دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری
دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری

علامہ اقبال اور ختم نبوت سید نذیر نیازی

علامہ اقبال اور ختم نبوت سید نذیر نیازی

آج سے چند ماہ پہلے جب علامہ اقبال مدظلّہ نے احرار اور قادیان کی باہمی آویزش کے متعلق اپنا مشہور بیان شائع کیا ۱؎ تو اس میں ختم نبوّت کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا تھا کہ ندرت تخیّل کے اعتبار سے اس عقیدے کی حیثیت بنی نوع انسان کے افکار و تہذیب و ثقافت کی تاریخ میں اپنی نظیر آپ ہے۔    اس پر قادیان کے علاوہ بعض مسلم اور غیر مسلم حلقوں میں جو ردوکد ہوتی رہی، اس سے قارئین "طلوع اسلام"۲؎ بے خبر نہیں ہونگے۔ لیکن تعجب خیز امر یہ ہے کہ علامہ ممدوح نے جو سوال اٹھایا تھا اسکی صحیح اہمیت کا اندازہ کیے بغیر جریدہ "لائیٹ" ۳؎ نے بھی اس موضوع پر رائے زنی شروع کردی۔ جہاں تک ختم نبوت کا تعلق ہے مدیر "لائیٹ" ڈاکٹر صاحب کے ارشادات سے حرف بہ حرف متفق تھے لیکن کبھی نامعلوم اختلالِ ذہنی کی بناء پر انہوں نے سمجھ لیا کہ ختم نبوت سے مقصد یہ ہے کہ انسان دینی قیود سے آزاد ہو جائے۔ ظاہر ہے کہ اس غلط اور بے بنیاد تعبیر کو کوئی صحیح الفہم انسان ایک لمحے کیلیے بھی قبول نہیں کرے گا۔ جریدہ "ٹروتھ" ؎۴ نے ایڈیٹر صاحب کو اس غلط بیانی پر متنبّہ بھی کیا تھا۔ پھر راجہ حسن اختر صاحب نے اپنے ایک مراسلے میں جس کو ہم دوسری جگہ شائع کر رہے ہیں، "لائیٹ" کے شبہات کی تردید کرتے ہوئے اس امر کی طرف اشارہ کیا تھا کہ "تشکیل جدید" کے پانچویں خطبے میں یہ بحث کسی قدر زیادہ تفصیل کے ساتھ موجود ہے، جس کے مطالعے کے بعد کسی غلط فہمی کا احتمال نہیں رہے گالیکن ایڈیٹر"لائیٹ" غالبا" فلسفہ سے ناواقف ہیں اسلیے کہ ان افسوسناک غلط فہمیوں کے اعتراف کے بجائے جن کی بغیر کسی احساس ذمہ داری کے انہوں نے بڑے جوش وخروش سے اشاعت کی ہے، وہ بدستور اپنی رائے پر قائم رہے اور تشکیل جدید کی عبارات میں کچھ اس قسم کی معنوی تحریفیں کی ہیں، جن کو دیکھ کر تعجب بھی ہوتا ہے اور افسوس بھی۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے شبہات خلوص اور دیانت داری پر مبنی ہیں لیکن جیسا کہ انہوں نے خود کہا ہے انہیں "شاعر کی ذات سے عقیدت اور نیاز مندی کا دعویٰ ہے۔" اور اس امر کا اعتراف بھی کہ "نوجوانان اسلام کی خوابیدہ روحیں اقبال ہی کی شاعری سے بیدار ہوئیں۔" لہٰذا سوچنے کی بات یہ تھی کہ ان کا ذہن جس غلط نتیجے پر پہنچا ہے اس کی ذمہ داری خود انہی کے عجزوفہم پر عائد ہوتی ہے، یا راجا صاحب کی تصریحات پر۔ یہ اسلیے کہ شاعر کا پیغام تمسک بالکتاب، اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور پابندئ دین کے سوا اور کچھ نہیں۔ بہر کیف ایڈیٹر "لائیٹ" کی ساری مشکل "تشکیل جدید" کی یہ عبارت ہے:

اسلام کا ظہور --------استقرائی کا علم ظہور ہے--------- اسلام نے نبوّت کی تکمیل سے خود نبوّت کو ختم کردیا۔اس میں لطیف نکتہ پنہاں کی زندگی کو ہمیشہ قیود کا پابند نہیں رکھا جا سکتا۔ شعور ذات کی تکمیل کیلیے ضروری تھا کہ انسان کو اس کی ذاتی قوتوں پر چھوڑ دیا جائے۔"؎۵
ان سطور سے ہمارے فاضل صحافی نے یہ عجیب وغریب نتیجہ اخذ کیا ہے کہ "اقبال نے عقل انسانی کو وحی پر ترجیح دی ہے۔ ان کے نزدیک ذات یا "انا" تمام عظمتوں کا دارومدار ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ نطشے کا اثر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ مغربیت کی جھلک۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر ختم نبوّت سے مطلب سلسلہ وحی کا انقطاع اور عقل کا ظہور ہے تو اس کے معنی ہونگے کہ اب ہماری نجات قرآن سے وابستہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلیے کہ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک شعور نبوّت کی ایک قسم کی کفایت فکر ہے، جس کا تعلق انسانکے عہد طفولیت سے تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔"
حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ایڈیٹر صاحب "لائیٹ" اگر وحی اور عقل کے باہمی فرق اور تاریخ انسانی کے مختلف ادوار تمدن سے ناواقف ہیں لہٰذا "تشکیل جدید" کی عبارتوں کا مطلب نہیں سمجھتے تو خیر یہ انکی معذوری تھی۔ لیکن انہوں نے راجا صاحب کی فہمائش کے باوجود بعض ضروری عبارات کو نظر انداز کر دیا اور اس طرح تحقیق و تنقید کی دنیا میں ایک شدید نا انصافی کے مرتکب ہوئے۔ تشکیل جدید کی پوری عبارت یہ ہے۔
"
اسلام کا ظہور جیسا کہ ہم آگے چل کر ظاہر کرینگے، استقرائی علم کا ظہور ہے۔ اسلام نے نبوّت کی تکمیل سے خود نبوّت کو ختم کردیا۔ اس میں نکتہ پنہاں یہ ہے کہ زندگی کو ہمیشہ قیود کا پابند نہیں رکھاجا سکتا۔ شعور ذات کی تکمیل کیلیے ضروری تھا کہ انسان کو اسکی ذاتی قوتوں پر چھوڑ دیا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلام نے دینی پیشوائی اور بادشاہت کو بھی تسلیم نہیں کیا۔ علی ہٰذا قرآن مجید نے انسان کے محسوسات و مدرکات اور غوروفکر پر بار بار زور دیا ہے اور کہا ہے تاریخ اور فطرت دونوں علم کے ذرائع ہیں۔ یہ سب اس خیال کے مختلف پہلو ہیں جو انقطاع نبوّت کہ تہہ میں کام کرتا ہے۔ لیکن یہاں یہ غلط فہمی نہ ہو کہ باطنی واردات، الہام وکشف (مدیر) کو جو باعتبار کیفیت شعور نبوّت سے مختلف نہیں اب زندگی سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ قرآن مجید نے انفس اور آفاق دونوں کا علم کا ماخذ ٹہرایا ہے۔ آیات الٰہیہ کا ظہور (داخلی) محسوسات اور (خارجی) مدرکات دونوں میں ہوتا ہے اور انسان کا فرض ہے کہ اپنی واردات کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیتا رہے اور اسطرح معلوم کرے کہ ان میں کہاں تک حصول علم کی صلاحیت موجود ہے۔ لہٰذا ختم نبوّت کا یہ مطلب نہیں کہ اب زندگی پر عقل کی حکمرانی مقدر ہو چکی ہے، اس میں جذبات کو دخل نہیں ہوگا۔ ایسا ہونا نہ ممکن ہے نہ مقصود۔ عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت یہ ہے کہ اس سے باطنی واردات کے متعلق ایک آزاد اور ناقدانہ طرز عمل کرنے میں مدد ملتی ہے کیونکہ اس سے یہ ماننا لازم آتا ے کہ اب نوع انسانی کی تاریخ میں کوئی شخص اس بات کا دعویٰ نہیں کرے گا کہ وہ کسی مافوق الفطرت اختیار کی بناء پر ہمیں اپنی اطاعت پر مجبور کر سکتا ہے۔ پس ختم نبوت کا مقصد یہ ہے کہ ہماری داخلی واردات کی دنیا میں بھی نئے نئے مظاہر علم کا انکشاف ہو۔"
کیا ایڈیٹر صاحب "لائیٹ" انکار کر سکتے ہیں کہ یہ انسانی شعور کے ذات کی تکمیل میں ایک ضروری مرحلہ تھا جس کی اہمیت کا شاید وہ اپنے مخصوص عقائد کی وجہ سے ٹھیک اندازہ نہیں کر سکے۔
بہرکیف ختم نبوت کا مسئلہ اس قدر اہم ہے اور اسکے متعلق علامہ اقبال نے جن خیالات کا اظہار فرمایا ہے اگر ان کی مزید تشریح کر دی جائے تو غیر مناسب نہیں ہوگا۔ یوں بھی ایک علمی اور دینی بحث کی حیثیت سے اس بارے میں کسی مزید غلط فہمی کی گنجائش باقی نہیں رہنی چاہئِے۔ یاد رکھنا چاہئیے کہ "تشکیل جدید" کی س عبارت سے ایڈیٹر "لائیٹ" نے ٹھوکریں کھائی ہیں، ان کا موضوع عقلی اعتبار سے ختم نبوت کی تائید کرنا ہے۔ یعنی یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بعثت انبیاء کا سلسلہ بند ہے۔ اس بات کو سمجھنے کیلیے امور ذیل کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔
اوّل یہ کہ عقل اور وحی دونوں کو علم کا ماخذ ٹہرا کر ان کا باہم مقابلہ کرنا صحیح نہیں۔ اسلیے کہ علم کا ذریعہ انسان کے دخلی اور خارجی حواس ہیں۔ عقل انکشاف حواس کی تنقید کرتی ہے۔ خواہ علوم فطرت کی دنیا میں ہمیں اپنے خارجی حواس کی بدولت جو علم حاصل ہوتا ہے۔ عقل نے اسکی صحت عدم صحت کا جائزہ لیتے ہوئے مختلف نظریوں اور اصول و کلیات کی بنیاد رکھی اور انسان کو اسکے بعض مغالطوں پر مطلع کیا مثلا" طلوع و غروب آفتاب یا سکون زمین۔۔۔۔۔۔ اسی طرح تکمیل وحی کے بعد عقل کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ہر مدعی الہام و کشف کی نفسیاتی حالت کی تنقید کرے تاکہ اس امر کا پتہ چل سکے کہ جو شخص الہام و کشف کا دعویٰ کرتا ہے اسکی شخصیت کیا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سنتِ اسلامیہ میں اس تنقید کا مدار قرآن و سنّت پر ہوگا۔
دوسرے یہ کہ وحی بیشک حصولِ علم کا ایک ذریعہ ہے لیکن اس میں اور علم بالحواس میں فرق یہ ہے کہ جہاں علم بالحواس محنت اور انتظار کا پابند ہے اور اسکے لیے قید زمانی شرط، وہاں وحی میّ علم کا یہ زامنی عنصر غائب ہو جاتا ہے۔ گویا یہ ایک لمحے یا "طرفتہ العین" میں ان حقائق کا انکشاف ہے جن کو ہم ان اپنے حواس کی مدد سے ہزار ہا سال کی مدت میں بھی معلوم نہیں کر سکتے۔ بااعتبار کیفیت اگر ہم علم بالوحی کا تصور کرنا چاہیں تو اسکے لیے الہام و کشف یا آرٹ اور فلسفہ حکمت کی دنیا میں "القا" کی مثال پیش کی جا سکتی ہے لیکن جس طرح بلحاظ قدروقیمت الہام و کشف کا درجہ "القا" سے بلند ہے، اسی طرح کشف و الہام کو وحی سے کوئی نسبت نہیں کیونکہ کشف و الہام کی کیفیت انفرادی ہوتی ہے۔ وہ دوسروں کیلیے حجت نہیں۔ برعکس اسکے وحی ایک اٹل اور ناقابل انکار حقیقت ہے اور اس سے جن حقائق کا انکشاف ہوتا ہے ان کی پابندی ہر شخص پر فرض ہے۔ لہٰذا اصطلاحا" وحی کا لفظ اسی وقت استعمال کیا جاتا ہےجب خود اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے کسی کو ہم کلامی کیلیے منتخب کرے اور اس طرح اس سے انسان کی ہدایت و رہنمائی کا مقصد پورا ہوتا رہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کی حیثیت ہمیشہ اجتماعی ہوتی ہے اور اسکا وجود ہمارے لیے حجت۔ ضروی نہیں کہ ہم عقلا" اسکی تمام مصلحتوں کو سمجھ سکیں۔
تیسرے یہ کہ اسلام سے پہلے جو ادوارِ تمدن گزرے ہیں ان میں باوجود اختلافات کے ایک بات مشترک ہے اور وہ یہ کہ ان سب کی بناء استخراج پر تھی، جو استقرا کے برعکس تحقیقِ حق اور تسخیر فطرت کا ایک سہل مگر ناقص طریق ہے اسلیے کہ یہ وہ منہاج علم ہے جو تجربہ اور شاہدہ اور محنت و انتظار کی سعی اور جہد سے آزاد ہے۔ اسی لیے وحی الٰہی کی ضرورت تھی کہ بار بار انسان کو اسکی غلطیوں پر متنبّہ کرے۔ لہٰذا اسکی رُشد و ہدایت کیلیے ہر جگہ اور ہر زمانے میں انبیاء علیہم السلام مبعوث ہوتے رہے جن کی تبعیت و پیروی فرض تھی۔ یہ گویا تارخ انسانی کا عہد طفولیت ہے جس میں انسان اپنی ترقی کے ابتدائی مراحل طے کر رہا تھا۔ وحی الٰہی نے بتدریج اسکی تربیت کی۔ اگر یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا تو ناممکن تھا کہ انسان کے اندر اعتماد علی النفس پیدا ہوتا اور وہ اپنے شعورِ ذات کی من کل الوجوہ تکمیل کر سکتا۔ کیونکہ اسکے لیےکوئی نظام حیات آخری اور قطعی نہیں تھا۔ تکمیل وحی کی ضرورت خود اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اس سے قبل انسانیت کی تکمیل نہیں ہوئی تھی لیکن اس سے ان برگزیدہ اور مقدس افراد کی عظمت پر کوئی حرف نہیں آتا، جو منصب نبوت سے سرفراز ہوئے۔اسلیے کہ یہاں بحث نوع انسانی سے ہے۔ اسکے تدریجی ارتقاء سے کہ حکمت الٰہیہ کس طرح اسکو اس مرحلے پر لے آئی جب اسے علم استقرائی سے روشناس کرانا مقصود تھا۔(علم استقرائی کے بغیر یہ ممکن نہیں کہ انسان اپنے ماحول پر غالب آسکے) اور رسالتِ محمدیہ کے ذریعے زندگی کی آخری اور دوامی اساس اس پر منکشف کی۔ اس امر کو قرآن پاک نے کس خوبی سے تکمیلِ دین اور اتمامِ نعمت سے تعبیر کیا ہے اور حقیقت میں یہ نبی آخرالزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہم انسانوں پر اتنا بڑا احسان ہے س کا حق قیامت تک بھی ادا نہیں ہو سکتا۔ البتہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس آخری ہدایت کے ہوتے ہوئے بھی انسان چھوٹی چھوٹی اور وقتی ہدایتوں کا محتاج ہے یا یہ کہ وحی محمدی کے باوجود قانونِ حیات کی تکمیل ابھی باقی ہے۔یعنی وہ لوگ جو مغربی خیالات کے زیرِاثر نظامِ شریعت کو اپنے لیے حجت نہیں سمجھتے، وہ دانستہ یا نادانستہ نبوت محمدیہ کے منکر ہیں۔ اسلیے کہ ہ انسان کو پھر اس دور کی طرف لے جانا چاہتے ہیں جہاں سے اسلام ان کو آگے لے آیا تھا۔ بالفاظ دیگر وہ تکمیلِ دین اور اتمامِ نعمت کا مطلب نہیں سمجھتے اور انہیں تعلیماتِ قرآنی میں کوئی بصیرت حاصل نہیں۔
چوتھے یہ کہ اختتامِ وحی یا انقطاعِ نبوت سے یہ استدلال کرنا غلط ہے کہ اب عقل کو (نعوذ باللہ) وحی پر ترجیح حال ہے۔ لہٰذا اس سے مقصود تبعیتِ وحی کو ختم کردینا ہے۔ یہ کہنا کہ آئندہ کیلیے نزولِ وحی کوروک دیا گیا ہے اس سے یہ نتیجہ کہاں مرتب ہوتا ے کہ اب وحی کی پیروی ضروری نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں تنہا یا باہم اس درجہ مختلف ہیں کہ ان کو دنیا کی کوئی منطق ایک نہیں ٹہرا سکتی۔ اسلیے ہمیں اپنی زندگی سے متعلق جو بصیرت حاصل ہوئی ہے اس کا سرچشمہ بھی وحی ہے۔ یہ وحی الٰہی ہے جسکی بدولت انسان نے اپنے موجودہ دور ارتقاء میں قدم رکھا۔ لہٰذا ان میں سے ایک کا انکار گویا دوسرے کا انکار ہوگا۔ یہ کیونکر ثابت ہوا کہ نبوت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے جو راہ مقرر کی ہے اسکا اختیار کرنا احکام نبوت کو رد کرتا ہے اس سے خود بخود احکام نبوت کا اتباع لازم آتا ہے۔ اگر اسلام نے انسان کو علوم استقرائی سے روشناس کرایا اور اسکو بار بار عقل و فکر اور مشاہدے کی دعوت دی تو عقل و فکر اور مشاہدے کے ساتھ استقرائی علو کا وود کس دلیل کے ماتحت اسلام کا منافی ہے؟ اس سے اگر کوئی نتیجہ مرتب ہو سکتا ہے تو صرف یہ کہ اگر شعورِ ذات کی تکمیل کیلیے ضروری تھا کہ انسان کو اسکی ذاتی قوتوں پر چھوڑ دیا جائے تو یہ اس وقت تک ممکن ہی نہیں ب تک کہ انسان محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی ختیار نہ کرے۔ لہٰذا نبوت محمدیہ کی یہ ختمیت ہی اس کی ابدیت پر دلالت کرتی ہے بلکہ اگر ہم چاہیں بھی تو احکام نبوت سے آزاد نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ احکام زندگی کی گہرائیوں سے پیدا ہوئے ہیں جن کو فطرتِ صحیحہ خود بخود قبول کرتی ہے۔ ان کا اتباع گویا تقاضائے فطرت کا اتباع ہے اسی لیے اسلام کو دین فطرت کہا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے خود ہمارے فائدے کیلیے پسند کیا۔ یہ مقصود نہیں تھا کہ وہ ہمارے لیے تکلیف کا باعث ہو۔ ما جعل علیکم فی الدین من حرج (۷)
پانچویں یہ کہ نبوت کے دو پہلو ہیں۔ ایک وہ مخصوص حالات و واردات ان کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اسلامی تصوّف میں نبوت کو روحانیت کا ایک مقام خاص (مقام بھی تصوف کی ایک اصطلاح ہے) تصور یا جاتا ہے، اور دوسرا سنتِ نبوی جس سے ایک جدید اجتماعی اور سیاسی فضا تخلیق ہوتی ہے اورانبیاء اور مرسلین جماعتِ انسانی کے سامنے اخلاق و اعمال کا ایک نیا تخیّل پیش کرتے ہیں۔ جس کے اقرار سے انسان کمالاتِ زندگی تک پہنچتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص اس جدید نظام میں شریک نہیں ہوتا وہ کمالاتِ ذات سے محروم رہتا ہے، اس محرومی کو مذہبی اصطلاح میں لفظ کفر سے تعیر کیا گیا ہے۔ گویا ریاست کی تصدیق محض صاحبِ رسالت کے مرتبہ و مقام کا اعتراف نہیں بلکہ یہ عبارت ہے اسکی سنت کے اتباع اور جس اخلاقی فضا کی تخلیق اسکے وجود سے ہوئی تھی، اس میں پرورش حاصل کرنے سے۔ اگر کوئی شخص اس پابندی سے گریز کرتا ہے تو وہ بلاشبہ کافر ہے۔ لہٰذا نبوت کا اطلاق اسی وقت ہو سکتا ہے ب کسی شخص میں دونوں اجزا موجود ہوں۔ بالفاظِ دیگر ختمِ نبوت کے معنی یہ ہونگے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب کوئی شخص اس بات کا دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ ان اجزاء کا حامل ہے۔ یعنی ایک طرف سے اسے روحانیت کا وہ مقام حاصل ہے جو انبیاء کیلیے مخصوص تھا اور دوسری جانب اسکی ذات ملت کیلیے حجت کہ اگر ہم اس کی جماعت میں داخل نہیں ہوتے تو گویا کفر کے مرتکب ہوتے ہیں۔ جو شخص اس قسم کا دعویٰ کرتا ہے وہ کاذب ہے اور شریعت اسلامی کی رو سے واجب القتل جیسا کہ مسلمہ کذاب کی مثال سے صاف ظاہر ہے کہ اسے بوجود رسالت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کے قتل کردیا گیا۔ البتہ ختم نبوت کا یہ مطلب نہیں کہ مکالمہ الٰہیہ، کشف و الہام کا سلسلہ، منقطع ہو گیا کیونکہ ہر سچّے اور اخلاص مند مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اسلام کو بطور دین فطرت کے اپنی ذات پر منکشف کرے۔ یہ گویا اس کے پیش کردہ حقائق سے اتحاد و اتصال کی کوشش ہے، جس کو اصطلاحا" لفظ "تصوّف" سے تعبیر کیا گیا ہے۔ مگر اس طرح انسان کو جو مقام حاصل ہوتا ہے اس کو ولایت سے موسوم کیا گیا ہے کیونکہ نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد الہام و کشف کی اہمیت محض ثانوی ہے۔ وہ کسی شخص کے ذاتی مشاہدات و واردات تو ضرور ہیں لیکن انکی جماعتی حیثیت کچھ بھی نہیں۔ امّت کو اسکی تنقیدوتحقیق علیٰ ہٰذاتنقیص کا حق حاصل ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ صاحب الہام ان کو اپنے لیے حجت سمجھے۔ مگر یہ کہنا کہ وہ تمام عالم اسلام کیلیے بھی حجت ہو سکتے ہیں غلط ہوگا کیونکہ اس طرح استقرارِ تنقید اور روایت غرضیکہ تاریخ اور علم وحکمت کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ یہی فتنہ تھا جس سے امّت کو محفوظ رکھنے کیلیے ختمِ نبوت کی ضرورت پیش آئی تاکہ وحی محمدی کو قیامت تک کیلیے حجت ٹہرایا جا سکے۔ گویا ختم نبوت سے مقصد مطلقاً بابِ نبوت بند کردینا ہے۔ یعنی کہ یہ اب انسان کی تاریخ میں کسی جدید اخلاقی اور اجتماعی فضا کی تخلیق نہیں ہوگی۔ اس کو جس چیز کی ضرورت تھی مل گئی۔ انسان اس بات کا محتاج نہیں وہ اپنی ہدایت اور رہنمائی کیلیے نئے نئے انبیاء کی آمد کا منتظر رہے۔ اسکی تکمیل ذات اور اعتماد علی النفس کے تمام مراحل پورے ہو چکے ہیں۔ خدا کا بھیجا ہوا قانون اور اسکا عملی نمونہ یعنی سنت نبوی اس کے سامنے ہیں۔ یہ اسکا فرض ہے کہ وہ اپنی سعی و کوشش سے اس راہ پر چلے اور اسطرح فیوض وبرکاتِ الٰہیہ کا مستحق ہو۔ لیکن یہ امر کہ ملت اسلامیہ کیلیے جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی دوسرے انسان کا اتباع اور پیروی ضروری ہے صحیح نہیں۔ اسکا مطلب ہوگا کہ نبوت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باوجود ابھی انسان کو مزید ہدایت و رہنمائیوں کی ضروت ہے۔ حالانکہ کتاب و سنت کے ہوتے ہوئے ایمان و یقین کی تکمیل ہو چکی ہے اور اب انسان اپنی نجات کیلیے کسی دوسرے انسان کا محتاج و منتظر نہیں۔ تاریخ انسانی کے ایک دور میں البتہ اسکی ضرورت تھی لیکن ظہور اسلام کے ساتھ اس دور کا ، جس کے نفسیاتی خصائص میں انتظار اور بے اعتمادی شامل ہیں، لہٰذا اسکے لیے "مجوسی ثقافت" کی اصطلاح وضع کی گئی، خاتمہ ہو گیا۔ کیونکہ تکمیل دین کے بعد اس امر کی ضرورت نہیں رہی تھی کہ انسان کو اور وحیوں اور ہدایتوں کا منتظر رکھا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اسلام میں تشریعی اور غیر تشریعی نبوت، ظل وبروزِبعثت، "مجددین و نامورین" اور ظہور ائمہ کے جو تصورات قائم ہیں وہ سب مجوسی انداز خیال کا نتیجہ ہیں اور ختمِ نبوت میں حارج ہوتے ہیں۔ اسلام کو ان سے کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ جن احادیث و روایات کو ان کی تائید میں پیش کیا جاتا ہے، ان کے باوجود تمام ائمہ و صوفیاء اور سلف صالحین نے اس قسم کے کسی عقیدے کو تسلیم نہیں کیا۔ گویا مجوسی ثقافت کے حامی ان کی جو تاویل کرتے ہیں غلط ہے۔ شرعی لحاظ سے دیکھا جائے تو قرآن و سنت سے انکی کوئی سند نہیں ملتی اور عقلی اعتبار سے وہ اعتمادِ ذات اور تکمیلِ شعور کی اس دولت کو چھین لیتے ہیں، جو بنی نوع انسان پر اسلام کا ایک زبردست اور ناقابلِ انکار احسان ہے۔

حواشی:
مضمون کا عنوان ہے:
"Qadianism and Orthodox Muslims"
یہ مضمون لطیف احمد ۔۔۔۔۔۔۔ کی مرتبہ کتاب
Speeches, statements and Writings of Iqbal
(
لاہور،۱۹۷۷) میں شامل ہے۔
مصنف کا رسالہ "طلوع اسلام" جو ان دنوں دہلی سے شائع ہوتا تھا۔
۔"Light"
انگریزی ہفت روزہ جو قادیانیوں کا ترجمان تھا۔
"Truth"
انگریزی ہفت روزہ جو قادیانیوں کی لاہوری جماعت کا ترجمان تھا۔
"
تشکیل جدید" الٰہیات اسلام "ص ۱۹۳۔
اس پیراگراف میں اقبال کے جن خیالات کو پیش کیا گیا وہ تشکیلِ جدید میں صفحہ ۹۳،۹۴ پر ملتے ہیں۔
سورۃ الحج: آیت ۷۸ کا ترجمہ: اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں۔

حوالہ: allama-iqbal-aur-fitna-qad

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد