دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری
دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری

کسی اور زمانے کا خواب

کسی اور زمانے کا خواب  فریحہ ادریس

اقبال نے یہ خواب آج سے اسی سال پہلے اندلس میں دریائے کبیر کے کنارے کھڑے ہو کر دیکھا تھا، پچھتر سال بعد میں اسپین کے شہر قرطبہ میں اسی دریائے کبیر کے کنارے کھڑی تھی اور سوچ رہی تھی کہ علامہ اقبال جب یہاں کھڑے ہوں گے تو انکے دل میں جذبات کا کیا عالم ہو گا جو ان کی شاہکار نظم مسجد قرطبہ میں پڑھنے والے کو سحر میں مبتلا کر دیتا ہے۔  

 اسی دریا کے کنارے آج سے ساڑھے آٹھ سو سال پہلے دنیا کی ایک عظیم الشان مسلم سلطنت آباد تھی ، اسی دریا کے کنارے بیٹھ کر دنیا کے عظیم فلسفی ابن رشد یونانی فلسفی ارسطو اور جالینوس کے فلسفہ کی شرح تحریر کرتے تھے۔ میرے پیچھے وہ گلی تھی جس سے گزر کر ابن رشد قرطبہ مسجد جاتے تھے، وہ ابن رشد جس نے یورپ کو یونانی فلسفہ سے روشناس کروایا۔ میں دریائے کبیر کے کنارے سے مڑی اور قرطبہ مسجد کی جانب چلتے ہوئے سوچنے لگی انہی گلیوں میں مشہور عالم، صوفی ، محقق شیخ محی الدین ابن عربی کے قدموں کے نشان بکھرے ہیں، یہی وہ شہر ہے جہاں دنیا کے معروف تاریخ دان اور سیاسیات کے عالم ابن خلدون سفیر بنا کر بھیجے گئے، اسی قرطبہ میں انہوں نے اپنی کتاب تاریخ ابن خلدون کے کئی حصے تحریر کیے تھے۔

اقبال نے اس سرزمین کو حرم پاک کی مانند قرار دیا ہے اور اس کا ذکر نہایت احترام، اور عقیدت سے کیا ہے۔ اس محبت کی وجہ اس سرزمین سے وابستہ مسلمانوں کی آٹھ صدیوں کی علم دوست، فراخ دل، اعلی اخلاقی قدروں پر مبنی حکومت کی شاندار تاریخ ہے۔ قرطبہ کی گلیوں میں پھرتے ہوئے میری آنکھوں کے سامنے اسپین کی تاریخ کا وہ عہد گھوم رہا تھا جسے یورپ کی تاریخ کا سنہرا ترین دور کہا جاتا ہے۔ یہ وہ قرطبہ تھا جس کے بارے میں تاریخ میں لکھا ہے کہ یہ یورپ کا پہلا شہر تھا جہاں سرکاری طور پر ہر گھر میں پانی پہنچانےکا انتظام تھا۔ دس لاکھ سے زائد آبادی کے اس شہر میں ایک لاکھ تیرہ ہزار مکان تین سو عالیشان حمام اور ستر سرکاری لائبریریاں تھیں، ان لائبریریوں میں تین ہزار خواتین قلمی نسخوں کی کتابت پر مامور تھیں۔ قرطبہ میں آٹھ سو مدارس تھے، جن میں مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کو بلاتفریق تعلیم دی جاتی تھی۔ غرناطہ، اشبیلیہ اور قرطبہ کی یونیورسٹیاں پورے ایشیا، افریقہ اور یورپ میں نہایت عظمت کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں۔ قرطبہ یونیورسٹی میں اس وقت طلبا کی تعداد گیارہ ہزار تک ہوتی تھی۔
پورے شہر میں پختہ سڑکوں کا ایک سلسلہ تھا اور ہر مکان کے دروازے پر رات کو روشنی کے لیے ایک لالٹین نصب تھی۔ اس دور میں دنیا کا کوئی شہر اپنے حسن، نفاست، آبادی اور ترقی کے اعتبار سے قرطبہ کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کر سکتا تھا۔
معروف امریکی مورخ جان ولیم ڈریپر نے اپنی کتاب ہسٹری آف انٹی لیکچویل ڈویلپمنٹ آف یورپ میں لکھا ہے ”جس زمانے میں قرطبہ کے کوچہ وبازار میلوں تک پختہ اور دوریہ مکانات کی روشنیوں سے جگمگاتے تھے۔ پیرس میں بارش کے دن ٹخنوں تک کیچڑ میں چلنا پڑتا تھا اور لندن میں اندھیرا چھایا رہتا تھا‘ مسلم اسپین کا یہ تہذیب وتمدن صدیوں تک ان یورپی شہروں کو نصیب نہیں ہوا تھا۔ یہ وہ اسپین تھا جس کی مذہبی رواداری کی مثالیں آج تک دی جاتیں ہیں۔
 اسپین کے شہروں میں جا بجا مسجدوں کے بالمقابل کلیسااور یہودیوں کی عبادت گاہیں قائم تھیں ، عام مسلمانوں اور حکمرانوں کے رویے بڑے فراخ تھے، جس قدر یہودیوں کو مذہبی آزادی اسپین میں حاصل تھی اس کے بعد دنیا بھر میں انہیں کہیں نہ مل سکی اس بات کا تمام یہودی تاریخ دان بھی اعتراف کرتے ہیں ، اس دور میں یہودی اندلس کی مسلم حکومت کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے۔ میں سوچتی رہی کہ آج اور اس دور کے مسلمانوں میں کیا فرق ہے، انہیں ایسی بلندی کیسے نصیب ہوئی اور ہم ایسی پستی میں کیسے جا گرے۔
ہم میں اور ان میں فرق ہے تو صرف اتنا کہ وہ علم و فنون میں ساری دنیا سے برتر تھے، ہم شرح خواندگی میں ساری دنیا سے پیچھے ہیں، وہ کھلے ذہن اور مذہبی رواداری میں اتنا آگے تھے کہ آج تک یورپ کی تاریخ میں اسے یاد کیا جاتا ہے۔ ہماری تنگ نظری کا عالم یہ ہے کہ ہم لاہور کے ایک چوک کا نام انگریزوں کےخلاف جدوجہد کرنےوالے بھگت سنگھ کے نام پر رکھنے کو تیار نہیں۔ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہونے کا دعویدار ہے مگر ہم نے اس کا دائرہ اتنا تنگ کر دیا ہے کہ دوسروں کو تو کیا اس میں داخل کریں گے ہم اپنوں کو ہی دائرہ اسلام سے خارج کرنے میں مصروف ہیں۔ اور ہماری رواداری کا یہ عالم ہے کہ ہم مذہب کے نام پر غیر مسلم تو چھوڑیے روز اپنے ہی مسلمان بھایﺅں کا خون بہا رہے ہیں۔ ہمارے شہروں کے گلی کوچے اپنے ہی خون سے رنگین ہو رہے ہیں۔ اسی تنگ نظری کا نتیجہ ہے کہ اب عید ہو، بارہ ربیع اول ہو یا محرم کا موقع ، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مسلمان ہر مذہبی تہوار دہشت گردی کے خوف کے سائے میں مناتے ہیں۔
اقبال نے اپنی نظم مسجد قرطبہ میں قوموں کے عروج کا جو فلسفہ بیان کیا ہے اس کے مطابق....
صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
مگر ہم تو کسی حساب کسی احتساب کے لیے تیار ہی نہیں ، آج عالم یہ ہے کہ ہر وہ شخص یا ادارہ جس کے پاس ذرا سی بھی طاقت ہے وہ کچھ سننے اور ماننے پر ہی تیار نہیں۔ ہم اپنے ہی تحریر کردہ آئین پر عمل نہیں کرتے، ہر ضابطے اور ہرقانون کو اپنے مفاد کے آگے کچل ڈالتے ہیں۔ اسی لیے پینسٹھ سال سے ہم ایک دائرے میں ہی سفر کر رہے ہیں۔ اسی لیے ابھی تک اقبال اور قیام پاکستان کا خواب ادھورا ہے ،مجھے لگتا ہے کہ اقبال عالم بالا میں ابھی تک اسی زمانے کا خواب دیکھ رہے ہوں گے۔ وہ زمانہ جو رواداری ، فراخ دلی اور علم دوستی کی وجہ سے آج تک دنیا کی تاریخ میں سنہرا دور گنا جاتا ہے، اور جس کے لوٹ آنے کا خواب میں بھی دیکھ رہی ہوں۔
آب رواں کبیر تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد