دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری
دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری

علامہ اقبالؒ اور آزادی افکار

علامہ اقبالؒ اور آزادی افکار

پروفیسر ڈاکٹر محمد افضال مالیر کوٹلوی

آزادی کسی قوم کا وہ بیش بہا سرمایہ افتخار ہوتا ہے جو اس قوم کی زندگی اور اس کے تابناک مستقبل کا ضامن حیات ہوتا ہے غلام قومیں اور محکوم افراد پر مشتمل معاشرے نہ صرف اصل حیات و ممات سے محروم رہ جاتے ہیں بلکہ زمین پر ایک بوجھ بھی ہوتے ہیں۔ غلامی وہ مرض کہن ہے کہ جو دلوں کو یکسر مردہ کردیتا ہے شاید اسی لئے غلامی کو آزادی میں بدلنے کا زریں نسخہ بتاتے ہوئے علامہ اقبال نے بجا طور پر فرمایاتھا کہ

دل مردہ، دل نہیں ہے، اسے زندہ کردوبارہ!

کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ!

غلامی محض دلوں ہی کو پردہ کرنے پر بس نہیں کرتی ہے بلکہ غلاموں کو تب وتاب تگ و دو اور سوزعمل سے بھی محروم کردیتی ہے جس کے نتیجے میں مُروُر ان پر حرام ہوجاتا ہے

بدن غلام کا سوز عمل سے ہے محروم!

کہ ہے مرور غلاموں کے روزو شب پہ حرام!


القصہ! ابدی موت مرجانا غلام قوموں ہی کا مقدر ہوتا ہے

نے نصیب مارو کثردم نے نصیب دام دو

ہے فقط محکوم قوموں کیلئے مرگ ابد!


جبکہ آزاد قوموں کے افراد مرکر بھی نہیں مرتے ہیں

مرکے جی اٹھنا فقط آزاد مردوں کا ہے کام

گرچہ ہرذی روح کی منزل ہے آغوش لحد!


اس گفتگو سے جہاں یہ عیاں ہوجاتا ہے کہ آزادی کیا ہے اور غلامی کیا؟ وہیں علامہ اقبالؒ کا نظریہ آزادی و غلامی بھی کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ کلام اقبالؒ میں آزادی کے موضوع پر ہمیں کل بارہ مقام ملتے ہیں ان کے بغور مطالعہ کے ساتھ ساتھ بہت سے اشعار کا مطالعہ بھی اہم ہے جو یقیناً اس موضوع سے متعلق بیان ہوئے ہیں اور اصلاً کسی دوسرے موضوع کی تخلیق ہیں۔ آزادی چونکہ ایک کثیر الجہات حقیقت ہے اس لئے اس میں جزوی اور داخلی طور پر کئی ذیلی آزادیاں باہم اس طرح ہم آہنگ ہیں کہ جس طرح دربار یا سمندر کی امواج کہ الگ الگ ہوکر بھی حقیقت واحدہ یعنی دربار یا سمندر ہی ہوتی ہیں۔ آزادی افکار یا فکری آزادی کا بھی کچھ ایسا ہی جزوی اور داخلی مقام ہے اس سے مراد عموماً یہ ہے کہ انسان کو کسی فکر کے جبراً تابع نہ کرکے فکری آزادی دیکر بندہ آزاد بنایا جائے دیکھا جائے تو یہ ایک اہم اور ضروری وصف ہے مگر مغرب جدید نے اس کے مفاہیم اور عملی صورتیں عین ایسے ہی بگاڑ دی ہیں جیسے دیگر بہت سے ازمی معاملات کو خراب کرکے رکھ دیا ہے جیسے سیکولرازم کا من ازم، لبرل ازم، کیپیٹل ازم وغیرہ وغیرہ جب کہ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ آج مغرب ہی میں آزادی افکار کا سب سے زیادہ واویلا مچاہے۔ علامہ اقبالؒ نے جہاں مغرب کی دیگر دوغلی صورتوں کی خدمت کی ہے وہیں وہاں کی پیداشدہ نام نہاد آزادی افکار کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے

علامہ اقبال کے نزدیک موجودہ آزادی افکار دراصل ابلیس کی ایجاد ہے اور ابلیسی نظام شیطنت کے فروغ کا ایک بڑا ہتھکنڈہ ہے بانگ درا، میںآزادی فکر سے متعلق کوئی واضح نظریہ پر مبنی تخلیق نہیں ملتی ہے البتہ اقبال کے دوسرے شعری مجموعے بال جبریل میں آزادی افکار ہی کے عنوان سے چار اشعار پر مبنی نظم ہے جس میں نہایت دو ٹوک اور جامع انداز میں علامہ اقبال نے بتایاہے کہ آزادی افکار کی اصل حقیقت کیا ہے فرماتے ہیں۔

جودونی¿ فطرت سے نہیں لائق پرواز

اس مرغکِ بیچارہ کا انجام ہے افتاد


ہرسینہ نشیمن نہیں جبریل امین کا

ہر فکر نہیں ظاہر فردوس کا صیاد


اس قوم میں ہے شوخی اندیشہ خطرناک

جس قوم کے افراد ہوں ہر بند سے آزاد


گو فکر خداداد سے روشن ہے زمانہ

آزادی افکار ہے ابلیس کی ایجاد

(آزادی افکار: بال جبریل)


علامہ اقبالؒ کے بہت سے کمالات میں ایک اہم کمال یہ ہے کہ وہ جس معاملے میں غیر اللہ اور غیر اسلامی طور طریقوں یا نظریوں کو ہدف تنقید بناتے ہیں اس معاملے میں صحیح اور مستقیم صراط کیلئے رہنمائی بھی فرماتے ہیں۔ علامہ اقبال ہمیں گم نام حواریوں میں بھٹکنے کیلئے چھوڑ نہیں دیتے بلکہ ہمیں راہ دکھاتے ہوئے بتاتے ہیں کہ آزادی افکار جودراصل انسان کو حیوان بناتی ہے کس طرح قابو میں کی جاسکتی ہے؟ وہ کون سا سلیقہ فکر ہے جس کے تحت آزادی منفی کے بجائے مثبت ہوجائے؟ انہیں مسائل و مباحث کو سموئے ہوئے علامہ اقبالؒ کی ایک دوسری نظم ہے آزادی فکر ضرب کلیم کی اہم نظموں میں سے ایک ہے۔ ملا حظہ کیجیئے

آزادی افکار ہے ان کی تباہی

رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ


ہوفکر اگر خام تو آزادی افکار!

انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ!!


غیر منقسم ہند میں علامہ اقبالؒ نے جب آزادی افکار اور حریت افکار کے غلط رویے کو تیسری آنکھ سے دیکھا تو تڑپ گئے۔انہیںصا ف دکھائی دیاکہ یہاںاسلام کو محبوس اور مسلمان کو آزاد رکھنے کا جو طرفہ تماشا کھیلا جارہا ہے اس کے پیچھے فرنگی کی آزادی افکار کا ابلیسی عمل کار فرما ہے۔ ضرب کلیم سے اشعار ملاحظہ ہوں۔

ہے کس کی یہ جرا¿ت کہ مسلمان کو ٹوکے

حریت افکار کی نعمت ہے خدا داد!


چاہے تو کرے کعبے کو آتش کدہ پارس

چاہے تو کرے امن میں فرنگی ضخم آباد


قرآن کو بازیچہ تاویل بناکر!!!

چاہے تو خود اک تازہ شریعت کرے ایجاد


ہے مملکت ہند میں اک طرفہ تماشا

اسلام ہے محبوس،مسلمان ہے آزاد


علامہ اقبالؒ کے ہاں ایک بھرپور اور مربوط فلسفہ اور نظام حیات ہے کیونکہ کلام اقبالؒ کا ماخذ قرآن ہے۔ عین اسی طرح کلام اقبال میں آزادی افکار کے تمام مباحث کے حوالے سے علامہ کا ماخذ قرآن اور اسلام ہی ہے۔ اس سے ہٹ کر کوئی بھی آزادی خواہ وہ افکار کی ہوکہ اظہار کی سراسر خسارے کا سودا ہے۔ فرماتے ہیں کہ:

دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت

ہے ایسی تجارت میں مسلمان کا خسارہ


مذکورہ بالا مباحث سے ہم بجا طور پر اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ علامہ اقبالؒ آزادی افکار کے قائل ہیں تاہم حدود کے ساتھ۔ جبکہ عہد حاضر کی نام نہاد اور مغربی آزادی فکر محض ابلیسی نظام کا ایک کلیدی حصہ ہے اور اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور اس کیلئے اسلام ہی وہ ماخذ ہے جو صحیح، قابل عمل اور قابل قبول آزادی افکار و فکر عطا کرتا ہے۔

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد