دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری
دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری

علامہ اقبال ؒ کی عظمت کا راز

علامہ اقبال ؒ کی عظمت کا رازلیفٹینٹ جنرل (ر) عبدالقیوم ـ

انیسویں صدی میں ہندوستان سمیت دنیا کے بہت سارے ممالک پر انگریزوں اور فرانسیسیوں کا قبضہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انسیویں صدی اپنا آخری سانس لینے کیساتھ ہی بہت ساری تلخیاں بیسویں صدی کو ورثے میں دے گئی جس کی بدولت بعد میں پہلی اور پھر دوسری جنگ عظیم وقوع پذیر ہوئی جو دنیا کیلئے تباہ کن تھیں لیکن انیسوی صدی نے جاتے جاتے بیسویں صدی کی گود میں ایک انمول ہیرہ بھی ڈالا جو صدیوں میں نہیں بلکہ ہزاروں سالوں میں پیدا ہونیوالے23 سالہ علامہ اقبالؒ تھے

 جو ایک عظیم مفکر ناقابل یقین بصیرت والے منفرد شاعر، پائے کے وکیل، دیانتدار اور اصول پسند سیاست دان، بہت بڑے ریفارمر اور ایک وژن دار اسلامی سکالر تھےعلامہ اقبالؒ نے پاکستان کا خو اب دیکھا اور ہم نے انکے خواب کی تعبیر دیکھی لیکن بدقسمتی سے پچھلے تریسٹھ سالوں سے ملک کی باگ ڈور زیادہ تر ان عسکری اور غیر عسکری آمروں کے ہاتھوں میں رہی جو سیاستدان تو شاید تھے یا بن گئے لیکن قائدین یا State person کے اعلیٰ ترین دیانتداری، اصول پرستی اور بے داغ کردار کے اوصاف سے بالکل عاری رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ملک ٹوٹ گیا اور پھر بھی ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔آج بھی حاکمیت ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو ریاستی اداروں میں قومی میرٹ کو توڑ کر دھڑا دھڑ اپنے اپنے حلقوں سے سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں کر رہے ہیں تاکہ کل وہ اس حلقے سے پھر جیت کر قوم کا خون چوسیں خواہ پرسوں تک اللہ نہ کرے، بچی کھچی پاکستانی ریاست کا علم سرنگوں ہی کیوں نہ ہو جائے۔ علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا :

 

"Nations are born in the hearts of poets they prosper and die in the hands of politicians."

یعنی قومیں شاعروں کے دلوں میں جنم لیتی ہیں اور سیاستدانوں کے ہاتھوں تباہ ہو جاتی ہیں۔

9 نومبر 1877ء میں علامہ اقبال پیدا ہوئے تھے انکے یوم ولادت کے سلسلے میں ایک تقریب 6نومبر کو اسلام آباد کلب میں منعقد کی گئی جس کا انتظام بیرسٹر کوکب صاحب نے کیا اور راقم کو مہمان خصوصی کے طور پر دعوت دی جس کو میں بہت بڑا اعزاز سمجھتا ہوں اس تقریب میں ایک تیرہ چودہ سالہ بچی نے اپنی تقریر میں یہ سوال اٹھایا کہ علامہ اقبالؒ کی عظمت کا راز کن عناصر میں پنہاں تھا اور یہ کہ آج علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ جیسے دیانتدار، اہل اور اصول پرست قائدین پاکستان میں تو کیا پوری مسلم دنیا میں کیوں کہیں بھی نظر نہیں آتے؟ بچی کے اس بہت ہی اہم سوال کا جواب مجھے مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کی کتاب ’’نقوش اقبال‘‘ میں نظر آیا جو فوج کے سروسز بک کلب نے 22 سال پہلے 1988ء میں ہمیں اس وقت دی تھی جب میں کرنل تھا۔ وہ کتاب آج بھی میری ذاتی لائبریری میں موجود ہے۔ اس کتاب میں مولانا علی ندوی نے علامہ اقبالؒ کی عظیم الشان شخصیت کی تخلیق میں جن اہم ترین عناصر کا ذکر کیا وہ کچھ یوں ہیں۔

-1پہلا عنصر علامہ اقبال کا مضبوط ’’ایمان و یقین‘‘ بتایا گیا اور کہا گیا کہ یہی انکی طاقت و قوت اور حکمت وفراست کا منبع اور سرچشمہ تھا۔

-2علامہ اقبال کی قلندر صفت شخصیت کی تخلیق میں دوسرا عنصر اللہ تعالیٰ کی عظیم کتاب قرآن کریم کا گہرا مطالعہ تھا۔ وہ صبح کی نماز کے بعد قرآن کا باقاعدہ مطالعہ فرماتے اور انکے والد صاحب نے علامہ اقبال کیمطابق ان کو یہ فرمایا تھا کہ قرآن کریم کو معنوں کے ساتھ ایسے پڑھو جیسے یہ آپ پر ہی نازل ہو رہا ہے۔

-3تیسرا عنصر علامہ اقبال کا نبی کریمؐ کے ساتھ بے پناہ لگائو اور عقیدت کا تھا کہا یہ گیا کہ حضرت محمدؐ کا نام آتے ہی ان کی آنکھیں پرنم ہو جاتی تھیں۔

-4علامہ اقبال کی شخصیت کی تعمیر میں چوتھا عنصر ان کا عرفان نفس تھا چونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان بھی یہی ہے کہ ’’جس نے اپنے نفس کو پہچانا ‘اس نے اپنے رب کو پہچان لیا‘‘ اسی لئے علامہ اقبال فرماتے ہیں؎

اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی

تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

قارئین! عرفان نفس ہی دراصل خودی ہے جو انسانوں کو اسرار شہنشاہی سکھاتی ہے‘ علامہ اقبال کہتے ہیں؎

بس یہی ہے ساقی متاعِ فقیر

اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر

اور پھر فرمایا؎

میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے

خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر

آج ہم آخرت کی سوچ سے بے نیاز لوٹ کھسوٹ میں ایسے مبتلا ہیں جیسے کل نہیں آنیوالی یہ مومن کی نہیں بلکہ کافر کی شناخت ہے ان رویوں سے قومیں ترقی نہیں کر سکتیں۔ علامہ فرماتے ہیں؎

کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے

مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق

میں نے طالبات کو تلقین کی کہ رات کے بعد دن کی روشنی ضرور آتی ہے اسلئے مشکلات کے بعد اللہ کے کرم سے بھلے دن ضرور آئینگے۔ بقول علامہ اقبالؒ؎

اے مسلم دل خستہ مصائب سے نہ گھبرا

خورشید نکلتا ہے سدا پردۂ شب سے

دراصل ملک کو ان مشکل ترین حالات سے نکالنے کیلئے ہر پاکستانی کو نیا کردار ادا کرنا ہے۔ حکومت کے کندھوں پر بھی بہت بھاری ذمہ داری ہے جس کو نبھانے کیلئے ان کو پوری قوم کی مدد درکار ہے۔ جو ہم سب کو دیانتدارانہ طور پر دینی چاہئے۔ حکومت کی کوتاہیوں کی نشاندہی تو ضرور ہو لیکن ساتھ یہ بھی خیال رکھا جائے کہ میڈیا کی آزادی کو ہم غلط طور پر استعمال ہونے کی حوصلہ شکنی بھی ضرور کریں۔

ذرائع ابلاغ کے مالکان اپنے اداروں میں صرف ان لوگوں کو جگہ دیں جو نہ صرف ایماندار اور حق پرست ہوں بلکہ ان میں اتنی فہم و فراست اور علم بھی ہو کہ وہ ملک کے اندرون حالات اور بیرونی خطرات کا قومی مفادات کو ذہن میں رکھ کر صحیح تجزیہ کرنے کے بھی اہل ہوں۔ علامہ اقبال نے اس سلسلے میں بھی اپنی دانشوری کے موتی ہم میں ان الفاظ میں بکھیرے ہیں؎

آزادی افکار سے ہے ان کی تباہی

رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ

ہو فکر اگر خام تو آزادی افکار

انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ

قارئین! علامہ اقبالؒ کی یاد میں لکھے گئے اس کالم کے آخر میں صرف یہ عرض کرونگا کہ صدق دل سے اگر ہم اپنے گریبانوں میں جھانک کر اپنا احتساب علامہ اقبالؒ کے کلام کی روشنی میں خود کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنے پیارے وطن پاکستان کو جو ہماری پہچان ہے عظیم تر بلندیوں تک نہ لے جا سکیں لیکن علامہ اقبالؒ کا آپ یہ شعر ضرور ذہن میں رکھیں؎

خرد نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل

دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں

اور ساتھ ہی مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کا یہ تجزیہ بھی نہ بھولیں کہ علامہ اقبالؒ کی عظیم شخصیت کی تخلیق میں اہم عناصر یعنی پکا یقین اور ایمان، قرآن کریم کی حکمتوں کا گہرا مطالعہ نبی کریمؐ سے والہانہ پیار اور عقیدت اور عرفان نفس یا خود شناسائی کا مرکزی کردار تھا۔ اور اسی میں انکی عظمت کا راز پنہاں تھا اور ان کا اپنے صنم یعنی اللہ کی ذات سے معرفت کا یہ حال تھا کہ علامہ فرماتے ہیں؎

میں جو سربسجدہ ہوا کبھی تو زمین سے آنے لگی صدا

تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد