دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری
دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری

علامہ اقبال اور کشمیر

علامہ اقبال اور کشمیر

نصر ملک  ۔ کوپن ہیگن ۔ ٖ ڈنمارک ۔  

 حضرت علامہ اقبال علیہ رحمتہ کا تعلق محض اس لیے کشمیر سے نہیں تھا کہ خطہ کشمیر، ارض خداوندی  پر ایک جنت نظیر وادی ہے، نہیں ایسا نہیں!، علامہ اقبال کے اجداد بذات کشمیری تھے اور یوں اُن کی رگوں میں رواں رہنے والا خون خالص کشمیری ہی تھا ۔ کشمیر سے اپنے تعلق پر اقبال ہمیشہ فخر کرتے اور کشمیرسے جدائی کا احساس رکھتے تھے ، وہ خود کہتےہیں

کشمیر کا چمن جو مجھے دلپذیر ہے

اس باغِ جان فزا کا یہ بلبل آسیر ہے

ورثے میں ہم کو آئی ہے آدم کی جائیداد

جو ہے وطن ہمارا وہ جنت نظیر ہے

موتی عدن سے لعل ہوا ہے یمن سے دور

یانافۂ غزال ہوا ہے ختن سے دور

ہندوستان میں آئے ہیں کشمیر چھوڑ کر 

بلبل نے آشیانہ بنایا چمن سے دور


علامہ اقبال اور کشمیر

 

از :  نصر ملک  ۔ کوپن ہیگن ۔ ٖ ڈنمارک ۔  

 حضرت علامہ اقبال علیہ رحمتہ کا تعلق محض اس لیے کشمیر سے نہیں تھا کہ خطہ کشمیر، ارض خداوندی  پر ایک جنت نظیر وادی ہے، نہیں ایسا نہیں!، علامہ اقبال کے اجداد بذات کشمیری تھے اور یوں اُن کی رگوں میں رواں رہنے والا خون خالص کشمیری ہی تھا ۔ کشمیر سے اپنے تعلق پر اقبال ہمیشہ فخر کرتے اور کشمیرسے جدائی کا احساس رکھتے تھے ، وہ خود کہتےہیں

کشمیر کا چمن جو مجھے دلپذیر ہے

اس باغِ جان فزا کا یہ بلبل آسیر ہے

ورثے میں ہم کو آئی ہے آدم کی جائیداد

جو ہے وطن ہمارا وہ جنت نظیر ہے

موتی عدن سے لعل ہوا ہے یمن سے دور

یانافۂ غزال ہوا ہے ختن سے دور

ہندوستان میں آئے ہیں کشمیر چھوڑ کر 

بلبل نے آشیانہ بنایا چمن سے دور

 اقبال یہاں  '' ہندوستان میں آئے ہیں ''  کہہ کر جب کشمیر سے ہجرت کا ذکر کرتے ہیں تو وہ دراصل  وادیٔ کشمیر کی ، ہندوستان  کے جغرافیے ، سیاست اور ماحول و سماج سے ایک الگ منفرد حیثیت کو ابھارتے اور نمایاں کرتے ہیں ۔ بدیگر الفاظ، کشمیر، ہندوسان سے الگ ایک خطہ و جدا ریاست ہے اور اسکی اپنی تمدنی و تہذیبی اور ثقافتی شناخت ہے جوہندوستانی سماج میں سما ہی نہیں سکتی ۔

 عالمہ اقبال  نے کشمیر کی اس جداگانہ شناخت کو بحال رکھنے اور منوانے کے لیے، بذات خود پنجاب کے شہر لاہور میں تب کے کشمیریوں کی قائم کردہ  '' انجمن کشمیری مسلمانان ''  کے ابتدائی دنوں ہی میںاس میں شمولیت کی اور جلد ہی اُن کو انجمن کشمیری مسلمانان کا سیکریٹری جنرل بنادیا گیا ۔ اپنے اس منصب کے حوالے سے اور جنت ارضی، جموںو کشمیر سے قلبی محبت کے ناطے ، اقبال نے کشمیر کے اندر اور پنجاب کے ساتھ ساتھ ہندوستان بھر میں کشمیریوں کی حالت زار بہتر بنانے اور انہیں آزاد شہریوں کے حقوق دلوانے کے لیے جدوجہد تیز کردی ۔ اقبال کا مطالبہ تھا کہ زبر دستی بے وطن اور بے گھر کر دیئے گئے کشمیریوں کوریاست میں اپنے گھروں کو واپس جانے، وہاں آباد ہونے اور اپنی املاک کے خود مالک ہونے کا حق دیا جائے۔ اقبال کی، انجمن کشمیری مسلمانان میں شمولیت کے باعث کشمیریوں میں  اپنی خود شناسی کے جذبے نے لہر لی اور بذات خود ان میں حب الوطنی کا احساس جاگا ۔  اقبال  کشمیر کو، طور و سینا سے بھی مقدس اور قابل احترام و شرف سمجھتے ہوئے کہتے ہیں

 

 سامنے ایسے، گلستان کے کبھی گھر نکلے 

حبیب خجلت سے سرِ طور نہ باہر نکلے

ہے جو ہر لحظہ تجلّی گہ مولائے خلیل 

عرش و کشمیر کے اعداد برابر نکلے

 

 اقبال ہی کی تحریک و ایما پر، انجمن کشمیری مسلمانان، نے جموں و کشمیر کے مہاراجہ پرتاپ سنگھ کو لاہور بلایا اور اُن سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیریوں پر اپنے فوجیوں کے ظلم و ستم رکوائیں اور کشمیریوں کو اپنی مذہبی و سماجی اور تمدنی و ثقافتی اقدار و رسومات پورا کرنے کی آزادی کی راہ میں روڑے نہ اٹکائیں ۔  مہاراجہ پرتاپ سنگھ نے اس موقع پر اقبال کو یاد دلایا کہ کشمیر اقبال کا آبائی وطن ہے اور کہا کہ انہیں کشمیر کا دورہ کرنا چاہیے۔ اقبال نے برجستہ مہاراجہ کو جواب دیا '' ہم نے کشمیر کو فراموش ہی کب کیا ہے جو آپ ہمیں یاد دلاتے ہیں، ہم اس وقت آپ کے سامنے سرتاپا، کشمیرہی کشمیر ہیں''۔ اقبال بعد میں کشمیر گئے لیکن دعوت کے باوجود وہ مہاراجہ پرتاپ سنگھ کے مہمان نہیں تھے ۔ یہ دورہ انہوں نے   ١٩٢١ ء  میں کیا تھا ۔ اور اپنے سرکاری کام کاج سے فارغ ہو کراقبال کشمیر میں کچھ عرصے کے لیے ٹھہرے اور مختلف شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں بھی، وہاں کے قدرتی حسن کا ہی نہیں روزمرہ کی زندگی اور مسلمانان کشمیر کے شب و روز کی مصیبتوں کا خود جائزہ لیا ۔ اور اس کے بعد تو پھر اقبال اور کشمیر کبھی آپس میں جدا ہی نہیں ہوئے۔  اقبال  کہتے ہیں

تنم گلے زخیابانِ جنت ِکشمیر 

دلم ز خاکِ حجاز و نواز شیراز است

یعنی کہ:  میرا بدن، گلستان کشمیر کا ایک پھول ہے اور میرا دل ارض حجاز سے اور میری صدا شیراز سے ہے ۔

 جدید اصطلاح میں کہا جائے تو جموں و کشمیر کی آزادی کی تحریک در اصل انیس سو اکتیس ہی میں شروع ہو چکی تھی لیکن تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ اقبال کشمیر کے سیاسی جغرافیے کی بساط اُلٹ جانے کی پیش گوئی بہت پہلے کر چکے تھے۔ اور لاہور میں انہوں نے انجمن کشمیری مسلمانان کے ایک سالانہ اجلاس میں اپنے اس خواب کو یوں بیان کیا تھا  '' ہم کشمیر میں سیاست کی میز اُلٹ جانے کو دیکھ رہے ہیں، میں دیکھ رہا ہوں کہ کشمیری جو روایتی طور پر محکوم اور مظلوم ہیں اور جن کے بت معبود تھے ان کے دلوں میں اب ایمان کے شرارے پھوٹ رہے ہیں، کشمیریوں کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ ان کے ہنر سے جو ریشم و کمخواب کے لباس بنتے ہیں ان کو پہنتا کون ہے اور ننگے بھوکے کو ن رہتے ہیں ۔  اقبال کہتے ہیں

سیرت گردم اے ساقیٔ ماہِ سیما

بیا راز نیاگان ما یاد گارے

ازاں لے فشاں قطرۂ بر کشمیری

کہ خاکسترش افریند شمارے

یہاں ساقی سے مراد، خداوند بحر و بر کی ذات ہی ہو سکتی ہے جس کو مخاطب کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں کہ َ اے ساقی کشمیریوں کو اُن کی عظمت رفتہ کی یاد دلا، اُن کی یادیں ان کو واپس لَوٹا، سنہری دنوں کی یادیں، وہ اُن کے آباؤ اجداد جو اُن کی طرح کبھی سرنگوں نہ ہوئے تھے۔  اقبال خداوند تعالیٰ ( ساقی ) سے التجا کرتے ہیں کہ آج کے کشمیریوں کی راکھ پر ایسی شراب انڈیل جو ان کے دلوں میں آزادی و سرفرازی کی نئی قندیلیں روشن کردے ۔ کشمیر اور کشمیریوںکے بارے میں یہ اقبال کی خواہش اور اُن کا ایمان تھا ۔

  مشرق و مغرب میں اقبال کی مشہور زمانہ شاعری کی کتاب '' جاوید نامہ'' میں ایک طویل مثنوی شامل ہے ۔ یہ در اصل کشمیر پر ایک پوارا باب ہے ۔ اپنی اس مثنوی میں اقبال، بعض علما،  صوفیوں، سنتوں، ادیبوں شاعروں اور انسانیت کے احترام کے لیے کام کرنے والے صاحبان فکر و سوچ سے اپنی  روحانی ملاقاتوں کا ذکر کرتے ہیں ۔ یہ تمام ملاقاتیں عالم تصور میں ہوتی ہیں کیونکہ جن بزرگوں کے نام اس مثنوی میںآتے ہیں وہ بزرگ '' عالم ارواح کے مکیں'' ہیں ۔  اقبال اس موقع پربتاتے ہیں کہ کس طرح عالم تصور میں وہ  عظیم صوفی بزرگ میر سیّد علی ھمٰدانی، المعروف حضرت شاہ ھمدان سے ملاقات کرتے ہیں ۔ ارض کشمیر کے یہ عظیم صوفی بزرگ اپنی دھرتی کے وفادار بیٹے تھے اور انہوں نے زندگی بھر کشمیریوں کو جذبۂ ایمان و جہاد اور سرفروشی کے لیے تبلیغ کی ۔ اپنی اس تصوراتی ملاقات کے دوران، اقبال میر سیّد علی ھمٰدانی کے حضور شکوہ کرتے ہیں کہ آپ کے بندے آج تہہ تیغ کیے جا رہے ہیں، حضور نظر کرم فرمائیے، ہم شکایت کناں ہیں، آپ کی مدد کب پہنچے گی! اسی مثنوی میں آگے چل کر اقبال کشمیر ہی کے فارسی زبان کے ایک عظیم شاعر، غنی کاشمیری سے بھی مکالمہ کرتے ہیں اور اس مکالمہ میں کشمیرکے یہ پرسوزشاعر، غنی کاشمیری، اقبال سے یوں فریاد کناں ہوتے ہوئے اپنے لوگوں یعنی کشمیریوں کی حالت زار بیان کرتے ہیں

بگذر زما و نالۂ مستانہ مجوئے 

بگذر زشاخِ گل کہ طلسمے است رنگ و بو

گفتی کہ شبنم از ورقِ لالہ می چکد

غافل دمے است ایں کہ بگریہ کنار جوئے

زیں مشت پر کجا و سرو ایں چنیں کجا

روحِ غنی   است ماتمی مرگ از روئے

باد صبا اگر بہ جنیوا گزر کنی ! 

حرفے زما بمجلسِ اقوام باز کوئے

 دہقان و کشت و جوئے و خیابان فروختند

قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند

یعنی اقبال کے قلب و قلم سے، غنی  کاشمیری کہتے ہیں: اب ہمیں اکیلے میں ہونا چاہیئے اور کسی دیوانے کی ہوہوکار تلاش نہیں کرنی چاہیئے۔ شاخ گل کو جانے دو یہ تو محض رنگ و بو کی کلا کاری ہے، تم نے کہا کہ شبنم گل لالہ کی پتیوں سے قطرہ قطرہ گر رہی ہے، ہرگز نہیں!  ۔۔ دراصل یہ ایک ٹوٹے ہوئے دل سے خون کے قطرے گر رہے ہیں، غافل کان کھول، یہ گیت یہ نغمہ جسے تو بلبل کی صدا سمجھتا ہے یہ تو کشمیری شاعر ،  غنی   کاشمیری کی روح ٹرپ رہی ہے،  غنی   جو اپنے کشمیری لوگوں کی، ان کے جذبات و احساسات کی اور ان کی آزادی کی پامالی پر سوگ کر رہا ہے، نوحہ خواں ہے، ماتم کر رہا ہے، یہ صدا تو وہ صدا ہے۔ اے باد صبا، اگر تم جنیوا سے گزرو تو وہاں '' مجلس اقوام '' یعنی '' لیگ آف نیشنز'' کو بتایا کہ میرے ملک کشمیر میں کھیت و دہقا ن بیچ دیئے گئے ہیں، باغ و چمن بیچ دیئے گئے ہیں، اُس نے پوری قوم بیچ دی ہے اور کتنی سستی بیچ دی ہے ''۔  کشمیر کا یہ سودا ، سولہ مئی ١٨٤٦ئ  کو ہوا تھا اور اسے میثاق امرتسر کہا جاتا ہے۔  اس مثنوی میں اقبال نے اس بند میں اُس میثاق کا حوالہ دیا ہے جس کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی نے جموںکے سردار گلاب سنگھ کو پوری وادی محض ساڑھے سات ملین روپے میں فروخت کردی تھی ۔ حضرت شاہ ھمٰدان، اقبال کو بتاتے ہیں کہ  قوموں اور مملکتوں کے ایسے سودے کبھی پکے نہیں ہوتے، حالات تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔  شاہ ھمٰدان فرماتے ہیں کہ : جنت ارضی میں اے اقبال!، ایک مرد حُر یعنی حریت کار تلاش کر، ایک ایسا دیوانی سرفروش جس کی چیخ سے وادیٔ کشمیر لرز اٹھے اور پھر دیکھ کیا ہوتا ہے۔  حضرت شاہ ھمٰدان، اقبال کو یقین دلاتے ہیںکہ کشمیری اپنی قبروں سے اٹھیں گے، ابھی اٹھیں گے اور اپنے اس اٹھنے کے لیے کشمیری سور اسرافیل کے ناد بجائے جانے کا انتظار نہیں کریں گے، وہ اس سے بھی کہیں پہلے اٹھیںگے، اپنی آزادی کے لیے۔

 حضرت شاہ ھمٰدان کے اس غائبانہ اظہار نزول پر اقبال   تسلی پاتے ہیں اور ان کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے ۔ اُن کی مایوسی امیدوں میں بدل جاتی ہے اور نتیجتاً ان کا ایمان اور بھی پختہ ہو جاتا ہے کہ کشمیری اپنے اوپر جاری جبرو تشدد اور بر بریت پر مبنی غاصبانہ حاکمیت کے حصار سے ضرور باہر نکل آئیں گے ۔ اپنے اس ایمان و یقین کی روشنی میں اقبال پھر کشمیریوں سے انقلابی الفاظ میں یوں مخاطب ہوتے ہیں

بانشۂ درویشی در ساز و دمادم زن 

چو پختہ شوی چودرابر سلطنت جم زن

گفتد جہاں ما آیا بتومی سازد 

گفتم کہ نمی سازدگفتند کہ برہم زن

یعنی : جاؤ اور سر مست درویشوں کے ساتھ دمادم ملو، ہر وقت یہاں وہاں ان کی صحبت میں رہو، جب تم پر بھی اُن کا نشہ مکمل طور پر چھا جائیگا تو پھر تم خود بخود، جمشید کی سلطنت سے بھی اوپر پہنچ جاؤ گے ۔ وہ مجھ سے پوچھتے ہیں، کیا ہمارے الفاظ تمھاری شایان شان ہیں؟ میں کہتا ہوں، ہرگز نہیں ! وہ کہتے ہیں، تو پھر تم ان الفاظ کو تہہ و بالا کیوں نہیں کر دیتے ۔

 

 یہ وہ رمز ہے جو اقبال کو کشمیر اورکشمیریوں کی آزادی کے لیے ایک گرجدار کڑک آواز میں نعرے لگاتی ہوئی شخصیت کے طور پر سر بلند کرتی ہے ۔ اقبال کے ان الفاظ پر اگر غور کیا جائے تو یہ کشمیری عوام کے لیے ایک کھلی انقلابی دعوت ہے کہ وہ ڈوگروں کے تسلط کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔ ڈوگرے جو اُس وقت کشمیر پر حکمران تھے اور یہ تاریخی حقیقت ہے کہ پھر کشمیریوں نے ڈوگروں کے خلاف پنجہ آزمائی کی ۔ کشمیری عسکریت کی تاریخ میں نیا باب خود اپنے خون قلب و جگر سے لکھا اور لالہ کے گلزاروں کو اپنے خون سے سینچا۔ جاوید نامہ ہی میں اقبال لکھتے ہیں اور واقعہ کی یوں تشہیر کرتے ہیں

سلطنتِ نازک تر آمد از حباب

از دمے اُو را تواں کردن خراب

یعنی:  سلطنت ایک بُلبلے سے بھی نازرک تر ہے ، اسے تو محض ایک پھونک مار کرزمین بوس کر دیا جاتا ہے اور وہ بھی سلطنت کشمیر ، جس پر تب ڈوگرہ راج تھا  جو اپنے انجام کو پہنچا ۔ اور پھر یہاں سے اقبال کی نگاہ مستقبل بین نے جو دیکھا

اُس کو انہوں نے یوں بیان کیا

تیزبین و پختہ کارو سخت کوش 

از نگاہ آں فرنگ اندر خروش

اصل شاں از خاکِ دامن گیر ماست 

مطلع  ٔ این اختراں کشمیر ماست

یعنی: کشمیری عقابی نگاہیں رکھتے ہیں، وہ جفا کش اور جان کوش ہیں، مغربی حکمران اِن کشمیریوں کی جلالی نگاہوں کی تابانی سے لرزاں میں ۔ اِن کشمیریوں کا وجود ارضِ وطن کی مٹی سے گوندا ہوا ہے۔ اِن درخشاں ستاروں کا آسمان، ارض کشمیر ہے ۔

 

 ڈوگرا راج کے بعد، برطانوی ہند میں جموں و کشمیر کی آزادی کی تحریک شروع ہو چکی تھی ۔ یہ تحریک محض ١٩٤٨ء  میں شروع نہیں ہوئی تھی ۔  تاریخ گواہ ہے کہ ١٩٣١ئ میں کشمیریوں نے ہر قسم کے استحصال کے خلاف اپنی سلطنت اور اپنے ذہن و قلب اور وجود کی آذادی کے لیے تحریک شروع کردی تھی ۔ ١٩٣١ میں کشمیریوں کی اس جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لیے اُن کے روح وقلب کو گرمانے اور جذبۂ ایمانی کو تازہ حرارت مہیا کرنے کے لیے '' آل انڈیا کشمیر کمیٹی '' بنائی گئی ۔ اقبال اس کے رکن چنے گئے اور تھوڑے ہی وقت میں وہ اس  ''آل انڈیا کشمیر کمیٹی '' کے صدر بن گئے اور بعد میں اگرچہ دیگر مصروفیات کی وجہ سے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے عہدۂ صدارت سے مستعفی ہو گئے لیکن وہ بحیثیت ایک متحرک رکن نہ صرف اس میں شامل رہے بلکہ اس کے سبھی اجلاسوں میں باقاعدہ شمولیت کرتے رہے ۔ دو سال بعد یعنی ١٩٣٣ میں اقبال نے کشمیر سے آئے ہوئے مسلمان رہنماؤں کے ساتھ لاہور میں خصوصی ملاقات کی اور ہندوستان بھر کے مسلمانوں سے، کشمیری مسلمانوں کے ایما پر اپیل کی کہ ہندوستان کے مسلمان، کشمیریوں کو جبرو تشدد سے آزاد کرانے کے لیے انہیں ملتِ مسلمانان ہند کا '' جزو کُل''  سمجھیں۔ اور یہ مسلمانان کشمیر ہی ہیں جو دراصل دوسروں کو ہنر سکھانے اور تجارت و لین دین میں آگے بڑھانے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔ لیکن ١٩٣٣ئ میں یہی کشمیری خود عتاب کا  اُسی طرح نشانہ بنے ہوئے تھے جس طرح آج ہندوستانی حکومت اور مسلح افواج اُن پر مسلط ہیں ۔ اقبال مسلمانانِ ہند کی غیرتِ ملی کو پکارتے ہوئے انہیں مسلمانانِ کشمیر کو پنجۂ استبداد سے آزاد کرانے کی اپیل کرتے ہوئے مسلمانانِ کشمیر کی صورت حال کا تجزیہ یوں کرتے ہیں

سرما کی ہواؤں میں ہے عریاں بدن اُس کا 

دیتا ہے ہنر جس کا امیروں کو دو شالہ

اقبال کی نگاہِ مستقبل شناس نے، لوحِ فلک پر لکھا کشمیر کا مقدر پڑھ لیا تھا اور اس کے لیے انہوں نے جدوجہد کا آغاز کردیا تھا ۔ غائب سے دست قدرت، فرمودہ ٔ  غنی   کاشمیری اور حضرت شاہ ھمٰدان، اقبال کی زبان پر نعرے بن چکے تھے۔ اور یہی وہ جذبۂ  ایمانی و سرفروشی تھا جو اقبال نے کشمیریوں کی روح و قلب میں پھونک دیا تھا اور نتیجتاً  ١٩٤٧ء  میں  ریاست جمّوں و کشمیر میں ڈوگرہ راج مکمل طور پر نیست و نابود ہو گیا اور تحریک آزادی کشمیر ایک نئے مورڑ پر آگئی ۔ اقبال ڈوگرہ تاج و تخت کے نیست و نابود ہونے کے اپنے خواب کی تعبیر اور جذبۂ ایمانی اور کشمیری حریت پسندی کی حقیقی تصویر کا نظارہ کرنے کے لیے خود موجود نہیں تھے بلکہ ڈوگرہ تاج و تخت کی تباہی پر ربِ کریم کا شکریہ ادا کرنے کے لیے پیشگی اُس کے حضور پہنچ چکے تھے ۔  وہ  ١٩٣٨ء  میں وفات پا گئے تھے لیکن، سفر آخرت پر روانہ ہونے سے پہلے انہوں نے اپنے اسی رب سے جس نے ڈوگرہ راج کے خاتمے کے لیے کشمیریوں کو ہمت و حوصلہ عطا کیا تھا، ایکبار پھر دعا کی تھی کہ

توڑ اس دست جفا کیش کو یارب جس نے 

روحِ آزدایٔ ِ کشمیر کو پامال کیا

ہم دیکھتے ہیں کہ وہ مرد قلندر اپنی اس دعا کے پوری ہونے کے لیے، جنت الفردوس سے، جنت ارضی کے مردان حُرکے حوصلے بڑھا رہا ہے اور اُس کی نوا میں، حضرت شاہ ھمٰدان اور غنی    کاشمیری کے روحانی و ایمان افروز، ارض وطن پر جانثاری کے نغمے شامل ہیں ۔ آج وہ دست جفا کیش، رب الرحیم و کبیر کی مدد سے ٹوٹنے والا ہے اور روح آزادیٔ کشمیر، پنجہ استبداد و جبر سے آزاد ہو کر اپنے وجود میں داخل ہو رہی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ شعلۂ آزادی ماند نہ پڑنے پائے ۔ آئیے ہم اپنے خون دل سے اس کی لَو کوبڑھائیں اور اقبال  ہی کے الفاظ میں مالک ارض و سما سے دعا کریں کہ

توڑ اس دست جفا کیش کو یارب جس نے 

روحِ آزدایٔ ِ کشمیر کو پامال کیا

رب العالمین کے حضور اپنی اس دعا سے بھی پہلے اقبال نبی آخر الزماں، خاتم المرسلین، خاتم النبین محمدۖ کے حضور کشمیری مسلمانوں کی صورت حال پر گریہ کناں ہوتے ہوئے اُن سے عرض کرتے ہیں کہ ایک اور محمود غزنی، جلال الدین افغانی جیسا رہنما اُن کی مدد کے لیے عطا ہو ۔ یہ اقبال کی دعاؤں اور خود کشمیریوں کے جذبہ آزادی کا نتیجہ تھا کہ ڈوگرہ راج کی جڑیں کاٹ دی گئیں ۔ گلمرگ سے سرینگر تک کی فضا اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اٹھی،  لالہ نے نیا لباس زیب تن کیا اور چناروں نے نئی قبائیں پہنیں ۔  لدّر کی موجوں میں نئی روانی آئی اور پہلگام نے ایک حریّتی پہلو بدلا اور مسلمانانِ کشمیر اپنے رب کے حضور سجدہ زیر ہوئے اور یوں اقبال  کی ایک اور پشینگوئی پوری ہوئی

فطرت کے تقاضوں سے ہوا حشر پہ مجبور

وہ مدرہ کہ تھا بانگِ سرافیل کا محتاج

لیکن روح اقبال ابھی مطمئن نہیں تھی وہ کشمیر کو ہر قسم کے  '' پنجۂ استبداد '' سے آزاد دیکھنے کے لیے کشمیریوں کو بار بار پکارتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ

در زمانے صف کشن ہم بودہ است  

چیرہ و جانباز و پُردم بودہ است

اقبال  کشمیری عوام کو براہ راست خطاب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے

 

 

 

آن عزمِ بلند آور آن سوزِ جگر آور 

شمشیر پدر خواہی بازوئے پدرآور

اور پھر جنت الفردوس سے غنی   کاشمیری کی روح، اقبال کی آواز میں یوں پکار رہی تھی

باش تابینی کہ بے آواز صور 

ملّتِ بر خیزداز خاکِ قبور

دل میانِ سینہ ٔ  شاںمردہ نیست

اخگرشاں زیریخ افسردہ نیست

اور ان دونوں، جہاں شناس، پیامبران حریت کی آواز میں کشمیر ہی کے ایک اورمعروف آزادی و حریت پسند شاعر، پیرزادہ غلام احمد، جو کشمیر کے ایک معروف دینی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے وہ بھی کشمیر کی آزادی کے نغمے گا رہے تھے ۔ پیرزادہ غلام احمد  '' مہجور '' تخلص کرتے تھے ۔ وہ تحصیل پلوامہ کے گاؤں  '' تری نام '' سے تھے ۔ اقبال نے ایک مرتبہ انہیں اپنے ہاں لاہور مدعو کیا اور انہیں آزادیٔ کشمیر کے لیے کام کرنے اور اپنے کلام کے ذریعے کشمیری عوام کی روح و قلب کو گرمانے اور ان میں جذبۂ حریت پیدا کرنے کو کہا ۔ اقبال  کے اس ھمعصر کشمیری شاعر، غلام احمد مہجور کے کلام میں بھی اقبال ہی کی بانگ درا سنائی دیتی ہے ۔ غلام احمد مہجور کشمیر کے بارے میں کہتے ہیں:  تجھے اپنی آزادی کے لیے خود لڑنا ہے۔ کمر ہمت باندھ، شمیشر اُٹھا،  فرشتے تیرے لیے خوشخبریاں سنانے والے ہیں۔  غلام احمد مہجور کہتے ہیں

کون سے درد کی طالب میری شعلہ بیانی ہے

سحر ہے، باغ ہے، مستی بھرادل ہے جوانی ہے

 یہ بے برگ و نوا شاخیں، یہ بے صوت و صدا چشمے

دلیل ابرِ گوہر بار میری نغمہ خوانی ہے

سرور زندگی میں بے خودی درجۂ خرابی ہے 

خودی ہے ریزہ ریزہ یہ حصارِ بدگمانی ہے

اور اب اقبال کے یہ ھمعصر یوں کہتے ہیں

یہی کشمیر مشرق کو بہار بے خزاں دے گا 

میرا پیغامِ شرح سوزو ساز زندگانی ہے

 

 روایت ہے کہ اقبال نے جب کشمیری حریت پسند شاعر غلام احمد مہجور سے اُن کا یہ کلام لاہور ہیں سنا تو  وہ مرد ِدرویش آب دیدہ ہو گئے ۔ مہجور نے وجہ پوچھی تو مراقبے کی حالت میں اقبال نے فرمایا

ہر درد مند دل کو رونا مرا رُولا دے 

بے ہوش جو پڑے ہیں شائد انہیں جگا دے

اقبال نے بعد میں یہ شعر اپنی ایک خوبصورت نظم میں شامل کیا جو ہم سب بچپن سے پڑھتے اور سنتے آئے ہیں۔ یہ نظم آزادی کے مفہوم کی بہترین تشریح ہے ۔

 اقبال،  حضرت شاہ ھمٰدان،  غنی  کاشمیری اور غلام احمد مہجور، یہ سب بزرگان حق گو کا ہی فیض ہے کہ آج کشمیر میں کشمیری حریت پسند اپنے سروں کے نذرانے پیش کرتے ہوئے، شمع حریت کو اپنے خون جگر سے روشن کر رہے ہیں اور گل لالہ کے مرغزاروں کو سینچ رہے ہیں اور زعفران کے کھیتوں سے ابھرتی ہوئی خوشبوئیں شبنم کے موتیوں سے سج دھج کر اُن کے مزاروں پر بکھر رہی ہیں ۔ آزادیٔ کشمیر کا سورج طلوع ہو چکا ہے، بس کچھ ہی دیر میں یہ سر پہ آجائے گا اور پوری وادی نغمۂ  توحید سے گونج اٹھے گی اور آزادیٔ کشمیر کے بارے میں اقبال کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوگا ۔

آئیے،  جموں و کشمیر کے شہیدوں کے لیے ، دعا کریں کہ

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را  ۔

نصر ملک کوپن ہیگن  ۔  ڈنمارک ۔

©   تمام جملہ اشاعتی حقوق بحق اردو ہمعصر ڈاٹ ڈی کے محفوظ ہیں

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد