دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری
دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری

قرآن پاک کا عُنصر

قرآن پاک کا عُنصر

پروفیسر بشیر احمد نحوی

اس بات پر تمام مسلم وغیر مسلم محققین کا اتفاق ہے کہ دنیا میں ایک کتاب ایسی ہے جو مکمل طور پر محفوظ ہے۔ چودہ سو سال کا طویل عرصہ گذر جانے کے بعد اس کا موازنہ جب اس کے پہلے نسخہ سے کیا جاتا ہے تو کوئی رد وبدل، کوئی تغیر ، کوئی تحریف اور ہلکی سی اعرابی تبدیلی نظرنہیں آتی ہے ۔ کشمیر کا کوئی حافظ قرآن ، افریقہ کے کسی دور افتادہ علاقے کے حافظ کو قرآن سنائے اور امتحان کی غرض سے کسی جگہ کوئی زیر زبر کی غلطی کردے، تو وہ حافظ اسے ٹوک دے گا ۔ ایسا کہاں ہے ؟ اسے نازل کرنے والے خدانے ہمیشہ کے لئے اس کی حفاظت کا وعدہ کیاہے اور یہ وہ وعدہ اس لئے کیا گیا ہے کہ اس کی طرف سے آئی ہوئی یہ آخری ہدایت ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی اس عظیم الشان کتاب کے ماننے والوں کے اندر وہ شغف اور جذباتی تعلق پیدا کردیاہے ، جو دنیا میں کسی کتاب کے لئے نہیں ہے ۔ بظاہر کسی کتاب کا بغیر سمجھے پڑھنا مہمل سی بات معلوم ہوتی ہے ۔ مگر اس کتاب کی تلاوت بھی باعث ِ عبادت اور اس کی حفاظت کے اسباب میں سے ایک سبب ہے ۔ اسی شوق ، اسی وابستگی ، اسی جذباتی تعلق اور جذبۂ عبادت کی وجہ سے اس کتاب کے الفاظ لاکھوںسینوں کے اندر منقش ہیں۔اس پر ایمان رکھنے والوں کے اندر اس کی عظمت کااحساس اور اس سے محبت وعقیدت کا یہ عالم ہے کہ کوئی 90سال پہلے بھوپال میں ایک یورپین ہیڈ ماسٹر نے اسکول کی صفائی کراتے ہوئے قرآن پاک کے کچھ شکستہ اوراق ردّی کے ساتھ پھینکوادیئے ۔ جب توجہ دلائی گئی تو اس نے لاپرواہی کے ساتھ کچھ نامناسب الفاظ بھی کہہ دیئے۔ نتیجہ یہ ہواکہ بنے خان نامی ایک اَن پڑھ مسلمان نے اسے گولی کا نشانہ بنایا اور جب مقدمہ چلاتو اس نے انکار نہیں کیا اور اپنے اس فعل پر فخر کرتا ہوا سزائے موت کی آغوش میں چلا گیا ۔ اس کا یہ عمل خود قرآنی قانون کے مطابق نہیں ہے مگر اس ایمانی جذبے کی کیا قیمت ہوسکتی ہے ؟

 

اب ایک اور نکتے پر غور فرمائیے؟ کیا آپ نے کبھی کوئی ایسا ناخواندہ ددیکھاہے جو علم کی عظمت اور قلم کی تقدیس پر بحث کرتاہو۔ نیابت ِ الٰہیہ کو علم کا نتیجہ قرار دیتاہو۔ پانی کو مدارِ حیات ٹھہراتاہو، حواسِ خمسہ کے علاوہ تاریخ ،کائنات ،نفس اور وحی کو بھی مآخذ علم قرار دیتاہو۔ اگر ایسا اُمی نہیں دیکھا ہے تو رسول اکرمؐ کی ذاتِ مقدس کو دیکھئے   ؎

اُمی بود کہ ما از اثر حکمت ِ او

واقف از سر نہاں خانۂ اسرار شدیم

ایک طرف ناخواندگی کا یہ عالم کہ اپنا نام تک نہ پڑھ سکیں اور دوسری طرف یہ کیفیت کہ گمشدہ ماضی کی خبریں دے رہے ہیں ۔

تلک من انبیأ الغیب ، نو حیھا الیک ما کنتَ تعلمُھا اَنتَ وَلا قومُک مِن قبلِ ھٰذا۔(ھود)

یتیمے کہ ناکردہ قرآں درست

کُتب خانۂ چند ملت بشست

اس مختصر سی تمہید کے بعد میں اپنے اصل موضوع کی طرف رجوع کرتاہوں اور یہ واضح کرنے کی کوشش کرتاہوں کہ علامہ اقبال کے نظامِ فکر میں قرآن ِ پاک کا عنصر کس قدر موجود ہے۔ اقبالؒ کے فارسی کلام پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو وہاں لفظ قرآن پاک ایک سوچاربار استعمال ہواہے اور قرآن کی دیگر اصلاحات مثلاً نزول ، نازل ، کتاب ، قرأت ، قاری ، مومن ، مسلم ، منافق ، مجاہد، جہاد ، جنت ، جہنم ،خیر ، شر ، روح اللہ ، الٰہ ، رب ،عبد،معبود ،عبادت ، جن اور اِنس وغیرہ سینکڑوں مقامات پر مختلف تناظر ات میں استعمال ہوئی ہیں۔

اقبالؒ نے ’’رموزِ بے خودی‘‘ کے عنوان ’’بحضورِ رحمتہ للعالمینؐ‘‘ میں اپنی شاعری کی بنیادوں پر روشنی ڈالتے ہوئے جناب نبی کریم صلعم کی خدمت اقدس میں یہ عرض کی ہے کہ اگر ان کی شاعری میں قرآن پاک کے سوا کچھ اور مضمر ہے تو پھر قیامت کے دن انہیں پائے نازنین کو بوسہ دینے کی سعادت سے محروم کیجئے    ؎

گر دلم آئینہ بے جوہر است

ور بحر فم غیر قرآں مضمر است

اے فروغت صبحِ اعصا رود ہور

چشمِ توبینندۂ مافی الصدور

پردۂ ناموسِ فکرم چاک کن

ایں خیاباں راز خارم پاک کن

روزِ محشر خوار و رسوا کن مرا

بے نصیب از بوسۂ پاکن مرا

اقبالؒ کے پورے کلام پر جب ہم گہری نظر ڈالتے ہیں تو اس میں متعدد عناصر کام کرتے نظر آتے ہیں ۔ مے خانۂ مغرب کی چاشنی مشرق کے روحانی بزرگوں کی دلآویزی، فلسفہ کی اثر آفرینی ، فارسی شعراء کی سحر بیانی ، غرض ہر قسم کے اثرات اور عناصر کی کارفرمائی نظر آتی ہے لیکن ذاتِ رسالتمآب صلعم او رقرآن مجید ہی سے اقبالؔ کے شخصی اورفکری عناصر کی تعمیر ہوئی ہے ۔ مولانا سیّدسلیمان ندوی کے ساتھ اقبالؒکے گہرے مراسم تھے ۔ اقبالؒ انہیں علوم اسلامی کے بحرِ ذخارکاغوّاص کہاکرتے تھے۔ اپنے دور کے بے بدل عالم وفاضل تھے ۔ انہوں نے اقبالؒ کی زندگی کے دوواقعے یوں بیان کئے ہیں ۔

’’سفر کابل سے واپسی میں قندہار کاریگستانی میدان طے ہوچکاتھا اور سندھ وبلوچستان کے پہاڑوں پر ہماری موٹریں دوڑرہی تھیں ۔ شام کا وقت تھا ، ہم دونوں ایک موٹر میں بیٹھے تھے ۔ روحانیت پر گفتگو ہورہی تھی ۔ اربابِ دل کا تذکر ہ تھاکہ موصوف نے بڑے تاثر کے ساتھ اپنی زندگی کے دو واقعے بیان کئے ۔ میرے خیال میں یہ دونوں واقعے ان کی زندگی کے سارے کارناموں کی اصل بنیاد تھے ۔

فرمایا ، جب میں سیالکوٹ میںپڑھتا تھا تو صبح اُٹھ کر روزانہ قرآنِ پاک کی تلاوت کرتاتھا ۔ والد مرحوم اپنے اوراد ووظائف سے فرصت پاکر آتے اور مجھ کو دیکھ کر گزر جاتے ۔ ایک دن صبح کو وہ میرے پاس سے گزرے تو مسکرا کر فرمایا کہ کبھی فرصت ملی تو میں تم کو ایک بات بتائوں گا۔ میں نے دوچار دفعہ بتانے کا تقاضہ کیا تو فرمایاجب امتحان دے دو گے تب۔ جب پاس ہوگیا اور پوچھا تو فرمایا …بتائوں گا۔ ایک دن صبح کو حسب دستو رقرآن کی تلاوت کررہا تھا تو وہ میرے پاس آگئے اور فرمایا ، بیٹا کہنا یہ تھاکہ جب تم قرآن پڑھو تو یہ سمجھو کہ قرآن تم ہی پر اُتر رہا ہے ۔ڈاکٹر اقبالؒ کہتے تھے کہ ان کا یہ فقرہ میرے دل میں اُتر گیا اور اس کی لذت دل میں اب تک محسوس کرتا ہوں ۔ یہ تھا وہ تخم جو اقبال کے دل میں بویا گیا اور جس کی تناورشاخیں پہنائے عالم میں ان کی موزون نالوں کی شکل میں پھیلی ہیں   ؎

ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب

گرہ کشا ہے نہ رازیؔ نہ صاحب ِ کشافؔ

دوسرا واقعہ یہ ہے کہ باپ نے ایک دن بیٹے سے کہا کہ میں نے تمہارے پڑھانے میں جو محنت کی ہے ، تم سے اس کا معاوضہ چاہتاہوں ۔ لائق بیٹے نے بڑے شوق سے پوچھا کہ وہ کیا ہے ؟ باپ نے کہا کسی موقعہ پر بتائوں گا۔چنانچہ انہوں نے ایک دفعہ کہاکہ میری محنت کا معاوضہ یہ ہے کہ تم اسلام کی خدمت کرنا ‘‘۔

ہمارے ناقدین ومحققین میں سے کچھ حضرات کی شروع سے یہ منصوبہ بند کوشش رہی ہے کہ شاعر مشرق کے فکری نظام میں قرآن کے عنصر یا قرآن کے اثر کو ثانوی حیثیت دی جائے۔ ان کے نزدیک مذہبی صحائف وکتب کے زیر اثر شاعری آفاقی نہیں ہوسکتی ہے ،لیکن وہ یہ بات نظر انداز کردیتے ہیں کہ وہ بڑے بڑے شعراء جن میں ملٹن ، ٹیگور اور کالی داس شامل ہیں، اپنے مذاہب کی کتابوں کا بکثرت تذکرہ کرچکے ہیں اور اس ذکر کے نتیجے میں ان کی آفاقیت یا ان کی شاعری کی عظمت پر کوئی فرق نہیں پڑا ۔

یہ حقیقت کسی کے چھپائے چھپ نہیں سکتی ہے کہ اقبالؒ کے فکری نظام پر قرآن مجید کااثراس قدر غالب ہے کہ اپنی شاعری  کے آخری دور میں اقبال نے قرآن سے باہر سوچنا ترک کردیا تھا ۔ وہ تصوف کے مسائل ہوں ، یا عشق وخرد کے معاملات ، وہ خودی کا فلسفہ ہو یا بے خودی کا نظریہ ، وہ انسان کی ارتقائی تاریخ ہو یا اقوام عالم کے عروج و زوال کی داستان ہو ، غرض ہر مرحلے پر وہ قرآن سے رہبری کے متلاشی رہتے تھے۔ فقیر وحید الدین نے اپنی تالیف ’’روزگارِ فقیر ‘‘ میں ’’حسن انتخاب‘‘ کے عنوان سے ایک واقعہ بیان کیا ہے ، لکھتے ہیں ۔

’’ڈاکٹر صاحب اپنی میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں قیام فرماتھے ، اس زمانے میں ڈاکٹر صاحب کی قیام گاہ پر ایک نئے ملاقاتی آئے۔ اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں ۔ اتنے میں انہوں نے ڈاکٹرصاحب سے ایک سوال کیا ، کہنے لگے ۔ آپ کے مذہب ،اقتصادیات ، سیاسیات ، تاریخ ، فلسفہ پر جو کتابیں اب تک پڑھی ہیں ان سے سب سے زیادہ بلند پایہ اور حکیمانہ کتاب آ پ کی نظر سے کون سی گذری ہے ۔ ڈاکٹر صاحب اس سوال کے جواب میں کرسی سے اُٹھے اور نووارد ملاقاتی کی طرف ہاتھ کا اشارہ کیا،تم ٹھہرو میں ابھی آتا ہوں ۔ یہ کہہ کر وہ اندر چلے گئے ۔ دو تین منٹ میں واپس آئے تو ان کے ہاتھوں میں ایک کتاب تھی ۔ اس کتاب کو انہوں نے اس شخص کے ہاتھوں پر رکھتے ہوئے فرمایا۔ قرآن کریم‘‘۔ مثنوی پس چہ باید کرد میں انہوں نے صاف صاف الفاظ میں فرمایا ہے    ؎

برخوراز قرآن اگر خواہی ثبات

درضمیرش دیدہ ام آبِ حیات

می دہد مارا پیامِ لا تخف

می رساند بر مقامِ لا تخف

از تب و تابم نصیب خود بگیر

بعد ازیں ناید چومن مردِ فقیر

گوہر دریائے قرآں سفتہ ام

شرحِ رمزِ صبغتُہ اللہ گفتہ ام

’’ڈاکٹر صاحب اپنی میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں قیام فرماتھے ، اس زمانے میں ڈاکٹر صاحب کی قیام گاہ پر ایک نئے ملاقاتی آئے ۔ اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں ۔ اتنے میں انہوں نے ڈاکٹرصاحب سے ایک سوال کیا ، کہنے لگے ۔ آپ کے مذہب ،اقتصادیات ، سیاسیات ، تاریخ ، فلسفہ پر جو کتابیں اب تک پڑھی ہیں ان سے سب سے زیادہ بلند پایہ اور حکیمانہ کتاب آ پ کی نظر سے کون سی گذری ہے ۔ ڈاکٹر صاحب اس سوال کے جواب میں کرسی سے اُٹھے اور نووارد ملاقاتی کی طرف ہاتھ کا اشارہ کیا،تم ٹھہرو میں ابھی آتا ہوں ۔ یہ کہہ کر وہ اندر چلے گئے ۔ دو تین منٹ میں واپس آئے تو ان کے ہاتھوں میں ایک کتاب تھی ۔ اس کتاب کو انہوں نے اس شخص کے ہاتھوں پر رکھتے ہوئے فرمایا۔ قرآن کریم‘‘۔ مثنوی پس چہ باید کرد میں انہوں نے صاف صاف الفاظ میں فرمایا ہے    ؎

برخوراز قرآن اگر خواہی ثبات

در ضمیرش دیدہ ام آبِ حیات

می دہد مارا پیامِ لا تخف

می رساند بر مقامِ لا تخف

از تب و تابم نصیب خود بگیر

بعد ازیں ناید چومن مردِ فقیر

گوہر دریائے قرآں سفتہ ام

شرحِ رمزِ صبغتُہ اللہ گفتہ ام

ہمارے معاشرے میں ایسے بھی دانشور ہیں جو چند کتب فلسفہ پڑھ کر ذہنی بغاوت پراُتر آتے ہیں لیکن مشرق ومغرب کے فکر وفلسفہ پر عائر نظر رکھنے والے اقبالؒ کا حال قرآن پاک کے بارے میں یہ تھا کہ ایک مرتبہ ’’ فورمن کرسچن کالج لاہور کا سالانہ جلسہ ہورہا تھا ۔ کالج کے پرنسپل ڈاکٹر لوکس نے علامہ اقبال کو بھی مدعوکیاتھا۔ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ اجلاس کا پروگرام ختم ہونے کے بعد چائے کا بندوبست کیا گیا تھا ۔ ہم لوگ چائے پینے بیٹھے تو ڈاکٹر لوکس میر ے پاس آئے او رکہنے لگے ۔چائے پی کے چلے نہ جانا مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے ۔ ہم لوگ چائے پی چکے تو ڈاکٹر لوکس آئے اور مجھے ایک گوشے میں لے گئے اور کہنے لگے ۔ اقبال مجھے بتائو کہ تمہارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم کا مفہوم نازل ہوا تھا او رچونکہ انہیں صرف عربی زبان آتی تھی۔ انہوں نے قرآنِ کریم عربی میں منتقل کردیا۔ یہ عبارت ہی اسی طرح اتری تھی ۔ میں نے کہا یہ عبارت ہی اتری تھی ۔ ڈاکٹر لوکس نے حیران ہوکر کہا کہ اقبال تم جیسا پڑھا لکھا آدمی اس بات پر یقین رکھتاہے کہ عبارت ہی اسی طرح اُتری ہے ۔ میں نے کہا ڈاکٹر لوکس یقین؟ میر ا تجربہ ہے کہ مجھ پر شعر پورا اُترتاہے تو پیغمبر اکرمؐ پر عبارت کیوں نہیں پوری اُتری ہوگی ‘‘۔

علم اگر کج فطرت وبد گوہر است

پیش چشمِ ما حجابِ اکبر است

علم را مقصود اگر باشد نظر

می شود ہم جادہ وہم راہبر

می نہد پیش تو از قشرِ وجود

تا تو پرسی چیست رازِ ایں نمود

جادہ را ہموار سازد ایں چنیں

شوق را بیدار سازد ایں چنیں

درد و داغ وتاب وتب بخشد ترا

گریہ ہائے نیم شب بخشد ترا

ہمارے زمانے میں یہ ایک فیشن بن گیا ہے کہ سائنسی اکتشافات ، ایجادات اور انکشافات کے ڈانڈے قرآن کی آیات سے ملانے کی کوششیں ہورہی ہیں جو صریحاً قرآن سے زیادتی کے مترادف ہے ۔ اس سلسلے میں کچھ حضرات نے قرآن اور سائنس کے عنوانات کے تحت مقالات بھی تحریر کئے ۔ سائنس کے موجودہ نظریات زمانے کی رفتار کے ساتھ تغیر پذیر ہوسکتے ہیں ۔ مثلاً ڈارؤن کے نظریۂ ارتقاء کے ساتھ امریکہ کے چند سائنس دانوں نے کچھ عرصہ پہلے اختلاف رائے کیا ۔ سورۂ دخان کے شجرۃ الزقوم میں باٹونی تلاش کرنا ، یا والقمو قدر ناہ منازل حتیٰ عاد کا لعرجون القدیم میں Lunar System اور اذا الشمسُ کورت میں  Solar System کو تلاشنا روح قران سے زیادتی کے برابر ہے ۔ قرآن پاک ہدایت اور حق وباطل کے درمیان فرق کرنے والا وہ لافانی نسخہ ہے جو زندگی کے اخلاقی ، تمدنی ، تہذیبی، معاشرتی ، عائلی ، سیاسی اور معاشی مسائل کی گتھیوں کو سلجھانے اور پھر ان کا علاج تجویز رنے کے لئے پوری نوعِ انسان کے لئے نازل فرمایا گیا ہے ۔ یہ ضرور ہے کہ قرآن پاک وہ ارشادات فرماتاہے جو موجودہ سائنس کے نظریات سے قریب ہیں۔ اقبالؒ اپنی زندگی کے آخری حصے میں ایک مدلل کتاب قرآن مجید لکھنا چاہتے تھے۔ راس مسعود کو ایک خط میں لکھتے ہیں ۔

’’اور اس طرح میرے لئے یہ ممکن ہوسکتا تھا کہ میں قرآن کریم پر عہد حاضر کے افکار کی روشنی میں اپنے وہ نوٹ تیار کرلیتاجو عرصہ سے میرے زیر غور ہیں ۔ اگر مجھے حیاتِ مستعار کی بقیہ گھڑیاں وقف کردینے کا سامان میسر آئے تو میں سمجھتاہوں ، قرآن کریم کے ان نوٹوں سے بہتر کوئی پیشکش مسلمانانِ عالم کو نہیں کرسکتا ‘‘۔

آخر میں قرآن کے حوالے سے اقبال ؒکے چند بہترین اشعار پیش کرتاہوں ، جو اس بات کا ثبوت فراہم کرتے ہیں ، کہ ان کا پورا نظامِ فکر قرآن پاک کے فیضان کا مرہونِ احسان ہے ۔

زشامِ ما بروں آور سحر را

بہ قرآں باز خواں اہل نظر را

 تو میدانی کہ سوزِ قرأت تو

دگرگوں کرد تقدیرِ عمرؓ را

درصد فتنہ را بر خود کشادی

دوگامی رفتی و از پا فتادی

برہمن از بتاں طاقِ خود آر است

تو قرآں را سرِ طاقے نہادی

-------------

دوگیتی را صلا از قرأتِ اوست

مسلمان لا یموت از رکعت اوست

نداند کشتۂ ایں عصر بے سوز

قیامت ہا کہ در قد قامتِ اوست

نظرات 1 + ارسال نظر
محمد علی 1391/12/20 ساعت 11:55

ماشاء اللہ بہت خوبصورت لکھا گیا ہے ۔
اگر مزید شواہد پیش کئے جاتے کہ انہوں نے اشعار میں قرآن مجید سے کیسے استفادہ کیا ہے ۔اور قرآن مجید ان کے اشعار میں کیسے جلو افروز ہے

برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد