دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری
دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری

اقبال رح کا فلسفہ خودی اور بیخودی

اقبال رح کا فلسفہ خودی اور بیخودی                غلام عباس مرزا

علامہ اقبال کا نام لیتے ہی جو پہلا خیال ہمارے ذہن میں آتا ہے وہ یہی ہے کہ وہ ایک بہت بڑے شاعر تھے۔ لیکن یہ خیال تب تک نامکمل ہی رہتا ہے جب تک ہم یہ نہیں سوچ لیتے کہ اقبال صرف ایک بڑے شاعر ہی نہیں تھے، بلکہ وہ ایک بہت بڑے مفکر بھی تھے۔ شاعر حساس لوگ ہوتے ہیں۔ جو وہ محسوس کرتے ہیں اسے شاعرانہ فنکاری کے ساتھ بیان کر دیتے ہیں۔   لیکن اقبال جس گہرائی کے ساتھ محسوس کرتے تھے اس سے کہیں گہرائی کے ساتھ سوچ بھی سکتے تھے۔ ان کا کلام پڑھ کر بعض اوقات یوں لگتا ہے جیسے اقبال کے افکار ان کی شاعرانہ فنکاری سے کہیں اہم ہیں۔   ایک مفکر کی حیثیت سے اقبال نے زندگی کا جو فلسفہ پیش کیا ہے اس میں انسان کی انفرادی اور اجتماعی دونوں حیثیتوں کی تکمیل کا خیال رکھا گیا ہے۔ اس طرح اقبال کے فلسفہ حیات میں ایک توازن پایا جاتا ہے، ورنہ کچھ لوگ فرد کو اہم مانتے ہیں اور کچھ  جماعت کو۔فلسفہ حیات کا یہ توازن اور تناسب ہی شاید فکر اقبال کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ اقبال نے اپنے ان نظریات و خیالات کے اظہار کے لیے دو اصطلاحات استعمال کی ہیں اوّل “خودی” اور دوئم “بے خودی”۔

 

خودی:۔

 

عام طور پر خودی سے تکبر اور غرور مراد لی جاتی ہے، لیکن اقبال نے لفظ خودی کو اصطلاحی معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اور اپنی فارسی کتاب “اسرار خودی” اور اردو نظم “ساقی نامہ” اور دیگر شاعری میں اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ماہرین نے اقبال کی اس اصطلاح کی تشریح میں بہت لمبے چوڑے تجزیے کئے ہیں۔ بہرحال ہم کہہ سکتے ہیں کہ اقبال نے خودی سے خود شناسی اور خود آگاہی مراد لی ہے۔ یعنی اپنی ذات اور اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کی پہچان کرنا۔ اپنی اہمیت کا احساس پیدا کرنا زندگی کے معاملات میں غیرت اور خوداری کا مظاہرہ کرنا۔ اقبال کے نزدیک خدا کی پہچان کے لیے خود کو پہچاننا ضروری ہے۔ ضرب کلیم کی نظم افرنگ زدہ میں دہریت کی طرف مائل نوجوانوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں

 

تری نگاہ میں ثابت نہیں خدا کا وجود

مری نگاہ میں ثابت نہیں وجود ترا

وجود کیا ہے؟ فقط جوہر خودی کی نمود

کر انپی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا

 

خود کو پہچاننے سے مراد یہ نہیں ہے کہ کوئی شخص یہ جان لے کہ اس کا نام و نسب کیا ہے، وہ کس نسل سے ہے، اس کے آباو اجداد کہاں کے رہنے والے تھے۔ بلکہ اس سے مراد یہ ہے آدمی اپنی اہمیت کو سمجھے وہ یہ جاننے کی کوشش کرے کہ وہ کس مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے، اسے کون کون سی قابلیتیں عطا ہوئی ہیں اور وہ ان سے کیا کام لے سکتا ہے۔ اقبال کے نزدیک اپنی صلاحیتوں کی پہچان اور ان کا اظہار(عمل) ہی زندگی ہے۔ اور ذوق نمود کے بغیر زندگی کچھ نہیں بلکہ موت ہے۔

 

ہر چیز ہے محو خود نمائی

ہر ذرہ شہید کبریائی

بے ذوق نمود زندگی موت

تعمیر خودی میں ہے خدائی

 

اپنے وجود کا احساس تو ہر شخص کو ہوتا ہے لیکن جب آدمی کے دل میں بلند مقصد کے حصول کی آرزو پیدا ہو جاتی ہے تو اس کی خودی بیدار ہو جاتی ہے۔ اقبال کے نزدیک تب اس شخص کو اپنی خودی کی تعمیرو تربیت کرنی چاہیے یعنی ان چیزوں سے بچنا چاہیے جن سے خودی کمزور ہوتی ہے۔ جیسے سوال کرنے سے، دوسروں سے مانگنے اور محتاجی سے خودی کمزور ہوتی ہے۔ جبکہ عشق سے خودی مضبوط ہوتی ہے۔ عشق سے مراد مرد اور عورت کی محبت نہیں بلکہ بلند مقصد کے حصول کی شدید آرزو ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اقبال کی تمام شاعری لفظ خودی کے گرد گھومتی ہے تو میرے خیال سے بے جا نہ ہو گا۔

 

بے خودی

بے خودی کے لفظی معنی تو مدہوشی یا بے خبری کے ہیں لیکن “خودی” کی طرح اقبال کے ہاں “بے خودی” کا بھی خاص مفہوم ہے۔ جب کوئی فرد اپنی خودی کی تعمیر و تکمیل کر لیتا ہے تو اسے چاہیے کہ اپنی صلاحیتوں کو اپنی جماعت کے لیے استعمال کرے۔ جب فرد اپنی جماعت سے اپنا رابطہ استوار کر لیتا ہے تو وہ خودی سے بے خودی کی منزل میں داخل ہو جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں فرد اور ملت(قوم) کے درمیان رابطے کے کچھ اصول اور قوانین ہوتے ہیں ان رابطوں، اصولوں اور قوانین کو اقبال نے بے خودی سے تعبیر کیا ہے۔ علامہ اقبال نے فرد کو شاخ اور جماعت کو درخت سے تشبیہ دی ہے شاخیں اگر درخت سے علیحدہ ہو جایں تو ان پر پھل پھول نہیں آ سکتے۔

 

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں

 

اقبال کے نزدیک جس قدر فرد کی اہمیت ہے اسی قدر اس کی جماعت اور جماعت سے فرد کے رشتے کی اہمیت ہے۔ اقبال نے اپنی کتاب “رموز بے خودی” میں قوم کی اجتماعی زندگی کے مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔آج ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر جس طرح زوال کا شکار ہیں ہمیں اقبال کے افکار سے علمی استفادہ حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

 

http://www.abbaspk.com/blog/%D8%A7%D9%82%D8%A8%D8%A7%D9%84-%DA%A9%D8%A7-%D9%81%D9%84%D8%B3%D9%81%DB%81-%D8%AE%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A8%DB%92-%D8%AE%D9%88%D8%AF%DB%8C/

 

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد