دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری
دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری

مقام زن از نظر علامہ

علامہ اقبال کی نظر میں عورت کا مقام

جب ہم فرائض کی بجا آوری کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں مرد وعورت  دونوں کے فرائض میں نمایاں فرق نظر آتا ہے ،قدرت نے مرد کو ایسی قوتیں عطا کی ہیں جن کے ذریعہ وہ باآسانی فکر معاش کا فریضہ انجام دیتا ہےاور اس نے عورت کو بھی ایسی طاقتیں ودیعت کی ہیں جن کے ذریعہ وہ تمام تدبیر منزل کے فریضہ کا حق ادا کرتی ہے ،جب تک مرد وزن اپنے اپنے فرائض دیانت داری سے ادا کرتے ہیں تو انسانی معاشرے کے دونوں حصے یعنی مردوزن میں  حسن معاشرت اور انسانی قدریں ارتقا ٔ پذیر رہتی ہیں لیکن جب مردوعورت دونوں اعتدال وتوازن برقرار نہیں رکھتے، تو دونوں ایک دوسرے سے فرار کی راہ تلاش کرنے میں اپنا سکون سمجھتے ہیں۔

لیکن جب مردوعورت دونوں اعتدال وتوازن برقرار نہیں رکھتے، تو دونوں ایک دوسرے سے فرار کی راہ تلاش کرنے میں اپنا سکون سمجھتے ہیں۔لیکن یہ دونوں کی غلط اندیشی ہے، اس لئے کہ قدرت نے مردوعورت کو ایک دوسرے کے سکون کے لئے تخلیق کیا ہے لہذا یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ باہمی افتراق وانشقاق میں سکون پاسکیں؟آج پوری دنیا میں ہر طرف تہذیب نو کے جھنڈے لہرا رہے ہیں جس کے نتیجہ میں تمام فرائض وحقوق کو فراموشی کے حوالے کردیا گیا ہے،اسی وجہ سے نئی نسل ہر مقام پر والدین سے بیزار وخود سر دکھائی دیتی ہےاور یہ حال ہے کہ بوڑھا باپ اپنے بیٹے کے دسترخوان پر اگر کھانا کھاتا ہے تو اسے کھانے کی قیمت ادا کرنی ہوتی ہے ،یہ تغیر صرف اس لئے رونماہوا ہے کہ گھریلو زندگی سے عورت کو باہر نکال کر اسے تدبیر منزل کی ذمہ داری سے فارغ کردیا ہے۔ عورت کے اس غیر انسانی ، غیر فطرتی اور غیر اسلامی عمل نے بچوں کو آوارہ ذہن بنادیا ہے۔انہیں معلوم ہی نہیں کہ ان پر والدین کے کیا حقوق ہیں؟ اور اسلام نے انہیں کیوں کر والدین کی خدمت بجالانے کی تعلیم دی ہے؟معاشرے کی اس زبوں حالی کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ ہم نے عورت کو چاردیواری سے نکال کر فکر معاش کی راہ پہ ڈال کر مساوات کا نعرہ تو لگایا ہے لیکن ماں کی تربیت سے بچوں کو محروم  کرکے ان کو اندھے غار میں دھکیل دیا ہے۔

 

اسلامی تعلیمات میں مرد وعورت کے حقوق بہت تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں،انہی سے استفادہ کرتے ہوئے شاعر مشرق علامہ اقبال نے اپنے شعری ذوق کی روشنی میں عورت کے مقام ومرتبہ کو نہایت حسن وخوبی سے پیش کیا ہے،البتہ  علامہ نے خود اس بات کا اعتراف کیاہے کہ انہوں نے جو کچھ شعر کی زبان سے ادا کیاہے وہ سراسر قرآنی تعلیمات کا نچوڑ ہے ۔ گویا علامہ نے نہ تو یہ کوشش کی کہ اسے فلسفہ کے طور پر پیش کیاجائے اور نہ یہ کہ اس پر ٘غرب کا سایہ ڈال کر اسے ملمع کاری سے چمکایا جائے بلکہ صاف اور ستھری زبان میں اسلامی مسائل کا خاکہ پیش کیا ہے۔اس بات کی تائید میں مولانا عبدالکلام کا کہنا ہے :

 

علامہ اقبال نے اس موضوع پر جو کچھ لکھا ہے  اس میں شاعرانہ آب ورنگ اور فلسفیانہ نکتہ سنجی بہت کم پائی جاتی ہے۔اس باب میں انہوں نے اسلام کی صاف وسادہ تعلیمات کا اعادہ کیا ہے۔موجودہ دور میں آزادی نسواں کی تحریک عورتوں کو جس شاہراہ پر لے کر چلنا چاہتی ہے،اس کی دعوت ایک  یورپین عورت نے اس طرح دی ہے ۔

 

عورتوں کو قدرتی طور پر مادرانہ فرائض سرانجام دینے کی ضرورت نہیں،بلکہ اس زمانے میں سائنس نے اس قدر ترقی کرلی ہے کہ بچے خود بخود مصنوعی طریقوں سے پیدا کئے جاسکتے ہیں۔لیکن علامہ اقبال انہی مادرانہ فرائض کو ہی عورت کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ سمجھتے ہیں۔وہ کہتے ہیں:

 

از امومت پیچ وتاب جوئے ما      موج وگرداب وحباب وجوئے ما

 

یعنی معاشرے کی نوع کی رونقیں اور سرگرمیاں جذبہ امومت کے طفیل ہیں اسی لئے اسلام نے یہ سبق دیا ہے کہ جنّت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے اور اگر والدین زندہ ہوں یا صرف بوڑھی والدہ زندہ ہوتو اسی کی خدمت کو حج کا بدل قرار دیا ہے۔ یہ سب باتیں عورت کے مقام ومرتبہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔علامہ اقبال نے اسے امومت کے لفظ میں سمو دیا ہے۔

 

علامہ اقبال کے نزدیک عورت کا یہ کمال نہیں  وہ علم وفضل میں ارسطو یا افلاطون بن جائے ، اس کاکمال یہ ہے کہ  وہ ارسطو، افلاطون ،بو علی سینا جیسی بزرگوار ہستیوں کو جنم دے کراپنی آغوش فیض رساں میں تربیت دے۔علامہ کہتے ہیں

 

وجود زن سے ہے کائنات میں رنگ      اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزدروں

شرف میں بڑھ کے ثریاسے مشت خاک اس کی  کہ ہر شرف ہے اسی درج کا درمکنوں

مکالمات افلاطون نہ لکھ سکی لیکن   اسی کے شعلہ سے ٹوٹا شرار افلاطون

 

علامہ اقبال عورت کی آزادی ،ترقی ،اور شرف وغیرہ کے قائل تھے،لیکن اس شرط کے ساتھ کہ مردوں کی صفت" قوامیت" بھی قائم رہے گویا ان کی نظر میں عورت کی آزادی اس حد تک ہے جہاں مرد قوامیت کا حامل رہے ، اگر کوئی عورت مرد کے اس قوام کو عبور کرکے  مساوات کا دعویٰ کرے تو اس یہ دعویٰ خلاف اسلام ہے ۔ علامہ نے اس نکتے کو یوں پیش کیاہے۔

 

اک زندہ حقیقت میرے سینے میں ہے مستور

کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد

نے پردہ،نہ تعلیم، نئی ہو  کہ  پرانی

نسوانیت زن کا نگہباں ہے فقط مرد

جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا

اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد

 

یورپ کا معاشرے عورت کو جو بے حقیقت وبے معنی آزادی دے رہاہے ۔اس کے انجام کو دیکھ کر علامہ اقبال اس معاشرے سے برملااختلاف کرتے ہیں اور صاف کہتے ہیں کہ انسانی معاشرے میں یہ کیسا بے معنی انقلاب ہے:

 

کوئی پوچھے حکیم یورپ سے     ہندویونان ہیں جس کے حلقہ بگوش

کیا یہی ہے معاشرت کاکمال       مرد بے کار وزن تہی آغوش

علامہ اقبال کا کہنا ہے کہ جس قوم نے عورتوں کو ضرورت سے زیادہ آزادی دی ،وہ کبھی نہ کبھی اپنی غلطی پر ضرور پشیمان ہوئی ہے،عورت پر قدرت نے اتنی اہم ذمہ داریان عائد کررکھی ہیں کہ اگر وہ ان سے پوری طرح عہدہ برآ ہونے کی کوشش کرے تو اسے کسی دوسرے کام کی فرصت ہی نہیں مل سکتی۔

 

علامہ اقبال کے نزدیک طبقہ نسواں کو چاہئے کہ وہ خاتون جنّت سیدہ النساء حضرت زہرا سلام اللہ کی سیرت پاک کو اپنے لئے اسوۂ کاملہ سمجھیں اور اس کی روشنی میں ہر عورت اپنے کردار کاجائزہ لیتی رہے۔

 

سیرت فرزندھا از امھات    جوہر صدق وصفا ازامھات

مزرع تسلیم را حاصل بتول   مادراں را اسوۂ کامل بتول

 

عورتوں کے لئے علامہ اقبال کا یہ پیغام ہے کہ عورت ملت اسلامیہ کے بقا ٔ واستحکام کی ذمہ دارہے لہذااس کے لئے تعلیم دین اور اسرارقرآن سے واقفیت پیدا کرناانتہائی ضروری ہے۔

 

آج کے مسلمان مرد وعورتیں اس راز کو پالیں،توہمارا معاشرہ نہ صرف جنّت نظیر بن جائے ،بلکہ غیور ماؤں کی آغوش میں وہ نوجوان پلنے لگیں گے جو وطن کے مستقبل کے ضامن بن  جائیں گے۔

 

 علامہ اقبال نے ایک طویل نظم والدہ مرحوم کی یاد میں لکھی ہے جو ان کے مجموعہ کلام "بانگ درا" میں شامل ہےاس نظم میں انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ وہ جو کچھ بھی ہیں ،یہ سب کچھ ان کی والدہ محترمہ کے فیض تربیت اور دعائے نیم شب کا نتیجہ ہے۔

 

علامہ نے اپنے اردو وفارسی کلام میں جگہ جگہ طبقہ نسواں کا ذکر کیا ہے اور ان کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عورت کو کامل امومت کی تصویر بنا ہوا دیکھنے کے خواہش مند ہیں اور اس کے دائرہ کار کو ناپنے کے لئے انہوں نے جگر گوشہ رسول حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کو بطور اسوۂ کاملہ پیش کیا ہے۔اور اگر وہ ان کی سیرت پہ عمل پیرا ہوں تو ان کی گودوں سے آج بھی حسنی وحسینی جذبے کے نوجواں پرورش پاکر معرکہ حق وباطل میں کام آسکتے ہیں۔        

 

منبع:عورت کی حکمرانی اور اسلام

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد