دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری
دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری

اسرار خودی

اسرار خودی   (چوہدری طالب حسین)

مقدمہ "اسرار خودی" از پروفیسر نکلسن مغربی دنیا میں علامہ محمد اقبال کے فکر و فلسفہ کا ابتدائی تعارف اس وقت ہوا جب کمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر آر-اے-نکلسن (م ١٩٤٥)نے مثنوی "اسرار خودی" کا انگریزی ترجمہ کیا.پروفیسر نکلسن نے اپنے مقدمے میں لکھا تھا

اقبال نے مغربی ادب سے بھرپور استفادہ کیا ہے. ان کا فلسفہ بڑی حد تک نطشے اور برگساں سے مستعار ہے اور ان کا کلام ہمیں جابجا شیلے(Shelley) کی یاد دلاتا ہےلیکن اس کے باوجود بھی ان کی طرز فکر ایک مسلمان کی ہےاور اسی باعث ان کا دائرۂ اثر بھی بہت زبردست ہے. وہ ایک پرجوش مذہبی شخصیت ہیںاور ایک ایسی آفاقی اور مثالی حکومت الہیہ کے آرزومند ہیں جس کے پرچم تلے بلا امتیاز ملک و نسل تمام مسلمان متحد ہوں. ان کو قومیت یا ملوکیت کے نظریات سے مطلق دلچسپی نہیں بلکہ ان کے بقول قومیت یا ملوکیت مسلمانوں کو اپنی منزل مقصود سے دور کرتی ہے اور مسلمانوں میں باہمی تفرقے کا سبب ہےکیونکہ یہ نظریات جذبہ اخوت کو پامال کرتے ہیں اور باہمی جنگ و جدل کی تخم ریزی کرتے ہیں. وہ ایسی دنیا کے متمنی ہیں جس میں مذہب کی سربلندی ہو اور سیاست کا کوئی مقام نہ ہو. وہ میکاولی کو باطل دیوتاؤں کا پجاری قرار دیتے ہیں اور بے شمار افراد کو گمراہ کرنے کے لیے اسے مورد الزام ٹھہراتے ہیں. یہ نکتہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہے کہ مذہب سے ان کی مراد ہمیشہ"اسلام" ہوتا ہے. غیر مسلم افراد محض کافر ہیں اور نظری اعتبار سے جہاد عین جائز ہےالبتہ شرط یہ ہے کہ جہاد صرف اللہ کی راہ میں ہو. اقبال کا مقصود ایک ایسی آزاد خود مختار مسلم مملکت ہے جس کا مرجع کعبہ ہو اور اس کے رسول(ص) کی محبت کے رشتے سے تمام مسلمان منسلک اور متحد ہوں.

پروفیسر نکلسن نے اپنے مقدمے کے آخر میں لکھا ہے. منظر عام پر آتے ہی "اسرار خودی" نے ہندوستانی مسلمانوں کی نوجوان نسل کو مسحور اور مسخر کر کے رکھ دیا. ایک نوجوان نے لکھا ہے " اقبال ہمارے درمیان مسیحا کے طور پر نمودار ہونے اور انہوں نے تن مردہ میں زندگی پھونک دی ہے" یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ بیدار افراد کس سمت میں پیش رفت کرتے ہیں

....ہم ان کے افکار کو ان کے ہم مذہب افراد کے کسی مخصوص طبقے کے نظریات نہیں قرار دے سکتے ان کے افکار مسلم ذہن میں انقلابی تبدیلی کے مرادف ہیں اور ان کے افکار کی قدر و قیمت کےضمن میں یہ امر ہر گز مانع نہیں کہ مذکورہ تبدیلی کا مستقبل میں واقع ہونے کا کوئی امکان نہیں(جلوہء دانش فرنگصفحات-٢٢٢٣ -فکرونظر مندجہ بالا

پروفیسر نکلسن اور فوسٹر نے اقبال کے تصور "انسان کامل" کو نطشے کے" سوپر مین "کا چربہ قرار دیا تھا.چنانچہ علامہ محمداقبال نے پروفیسر نکلسن کو ایک طویل خط لکھا جس میں بے جا اٹھاۓ گنے اور غلط فہمی پر مبنی اعتراضات کی وضاحت تھی...علامہ محمد اقبال نے"انسان کامل" کے تصور کے ماخذ کے حوالے سے اپنی ایک تحریر The Doctrine of Absolute Unity as Expounded by Abdul Karim al-Jili کا ذکر کیا ہے اس میں لکھتے ہیں " میں نے تصوف کے مسلہء "انسان کامل" پر کچھ اوپر بیس سال ہونے لکھا تھاجب نطشے کی بھنک بھی میرے کن میں نہ پری تھی. یہ مضمون اس زمانے میں رسالہانڈین انٹی کوئری Indian Antiquary میں شائع ہوا تھا اور اس کے بعد ١٩٠٨ میں میرے انگریزی رسلہ.فلسفہ عجم میں منظم ہو کر  نکلا تھا(فکرونظر مندرجہ بالا )---"انسان کامل" ابن عربی مصنف "فتوحات مکیہ "کے شارح عبدالکریم جیلی کی تحریر ہے جس میں انہوں نے "انسان کامل" نبی کریم(ص) کی ذات اقدس کو قرار یا ہے

ہربرٹ ریڈ نے اپنے معا صر برطانوی قلم کاروں کی طرح"اسرار خودی" کے پیغام کو نہ خوف کی نظر سے دیکھا اور نہ اس پر کسی شک و شبہ کا اظہار کیا . اس کے برعکس ریڈ نے امریکی شاعروالٹ وہٹ مین(م ١٨٩٢) کے نظریہ شعر( کہ عظیم ادبی فن پارے کسی طرح بھی جمالیاتی اعتبار سے ناقص نہیں ہو سکتے ان میں پنہاں قوت فکر انہیں ایک طرز کی بنیاد فراہم کرتی ہے ) کی تعریف کرتے ہونے لکھا ہے" اس نظریے کا اطلاق میرے خیال میں تمام معاصر شعر ا میں صرف ایک ایسے شاعر پر موزوں ہے جو ہمارا ہم وطن ہے نہ ہم مذہب صرف یہی شاعر اس کسوٹی پر پورا اترتا ہے.

 میری مراد اقبال سے ہے جن کی نظم اسرار خودی کا ڈاکٹر رینالڈ نکلسن نے حال ہی میں اصل فارسی سے ترجمہ کیا ہے

آج جبکہ ہمارے مقامی متشاعرحضرات کیٹس کی زمین میں بلیوں اور پرندوں کے موضوعات پر تضمینیں تحریر کرنے میں مصروف ہیں لاہور میں ایک ایسی نظم شائع ہوئی ہے جس کے متعلق یہ مشہور ہے کہ اس نے نوجوان ہندی مسلمانوں کو بالکل مسحور کر کے رکھ دیا ہے."(جلوہء دانش فرنگ ص-٢٧-فکرو نظر مذکورہ بالا) ہربرٹ ریڈ نے اپنے تبصرے کے آخر میں والٹ وہٹ مین اور نطشے کے افکار کا فکر اقبال سے موازنہ کیا ہے.

 زندگی جہاد آزادی ہے اور جہاد کا طریقہ کار انا کی تربیت ہے... ہر فلسفے اور ہر مذہب میں تکمیل انا کا نظریہ ملتا ہے. انسان نفسیاتی طور پر کسی ایسی الوہیت کو قبول نہیں کر سکتا جو خود اس کی ذات میں آشکارا نہ ہو. یہ ایک مادی حقیقت بھی ہے. وہٹ مین یا نطشے کے بالمقابل اقبال کے ہاں اس حقیقت کا واضح تر ادرک پایا جاتا ہے (جلوہ دانش فرنگ ص ٢٩-فکرو نظر مذکورہ

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد