دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری
دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری

کلام اقبال تاریخی ادوار کے آئینہ میں ( حصہ دوم)

کلام اقبال تاریخی ادوار کے آئینہ میں ( حصہ دوم( تحریر : محمودالحق

شاعری کا تیسرا دور 1908 تا 1923

علامہ صاحب کے شاعری کے تیسرے دور میں گورا راج نے 1911 میں ہندوؤں کی مخالفت کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے تقسیم بنگال کو منسوخ کر دیا ۔ پھر 1913 میں مسجد شہید گنج کانپور کا واقعہ بہت اہمیت کا حامل تھا ۔ جس نے مسلمانوں کو اپنے حقوق کے تحفظ کی تحریک میں بنیادی اور کلیدی کردار ادا کرنے کی طرف پہلا قدم بنا دیا ۔ اور 1914 میں پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوا ۔ جس میں ملت اسلامیہ کے مرکز خلافت عثمانیہ ترکی نے جرمنی اور جاپان کے ساتھ شامل ہوکر دنیا کی اتحادے ممالک کے خلاف صف آرا ہوا ۔ 

   برطانوی حکومت کے زیر اثر ہندوستان بھی بالواسطہ یا بلا واسطہ سلطنت عثمانیہ ترکی کے خلاف جنگ میں شامل ہوا ۔ مسلمان جسے اپنا اسلامی مرکز سمجھتے تھے وہ اس سے پہلے ہی یورپ کے مرد بیمار کا مقام پا چکا تھا ۔اس جنگ کی وجہ سے آخری سانسوں پہ چلا گیا ۔مسلمان ترکی سے دلی وابستگی رکھتے تھے ۔اور اس جنگ میں ترکی کا کردار اتنا اہم نہیں تھا مگر انجام بہت اہم تھا ۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر جس طرح ترکی کے حصے بخرے کر کے بندر بانٹ کی گئی ۔ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے درد اور اذیت کا باعث تھی ۔اور اس جنگ کے خاتمے کے بعد ہی ہندوستان کے اندر انتہا پسند تنظیموں کا اثر ورسوخ بڑھتا چلا گیا ۔جو مسلمانوں سے مفاہمت کی بجائے مخاصمت کی روش پر عمل پیرا تھیں ۔سیاسی جماعتیں سیاسی داؤ پیچ سے اس مسئلے کے حل میں کوشاں تھیں ۔

علامہ اقبال اپنی اس فکر کو اشعار کی زبان میں مجلسوں میں بیان کرتے ۔ اور قوم کے اندر نئی و ولولہ کو پیدا کرنے کی تحریک بنے ۔ ۔شعور کی بیداری اور تحریکوں کے آغاز نے قوم میں جو نئی روح پھونکی ۔ تو قومیں اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے آواز بلند کرتی چلی گئیں ۔ جوں جوں منزل قریب آتی گئی فاصلے بڑھتے چلے گئے اور راستے جدا ہوتے چلے گئے ۔
علامہ صاحب کی شاعری میں وہ تمام اثرات جو ان کی دلی کیفیت کے غماز تھے نمایاں نظر آتے ہیں ۔
بلاد اسلامیہ علامہ اقبال کی وہ نظم ہے کہ جس میں انہوں نے نہایت خوبصورت پیرائے میں پرچم اسلامی کی سر بلندی کی داستان بیان کر دی اور ان کا مکہ معظمہ و مدینہ منورہ سمیت اسلام سے عقیدت عشق کا اظہار پڑھنے کے لائق ہے۔
سرزمیں دلی کی مسجود دل غم دیدہ ہے
ذرے ذرے میں لہو اسلاف کا خوابیدہ ہے
پاک اس اجڑے گلستاں کی نہ ہو کیونکر زمیں
خانقاہ عظمت اسلام ہے یہ سرزمیں
ہے زمین قرطبہ بھی دیدہء مسلم کا نور
ظلمت مغرب میں جو روشن تھی مثل شمع طور

مسلم ثقافت و تہذیب کی بدولت عالم دنیا میں عَلم اسلام کی سر بلندی کا ذکر بار بار کرتے ہیں اور گورستان شاہی میں بادشاہت کے متعلق ان کا انداز کلام کیا خوب ہے۔
خواب گہ شاہوں کی ہے یہ منزل حسرت فزا
دیدہء عبرت! خراج اشک گلگوں کر ادا
ہے ہزاروں قافلوں سے آشنا یہ رہ گزر
چشم کوہ نور نے دیکھے ہیں کتنے تاجور
اس نشاط آباد میں گو عیش بے اندازہ ہے
ایک غم ، یعنی غم ملت ہمیشہ تازہ ہے
دہر کو دیتے ہیں موتی دیدہء گریاں کے ہم
آخری بادل ہیں اک گزرے ہوئے طوفاں کے ہم
ہیں ابھی صد ہا گہر اس ابر کی آغوش میں
برق ابھی باقی ہے اس کے سینہء خاموش میں

علامہ اقبال نے اپنی ابتدائی شاعری میں ترانہء ہندی لکھا تھا مگر برصغیر کی بدلتی سیاسی صورتحال میں ان کی شاعری میں مسلم قومیت کا رنگ نمایاں ہوتا چلا گیا ۔ جب وہ 1908 میں یورپ سے لوٹے تو ہندوستان میں تقسیم بنگال کو لے کر ہندوؤں نے واویلہ مچارکھا تھا کیونکہ مسلم اکثریتی مشرقی بنگال ( موجودہ :بنگلہ دیش) صوبہ بننے سے مسلم ترقی اور اکثریتی صوبہ ہندو سے برداشت نہیں ہو رہاتھا ۔ اور آخر کار گورا حکومت نے ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے اور 1911 میں تنسیخ تقسیم بنگال ہو گئی ۔ پھر ان کا رحجان شاعری میں ہندوستان کے ساتھ مسلمان کی طرف بہت نمایاں نظر آتا ہے ۔ جیسے ان کا یہ ترانہ ملی ملاحظہ فرمائیں ۔

چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم ، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا

یہ وہ دور ہے جب ان کی شاعری میں انسانیت ناطے اشعار کے کہنے کا مزاج بدل چکا تھا ۔ہندوستان کومسلم اسلاف کا امین قرار دیتے تھے ۔ان کے نزدیک بادشاہت کے خاتمے سے ہندوستان فتح ہوا تھا مسلمان نہیں ۔ اسی فکر کو انہوں نے جگانے کی کوشش کی ۔ جو بار بار اشعار کی صورت میں مسلم قوم میں اس جزبہ کو پیدا کرنے کا سبب ہو ئی۔مثلا ان کے کلام وطنیت (یعنی وطن بحیثیت ایک سیاسی تصور کے( میں ان کا اسلوب بیان قومیت کی تعریف یوں کرتا ہے ۔
گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے
اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے
تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے
خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت اسلام کے جڑ کٹتی ہے اس سے

مسلمان قوم جس مشکل کا شکار تھی ۔طاقت کا توازن بگڑنے سے حاکم محکومی کے اس مقام پر جا پہنچے جہاں انہیں معاشی ومعاشرتی نا ہموار سماج کے ساتھ ساتھ غم روزگار کے بھی لالے تھے ۔ کئی دہاہیوں سے انہیں انگریزی تعلیم کے حصول کی طرف راغب کیا جارہا تھا ۔ انگریز بہادر کے ساتھ ساتھ ہندو صدیاں محکومی کا بدلہ انگریز کے کندھوں پر چڑھ کر مسلمانو ں سے لینا چاہتے تھے ۔ علامہ اقبال کا شکوہ بھی آرزدہ دل مسلمان کی پکار تھی ۔
کیوں زیاں کار بنوں ، سود فراموش رہوں
فکر فردا نہ کروں محو غم دوش رہوں
نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں
ہے بجا شیوہء تسلیم میں مشہور ہیں ہم
قصہ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
اے خدا! شکوہء ارباب وفا بھی سن لے
خوگر حمد سے تھوڑا سا گلا بھی سن لے
تھی تو موجود ازل سے ہی تری ذات قدیم
پھول تھا زیب چمن پر نہ پریشاں تھی شمیم

جسٹس جاوید اقبال اپنی کتاب میں والد محترم کے متعلق لکھتے ہیں کہ علامہ صاحب جب واپس لوٹے تو انہیں ابتدا میں یورپ میں گزارے گئے اپنے دن یاد آتے رہے ۔جدید تعلیم سے آراستہ شاعری میں کہنہ مشق اقبال اس وقت کی سیاست کے لئے انتہائی موضوع اوصاف کے مالک تھے ۔مگر پرواز کی رغبت نہیں تھی تو خود کو کچھ اس انداز میں نصیحت فرماتے ہیں ۔
میں نے اقبال سے از راہ نصیحت یہ کہا
عامل روزہ ہے تو اور نہ پابند نماز
تو بھی ہے شیوہ ارباب ریا میں کامل
دل میں لندن کی ہوس ، لب پہ ترے ذکر حجاز
جتنے اوصاف ہیں لیڈر کے ، وہ ہیں تجھ میں سبھی
تجھ کو لازم ہے کہ ہو اٹھ کے شریک تگ و تاز
غم صیاد نہیں ، اور پر و بال بھی ہیں
پھر سبب کیا ہے ، نہیں تجھ کو دماغ پرواز

مسلمان نوجوان جس دور سے گزر رہے تھے وہ انہیں جدید دنیا سے روشناس کرانے میں ایک اہم سمت چل رہا تھا ۔مشینی ترقی سے معاشرتی قدریں اکثر کمزور پڑ جاتی ہیں ۔اور یہی اس دور کا خاصہ تھا کہ نوجوانوں میں حقوق آزادی کی اُمنگ کی بجائے عیش ترنگ کی کیفیت طاری تھی ۔ جسے جنجھوڑنے کی ضرورت تھی ۔ علامہ صاحب نے خطاب بہ جوانان اسلام میں اسی پیغام کو باور کروایا ۔
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سر دارا
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار وہ کردار ، تو ثابت وہ سےارا
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

اس کے باوجود کہ حالات مسلمانوں کے حق میں بہتر نہیں تھے وہ مسلمانوں کے استقلال و نیت خلوص پر یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے کلام مسلم (جون1912ء( میں ایسے اظہار کیا ۔
آشکارا ہیں مری آنکھوں پہ اسرار حیات
کہہ نہیں سکتے مجھے نومید پیکار حیات
کب ڈرا سکتا ہے غم کا عارضی منظر مجھے
ہے بھروسا اپنی ملت کے مقدر پر مجھے

شکوہ لکھنے پر انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے جواب شکوہ لکھ کر تمام نقادوں ، معترضین کو لا جواب کر دیا کہ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے ۔

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں’ طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
ہم تو مائل بہ کرم ہیں’ کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے’ رہر و منزل ہی نہیں
تربیت عام تو ہے’ جوہر قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی’ یہ وہ گل ہی نہیں
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں

1911
میں تنسیخ بنگال نے مسلمانوں میں انتہائی مایوسی پیدا کر دی تھی ۔ انہیں اپنا مستقبل تاریک نظر آ رہا تھا ۔ ایک طاقت کا شاہسوار تو ایک کوڑا تھا ۔ مسلمان بیچارگی کی تصویر بنا اچھے مستقبل کی امید بھی کھوتا جا رہا تھا ۔ایسے میں علامہ صاحب کا یہ کلام نوید صبح (1912ء) حوصلہ و ہمت بندھانے کی نوید تھا ۔

آتی ہے مشرق سے جب ہنگامہ در دامن سحر
منزل ہستی سے کر جاتی ہے خاموشی سفر
محفل قدرت کا آخر ٹوٹ جاتا ہے سکوت
دیتی ہے ہر چیز اپنی زندگانی کا ثبوت
چہچاتے ہیں پرندے پا کے پیغام حیات
باندھتے ہیں پھول بھی گلشن میں احرام حیات
مسلم خوابیدہ اٹھ ، ہنگامہ آرا تو بھی ہو
وہ چمک اٹھا افق ، گرم تقاضا تو بھی ہو

صرف قوم کوخوابیدگی سے اُ ٹھانے پر ہی اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے لئے دعا بھی نکلتی ان کے دل سے ۔
یا رب! دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے ، جو روح کو تڑپا دے
پھر وادی فاراں کے ہر ذرے کو چمکا دے
پھر شوق تماشا دے، پھر ذوق تقاضا دے

مغربی دنیا کے زیر اثرنوجوان مسلمان اپنی ثقافت و تہذیب بھی بھولتے جارہے تھے۔ قوم کی قسمت کا فیصلہ نئی نسل کے ہاتھ میں تھا جنہوں نے قیادت کی ذمہ داری کندھوں پر اُٹھانی تھی اور وہی نئی تہذیب کی رعنائی کے دلدادہ ہوتے جارہے تھے وہ اپنے کلام تہذیب حاضر میں اسی نقطہ کو واضح کرتے ہیں ۔
نئے انداز پائے نوجوانوں کی طبیعت نے
یہ رعنائی، یہ بیداری ، یہ آزادی ، یہ بے باکی
تغیر آگیا ایسا تدبر میں، تخیل میں
ہنسی سمجھی گئی گلشن میں غنچوں کی جگر چاکی

علامہ اقبال مسلمانوں کو ان کے مذہب پر کاربند رہنے کو ان کی بحیثیت ملی تشخص قائم رکھنے کی بندش سمجھتے تھے ۔ مسلمانوں کا طرز حیات جدا ہے اور اسے چھوڑنے سے سارے ناطے رشتے مذہب کادھاگہ کھلنے سے ملت کےموتی بکھرنے کی مثل ہو جاتا ہے ۔ اسی پیغام کو انہوں نے اپنے کلام مذہب میں یوں بیان کیا ۔

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی

اور پھر انہیں اس امید کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ اگر وہ مذہب سے بیگانہ نہ ہوں تو ابھی بھی وقت ہاتھ سے نہیں چھوٹا ۔اس کے باوجود کہ قوم اپنا ماضی کھو چکی ہے۔لیکن انہیں اس بات سے غرض نہیں ہونی چاہیئے کہ انہوں نے زوال کا تاریک دور دیکھا ۔ بلکہ انہیں ملت میں پرو کر رہنا ہو گا ۔اور نئی زندگی کی صبح کا انتظار کرنا ہو گا ۔

ہے لازوال عہد خزاں اس کے واسطے
کچھ واسطہ نہیں ہے اسے برگ و بار سے
ملت کے ساتھ رابطہء استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے ، امید بہار رکھ!

علامہ صاحب کا یہ شعر!
نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
کبھی کبھار ایسے موقع پر پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے جہاں کسی کو یہ باور کروانا ہو کہ جناب ابھی صبر رکھیں ۔ آپ اس قابل نہیں کہ پرواز کر سکیں ابھی آپ میں مقابلہ کا دم نہیں ۔ لیکن جب میں نے اس شعر کو پورے مفہوم کے ساتھ پڑھا تو علامہ صاحب کا عشق حقیقی ابھر کر آنکھوں کے سامنے آ گیا ۔ایسے ہی نقادوں کے لئے یہ اگلا شعر!
پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی
کہیں پھر کوئی نقاد نہ آ دھمکے کہ چیلنج ہو گیا اور علامہ صاحب کو جو میں خراج تحسین پیش کر رہا ہوں وہ بحث میں بدل جائے تو واپس موضوع کی طرف آتے ہیں اور ان اشعار کو پڑھتے ہیں ۔
نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی
بے خطر کود پڑا آتش نمردو میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

اسی طرح علامہ صاحب کا یہ شعر بھی زبان زد عام ہے اور کسی پر طنز کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔خاص کر اگر کبھی کوئی اچھا کام کی نیت کرے تو کہا جاتا ہے ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں
لیکن اگر پڑھتے جائیں تو انسان خود پڑھنے پڑ جاتا ہے کہ علامہ صاحب بہت بڑی بات کتنی آسانی سے کیسے کہہ گئے ۔ کہ پڑھتے جائیں تو مفہوم کیا سے کیا ہو جاتا ہے ۔
کبھی اے حقیقت منتظر نظر لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرم خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز میں
نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں،نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں
جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں

عقل میں تعبیر و تنقید تو دل سے عشق کا معاملہ قرار دیا جاتا ہے لیکن عشق حقیقی میں اظہار سے زیادہ اعمال کی بنیاد پر روح عمل سے آبیاری کی ضرورت ہوتی ہے جسے علامہ صاحب کچھ اس طرح سے بیان کرتے ہیں ۔
گرچہ تو زندانی اسباب ہے
قلب کو لیکن ذرا آزاد رکھ
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ

 

نظرات 1 + ارسال نظر
اقبال حیدر 1392/06/31 ساعت 00:32

کیا حسین کام ہے اور پوری ویب سایٹ کا جواب نہیں

برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد