دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری
دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری

سیاست دان اقبال رح

سیاست دان اقبال رح   محمد آصف بھلّی

علامہ محمد اقبال بنیادی طور پر ایک شاعر، فلسفی اور مفکر تھے لیکن انہوں نے سیاسیات پر اظہار خیال کے ساتھ ساتھ علمی سیاست میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ ایک عالم میں ان کی سیاست اور سیاسی افکار کا تفصیلی جائزہ ہرگز نہیں لیا جا سکتا تاہم چند نمایاں پہلو¶ں کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔   

 سیاسی فکر کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو علامہ اقبال کا نصب العین ہمیشہ یہ رہا کہ زندگی، سیاست اور مذہب کو الگ الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ دین و مذہب کو سیاست سے علیحدہ کرنے کا نتیجہ علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ جب دین و سیاست میں دوری پیدا ہو جائے تو پھر ہوس کی حکمرانی قائم ہو جاتی ہے۔ علامہ اقبال کے اس نقطہ نظر کو سامنے رکھ کر اگر پاکستان کی نصف صدی سے اوپر کی سیاسی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ فوجی آمریت ہو یا جمہوری دور ہمارا سب سے بڑا المیہ دولت اور اقتدار کی ہوس رہا ہے۔ ہمارے ہاں سیاست اور حکومت عوام کی خدمت کا ذریعہ نہیں بلکہ اقتدار کے ذریعے ہم اپنے ذاتی وسائل میں اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ ہوس اختیار اور ہوس زر ہماری قومی زندگی پر چھائی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال کا یہ م¶قف سو فیصد درست معلوم ہوتا ہے کہ سوائے اسلامی نظام کے دنیا کا کوئی اور سیاسی و معاشی نظام فلاحی ریاست کی مستقل ضمانت نہیں دے سکتا۔ علامہ اقبال اپنی متعدد نظموں کی طرح ایک نظم ”ابلیس کی مجلس شوریٰ“ میں دوسرے سیاسی نظاموں کے ساتھ ساتھ اسلام کے سیاسی نظام کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ اس نظم میں اقبال نے ابلیس کی زبان سے اپنے مشیروں کو کہلوایا ہے کہ ابلیست کو صرف اسلام سے خطرہ ہے

الحذر آئین پیغمبر سے سو بار الحذر
حافظ ناموس زن، مرد آزما، مرد آفریں
موت کا پیغام ہر نوع غلامی کے لئے
نے کوئی فغفور و خاقان، نے فقیر رہ نشیں
اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب
پادشاہوں کی نہیں، اللہ کی ہے یہ زمیں
بعض دانشور بدنیتی سے علامہ اقبال کو سوشلزم یا کمیونزم سے متاثر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پنجاب کے ایک سابق وزیر اعلیٰ محمد حنیف رامے نے ”اقبال اور سوشلزم“ کے حوالے سے ایک کتاب بھی شائع کی تھی جس میں اشتراکیت کے علمبردار ملک کے معروف لکھنے والوں کی تحریروں کے زور پر اس م¶قف کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ علامہ اقبال ایک پکے نظریاتی سوشلسٹ تھے۔ اسی طرح کا ایک مضمون علامہ اقبال کی زندگی میں شمش الدین حسن کسی صحافی کا 23 جون 1923ءکے ”زمیندار“ میں بھی شائع ہوا تھا۔ علامہ اقبال نے اس کی پُرزور الفاظ میں مذمت کی اور 24 جون 1923ءیعنی دوسرے دن ہی ”زمیندار“ میں علامہ اقبال نے اپنا خط شائع کروا دیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”میری طرف بالشویک خیالات منسوب کئے گئے ہیں چونکہ بالشویک خیالات رکھنا میرے نزدیک دائرہ اسلام سے خارج ہو جانے کے مترادف ہے اس واسطے اس تحریر کی تردید میرا فرض ہے۔ میں مسلمان ہوں، میرا عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ دلائل و براہین پر مبنی ہے کہ انسانی جماعتوں کے اقتصادی امراض کا بہترین علاج قرآن نے تجویز کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ سرمایہ داری کی قوت جب حد اعتدال سے تجاوز کر جائے تو دنیا کے لئے ایک قسم کی لعنت ہے لیکن دنیا کو اس کے مضر اثرات سے نجات دلانے کا طریق یہ نہیں کہ معاشی نظام سے اس قوت کو خارج کر دیا جائے جیسا کہ بالشویک تجویز کرتے ہیں۔ قرآن کریم نے اس وقت کو مناسب حدود میں رکھنے کے لئے قانون میراث اور زکواة وغیرہ کا نظام تجویز کیا ہے۔ مغرب کا سرمایہ داری نظام اور روسی بالشوزم دونوں افراط و تفریط کا نتیجہ ہیں۔ اعتدال کی راہ وہی ہے جو قرآن نے ہمیں بتائی ہے۔ شریعت کا مقصود یہ ہے کہ سرمایہ داری کی بنا پر ایک جماعت دوسری جماعت پر غالب نہ آ جائے۔ اسلام سرمایہ کی قوت کو معاشی نظام سے خارج نہیں کرتا بلکہ ایسا معاشی نظام تجویز کرتا ہے جس پر عمل پیرا ہونے سے سرمایہ داری اپنے مناسب حدود سے تجاوز نہیں کر سکتی۔ مجھے یقین ہے کہ خود روسی قوم بھی اپنے موجودہ نظام کے نقائص تجربے سے معلوم کر کے کسی ایسے نظام کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہو جائے گی جس کے اصول یا تو خالص اسلامی ہوں گے یا ان سے ملتے جُلتے ہوں گے۔“
علامہ اقبال کے درج بالا سیاسی افکار سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شاعری اور سیاسی فکر کا مرکز و محور ہمیشہ اسلام رہا۔ ان کی یہ سوچی سمجھی رائے تھی کہ متحدہ ہندوستان میں اگر مسلمانوں کو شخصی آزادی اور معاشی خوشحالی میسر بھی آ جائے تو بھی حفاظت اسلام کا مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ اپنی کتاب ”ضرب کلیم“ میں اقبال ”ہندی اسلام“ کے عنوان سے ایک نظم میں فرماتے ہیں کہ
ہے زندہ فقط وحدت افکار سے ملت
وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد
مُلا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
علامہ اقبال اگر ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے جداگانہ انتخابات کے پُرجوش حامی تھے یا علامہ اقبال وطن کی بنیاد پر متحدہ قومیت کے شدید خلاف تھے تو اُس کی وجہ بھی یہی تھی کہ متحدہ ہندوستان کی صورت میں مسلمانوں کو محض عبادات کی حد تک تو شاید آزادی میسر آ سکتی لیکن اسلام کو بطور دستور حیات اور بطور نظام نافذ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اقبال کے نزدیک ملت اسلامیہ کے اجتماعی وجود کی حفاظت اور استحکام کے لئے برصغیر میں ایک آزاد اسلامی ریاست کا قیام انتہائی ضروری تھا۔ اسی لئے مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد وطن نہیں بلکہ علامہ اقبال نے دین اسلام کو قرار دیا اور وطنیت کے عقیدے پر قومیت کے تصور کو مسلمان قوم کےلئے انتہائی خطرناک قرار دیا۔
ان تازہ خدا¶ں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ ملت کا کفن ہے
علامہ اقبال سے پہلے بھی سر سید احمد خان اور مولانا عبدالحلیم شرر نے ہندو¶ں اور مسلمانوں کے الگ الگ قوم ہونے پر اپنے اپنے انداز میں اظہار خیال کیا تھا لیکن علامہ اقبال نے منظم اور م¶ثر انداز میں مسلم قومیت اور الگ اسلامی ریاست کے موضوع پر اپنا سیاسی م¶قف پیش کیا۔ اسی لئے علامہ اقبال کو تصور پاکستان کا خالق کہا گیا۔ قائداعظم نے بھی متعدد مواقع پر اپنی تقاریر میں علامہ اقبال کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ نہ صرف ایک عظیم مفکر اور شاعر تھے بلکہ ایک عظیم سیاسی رہنما اور ملت اسلامیہ کے سیاسی حقوق کے محافظ بھی تھے۔ قائداعظم کا یہ بھی فرمان تھا کہ یہ علامہ اقبال ہی کے خیالات تھے جو 23 مارچ 1940ءکو مسلمانوں کی اجتماعی سوچ کا مظہر بن کر قرارداد لاہور کی صورت میں ظاہر ہوئے۔ یہی قرارداد بعد میں قرارداد پاکستان کے طور پر مشہور ہوئی اور قیام پاکستان کی بنیاد بنی۔
جب تک علامہ اقبال زندہ رہے وہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی مسلم لیگ اور قائداعظم کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑے رہے اور بالخصوص متحدہ پنجاب میں مسلم لیگ کو قائداعظم کی قیادت میں منظم اور مضبوط کرنے کے لئے علامہ اقبال کا ایک سیاستدان کے طور پر کردار ناقابل فراموش رہے گا۔

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد