری کرو

 

کیونکہ اللہ تک رسائی کے لئے حُب نبی ہی اصل زینہ ہے۔ جس پرصحابہ کرام نے عمل کیا۔ صدیق، عمر، عثمان اور علی نے عمل کیا۔ اقبا ل ا س لئے نصیحت کرتے ہیں اللہ سے وہی سوز طلب کرو جو انہی صحابہ نے طلب کیا تھا۔ جو ان کو عشق نبوی سے حاصل ہوا۔

 

سوز صدیق و علی از حق طلب

ذرہ عشق نبی از حق طلب

مکارم اخلاق

 

اقبال کے نزدیک اسوہ نبوی کے اتباہ کے بدولت ہی ہم مکارم الاخلاق سے آراستہ ہو سکتے ہیں اسی وجہ سے ہمارے دلوں میں کشادگی اور نور اور تجلیات خداوندی جگہ پا سکتی ہے۔ اقبال فرماتے ہیں

 

درد دل مسلم مقام مصطفےٰ است

آبروئے ماز نامِ مصطفی است

 

اقبال فرماتے ہیں کہ اس دنیا کی تخلیق کی اصل وجہ ذات نبی ہے کیونکہ آپ ہی کی وجہ سے اس دنیا میں اصل خالق یعنی اللہ کی ذات کی پہچان ، صحیح معنوں میں ممکن ہوئی۔ آپ ہی تھے جنہوں نے خدا تعالٰیٰ کی حقیقت کے بار ے میں لوگوں کو آگاہ کیا اور ان کے راز آشکار کئے۔

 

 

نجات دہندہ

 

اقبال کی شاعری کا محور اصل میں عشق رسول ہی ہے۔ اسی زینہ پر چڑھ کر وہ محرم راز درونِ مے خانہ کا دعویٰ کرتے ہیں اسی ذات کو اقبال آخرت اور دنیا دونوں میں نجات دہندہ خیال کرتے ہیں۔ اسی ذات ِ با برکات نے امت مسلمہ کی صحیح داغ بیل ڈالی ان لئے تکالیف برداشت کیں اور احسانات کا ایک انبار اپنی قوم پر ڈال دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال اللہ تعالٰیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ای خدا قیامت کے دن میرے اعمال نامہ کو تو خواجہ ( رسول) کے سامنے پیش کرکے مجھے رسوا مت کر۔ مجھے شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ اس عظیم ذات کے سامنے مجھ خطا کار کی خطائیں جب آشکار ہوں۔

 

مکُن رسوا حضورِ خواجہ مارا

حساب من ز چشم ِ او نہاں گیر

 

 

مجموعی جائزہ

 

غرض اقبال کے سارے نظریات آپ کی ذات ِ گرامی میں بدرجہ اتم موجود تھے۔ وہ ایک خود دار ذات تھے۔ شاہین صفت تھے ، شفیق تھے۔ انسان کامل تھے۔ مردمومن تھے۔ صاف گو تھے۔ جمہوریت پسند تھے۔ مسلم کے قدر دان تھے اگرچہ خود اُمی تھے اسی لئے اقبال جواب شکوہ میں لکھتے ہیں کہ

 

عقل ہے تیری سپر ، عشق ہے شمشیر تری

مرے درویش! خلافت ہے جہان گیر تری

ماسوا اللہ کے لئے آگ ہے تکبیر تری

تو مسلماں ہوتو تقدیر ہے تدبیر تری

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لو ح قلم تیرے ہیں

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد