دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری
دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری

علامہ اقبالؒ اور نظام تعلیم کی اسلامی تشکیل

علامہ اقبالؒ اور نظام تعلیم کی اسلامی تشکیل  پروفیسر ظفر حجازی

علامہ اقبال نے مغربی نظام تعلیم کے تحت پرائمری سے لے کر پی ایچ ڈی تک انھی مغربی تعلیم گاہوں میں تعلیم حاصل کی۔ ملکی اور غیرملکی معروف تعلیمی اداروں میں مسلم و غیر مسلم اساتذہ سے حصولِ علم کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مغرب کا یہ مادی، الحادی اور بے دین نظام تعلیم، بنی نوع انسان کے دینی عقائد اور مروت و اخلاق کے خلاف ہے۔ 

 تعلیم پیر فلسفۂ مغربی ہے یہ

ناداں ہیں جن کو ہستی غائب کی ہے تلاش
محسوس پر بِنا ہے علومِ جدید کی
اس دور میں ہے شیشہ عقائد کا پاش پاش

(مذہب… بانگ ِدرا)

وہ مغربی نظام تعلیم کے انسانیت کش اثرات و مظاہر سے پوری طرح باخبر تھے۔ انہیں احساس تھا کہ عصر حاضر کا نظام تعلیم اور مغربی فکریات کا سارا نظام پیغمبرانہ دعوت و تعلیم سے یکسر متعارض ہے۔
انہوں نے جدید تہذیب اور عصرِ حاضر کے نظام تعلیم کے اساسی تخریبی عوامل کا کھوج لگایا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مغربی فکر انکارِ خدا پر بنی ہے۔ مغربی فلسفیوں نے جن افکار و نظریات پر جدید تہذیب استوار کی ہے ان کی کوئی تعلیم وحی کی ہدایت پر نہیں ہے۔ یہ غیرالہامی افکار بنی نوع انسان کو مشینوں اور آلاتِ حرب سے مالا مال کرسکتے ہیں لیکن انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی روحانی تسکین کا سامان نہیں کرسکتے۔ آج کا مغربی علوم کا ماہر سورج کی شعاعوں کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرسکتا ہے۔ یہ ایٹمی توانائی کا مالک ہوسکتا ہے۔ یہ چاند اور مریخ کی تسخیر کرسکتا ہے لیکن انسانی روح کی تہذیب، ضمیر کی تسکین، اخلاقی پاکیزگی اور تزکیہ نفس نہیں کرسکتا۔ اس مروجہ مغربی نظام تعلیم نے مسلمان طالب علم سے اس کی انا چھین لی ہے۔ مسلمانوں کی خودی کا اضمحلال بھی زیادہ تر اسی نظام تعلیم کے اثرات کے باعث ہوا ہے۔
اقبال چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو ایسا نظام تعلیم تشکیل دینا چاہیے جو ان کے دینی عقائد کو استحکام بخشے اور اسلامی اقدار کے فروغ کا باعث ہو۔ اس اسلامی نظام تعلیم کے زیراثر ملّتِ اسلامیہ کے طلبہ اپنی تحقیقی صلاحیتوں کو اس پاکیزہ عقیدۂ توحید کی روشنی میں پروان چڑھائیں جس سے ان کی دنیا اللہ کی نعمتوں سے معمور ہو اور آخرت میں بھی کامیابی حاصل ہو۔ اس مقصد کے لیے تمام سائنسی اور معاشرتی علوم، معاشیات، تاریخ، ادب و فلسفہ، سیاسیات و عمرانیات، نفسیات و ماحولیات وغیرہ کی اسلامی بنیادوں پر تشکیلِ نو کی جائے۔ لادین مغرب کی سیکولر اپروچ پر مبنی جو مضامین ہماری جامعات میں پڑھائے جاتے ہیں، انہیں قرآنی نقطہ نظر سے خوب جانچ کر پڑھایا جائے۔
صدیوں سے دنیا میں مختلف نظریات و افکار بنی نوع انسان کی ذہنی و فکری تشکیل کررہے ہیں۔ ان میں بالخصوص مغربی ممالک کے تعلیمی فلسفیوں نے جو تعلیمی نظریات پیش کیے انہیں عمل کا موقع بھی ملا، تاہم وہ مختلف قسم کے isms بن کر کام کرتے رہے۔ ان کے معروف نظریات میں عقلیت پر مبنی فلسفے (Rationalist) اور (Idealist) نظریات ہیں۔ ان کے علاوہ اثباتیت (Positivism) اور مادیت کے نظریات ہیں۔ یہ تمام نظریات اور فلسفے مغربی نظام تعلیم کا حصہ بنتے رہے۔ انہی افکار پر وہ مضامین تشکیل پاتے ہیں جو جامعات و کلیات میں پڑھائے جاتے ہیں۔
علامہ اقبال مغربی افکار کی تردید کرتے ہیں۔ انہیں قرآن اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر مبنی نظام تعلیم ہی میں انسانی فلاح و بہبود پر یقین ہے۔ یہ بات اقبال کے افکار میں ابتدا ہی سے نظر آتی ہے۔ وہ اکبر کے اس خیال کے حامی ہیںکہ دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے۔ قومی کردار کی تشکیل کے لیے اقبال کے نزدیک مسلمانوں کی خودی کی مضبوطی ضروری ہے۔ موجودہ نظام تعلیم طلبہ پر مغرب کی مرعوبیت طاری کرتا ہے، طلبہ کے ذہنوں کو بیدار کرکے ایک اعلیٰ نصب العین کے لیے جدوجہدپر نہیں ابھارتا۔ اقبال کے نزدیک تعلیم کی غایت حقیقتِ کبریٰ یعنی توحید باری تعالیٰ کا دل و دماغ میں مضبوطی سے پیوست ہو جانا ہے۔ جو نظامِ تعلیم طلبہ کو اللہ کی معرفت عطا نہیں کرتا، وہ جہالت ہے۔ اس لیے اقبال کہتے ہیں کہ اجتہادی گہرائیوں کو دوبارہ حاصل کرکے فکرِ دینی کی ازسرنو تعمیر ضروری ہے۔
قیام پاکستان کی جدوجہد میں یہ روح کام کر رہی تھی کہ ایک ایسا ملک حاصل کیا جائے جہاں مسلمان اپنی دینی تعلیمات کو روبہ عمل لا سکیں۔ افسوس کہ یہ خواب آج تک شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ آج بھی جدید تعلیمی اداروں سے لاالہٰ الا اللہ کی صدا برآمد نہیں ہورہی۔ آج بھی نصابی کتب سے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، علامہ اقبالؒ اور قائد اعظمؒ کے بارے میں اسباق ختم کیے جارہے ہیں۔ اسلامی تاریخی ورثہ کے تحفظ کے بجائے اس کی تخفیف پر کمرباندھی جارہی ہے۔ آج بھی مغربی زبانوں کو قوم پر مسلط کیا جارہا ہے۔ آج بھی قرآن و سنت کی ابدی تعلیمات کی روشنی سے محروم مغربی دانش وروں کی کتب بغیر تنقیدی بصیرت کے پڑھائی جارہی ہیں۔ کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اس مملکت ِخداداد میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر مبنی نظام ِتعلیم رائج کیا جائے تا کہ اسلامی ریاست کے قیام کا مقصد پورا ہو اور بانیان ِپاکستان کی روح کو تسکین حاصل ہو۔

اور یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروّت کے خلاف
اس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے
قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد