دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری
دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری

علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اور مسئلہ ختم ِ نبوت :حقائق کی روشنی میں

مفتی محمد صادق حسین قاسمی کریم نگری  sadiq.taqi@yahoo.com
دانائے راز،شاعر ِ مشرق علامہ اقبالؒ(۱۸۷۷ء۔۱۹۳۸ء)کی شہرۂ آفاق شخصیت کی عظمت صرف اس لئے نہیں ہے کہ آپ ایک بلند پایہ شاعر، اور عظیم فلسفی ،اور مغربی علوم کے شناور تھے،بلکہ آپ کی ذات کو عالم اسلام میں مقبولیت اور خاص وعام میں یکساںجو محبوبیت حاصل ہوئی ہیں  

 اس میں آپ کا اصل کارنامہ یہ بھی ہے کہ آپ نے شاعری کے رنگ میں اسلام کی سچی ترجمانی،اور شاعرانہ اسلوب میں عقیدت و محبت ِ رسول کے جذبوں کو فروغ دیا ہے۔آپ نے خوابیدہ مسلمانوں کو بیدار کیا،اور خفتہ عزائم کو جگایا،اور ایک نئی حرارت ِایمانی مسلمان رگوں میں دوڑائی۔بلاشبہ آپ خاص اسلامی شاعر تھے اور آپ نے اپنے اشعار سے دین کی عظیم خدمت انجام دیں،اور عشق ِرسول کے جذبا ت سے مسلمانوں کو سرشارکیا،آپ کی فکر و نظر کا محور رسول ِ اکرمﷺ کی ذات ِ گرامی رہی،اور محبتِ رسول آپ کا سرمایۂ حیات ،قرآن کی تلاوت سے آپ وجد میں آجاتے ،اور تذکرۂ رسول سے آپ کی انکھیں اشک بار ہوجاتیں ،عشق و محبت میں ڈوب کرہی آپ نے یہ( اور اس طرح کے ان گنت) لافانی شعر کہا :
؎ کی محمد ؐسے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
ایک مرتبہ حکیم احمد شجاع آپ کے مکان پر تشریف لائے تو دیکھاکہ علامہ اقبال ؒ بہت زیادہ فکر مند اور بے چین ہیں،دریافت کیا تو فرمایااحمد شجاع میں یہ سوچ کر اکثر مضطرب اور پریشان ہوجاتا ہوکہ کہیں میری عمر رسولﷺ سے زیادہ نہ ہوجائے۔(علامہ اقبالؒ اور عشق ِ مصطفیؐ:از پروفیسر محمد سرور رفعت ،ماہانہ ضیائے حرم لاہور)
اردو کے صاحب طرز ادیب حضرت مولانا عبد الماجد دریابادیؒ(۱۸۹۲ء۔۱۹۷۸ء)نے” شکوہ اور “جواب ِ شکوہ” پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
“شکوہ” والااقبال ایک صاحب ِ حال سالک ہے” جواب شکوہ” والا اقبال ایک صاحب ِ مقام
عارف ہے۔پہلے کے قدم اقلیم دل کی وادیوں میں ،دوسرے کی نگاہ فضائے روح کی بلندؤں
میں۔(مولانا دریابادی ؒکے ادبی شہ پارے:۲/۲۴۱)
عالم ِ عرب میں اقبال کو متعار ف کروانے والے اور آپ کے اشعار سے بے پنا ہ انسیت رکھنے والے اردو و عربی کے ادیب مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ (۱۹۱۳ء۔۱۹۹۹ء)اپنی مشہور کتا ب نقوشِ اقبال(جو عربی میں روائع اقبال کے نام سے مقبول ہے) میں رقم طراز ہیں کہ:
میری پسنداور تمام توجہ کا مرکز وہ اس لئے بھی ہیں کہ وہ بلند نظر،محبت اور ایمان وعقیدہ
کے شاعر ہیں۔ایک عقیدہ ،دعوت اور پیغام رکھتے ہیں۔۔۔۔وہ اسلام کی عظمت رفتہ
اور مسلمانوں کے اقبال گذشتہ کے لئے سب سے زیادہ بڑے فکر مند،تنگ نظر قومیت و
وطنیت کے سب سے بڑے مخالف اور انسانیت واسلامیت کے عظیم داعی ہیں۔
(نقوش ِاقبال:۳۴،لکھنؤ)
علامہ اقبال ؒ کے کلام کے شارح اور آپ کے فیض یافتہ پرفیسر سلیم چشتی نے علامہ سے اپنی وجوہات ِ محبت کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
چوتھی بات یہ ہے کہ اقبال اپنے سینہ میںسوز وگداز سے لبریز دل رکھتے ہیں،میں نے
بارہا دیکھاہے کہ کسی نکتہ کو سمجھاتے سمجھاتے بے اختیا رآبدیدہ ہوجاتے ہیں،سروردو عالمؐ
سے جوعشق ہے اس کی نظیر ابھی تک کسی گیسودراز میں نہیں دیکھی!!!!اقبال سوز عشق مصطفے ؐ
سے مالامال ہیں۔(اقبال اور ہم :۷۴مطبوعہ انجمن خدام دین لاہور)
یہ چند اقتباسات ہیں اس عظیم شاعر ِاسلام کے متعلق جو عقیدتِ رسول کے تصور کی منظر کشی کرتے ہیں ،ورنہ توعلامہ اقبالؒ کی پوری زندگی تب و تاب جاودانہ،اور محبت ِ رسول میں مضطربانہ میں گذری ہے،یہ دراصل تمہید ہے علامہ اقبال اور مسئلہ ختم ِ نبوت کو پیش کرنے کی ۔اس لئے کہ جس کی زندگی اس طرح اسلام اور رسول اکرمﷺ پر قربان تھی ،اور جس نے اپنے فکر و نظر،علم و عمل ،اورزبان و قلم،کواسلام کے تعارف،اہل ِایمان کو منزلِ حقیقی کی رہنمائی،مخالفین اسلام کابھر پور دفاع اپنی تعلیم و فلسفہ کی بنیاد پر کرنے میں لگایاہو،اورخشک و بنجر قلوب میں،مادیت اور مغربیت سے متاثرانسانوںمیں عقیدت اسلام و محبت ِ رسول کی چنگاریوں کو بھڑکایا ہو ،قرآن سے وابستگی پر امت کو ابھارا ہو،اور تعلیمات ِ قرآن پر امت کو کھڑا کرنے کی جس نے ہر ممکن تگ ودوکی ہو،اس کے بارے میں یہ تصور کیوں کر کیا جاسکتا ہے کہ عقیدۂ ختم ِ نبوت اس کی رگ و ریشہ میں سرایت کیا ہوا نہ ہو؟ لیکن جہالت یا عناد و بغض کی وجہ سے بعض لوگ ایسی عظیم شخصیتوں پر بے جا الزامات لگادیتے ہیں،اور متہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔چناں چہ اس سے قبل دہلی سے نکلنے والے ایک ہفت روزہ اخبار میں ایک صاحب نے بلاکسی علم و تحقیق کے یہ بھی لکھاتھا کہ:
قادیانیوں میںبڑے عالم وفاضل لوگ ہوئے ہیں۔حتی کے علامہ اقبال کے بارے میں
بھی کہا جاتا ہے کہ بہ باطن قادیانی تھے،اسی لئے حرمین شریفین کی زیارت نہیںکی۔
علامہ اقبالؒ جیسی شخصیت پر اس طرح کا بے بنیادالزام یقینا بڑی جہالت ہی پر مبنی ہوگا،ورنہ تو جس شخصیت کا رسولِ پاکﷺ سے والہانہ تعلق اور بے پناہ محبت میں اشعار کافی ہیں ،جس سے محبت ِ رسول جھلکتا ،اور وفور ِ شوق مچلتا دکھائی دیتا ہے۔ تو آئیے اس سلسلہ میں حقیقت ِحال سے آگہی حاصل کریں تا کہ اس عظیم شاعرِاسلام کے بارے دل کسی بھی شک و شبہ میں مبتلانہ رہے،اور جھوٹے الزامات لگانے والوں کو بھی فکر و احساس پیدا ہو کہ قلم کا استعمال کسی بھی انسان اور خاص کربڑی شخصیات کے بارے میں بہت محتاط رہے۔
علامہ اقبالؒ کا ابتدائی دور:
علامہ اقبال ؒجب۱۹۰۸؁ء میں جب یورپ سے اپنی تعلیم مکمل کرکے تشریف لائے اس وقت تک مرزا قادیانی کا انتقال ہوچکا تھا،اور مرزا کے حواریین علامہ کے ارد گردجمع ہو گئے،اور علامہ کو لبھانے کی کوشش کرنے لگ گئے،اور اپنی مجلسوں میں آپ کی علمی تقاریر سے استفادہ کرنے لگے، لیکن علامہ کبھی ان کے ہم خیال نہیں ہوئے بل کہ صرف اپنے تعلقات کی بنیاد پر اور اس وقت ان کے بعض سماجی خدمات کی بناء پر ان کے ساتھ شریک رہیں،اور آپ نے قادیانی گروہ کو شروع سے ایک سماجی خدمت گذارتنظیم کی نظرسے دیکھا،اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مرزا نے ابتداء میں ایک مناظر کی حیثیت سے اور آریوں ،اور عیسائیوں کے خلاف ایک مجادل کے روپ میں اپنے آپ کو ظاہر کیا ،جس کو جدید تعلیم یافتہ طبقہ جلد سمجھ نہیں سکا،علماء نے سب سے پہلے مرزائی فتنہ کو بھانپا اور اس کے خلاف صف آراء ہوئے،ان ہی لوگوں میںعلامہ اقبال ؒ بھی تھے،جنہوں نے نہ اب تک مرزائی کتا بوں کا مطالعہ کیا تھا ،اور نہ مرزائیوں کو زیادہ قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔چناں چہ ردّ ِقادیانیت کے ابتدائی اورمعروف مصنف پروفیسر الیاس برنیؒ لکھتے ہیں کہ:
“کیفیت یہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی صاحب نے اپنے مذہب کو جس شکل میں پیش کیاوہ مدتوں
ابہام التباس اور تضاد کی بدولت چیستان اور معمہ بنارہا۔۔۔ان ہی الجھنوں کے بدولت مدت
تک مسلمان متردد رہے کہ بالآخر مرزا صاحب پر کیا حکم لگائیں۔بالخصوص جدید تعلیم یافتہ طبقے نے
حسن ظن کو مقدم رکھا لیکن قادیانی صاحبان نے اس حسن ظن سے دل کھول کر فائدہ اٹھایا،حتی کہ ان
کا اصلی مسلک اور حقیقی مقصد بخوبی واضح ہوگیا۔اور مسلمانوں کو ان کے اقوال وافعال سے بخوبی
ثابت ہوگیا۔چناں چہ ڈاکٹر سر محمد اقبال نے بھی جوحال میں انگریزی مضامین لکھے ہیں ،ان میں
افسوس کیا کہ مدت تک دھوکے میں رہے اور حال میں ان قادیانی تحریک کی پوری حقیقت کھلی”۔
(قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ:۶۰مجلس عالمی تحفظ ِ ختم ِ نبوت،ملتان)
ڈاکٹر سفیر احمد صاحب رقم طراز ہیں کہ:
“علامہ اقبال (۱۸۷۷ء۔۱۹۳۸ء)کا شمار بھی ان ہی موخر الذکر لوگوں میں شمار ہوتا ہے جنہوں
نے ایک عرصہ تک مرزا صاحب کی تحریروں کا مطالعہ نہ کیا ،علمائے کرام کی تنگ نظری کے شاکی
رہے اور مرزا صاحب کے پیروں کاروں کے ساتھ اپنے سماجی تعلقات کے تحت احمدی تحریک
سے اچھی توقعات وابستہ رکھیں”۔(اقبال اور قادیانیت:۶از ڈاکٹر بشیر احمد،مجلس علم و دانش،راولپنڈی)

یہ تاریخی حقائق علامہ اقبال ؒ کی ابتدائی زندگی کے ہیں جب کہ آپ نے فتنہ قادیانیت کو واضح طور پر نہیں دیکھا ،اور ایک رفاہی اور قوم کی خدمت گذار تحریک سمجھ کر انسانیت کی فلاح و بہبودی میں اپنی شرکت کو بھی مناسب محسوس کیا،ورنہ اقبالؒ غدارانِ دین و نبی کے ساتھ کسی لمحہ بھی طرف دار نہیں رہے ۔
علامہ اقبال ؒ اور حقیقت ِ قادیانیت کا انکشاف:
علامہ اقبال ؒ ابتداء میں چوںکہ قادیانیوں سے سماجی تعلقات رکھتے تھے،اسی بنیاد پر وہ کشمیر کمیٹی کے تحت فلاحی کاموں میں اپنا حصہ بھی ڈلواتے رہیں لیکن ۱۹۳۲ ء میں جب علامہ کو مرزا بشیر الدین محمود کے ساتھ کام کرنے کا اتفاق ہوا ،اور بہت قریب سے قادیانی ٹولہ کی فریب کاریوں کو دیکھے نے اور ان کی ملمع سازیوں سے واقف ہو نے موقع ملا،علامہ نے محسوس کیا کہ احمدی تحریک کشمیر کمیٹی کے نام پر،اور ہمدردی و خیر خواہی کے عنوان پر اپنے افکار و عقائد کی تبلیغ میں مصروف ہے۔جیسے ہی علامہ نے حقیقت ِ حال کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیافوری کمیٹی کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے ،دوسری طرف اسی زمانہ میں پروفیسر الیاس برنی صاحب کی کتاب “قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ” زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کر علمی و دینی حلقوں میںدادِ کمال حاصل کررہی تھی ،چناں چہ اس کتاب نے بھی اس فتنہ قادیانیت کو کھول کرعلامہ کے سامنے رکھ دیا، اورپھراپنی تحریروں میں بھر پور انداز میں ختم ِ نبوت کا دفاع بھی کیا ،اور عشق و محبت میںڈوب کر رسولِ کریم ﷺ سے اپنے والہانہ تعلق کا ثبوت بھی دیا۔آئیے تاریخی حوالوں سے اس انکشاف کو ملاحظہ کریں:
شکیل عثمانی صاحب تحریر فرماتے ہیں:
اقبال کو جب ۳۲ا۔۱۹۳۱ء کے دوران مرزا بشیر الدین محمود کے ساتھ آل انڈیا کشمیر کمیٹی میں کام
کرنے کااتفاق ہواتو انہوں نے اس کا مشاہدہ کیا کہ مسئلہ چاہے اجتماعی یا قومی کیوں نہ ہو ،قادیانی
اپنے گروہی مفادات کی سطح سے اوپر نہیں اٹھ سکتے اور وہ صرف اپنے امام کی اطاعت کے پابند ہیں
۔۔۔اسی سال پروفیسر الیاس برنی کی کتاب “قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ” شائع ہو ئی ،۔۔یہی کتاب
ہے جس سے اقبال قادیانیوں کے عقائد سے مکمل طور پر واقف ہوئے۔(اقبال اور قادیانیت:دیباچہ)
علامہ اقبال ؒ ہی کے الفاظ میں اب اس انکشاف کو ملاحظہ فرمائیے:
مجھے یہ تسلیم کرنے میں کو ئی باک نہیں کہ اب سے ربع صدی پیشتر مجھے اس تحریک سے اچھے
نتائج کی امید تھی۔۔۔۔لیکن کسی مذہبی تحریک کی اصل روح ایک دن میں نمایاں نہیں ہوجاتی
اچھی طرح ظاہر ہونے کے لئے برسوں چاہیئں۔۔۔۔ذاتی طور پر میں اس تحریک سے اس
وقت بیزار ہوا تھا جب ایک نئی نبوت بانی اسلام کی نبوت سے اعلی تر نبوت کا دعوی کیا تھا،اور
تمام مسلمانوں کو کافر قرار دیاگیا،بعد میںیہ بیزاری بغاوت کی حد پہنچ گئی۔جب میںنے
اس تحریک کے ایک رکن کو اپنے کانوں نے سے آں حضرت ﷺ کے متعلق نازیبا کلمات
کہتے سنا ۔درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔اگر میرے موجودہ رویہ میں کوئی تناقض ہے
تو یہ بھی ایک زندہ اور سوچنے والے انسان کا حق ہے کہ وہ اپنی رائے بدل سکے۔
(حرفِ اقبال:۱۱۲،لطیف احمد خان شیروانی،علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد،۱۹۸۴ء)
قادیانیت علامہ اقبالؒ کی نظر میں:
جب قادیانیت کی حقیقت اور اس کی شر انگیزی ، اسلام اور پیغمبرؐ اسلام کے خلاف دریدہ ذہنی علامہ اقبال ؒ کے سامنے آچکی ،تو علامہ اقبال ؒ نے اپنی صلاحیتوں کو ان غداران اسلام کے خلاف استعمال کرنی شروع کیں،اور اپنی تحریروں ،تقریروں ،مجلسوں ،میں دلائل و براہین اور اور حکیمانہ اشعار کے ذریعہ اور فکر و فلسفہ کے ساتھ قادیانیت کی اور ان کے افکار و نظریات کی تردیداوران کے عقائد کا ابطال کرنے لگے اسی کے چند اقتباسات آپ کے خطبات و تحریروں کے سلسلہ میں مستند مانی جانے والی کتاب حرفِ اقبال سے پیش ہیں۔علامہ فرماتے ہیں کہ:
اس طرح مسلمانانِ ہند یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ تحریک قادیانیت جو تمام دنیائے اسلام کو
کافر قرار دیتی ہیں اور اس سے معاشرتی مقاطعہ کرتی ہیں۔(حرف اقبال :۱۲۳)
۱۹۳۵ء میں علامہ کا ایک جوابی خط اخبار اسٹیٹمین میںشائع ہواتھاجس میںانہوںنے قادیانیوں کو دوٹوک انداز میں کہاکہ:
اوّلا :اسلام ایک دینی جماعت ہے ،جس کے حدود مقرر ہیںیعنی وحدت الوہیت
پر ایمان،انبیاء پر ایمان اور رسولِ کریم ؐکی ختم رسالت پرایمان۔
میری رائے میں قادیانیوں کے سامنے صرف دو راہیں ہیںیا تو وہ بہائیوں کی تقلید
کریں،یا پھر ختم نبوت کی تاویلیں چھوڑکر اس اصول کو اس کے پورے مفہوم کے
ساتھ قبول کرلیں،ان کی جدید تاویلیں محض اس غرض سے ہیں کہ ان کا شمار حلقہ
اسلام میں ہوتا رہے تاکہ انہیں سیاسی فوائد پہنچ سکیں۔
ثانیا:ہمیں قادیانیو ں کی حکمت علمی اور دنیا ئے اسلام سے متعلق ان کے رویے کو
فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ بانیٔ تحریک نے ملت اسلامیہ کو سڑے ہوئے دودھ
سے تشبیہ دی تھی اور اپنی جماعت کو تازہ دودھ سے۔(حرف اقبال:۱۱۸)
شہید ِ ختمِ نبوت حضرت مولانا یوسف لدھیانویؒفرماتے ہیں کہ :
علامہ مرحوم جدید تعلیم یافتہ طبقے میں پہلے شخص تھے جن کو فتنہ قادیانیت کی سنگینی نے
بے چین کر رکھا تھا۔ان کی تقریر و تحریر میں قادیا نی ٹولے کو”غدارانِ اسلام” اور
” باغیا ن محمد” سے یاد کیا جاتا تھا۔(علامہ اقبال او رفتنہ قادیانیت :۴۷۷متین خالد ،
مجلس عالمی تحفظ ختمِ نبوت ۔،ملتان)
مشہور ادیب اورتحفظ ختم ِ نبوت کے مردِ جاں باز شورش کاشمیریؒعلامہ کے ایک خط کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ :
(قادیانی مذہب کے خلاف) میں نے یہ مقالہ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ بہترین
نیتوں اور نیک ترین ارادوں میں ڈوب کر لکھا ہے تھا ، میں اس باب میں کوئی شک نہیں
رکھتا کہ یہ احمدی اسلام اور ہندوستان دونوں کے غدار ہیں۔(اقبالیاتِ شورش:۲۸۵
مرتب،مولانا مشتاق احمد،حرا فاؤنڈیشن پاکستان)
اقبال ؒ نے مدعیانِ نبوت اور خاص کر قادیانی فتنہ کے خلاف اسلام کا اصول پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
چناں چہ ہر ایسی مذہبی جماعت جو تاریخی طور پر اسلام سے وابستہ ہو ،لیکن اپنی بناء
نئی نبوت پر رکھے ،اور بزعم ِ خود اپنے الہامات پر اعتقاد نہ رکھنے والے تمام مسلمانوں
کو کافر سمجھے ،مسلمان اسے اسلام کی وحدت کے لئے ایک خطرہ تصور کرے گا،اور
یہ اس لئے کہ اسلامی وحدت ختم ِ نبوت سے ہی استوار ہوتی ہے۔(حرفِ اقبال:۱۰۳)
علامہ اقبالؒ نے قادیانیت کو تنسیخ ِ جہاد کے لئے انگریزوں کی پیداوار بلکہ آلہ کار بھی قرار دیا۔اور آپ کو اپنی عمر کی آخر ی منزلوں میں اس فتنے کی بابت سخت فکر بھی لاحق ہوگئی تھی ،آپ کی مجلسوں میں بھی اکثر یہی موضوع زیر بحث رہتا ،جس میںعلامہ بڑی فکر و کڑھن کے ساتھ اپنے جذبات کا اظہار فرماتے،اورخاص کراہل ِ علم کی مجلسوں میں دلائل کے ساتھ اس فتنے کے خدوخال کو نمایاں کرتے۔
علامہ اقبالؒ اور علامہ کشمیریؒ:
تحفظ ِ ختم ِ نبوت کی تحریک کو اپنے خونِ جگر سے سینچنے والے علماء اور ردّ ِ قادیانیت کے لئے جان و تن لگادینے والے علماء میں امام العصر حضرت علامہ انور شا ہ کشمیری ؒ (۱۸۷۵ء۔۱۹۳۳ء)کا نام نامی اسم گرامی ممتاز رہاہے ،علامہ کشمیریؒجو علم و فضل میں اس دور میں بلا شبہ مرکزی شخصیت تھی ،آپ نے اپنے تلامذہ میں بھی بے نظیراصحابِ علم وتحقیق اور خدام ِ تحفظ ِ ختم ِنبوت تیار کئے تھے،اور جب فتنہ قادیانیت رونماں ہواتو آپ نے اپنی تمام تر توجہ اس فتنہ کے سدِ باب میں مبذول کردی، اور چوں کہ علامہ اقبالؒ کو ہم عصر علماء میں علامہ کشمیریؒ سے قلبی تعلق تھا،اور آپ حضرت کشمیریؒ کے علمی تفوق کے معترف اور فضل و کمال کے قائل تھے ،اس لئے بہت سارے علمی مسائل اورتحقیق طلب امور میں حضرت کشمیریؒ سے خط و کتابت فرماتے،اور آپ کے جوابات سے تسکین پاتے ۔علامہ اقبال ؒ یہاں تک فرمایا کرتے تھے کہ:
اس وقت روئے زمین پر انور شاہ سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں ۔(انوا رالسوانح:۴۱۰ڈاکٹر غلام محمد کچھی
دار الکتاب لاہور۔۲۰۱۰)
علامہ اقبال ؒ نے حضرت کشمیریؒ کی وفات پر تعزیتی جلسہ سے خطاب کر تے ہوئے کہا تھاکہ:
مولانا انور شاہ صاحب کی مثال پیش کرنے سے اسلام کی پانچ سو سال کی تاریخ عاجز ہے۔
(اقبال کے ممدوح علماء:۴۷،مکتبہ الحق جوگیشوری ممبئی،۲۰۰۸)
بہرحال ان تعلقات سے دراصل بتا نا مقصود یہ ہے کہ جب فتنہ قادیانیت ظہور میں آیا تو علامہ کشمیریؒ نے اقبالؒ کی فکری رہنمائی بھی فرمائی اور اس ایمان سوز فتنہ کے خطرناکیوں سے آگاہ بھی کیا،اور اپنی فکر و کوشش سے علامہ اقبال کو بھی قافلہ تحفظ ِ ختم ِ نبوت کا ایک عظیم فداکا ر و جاں نثار بنا دیا ۔اس سلسلہ میں ایک یمان افروز واقعہ ملاحظہ فرمائیں:
ایک دفعہ حضرت مولانا انور شاہ صاحب کشمیریؒدیوبند سے لاہور تشر یف لائے میں
( ڈاکٹر جلال الدین)ان کو اسٹیشن پر لینے کے لئے گیا۔میں نے کہا حضرت گھر تشریف
لائیں۔مولانا نے فرمایا کہ آج میں نے صرف ڈاکٹر اقبال سے ملنا ہے اور ابھی سیدھا
وہیں جانا ہے لہذا مجھے وہیں چھوڑدیجئے۔مولانا کو ڈاکٹر محمد اقبال کے گھر پہنچادیااور میں
باہر موجود رہا۔حضرت انور شاہ کشمیریؒاور علامہ اقبالؒبند کمرے میںکافی دیر تک گفتگو
کرتے رہے،جب دروازہ کھلاتو میں نے دیکھا کہ ڈاکٹرمحمد اقبالؒ بچوں کی طرح آنسو
بہارہے ہیں،اور زاروقطار رورہے تھے۔حضرت نے اسی وقت مجھے فرمایاکہ مجھے اسٹیشن
چھوڑدیجئے۔میں آپ کو اسٹیشن پر لے چلا۔راستہ میں اپنے گھرلے جانے پر اصرار کیا تو
فرمایا کہ آج میںمسئلہ قادیانیت علامہ اقبال کو سمجھانے کے لئے آیا تھا۔اس کام میں اور
کوئی کا م شر یک نہیں کرتا۔اب سیدھے واپس جا نا ہے اسٹیشن سے اسی وقت دیوبند
واپس ہوگئے۔(تذکرۂ مجاہدین ِ ختم ِ نبوت:۳۴۔مولانا اللہ وسایا۔عالمی مجلس ِ تحفظ ختم
نبوت لاہور۔۱۹۹۰ء)
قاضی ا فضل حق قریشی لکھتے ہیں کہ:
۔۔۔پھر برکت علی محمڈن ہال میںاپنے اہتمام سے جلسہ کا انعقاد فرمایا،ختم نبوت اور
ردّ ِ قادیانیت کا حضرت کا بیان ہوا، ڈاکٹر صاحب پر اس قدر اثر ہوا کہ ردّ ِ قادیا نیت
کے لئے کمربستہ ہوگئے۔(اقبال کے ممدوح علماء:۴۷)
حضرت کشمیری ؒ کی محنت رنگ لائی کہ علامہ اقبالؒ ردّ قادیانیت میں اپنے علم و فلسفہ کی بنیاد پر بھی جدید طبقہ میں زبر دست مبلغ اور فدائے ختم نبوت کے طور پر اپنی خدما ت چھوڑ گئے۔
علامہ اقبالؒ کی شاعری اور ختم ِ نبوت:
اب آخرمیں ایک نظر علامہ اقبا ل ؒ کی اس شاعری پر ڈالتے ہیں جو انہوں نے ردّ قادیانیت میں فرمائی ہیں،اوراپنے حکیمانہ اور ناصحانہ اشعارمیں اہمیت ِ ختم نبوت کو بیان بھی کیااور قادیانیت کے شیش محل کو مسمار بھی کیا۔علامہ اقبال ؒ کے بے شمار اشعار ہیں جس میں آپ نے عقیدہ ٔ ختم ِ نبوت کو بیا ن کیا اور اس کی ضرورت پر شاعرانہ و فلسفیانہ اسلوب میں کلام بھی کیا،اگلی سطور میں صرف نمونے کے لئے چند اشعار پیش کئے جارہے ہیں ،تفصیل کے علامہ کے کلام کا مطالعہ مفید اور چشم ِ کشا رہے گا۔ فارسی میں علامہ ؒ نے فرمایاکہ:
پس خد ا برما شریعت ختم کرد بر رسولِ ما رسالت ختم کرد
( خدا نے ہم پر شریعت کو اور ہمارے رسولؐپر رسالت کو ختم فرمادیا)
رونق از ما محفل ایامِ ِ را او رسل را ختم و ما اقوام را
(ہمارے رسول ؐپر سلسلہ انبیاء اور ہم پر سلسلہ اقوام ختم ہوچکا،بزمِ جہاں کی رونق ہم سے ہے)
لا بنی بعدی ز احسانِ خدا است پردۂ ناموس دین مصطفے است
(رسولِ خدا کا فرمان لانبی بعدی اللہ کے احسانات میں ایک احسان ہے،دین مصطفے کی عزت کا محافظ بھی یہی ہے)
قوم را سرمایہ ٔ قوت ازو حفظ سرّ ِ وحدت ملت ازو
(مسلمانوں کا سرمایہ یہی عقیدۂ ختم ِ نبوت ہے،اور اسی میں وحدت ملت کا تحفظ کا راز بھی پوشیدہ ہے)
اردو میں بہت کچھ علامہ ؒ نے اس موضوع پر کہا ہے ،اور مختلف پیرایوں میں اس کی عظمت کو پیش کیا ۔فرماتے ہیں کہ:
نہ میں عارف ، نہ مجدد، نہ محدث، نہ فقیہ
مجھ کو معلوم نہیں کیا ہے نبوت کا مقام
ہاں مگر عالم اسلام پر رکھتا ہوں نظر
فاش ہے مجھ پہ ضمیر فلک ِ نیلی فام
وہ نبوت ہے مسلماں کے لئے برگِ حشیش
جس نبوت میں نہیں قوت و شوکت کا پیام
(کلیات ِ اقبال ؛ضربِ کلیم:۵۷۰لاہور)
ایک جگہ علامہ ؒقادیانیت پر زبر دست تنقید کرتے ہوئے فرمایاکہ:
پنجاب کے ا ربابِ نبوت کی شریعت
کہتی ہے کہ یہ مومن ِ پارینہ ہے کافر
( کلیات اقبال:۵۴۰)
علامہ اقبالؒ نے بارہا اپنی مجلسوں میں اس کا اظہار کیا تھا کہ قادیانیت کی داغ بیل در اصل جذبۂ جہاد کو ختم کر کے انگریزوں کا غلام بنانے کے لئے ڈالی گئی تھی ،اور مرزا انگریزوں کا آلہ ٔ کار بن کر ابھر ا تھااسی کو علامہ ؒ نے اپنے کلام میں یوں ارشاد فرمایا کہ:
فتوی ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے
دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کار گر
لیکن جناب شیخ کو معلو م نہیں کیا؟
مسجد میں یہ وعظ ہے بے سود و بے اثر
ہم پوچھتے ہیں شیخ ِ کلیسا نوا ز سے
مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر
(کلیات ِ اقبال: ۵۴۲)
آخری بات:
دلائل و حقائق کی روشنی میں یہ بات واضح ہو گئی کہ علامہ اقبال ؒ کی جانب قادیانیت کی نسبت جہالت و لا علمی ہی پر مبنی ہو سکتی ہے ۔ وہ اس سے بالکل بری ہیںاور محاذ ِ تحفظ ختم ِ نبوت کے نہایت پر جوش سپاہی رہے ہیں،اور آپ نے قادیانیت کو ہر اعتبارسے دین و دنیا،ملک و ملت کے لئے دشمن قرار دیا،اور آپ نے ان کی تحریروں کا ،اور تاویلوں کا عقل و نقل کی بنیاد پر مسکت جواب بھی دیا ۔اقبالیات کے ماہرین نے علامہ اقبال ؒ سے منسوب جن جن عنوانات کو موضوعِ بحث بنایا،اور ہر پہلو و ہر گوشے سے خوب سے خوب نکھارا ہے اس میں اس فتنہ ٔ قادیانیت اور علامہ اقبال ؒ بھی ایک تحقیقی موضوع رہا ،جس پر اقبالؒ کے چاہنے والوں نے بہترین تجزیہ بھی فرمایا،اور مخالفین کو دندان شکن جواب دے کر اس مسئلہ کو بھی بے غبار کردیا،اور بتا دیاکہ اقبال ؒ تو وہ عظیم انسان ہے جو محمد ﷺ کے خلاف ایک جملہ بھی نازیبا سننے کو گوارا نہیں کرتا تھا،اور ہر وقت وہ تصور ِ مدینہ میں جینے والا ،اور محمد عربی ﷺ کی محبت میں نثار ہونے والا تھا۔اقبالؒ نے ہی یہ انسانوں کو پیغام دیاکہ:
؎ قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسم ِ محمد ؐ سے اجالا کردے
(بصیرت فیچرسروس)

http://baseeratonline.com/2014/02/13/%D8%B9%D9%84%D8%A7%D9%85%DB%81-%D8%A7%D9%82%D8%A8%D8%A7%D9%84-%D8%B1%D8%AD%D9%85%DB%83-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%D8%B9%D9%84%DB%8C%DB%81-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%85%D8%B3%D8%A6%D9%84%DB%81-%D8%AE%D8%AA/

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد