دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری
دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری

اقبال کو اقبال کیسے ملا

جنگ آزادی۱۸۵۷ء میں ناکامی کے بعد مسلمانانِ ہند کو مایوسی اور نا اُمیدی نے اپنی بانہوں میں جکڑ لیا۔ لیکن اﷲ نے سرسید، حالی، علامہ اقبال اور بہت سے مسلمان رہنما، دانشور اور شاعر اُمت مسلمہ کی بیداری اور رہنمائی کے لیے بھیج دیے۔

علامہ اقبال نے خصوصاً اپنے کلام کے ذریعے مسلم قوم میں زندگی کی لہر دوڑا دی۔ آپ نے واضح کیا کہ مسلمانوں کا معاشی و مادی ابتلا کا شکار ہو جانا کوئی اِتنا بڑا حادثہ نہیں کہ وہ مایوس ہو کر بیٹھ جائیں۔ قوموں کی زندگی میں اِس طرح کے حادثات آتے ہی رہتے ہیں، مگر زندہ اقوام بحرانوں سے مضمحل اور ضعیف نہیں ہوتی بلکہ انہیں اپنی قوت و شوکت کے لیے چیلنج سمجھ کر عروجِ نو کے لیے بطور زینہ استعمال کرتی ہیں۔

علامہ اقبال کے متعلق نو مختلف شخصیات کے خیالات و تاثرات ایک گلدستہ کی صورت پیش ہیں۔ ان کے ذریعے شاعر مشرق کی حیات کے مختلف گوشے اُبھر کر سامنے آتے اور ہمارے لیے مشعلِ راہ بنتے ہیں۔

 

علامہ اقبال کی ہندوستانی مسلمانوں کے لیے کیا اہمیت تھی۔ اِس پر ڈاکٹر اسرار احمد روشنی ڈال رہے ہیں:

 

آپ کی تعلیم و تربیت کے لیے اﷲ تعالیٰ نے خصوصی اہتمام کیا۔ آپ ایک نیک اور پارسا گھر میں عبادت گزار سنجیدہ والدین کے زیر تربیت رہے۔ آپ کی تعلیم کے لیے اساتذہ کرام بھی بہت قابل، مخلص اور شریف النفس تھے۔ شمس العلماء میر حسن نے آپ کی تعلیم کی مضبوط بنیادیں رکھیں۔ پروفیسر آرنلڈ آپ کے وہ انگریز اُستاد تھے جنھوں نے آپ کو مشورہ دیا تھا کہ آپ شاعری ترک نہ کریں۔ آپ یہ قصہ بھی پڑھیں گے۔

 

ایک بناوٹی انسان کی دو زندگیاں ہوتی ہیں۔ ایک گھر میں اور ایک لوگوں کے سامنے لیکن علامہ اقبالؒ ایک بے ریا شخص تھے۔ اُن کے صاحبزادے جاوید اقبال اور ملازم علی بخش کی یادیں بہت دلچسپ ہیں۔

 

ایک اُستاد کی قابلیت، اُس کے علم کا حدود اربعہ، اُس کی قوتِ برداشت، اُس کا احساسِ ذمے داری اُس کے شاگردوں سے زیادہ بہتر کون جانتا ہے۔ اُن کے ایک شاگرد میاں افضل حسین کی باتیں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔

 

علامہ اقبالؒ کو اﷲ نے یہ صلاحیت دی تھی کہ آپ بالکل ٹھیک ٹھیک اندازہ لگا سکتے تھے کہ کون سا کام کرنے کے لیے کون سا فرد موزوں ہے۔ آپ نے انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے قائداعظمؒ کا انتخاب کیا اور اُمت مسلمہ کی دینی اُمور میں رہنمائی کے لیے مولانا مودودیؒ کو پنجاب بلایا۔ ہم یہاں مولانا مودودیؒ کے ایک انٹرویو سے اقتباس دے رہے ہیں۔ مولانا نعیم صدیقیؒ اپنے دورِ شباب میں علامہ اقبال سے ملے۔ ان کی رُوداد بھی آپ پڑھیں گے۔

 

علامہ اقبال کی نگاہِ دور رس

 

پاکستان میں بسنے والا ہر مسلمان قطع نظر اِس سے کہ وہ عوام میں سے ہو یا خواص میں سے اور بالکل ان پڑھ اور جاہل ہو یا عالم و فاضل ، علامہ اقبالؒ کے ساتھ عقیدت و محبت اور انسانیت کے گہرے رشتے میں منسلک ہے۔ ہر پاکستانی جانتا ہے کہ یہ مملکت خداداد جس میں ہم ایک آزاد اور خود مختار قوم کی حیثیت سے رہ رہے ہیں، اِس کا قیامِ علامہ ہی کے تخیل و تصور کا مرہونِ منت ہے۔

 

اگرچہ علامہ اقبالؒ بنیادی طور پر سیاست دان نہ تھے لیکن اُنہوں نے مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں جو کچھ سوچا اور مسائل کا جو حل پیش کیا، وہ ان کی بیدار مغزی، معاملہ فہمی اور سیاسی تدبر کا شاہکار ہے۔ ۱۹۳۰ء سے قبل ہندوستان کی تقسیم کا خیال تک کسی کے ذہن میں نہیں آ سکتا تھا۔ یہ صرف علامہ مرحومؒ ہی کی نگاہِ دوررس و دُور بین تھی جس نے حالات کے رُخ اور زمانے کی رفتار پہچان کر مسلمانانِ ہند کے جملہ مسائل کا یہ حل بتایا کہ ہندوستان کے کم از کم شمال مغربی گوشے میں واقع مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل مسلمانوں کی آزاد اور خود مختار مملکت قائم کی جائے۔

 

پاکستان کے ساتھ علامہؒ کا تعلق صرف ’’مصور‘‘ کا نہیں بلکہ اِس سے کہیں زیادہ ہے۔ ان کی نگاہِ دور رس نے مسلمانانِ ہند کے قومی مقدمے کی پیروی اور ان کی قیادتِ عظمیٰ کے لیے صحیح ترین وکیل اور قائد کی حیثیت سے محمد علی جناحؒ کو ڈھونڈ نکالا۔ قائداعظمؒ کا انتخاب بلا شبہ علامہ اقبالؒ کے خلوص و اخلاص کا واضح ثبوت اور ان کے انکسار اور تواضع کی روشن دلیل ہے۔ علامہؒ نے نہ صرف پاکستان کا تصور ہی پیش نہیں کیا بلکہ اِس کے خاکے میں رنگ بھرنے کی عملی جد و جہد کے ابتدائی مراحل میں قائدانہ حیثیت سے شرکت بھی کی۔

 

کاش ہمیں معلوم ہوتا کہ آزادی اﷲ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت ہے اور یہ مملکتِ خداداد پاکستان کا معجزانہ قیام اﷲ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے، اِسی صورت میں ہمیں علامہؒ کے ذاتی احسان کا بھی کوئی احساس ہو سکتا تھا مگر وائے ناکامی کہ متاع کارواں جاتا رہا، کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔

 

ہماری اِس ناقدری کے نتیجے میں پاکستان کا مشرقی حصہ ہم سے علیحدہ ہو گیا۔ اِس درد ناک حادثہ فاجعہ پر بھارت میں جس طرح خوشی منائی گئی اور اِسے جس طرح ’’ہزار سالہ شکست کے انتقام‘‘ سے تعبیر کیا گیا، اِس سے اُن لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جو ہندوؤں کے بارے میں کسی حسن ظن میں مبتلا تھے۔ اگر اندرا گاندھی اِس نہرو خاندان کی بیٹی ہوتے ہوئے جس کی وسیع المشربی ضرب المثل ہے، یہ الفاظ اپنی زبان سے نکال سکتی ہے تو سوچنے کی بات ہے اگر ایک بار ہندوؤں کو ہندوستان میں فیصلہ کن اقتدار حاصل ہو جاتا تو اِن کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ کیا ہوتا؟

 

حقیقت یہی ہے کہ اگر خدا نخواستہ پاکستان قائم نہ ہوتا تو نہ صرف کہ اب تک ہندوستان سے اسلام کا صفایا ہو چکا ہوتا بلکہ پورا مشرقِ وسطیٰ ہندو شاونیت کے سیلاب میں بہہ جاتا۔

 

(ڈاکٹر اسرار احمد)

 

والد محترم شیخ نور محمد کی باوقار شخصیت

 

علامہ اقبالؒ کے والد محترم، شیخ نور محمد تجارت پیشہ گھرانے کے فرد تھے۔ اُنہوں نے قرآن شریف ضرور پڑھا ہوگا، مگر کسی مدرسے میں باقاعدہ تعلیم نہ حاصل کر سکے ۔ ذہین تھے اور سیکھنے، آگے بڑھنے اور حاصل کرنے کے ذوق و شوق سے مالامال تھے۔ بس اِسی لگن اور دلچسپی کی بنا پر حرف شناسی سے عبارت شناسی کی منزل تک پہنچے اور رفتہ رفتہ، دھیرے دھیرے اُردو عبارت پڑھنے لگے۔ بعد ازاں فارسی کتابیں بھی پڑھ لیتے۔ سادہ مزاج، بردبار اور حلیم الطبع شخص تھے۔ والد کے کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹاتے۔ جس کسی کو ان سے معاملہ پیش آتا، وہ اِس نوجوان کے حسن اخلاق سے متاثر ہوتا۔ شیخ محمد رفیق نے جلد ہی اپنے اکلوتے بیٹے نور محمد کی شادی سمبڑیال ضلع سیالکوٹ کے ایک کشمیری گھرانے میں کر دی۔

 

اپنے حسنِ اخلاق، عالی ظرفی، گوناگوں خوبیوں اور صلح کل طبیعت کی وجہ سے شیخ نور محمد کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا۔ شیخ نور محمد نہ صرف اپنے خاندان بلکہ محلے، کاروباری حلقوں اور شہر میں بھی ایک خاص مقام رکھتے تھے۔ تقریباً ۲۵؍سال کی عمر میں اﷲ نے اُنہیں اولادِ نرینہ عطا کی، نام عطا محمد رکھا گیا۔ شیخ عطا محمد (۱۸۵۹ء ۔ ۱۹۴۰) نے رڑکی انجینئرنگ کالج سے ڈپلومہ حاصل کیا اور ایک بھرپور زندگی گزاری۔ لاہور اور یورپ میں آپ ہی اپنے بھائی، اقبالؒ کی تعلیم کے زیادہ تر اخراجات وہی برداشت کرتے رہے۔

 

شیخ نور محمد کی شخصیت کا ایک اور پہلو بھی قابلِ ذکر ہے، جس کا تعلق ان کی روحانیت سے ہے۔ وہ نیک سیرت اور پاکیزہ مزاج تھے۔ تلاوتِ کلامِ پاک، عبادات خصوصاً نوافل شب اور تہجد سے شغف رکھتے۔ خدمتِ خلق کے ساتھ کلام اﷲ کی تلاوت کو دین و دُنیا کی ترقی کا سبب سمجھتے۔ انہوں نے یہی تاکید اپنی اولاد کو کی تھی۔

 

علم و عرفان کا ذوق اور دینی جذبہ اُنہیں کشاں کشاں علما و صلحا کی مجالس میں لے جاتا اور وہ ان صحبتوں سے برابر استفادہ کیا کرتے۔ گفتگو حکیمانہ خیالات و عارفانہ کیفیات کی آئینہ دار ہوتی چنانچہ( اقبالؒ کے اُستاد) سید میر حسن اُنہیں اَن پڑھ فلسفی کے لقب سے پکارتے تھے۔ بعض لوگ تصوف کے مشکل نکات کی تفہیم کے لیے ان سے رُجوع کیا کرتے۔ اُنہیں مطالعہ قرآن کا خاص ذوق تھا۔ ہمیں ان کی زندگی دیانت و شرافت، خدمت خلق اور کسب حلال کے لیے محنت و جد و جہد سے عبادت نظر آتی ہے۔ ساری عمر روزی کے لیے، دل بریار دوست بدکار، پر ان کا عمل رہا۔ دل خدا کی طرف، ہاتھ کام میں لگے رہتے۔

 

شیخ نور محمد اپنے اقبال مند بیٹے کی تربیت کے لیے کس قدر سنجیدہ اور کوشاں رہے، اِس سلسلے میں بہت مشہور واقعہ ہے کہ آپ نے بڑی محنت سے اقبالؒ کے ذہن میں بٹھایا ’’بیٹا، جب قرآن پڑھو تو اِس طرح پڑھو جیسے تم پر نازل ہو رہا ہے۔‘‘ اقبالؒ کہتے ہیں کہ والد صاحب کی باتوں سے یہ بات سمجھ میں آتی کہ قرآن مجید دل کے راستے بھی انسان  کے شعور میں داخل ہوتا ہے۔

 

(ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی)

 

بے جی…شاعر مشرق کی

 

والدہ محترمہ

 

شاعر مشرق کی والدہ محترمہ امام بی بی اپنے خاندان میں ’’بے جی‘‘ کے نام سے پکاری جاتی تھیں۔ ۱۸۳۴ء کو سیالکوٹ کے قصبہ سمبڑیال میںپیدا ہوئیں۔ انتہائی وضع دار خاتون تھیں۔ پڑھنا لکھنا نہیں جانتی تھیں لیکن صوم و صلوٰۃ کی بڑی پابند تھیں۔ حسن سلوک کے باعث سارا محلہ ان کا گرویدہ تھا۔ دیانتداری کا یہ حال تھا کہ محلے کی اکثر عورتیں ان کے پاس اپنا زیور اور دیگر قیمتی سامان بطور امانت رکھتی ۔ ’’بے جی‘‘ اپنے چھوٹے بیٹے علامہ اقبال سے بے حد محبت کرتی تھیں۔ اقبال بھی اُن کا بے حد احترام کرتے۔

 

جب اقبالؒ تعلیم کے لیے یورپ گئے تو وہ راتوں کو اُٹھ کر اُن کے بخیریت وطن واپس لوٹنے کی دُعائیں مانگتی ۔ جب آپ کا قیام لاہور میں تھا، سیالکوٹ جاتے تو آپ کی والدہ خوشی سے پھولے نہ سماتیں اور کہتیں ’’میرا بالی آ گیا۔‘‘ یہ الفاظ سن کر علامہ اقبالؒ ماں کے سامنے اپنے آپ کو بالکل ننّا سا بچہ تصور کرنے لگتے۔

 

’’بے جی‘‘ نے علامہ اقبالؒ کے لیے بچپن ہی سے رزقِ حلال کا پورا پورا اہتمام کیا اور مشتبہ کمائی سے دُودھ کا ایک قطرہ بھی اِن کے جسم میں نہیں جانے دیا۔ علامہ اقبالؒ کے والد نے ایک مرتبہ بچوں کو بتایا ’’تمہاری بے جی کو یہ وہم ہو گیا ہے کہ میری کمائی میں کچھ ملاوٹ ہے۔ دراصل اُن دِنوں میں ایک جگہ ملازمت کیا کرتا تھا۔امام بی بی کو خیال ہوا کہ جو تنخواہ مجھے وہاں سے ملتی ہے، وہ درست ذرائع سے حاصل نہیں ہوتی۔ میں نے اُنہیں بہت سمجھایا کہ ایسی کوئی بات نہیں اور اگر ہے تو بھی تو میں تو پوری دیانتداری اور محنت سے اپنا کام انجام دیتا ہوں۔ اِس لیے میری کمائی پر شک کی کوئی گنجائش نہیں مگر ان کی تسلی کسی طرح سے نہ ہو سکی اور اُنہوں نے اقبال کو اپنا دُودھ پلانا بند کردیا ۔ اپنا کچھ زیور بیچ کر ایک بکری خرید لی اور اُس کا دُودھ اقبال کو تب تک پلایا جب تک پوری تسلی نہ ہو گئی کہ میری آمدن بالکل پاک صاف ہے۔‘‘

 

۹؍نومبر ۱۹۱۴ء کا دن شاید حضرت علامہ اقبالؒ کی زندگی کا تاریک ترین دن رہا ہوگا کہ آخر وہ گھڑی آن پہنچی جب عزیز ترین ہستی اُن کی والدہ محترمہ بچھڑ گئیں اور وہ مجبور اور بے بس کچھ نہ کر سکے۔ میاں جی نے اپنی رفیقہ حیات کا کفن خودسیا اور خواتین کو میت پر واویلا کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا۔

 

حضرت علامہ اقبالؒ کی مشہور اور شاہکار نظم ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ کا ہر شعر اپنی جگہ ایک علیحدہ جہان لیے ہوئے ہے    ؎

 

آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے

 

سبزہ نورستہ اِس گھر کی نگہبانی کرے

 

(اشفاق نیاز)

 

 

 

علامہ اقبالؒ کے شفیقِ رھبر

 

سیالکوٹ کے کالج میں ایف اے کے درجے تک تعلیم تھی۔ بی اے کے لیے اقبالؒ کو لاہور آنا پڑا۔ اُنہیں علمِ فلسفہ کی تحصیل کا شوق تھا ۔اُنہیں لاہور کے اساتذہ میں نہایت شفیق اُستاد ملا جس نے فلسفے کے ساتھ اُن کی مناسبت دیکھ کر اُنہیں خاص توجہ سے پڑھانا شروع کیا۔ یہ پروفیسر آرنلڈ تھے جنھوں نے بعد ازاں اقبالؒ کو شاعری ترک کرنے سے روکا تھا۔ پروفیسر صاحب جو جو اب سر ٹامس آرنلڈ ہو گئے اور انگلستان میں مقیم ہیں، غیر معمولی قابلیت کے شخص ہیں۔ قوتِ تحریر اُن کی بہت اچھی ہے اور وہ علمی جستجو اور تلاش کے طریقِ جدید سے خوب واقف ہیں۔ اُنہوں نے چاہا کہ اپنے شاگرد کو اپنے مذاق اور اپنے طرزِ عمل سے حصہ دیں اور وہ ارادے میں بہت کچھ کامیاب ہوئے۔

 

پہلے اُنہوں نے علی گڑھ کالج کی پروفیسری کے زمانے میں اپنے دوست مولانا شبلی مرحوم کے مذاقِ علمی کے پختہ کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی، اب اُنہیں یہاں ایک اور جوہرِ قابل نظر آیا جس کے چمکانے کی آرزو اُن کے دل میں پیدا ہوئی۔جو دوستی اور محبت اُستاد اور شاگرد میں پہلے دن سے پیدا ہوئی، وہ آخرش شاگرد کو اُستاد کے پیچھے پیچھے انگلستان لے گئی اور وہاں یہ رشتہ اور بھی مضبوط ہو گیا، جو کہ آج تک قائم ہے۔ آرنلڈ خوش ہے کہ میری محنت ٹھکانے لگی اور میرا شاگرد علمی دُنیا میں میرے لیے بھی باعثِ شہرت افزائی ہوا۔اقبال معترف ہے کہ جس مذاق کی بنیاد سید میر حسن نے ڈالی تھی ، اُس کے آخری مرحلے آرنلڈ کی شفیقانہ رہبری سے طے ہوئے۔

 

ایک دن شیخ محمد اقبالؒ نے (قیامِ لندن کے دوران) مجھ سے کہا کہ اُن کا ارادہ مصمم ہوگیا ہے کہ وہ شاعری ترک کر دیں اور قسم کھا لیں کہ شعر نہیں کہیں گے اور جو وقت شاعری میں صرف ہوتا ہے، اُسے کسی اور مفید کام میں صرف کریں گے۔ میں نے اُن سے کہا کہ ان کی شاعری ایسی شاعری نہیں جسے ترک کرنا چاہیے بلکہ ان کے کلام میں وہ تاثیر ہے جس سے ممکن ہے کہ ہماری درماندہ قوم اور ہمارے کم نصیب ملک کے امراض کا کچھ علاج ہو سکے۔ اِس لیے ایسی خداداد طاقت کو بے کار کہنا درست نہ ہوگا۔

 

شیخ صاحب کچھ قائل ہوئے، کچھ نہ ہوئے اور یہ قرار پایا کہ آرنلڈ صاحب کی رائے پر آخری فیصلہ چھوڑا جائے۔ اگر وہ مجھ سے اتفاق کریں تو شیخ صاحب اپنے ارادۂ ترکِ شعر کو بدل دیں اور اگر وہ شیخ صاحب سے اتفاق کریں تو ترکِ شعر اختیار کیا جائے۔ فیصلہ یہی ہوا کہ اقبال کے لیے شاعری کو چھوڑنا جائز نہیں اور جو وقت وہ اِس شغل کی نذر کرتے ہیں، وہ اُن کے لیے اور اُن کے ملک و قوم کے لیے بھی مفید ہے۔ ایک تغیر جو ہمارے شاعر کی طبیعت میں آیا تھا، اُس کا یوں خاتمہ ہوا۔

 

(شیخ عبدالقادر)

 

تمہیں یوں قرآن مجید پڑھنا چاہیے

 

والد کے عقیدت مندوں میں ایک حجازی عرب بھی تھے جو کبھی کبھار آتے اور اُنہیں قرآن مجید پڑھ کر سنایا کرتے۔ میں نے بھی ان سے کچھ عرصے کے لیے قرآن مجید پڑھا ۔ وہ بڑے خوش الحان تھے ۔ والد صاحب بھی قرآن مجید سنتے، مجھے بلوا بھیجتے اور اپنے پاس بٹھا لیتے۔ ایک بار اُنہوں نے سر اُٹھا کر میری طرف دیکھا اور مرتعش لہجے میں بولے ’’تمہیں یوں قرآن پڑھنا چاہیے۔‘‘ اِسی طرح مجھے ایک بار مسدسِ حالی پڑھنے کو کہا اور خاص طور پر وہ بند جب قریب بیٹھے ہوئے میاں محمد شفیع نے دہرایا’’وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا‘‘ تو آپ سنتے ہی آبدیدہ ہو گئے۔

 

میں نے اُنہیں والدہ کی موت پر آنسو بہاتے نہ دیکھا مگر قرآن مجید سنتے وقت یا اپنا کوئی شعر پڑھتے یا رسول اﷲ ؐکا اسم مبارک کسی کی نوک زبان پر آتے ہی اُن کی آنکھیں بھر آیا کرتی۔ اپنی زندگی میں صرف دو بار اُنہوں نے مجھے سینما دیکھنے کی اِجازت دی۔ دونوں بار فلمیں انگریزی تھیں ۔ ایک تو فرانسیسی ادیب ایمائیل زولا کی حیات سے متعلق تھی اور دوسری فلم نپولین کے حالاتِ زندگی پر مبنی۔ والد دُنیا بھر کے جری سپہ سالاروں سے بڑی عقیدت رکھتے تھے۔ کہا کرتے تھے کہ ہر صاحب عمل کو صاحبِ فکر پر فوقیت حاصل ہے۔ مجھے اکثر خالد بن ولیدؓ اور حضرت فاروقِ اعظمؓ کی باتیں سنایا کرتے۔ ایک مرتبہ اُنہوں نے مجھے بتایا کہ نپولین کے اجداد عرب سے آئے تھے اور واسکوڈی گاما کو عرب جہازرانوں ہی نے ہندوستان کا رستہ دِکھایا ۔ میں دونوں فلمیں میاں محمد شفیع، آنٹی ڈورس اور منیرہ کے ساتھ دیکھنے گیا تھا۔

 

مجھے اُردو ادب سے متعلق کتب اور افسانے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ باغ و بہار (قصہ چہار درویش) حاتم طائی، طلسم ہوشربا اور عبدالحلیم شرر کے سب ناول پڑھ ڈالے۔ ساتویں جماعت کے امتحان کے قریب میرے ہاتھ الف لیلیٰ لگ گئی۔اِس کتاب سے میں اِس قدر مسحور ہواکہ رات گئے تک اِسے پڑھتا رہا۔ امتحان سر پر آ گئے لیکن میں نے الف لیلیٰ کو نہ چھوڑا بلکہ رات کو امتحان کی تیاری کے بجائے الف لیلیٰ پڑھتا رہتا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ساتویں جماعت کے امتحان میں فیل ہو گیا۔ جب والد کو علم ہوا کہ میں الف لیلیٰ میں منہمک ہونے کی وجہ سے امتحان میںفیل ہوا ہوں تو برہم نہ ہوئے بلکہ فرمایا’’اگر تم امتحان میں کامیاب ہو جانے کے بعد الف لیلیٰ پڑھتے تو تمہیں اور بھی لطف آتا۔‘‘

 

اُن کی وفات سے کوئی دو ایک ماہ پیشتر ایک شام پنڈت جواہر لعل نہرو کو اُن سے ملنے آنا تھا۔ میں نے والد سے پوچھا’’ پنڈت نہرو کون ہیں؟‘‘ آپ نے فرمایا ’’جس طرح محمد علی جناح مسلمانوں کے لیڈر ہیں ، اُسی طرح پنڈت نہرو ہندوؤں کے سربراہ ہیں۔‘‘ جب وہ تشریف لائے تو میں نے ڈیوڑھی میں بڑھ کر اُنہیں ’’السلام علیکم‘‘ کہا۔ اُنہوں نے ہاتھ جوڑ کر میرے سلام کا جواب دیا اور میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔

 

(جاوید اقبال)

 

علامہ اقبالؒ کی درویشانہ زندگی

 

کے ایک گواہ ، خادمِ خاص

 

علی بخش کی یادیں

 

س: اقبال صبح عموماً کب بیدار ہوتے تھے؟

 

ج: بہت سویرے۔ سچی بات یہ ہے کہ وہ بہت کم سوتے تھے۔ نمازِ فجر کی بہت پابندی کرتے اور نماز کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کرتے تھے۔

 

س: وہ قرآن کس انداز میں پڑھتے؟

 

ج: جب تک اُن کی آواز بیماری سے متاثر نہیں ہوئی تھی، وہ قرآن پاک کی تلاوت بلند آہنگ میں خوش الحانی سے کرتے تھے۔ آواز بیٹھ گئی تو بھی قرآن پڑھتے ضرور مگر بلند آواز سے نہیں۔

 

س: نماز اور تلاوت سے فارغ ہو کر کیا کرتے تھے؟

 

ج: آرام کرسی پر دراز ہو جاتے۔ میں حقہ تیار کر کے لے آتا۔ حقے سے شغل کرتے ہوئے اُس روز کے عدالتی کیسوں کے خلاصوں پر بھی نظر ڈالتے رہتے ۔اِس دوران گاہ گاہ شعر کی آمد بھی ہونے لگتی۔

 

س: آپ کیسے پہچانتے تھے کہ علامہ پر شعر گوئی کی کیفیت طاری ہو رہی ہے؟

 

ج: وہ مجھے پکارتے یا تالی بجاتے اور کہتے ’’میری بیاض اور قلمدان لاؤ۔‘‘ میں یہ چیزیں لاتا تو وہ اشعار لکھ لیتے، اگر اطمینان نہ ہوتا تو بہت بے چین ہو جاتے۔ شعر گوئی کے دوران اکثر قرآن مجید لانے کو کہتے۔ شعر گوئی کے علاوہ بھی دن میں ایک بار مجھے بلا کر قرآن مجید لانے کی ہدایت کرتے۔

 

س: وکالت کا کیا عالم تھا، بہت کام کرتے یا تھوڑا؟

 

ج: وکالت میں اپنے آپ کو زیادہ مصروف نہ ہونے دیتے۔ عام طور پر یوں تھا کہ ۵۰۰؍روپے فیس کے کیس آ جاتے تو مزید کیس نہیں لیتے تھے۔ دیگر سائلین کو اگلے ماہ آنے کا کہہ دیتے۔ اگر مہینے کے پہلے تین چار دِنوں میں چار پانچ سو روپے کا کام مل جاتا تو باقی مہینا مزید کوئی کیس نہ لیتے۔

 

س: یہ پانچ سو روپے کی حد کیوں لگائی گئی؟

 

ج: اُن کا تخمینہ تھا کہ اُنہیں ماہانہ اخراجات کے لیے اِس سے زیادہ پیسوں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔اِس رقم میں گھر کا کرایہ، نوکروں کی تنخواہیں، منشی کی تنخواہ اور گھر کے عمومی اخراجات شامل تھے۔ یہ اُن دِنوں کی بات ہے جب علامہ اقبالؒ انار کلی اور میکلوڈ روڈ پر رہا کرتے تھے۔

 

س: علامہؒ صاحب نے کتنے عرصے تک وکالت کی؟

 

ج: جب تک اُنہیں گلے کی بیماری لاحق نہیں ہوئی تھی، وکالت کرتے رہے۔ یہ اندازاً ۳۳۔۱۹۳۲ء کا زمانہ تھا۔

 

س: کھانے میں کیا پسند تھا؟

 

ج: پلاؤ، ماش کی دال، قیمہ بھرے کریلے اور خشکہ۔

 

س: کھانا کس وقت کھاتے تھے؟

 

ج: بارہ ایک بجے کے درمیان ایک ہی مرتبہ کھانا کھاتے۔ رات کے کھانے کا معمول نہ تھا۔

 

(علی بخش سے انٹرویو ۔ گفتگو ممتاز حسن)

 

خوش قسمتی ھے کہ اقبال سے

 

پڑھنے کا موقع ملا

 

حکیم الامت علامہ اقبالؒ کثیر الجہات شخصیت تھے۔ اُن کی معروف اور مقبول ترین حیثیت شاعر کی ہے مگر وہ روایتی شاعروں سے مختلف اور منفرد مقام رکھتے ہیں۔ اگر اقبالؒ کی سب حیثیتوں کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اقبالؒ نے ہمیں کسی نہ کسی شکل میں ایک نیا راستہ دِکھایا، کچھ نئے تصورات عطا کیے اور ایک نئے سرمدی نغمے کے ذریعے ہمارے سازِ دل کو چھیڑا…غور فرمائیے تو اِن سب حیثیتوں میں ایک معلم کی قدر مشترک نظر آتی ہے…شاعری ہو یا ان کے فلسفیانہ خطبات، دینی فکر کی تجدید ہو یا سیاسی جدوجہد کا مرحلہ… ہر قدم پر وہ ہمیں کچھ بتاتے، کچھ سکھاتے اور کسی نہ کسی نکتے کی تعلیم دیتے نظر آتے ہیں۔

 

یہ تو مختصر سا ذکر تھا ایک شاعر کی معلمانہ حیثیت کا … مگر اہم بات یہ ہے کہ اِس شاعر نے اپنی زندگی کا ایک حصہ لفظی اور لغوی معنوں میں بھی ’’معلم‘‘ کی حیثیت سے بسر کیا۔ علامہ کی معلمانہ زندگی کا آغاز یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور سے ہوا۔ ایم اے کرنے کے بعد ۱۳؍مئی ۱۸۹۹ء کو وہ اورینٹل کالج سے رُخصت لے کر گورنمنٹ کالج لاہور میں بھی درس دیتے رہے۔ ۱۹۰۵ء میں تین سال کی رُخصت لے کر اعلیٰ تعلیم پانے انگلستان چلے گئے۔ انگلستان میں قیام کے زمانے ہی میں اُنہوں نے معلمی کے بجائے وکالت کا پیشہ اپنانے کا فیصلہ کر لیا۔ انگلستان سے واپس آ کر بھی اُنہیں کچھ عرصہ گورنمنٹ کالج میں پڑھانا پڑا۔

 

میاں افضل حسین ،اقبال کے تلامذہ میں شامل ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ’’میں اِس زمانے میں بی ایس سی کا طالب علم تھا۔ اِس طرح ڈاکٹر محمد اقبال کا شاگرد بننے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اُنہوں نے ہمیں یہ دو کتابیں پڑھائیں:

 

1. Longer English Poems by Hale

 

2.Human Intercours by P.G Hamerton

 

ڈاکٹر اقبال اُن کتابوں کو پڑھانے کی بہترین اہلیت رکھتے تھے کیونکہ آپ بیک وقت شاعر تھے اور فلسفی بھی اور اُس وقت نفسیات بھی فلسفہ کا ایک حصہ تھی۔ لہٰذا وہ تخلیقی فکر کے ساتھ انسانی رویے کی تشریح کرتے تھے اور ایک شاعر اگر شاعری کا مضمون پڑھائے تو ہمیں اور کیا چاہیے اور حقیقت میں یہ ہماری بڑی خوش قسمتی تھی۔

 

ڈاکٹر اقبالؒ ہیمرٹن کے مشاہدات کو ذاتی تجربات کی روشنی میں واضح کرتے۔ اِس کتاب سے اُنہوں نے متعدد ایسی مثالیں پیش کیں جن سے ثابت ہوتا تھا کہ انسان اپنی روایت اور طرزِ تعلیم و تربیت کی بنا پر ایک ہی معاملہ میں مختلف رویہ اختیار کر سکتے ہیں۔

 

ہیل کی کتاب ڈاکٹر اقبالؒ نہایت عمدگی سے پڑھاتے۔ اقبالؒ ایسے عظیم شاعر کی زبان سے کسی نظم کی دلکشی اور دلچسپی کی وضاحت اور شاعر کے حقیقی مدعا کی تشریح سننا انتہائی مسرت کا باعث تھا۔ یہ ہماری انتہائی خوش بختی تھی کہ ہمیں اقبال جیسا اُستاد نصیب ہوا۔

 

(میاں افضل حسین)

 

اسلامی فقہ کی نئے سرے

 

سے تیاری کا منصوبہ

 

س: علامہ اقبالؒ سے تعلقات کس طرح نشوونما پائے ؟

 

ج: ایک دن علامہ کا خط یکایک حیدر آباد میں موصول ہوا۔ اُس میں لکھا تھا کہ تم پنجاب منتقل ہو جاؤ، کیونکہ جنوبی ہند آنے والے حالات کے لحاظ سے ایک محفوظ علاقہ نہیں۔ جو کام تم کر رہے ہو، اُس کے لیے پنجاب میں میدان ہے۔ اِس خط کو پڑھ کر مجھے یہ انداز ہوا کہ علامہ اقبالؒ مجھے جانتے ہیں۔ میں نے سوچا کہ جہاں مسجد شہید گنج کا ایجی ٹیشن چل رہا ہے، کچھ لوگ روپوش ہونے کی سوچ رہے ہیں، وہاں جا کر میرے جیسا آدمی کیا کر سکے گا، چنانچہ میں نے علامہ مرحوم کو لکھا کہ مجھے آپ کی اِس رائے سے اتفاق نہیں کہ جنوبی ہند کام کرنے کے لیے موزوں علاقہ نہیں ہے۔ پھر میں ۱۹۳۷ء ہی میں دہلی گیا اور اِس خیال میں تھا کہ سوچ سمجھ کر رائے قائم کروں کہ کس جگہ اپنا مستقر بنایا جائے۔

 

س: آپ کے جوابی خط کے بعد کوئی اور خط بھی ڈاکٹر صاحب نے لکھا؟

 

ج: جی ہاں، آنے سے قبل دو تین خط ملے اور بعد میں بھی۔ بد قسمتی سے پٹھان کوٹ سے جس عالم میں ہجرت کرنی پڑی، اُس کی وجہ سے کتابوں اور دوسرے کاغذات کے علاوہ میرے جمع شدہ خطوط کا قیمتی ذخیرہ بھی ضائع ہو گیا۔ متعدد شخصیتوں کے اہم خطوط میرے پاس تھے، ایک بھی نہیں بچا۔

 

س: آپ فرما رہے تھے کہ مستقر طے کرنے کا معاملہ آپ کے زیر غور تھا؟

 

ج: جی ہاں اِسی زمانے میں چودھری نیاز علی خاں ، جو دہلی آئے تھے، وہ بھی مجھ سے ملے اور وہ میرے پنجاب منتقل ہونے کے لیے اصرار کرتے رہے۔ مرحوم کا تقاضا یہ تھا کہ چل کر اِس تیاری کو دیکھ تو لیجئے جو ہم کر رہے ہیں۔ اِس خیال سے کہ اِس جگہ کو بھی دیکھ لوںاور علامہ اقبالؒ سے بھی مل لوں، میں نے سفرِ پنجاب کا فیصلہ کر لیا۔ شرقی صاحب نے جالندھر میں ٹھہرنے کے لیے اصرار کیا۔ وہیں پہلی بار میری ملاقات علامہ علاؤ الدین صدیقی مرحوم سے ہوئی۔ جالندھر سے لاہور آ کر میں اقبالؒ سے ملا۔ کچھ دیر گفتگو رہی ۔

 

بطورِ خلاصہ یہ بات مجھے یاد ہے کہ علامہ کا مجوزہ پروگرام یہ تھا کہ اسلامی فقہ کو نئے سرے سے مرتب کیا جائے۔ اُنہوں نے کہا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر اِس کام کے لیے تم تیار ہو جاؤ تو میں ہر سال چھ ماہ وہاں آتا رہوں گا اور مل کر کام کریں گے۔ میں نے کہا، میری اِس سے زیادہ کیا خوش قسمتی ہوگی کہ آپ کے ساتھ کام کروں۔ یہ میرے لیے اِتنی بڑی کشش تھی کہ میں نے حیدرآباد سے پنجاب منتقل ہونے کی تیاری شروع کر دی۔ مارچ ۱۹۳۸ء میں منتقل ہوا۔ ابھی سامان رکھوا ہی رہا تھا جس سے فارغ ہوتے ہی علامہ سے ملاقات کے لیے لاہور جانا تھا کہ اپریل ۱۹۳۸ء میں اُن کا انتقال ہو گیا۔

 

(مولانا مودودیؒ کے ایک انٹرویو سے اقتباس)

 

علامہ کے آنسو میرے دل

 

میں محفوظ رہ گئے

 

اقبالؒ کی زندگی کا غالباً وہ آخری سال تھا جبکہ مجھے ان کی خدمت میں پہلی اور آخری حاضری دینے کی سعادت حاصل ہوئی۔

 

میں نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں خواندگی کے ابتدائی مرحلے ہی میں مجھے اقبالؒ کی نظمیں پڑھنے کو ملیں۔ اُنہیں خوب پڑھا ، یاد کیا اور کچھ سمجھ کر اور کچھ بن سمجھے ان سے لطف لیا…اور پھر تعلیم کے ساتھ ساتھ اقبالؒ سے ذہنی قرب بڑھتا چلا گیا۔

 

ایک صاحب جن کی آمدو رفت اقبالؒ کے ہاں تھی، میرے بھی کرم فرما تھے۔ میری درخواست پر ایک موقع پر اُنہوں نے مجھ سے یہ وعدہ کیا کہ وہ مجھے اقبال کی خدمت میں لے چلیں گے…اور ایک دن وہ مجھے لے کر چل کھڑے ہوئے۔

 

میں جذبۂ احترام کے ساتھ جھجکتے جھجکتے جاوید منزل میں داخل ہوا اور اِسی جذبے کے ساتھ اقبالؒ تک پہنچا۔ ادب سے ہاتھ ملایا اور خاموش بیٹھ گیا۔

 

علامہ اقبالؒ کوٹھی کی اصل عمارت سے دُور ایک چھوٹے سے برآمدے میں تشریف فرما تھے۔ کھلا سر، اَدھ کھلی آنکھیں، سادہ سی قمیص اور دھوتی پر مشتمل لباس۔ بان کی چارپائی بغیر دری یا گدے کے، دیوار کی جانب حقہ رکھا ہوا، جس کے کش علامہ وقفے وقفے بعد لیتے۔ غرض ٹھیک وہی منظر جو جشم تصور میں تھا۔

 

زمانہ شہید گنج کے تنازع کا تھا۔ اِسی سلسلے میں کوئی لیڈر (غالباً نواب افتخار حسین خاں ممدوٹ تھے) اقبال سے بات چیت کرتے بتا رہے تھے کہ یہ ہوا اور وہ نہیں ہو سکا۔ اقبال نے سلسلۂ گفتگو میں دھیمی آواز میں یہ الفاظ کہے ’’افسوس! کوئی مخلص مسلمان نہیں ملتا۔‘‘ اِس پر اُن کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں اور مجھے یاد ہے کہ اُنہوں نے دھوتی کے پلو سے آنسو پونچھ ڈالے۔ میں بڑے عقیدت مندانہ انداز میں بغیر جنبش کے چپ چاپ یہ منظر دیکھتا رہا۔ یہ آنسو میرے دل میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گئے بلکہ شاید وہ میرے بعض اچھے جذبات کے لیے بیج ثابت ہو ئے۔

 

اِس دوران میں نے نہ کوئی گفتگو کی اور نہ بات چیت کرنے کا کوئی ارادہ ہی دل میں پیدا ہوا۔ اِس وقت خواہش صرف اِتنی ہی تھی کہ میں دیکھوں اور سنوں۔ ساتھ یہ احساس بھی تھا کہ میرا مقام نہیں کہ اقبال کو مخاطب کروں۔ آنے والے لیڈر جب اُٹھ گئے تو میرے مہربان بزرگ نے اقبال سے یہ کہہ کر تعارف کرایا ’’یہ نوجوان آپ سے بہت متاثر ہے اور بڑی صلاحیت رکھتا ہے۔‘‘ اِس پر فرمایا ’’ہاں قوم کو (یا اسلام کو) ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے ۔‘‘

 

یہ الفاظ سنتے ہی جب میں رُخصتی مصافحہ کر رہا تھا تو

 

جنگ آزادی۱۸۵۷ء میں ناکامی کے بعد مسلمانانِ ہند کو مایوسی اور نا اُمیدی نے اپنی بانہوں میں جکڑ لیا۔ لیکن اﷲ نے سرسید، حالی، علامہ اقبال اور بہت سے مسلمان رہنما، دانشور اور شاعر اُمت مسلمہ کی بیداری اور رہنمائی کے لیے بھیج دیے۔

 

علامہ اقبال نے خصوصاً اپنے کلام کے ذریعے مسلم قوم میں زندگی کی لہر دوڑا دی۔ آپ نے واضح کیا کہ مسلمانوں کا معاشی و مادی ابتلا کا شکار ہو جانا کوئی اِتنا بڑا حادثہ نہیں کہ وہ مایوس ہو کر بیٹھ جائیں۔ قوموں کی زندگی میں اِس طرح کے حادثات آتے ہی رہتے ہیں، مگر زندہ اقوام بحرانوں سے مضمحل اور ضعیف نہیں ہوتی بلکہ انہیں اپنی قوت و شوکت کے لیے چیلنج سمجھ کر عروجِ نو کے لیے بطور زینہ استعمال کرتی ہیں۔

 

علامہ اقبال کے متعلق نو مختلف شخصیات کے خیالات و تاثرات ایک گلدستہ کی صورت پیش ہیں۔ ان کے ذریعے شاعر مشرق کی حیات کے مختلف گوشے اُبھر کر سامنے آتے اور ہمارے لیے مشعلِ راہ بنتے ہیں۔

 

علامہ اقبال کی ہندوستانی مسلمانوں کے لیے کیا اہمیت تھی۔ اِس پر ڈاکٹر اسرار احمد روشنی ڈال رہے ہیں:

 

آپ کی تعلیم و تربیت کے لیے اﷲ تعالیٰ نے خصوصی اہتمام کیا۔ آپ ایک نیک اور پارسا گھر میں عبادت گزار سنجیدہ والدین کے زیر تربیت رہے۔ آپ کی تعلیم کے لیے اساتذہ کرام بھی بہت قابل، مخلص اور شریف النفس تھے۔ شمس العلماء میر حسن نے آپ کی تعلیم کی مضبوط بنیادیں رکھیں۔ پروفیسر آرنلڈ آپ کے وہ انگریز اُستاد تھے جنھوں نے آپ کو مشورہ دیا تھا کہ آپ شاعری ترک نہ کریں۔ آپ یہ قصہ بھی پڑھیں گے۔

 

ایک بناوٹی انسان کی دو زندگیاں ہوتی ہیں۔ ایک گھر میں اور ایک لوگوں کے سامنے لیکن علامہ اقبالؒ ایک بے ریا شخص تھے۔ اُن کے صاحبزادے جاوید اقبال اور ملازم علی بخش کی یادیں بہت دلچسپ ہیں۔

 

ایک اُستاد کی قابلیت، اُس کے علم کا حدود اربعہ، اُس کی قوتِ برداشت، اُس کا احساسِ ذمے داری اُس کے شاگردوں سے زیادہ بہتر کون جانتا ہے۔ اُن کے ایک شاگرد میاں افضل حسین کی باتیں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔

 

علامہ اقبالؒ کو اﷲ نے یہ صلاحیت دی تھی کہ آپ بالکل ٹھیک ٹھیک اندازہ لگا سکتے تھے کہ کون سا کام کرنے کے لیے کون سا فرد موزوں ہے۔ آپ نے انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے قائداعظمؒ کا انتخاب کیا اور اُمت مسلمہ کی دینی اُمور میں رہنمائی کے لیے مولانا مودودیؒ کو پنجاب بلایا۔ ہم یہاں مولانا مودودیؒ کے ایک انٹرویو سے اقتباس دے رہے ہیں۔ مولانا نعیم صدیقیؒ اپنے دورِ شباب میں علامہ اقبال سے ملے۔ ان کی رُوداد بھی آپ پڑھیں گے۔

 

علامہ اقبال کی نگاہِ دور رس

 

پاکستان میں بسنے والا ہر مسلمان قطع نظر اِس سے کہ وہ عوام میں سے ہو یا خواص میں سے اور بالکل ان پڑھ اور جاہل ہو یا عالم و فاضل ، علامہ اقبالؒ کے ساتھ عقیدت و محبت اور انسانیت کے گہرے رشتے میں منسلک ہے۔ ہر پاکستانی جانتا ہے کہ یہ مملکت خداداد جس میں ہم ایک آزاد اور خود مختار قوم کی حیثیت سے رہ رہے ہیں، اِس کا قیامِ علامہ ہی کے تخیل و تصور کا مرہونِ منت ہے۔

 

اگرچہ علامہ اقبالؒ بنیادی طور پر سیاست دان نہ تھے لیکن اُنہوں نے مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں جو کچھ سوچا اور مسائل کا جو حل پیش کیا، وہ ان کی بیدار مغزی، معاملہ فہمی اور سیاسی تدبر کا شاہکار ہے۔ ۱۹۳۰ء سے قبل ہندوستان کی تقسیم کا خیال تک کسی کے ذہن میں نہیں آ سکتا تھا۔ یہ صرف علامہ مرحومؒ ہی کی نگاہِ دوررس و دُور بین تھی جس نے حالات کے رُخ اور زمانے کی رفتار پہچان کر مسلمانانِ ہند کے جملہ مسائل کا یہ حل بتایا کہ ہندوستان کے کم از کم شمال مغربی گوشے میں واقع مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل مسلمانوں کی آزاد اور خود مختار مملکت قائم کی جائے۔

 

پاکستان کے ساتھ علامہؒ کا تعلق صرف ’’مصور‘‘ کا نہیں بلکہ اِس سے کہیں زیادہ ہے۔ ان کی نگاہِ دور رس نے مسلمانانِ ہند کے قومی مقدمے کی پیروی اور ان کی قیادتِ عظمیٰ کے لیے صحیح ترین وکیل اور قائد کی حیثیت سے محمد علی جناحؒ کو ڈھونڈ نکالا۔ قائداعظمؒ کا انتخاب بلا شبہ علامہ اقبالؒ کے خلوص و اخلاص کا واضح ثبوت اور ان کے انکسار اور تواضع کی روشن دلیل ہے۔ علامہؒ نے نہ صرف پاکستان کا تصور ہی پیش نہیں کیا بلکہ اِس کے خاکے میں رنگ بھرنے کی عملی جد و جہد کے ابتدائی مراحل میں قائدانہ حیثیت سے شرکت بھی کی۔

 

کاش ہمیں معلوم ہوتا کہ آزادی اﷲ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت ہے اور یہ مملکتِ خداداد پاکستان کا معجزانہ قیام اﷲ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے، اِسی صورت میں ہمیں علامہؒ کے ذاتی احسان کا بھی کوئی احساس ہو سکتا تھا مگر وائے ناکامی کہ متاع کارواں جاتا رہا، کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔

 

ہماری اِس ناقدری کے نتیجے میں پاکستان کا مشرقی حصہ ہم سے علیحدہ ہو گیا۔ اِس درد ناک حادثہ فاجعہ پر بھارت میں جس طرح خوشی منائی گئی اور اِسے جس طرح ’’ہزار سالہ شکست کے انتقام‘‘ سے تعبیر کیا گیا، اِس سے اُن لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جو ہندوؤں کے بارے میں کسی حسن ظن میں مبتلا تھے۔ اگر اندرا گاندھی اِس نہرو خاندان کی بیٹی ہوتے ہوئے جس کی وسیع المشربی ضرب المثل ہے، یہ الفاظ اپنی زبان سے نکال سکتی ہے تو سوچنے کی بات ہے اگر ایک بار ہندوؤں کو ہندوستان میں فیصلہ کن اقتدار حاصل ہو جاتا تو اِن کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ کیا ہوتا؟

 

حقیقت یہی ہے کہ اگر خدا نخواستہ پاکستان قائم نہ ہوتا تو نہ صرف کہ اب تک ہندوستان سے اسلام کا صفایا ہو چکا ہوتا بلکہ پورا مشرقِ وسطیٰ ہندو شاونیت کے سیلاب میں بہہ جاتا۔

 

(ڈاکٹر اسرار احمد)

 

والد محترم شیخ نور محمد کی باوقار شخصیت

 

علامہ اقبالؒ کے والد محترم، شیخ نور محمد تجارت پیشہ گھرانے کے فرد تھے۔ اُنہوں نے قرآن شریف ضرور پڑھا ہوگا، مگر کسی مدرسے میں باقاعدہ تعلیم نہ حاصل کر سکے ۔ ذہین تھے اور سیکھنے، آگے بڑھنے اور حاصل کرنے کے ذوق و شوق سے مالامال تھے۔ بس اِسی لگن اور دلچسپی کی بنا پر حرف شناسی سے عبارت شناسی کی منزل تک پہنچے اور رفتہ رفتہ، دھیرے دھیرے اُردو عبارت پڑھنے لگے۔ بعد ازاں فارسی کتابیں بھی پڑھ لیتے۔ سادہ مزاج، بردبار اور حلیم الطبع شخص تھے۔ والد کے کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹاتے۔ جس کسی کو ان سے معاملہ پیش آتا، وہ اِس نوجوان کے حسن اخلاق سے متاثر ہوتا۔ شیخ محمد رفیق نے جلد ہی اپنے اکلوتے بیٹے نور محمد کی شادی سمبڑیال ضلع سیالکوٹ کے ایک کشمیری گھرانے میں کر دی۔

 

اپنے حسنِ اخلاق، عالی ظرفی، گوناگوں خوبیوں اور صلح کل طبیعت کی وجہ سے شیخ نور محمد کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا۔ شیخ نور محمد نہ صرف اپنے خاندان بلکہ محلے، کاروباری حلقوں اور شہر میں بھی ایک خاص مقام رکھتے تھے۔ تقریباً ۲۵؍سال کی عمر میں اﷲ نے اُنہیں اولادِ نرینہ عطا کی، نام عطا محمد رکھا گیا۔ شیخ عطا محمد (۱۸۵۹ء ۔ ۱۹۴۰) نے رڑکی انجینئرنگ کالج سے ڈپلومہ حاصل کیا اور ایک بھرپور زندگی گزاری۔ لاہور اور یورپ میں آپ ہی اپنے بھائی، اقبالؒ کی تعلیم کے زیادہ تر اخراجات وہی برداشت کرتے رہے۔

 

شیخ نور محمد کی شخصیت کا ایک اور پہلو بھی قابلِ ذکر ہے، جس کا تعلق ان کی روحانیت سے ہے۔ وہ نیک سیرت اور پاکیزہ مزاج تھے۔ تلاوتِ کلامِ پاک، عبادات خصوصاً نوافل شب اور تہجد سے شغف رکھتے۔ خدمتِ خلق کے ساتھ کلام اﷲ کی تلاوت کو دین و دُنیا کی ترقی کا سبب سمجھتے۔ انہوں نے یہی تاکید اپنی اولاد کو کی تھی۔

 

علم و عرفان کا ذوق اور دینی جذبہ اُنہیں کشاں کشاں علما و صلحا کی مجالس میں لے جاتا اور وہ ان صحبتوں سے برابر استفادہ کیا کرتے۔ گفتگو حکیمانہ خیالات و عارفانہ کیفیات کی آئینہ دار ہوتی چنانچہ( اقبالؒ کے اُستاد) سید میر حسن اُنہیں اَن پڑھ فلسفی کے لقب سے پکارتے تھے۔ بعض لوگ تصوف کے مشکل نکات کی تفہیم کے لیے ان سے رُجوع کیا کرتے۔ اُنہیں مطالعہ قرآن کا خاص ذوق تھا۔ ہمیں ان کی زندگی دیانت و شرافت، خدمت خلق اور کسب حلال کے لیے محنت و جد و جہد سے عبادت نظر آتی ہے۔ ساری عمر روزی کے لیے، دل بریار دوست بدکار، پر ان کا عمل رہا۔ دل خدا کی طرف، ہاتھ کام میں لگے رہتے۔

 

شیخ نور محمد اپنے اقبال مند بیٹے کی تربیت کے لیے کس قدر سنجیدہ اور کوشاں رہے، اِس سلسلے میں بہت مشہور واقعہ ہے کہ آپ نے بڑی محنت سے اقبالؒ کے ذہن میں بٹھایا ’’بیٹا، جب قرآن پڑھو تو اِس طرح پڑھو جیسے تم پر نازل ہو رہا ہے۔‘‘ اقبالؒ کہتے ہیں کہ والد صاحب کی باتوں سے یہ بات سمجھ میں آتی کہ قرآن مجید دل کے راستے بھی انسان  کے شعور میں داخل ہوتا ہے۔

 

(ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی)

 

بے جی…شاعر مشرق کی

 

والدہ محترمہ

 

شاعر مشرق کی والدہ محترمہ امام بی بی اپنے خاندان میں ’’بے جی‘‘ کے نام سے پکاری جاتی تھیں۔ ۱۸۳۴ء کو سیالکوٹ کے قصبہ سمبڑیال میںپیدا ہوئیں۔ انتہائی وضع دار خاتون تھیں۔ پڑھنا لکھنا نہیں جانتی تھیں لیکن صوم و صلوٰۃ کی بڑی پابند تھیں۔ حسن سلوک کے باعث سارا محلہ ان کا گرویدہ تھا۔ دیانتداری کا یہ حال تھا کہ محلے کی اکثر عورتیں ان کے پاس اپنا زیور اور دیگر قیمتی سامان بطور امانت رکھتی ۔ ’’بے جی‘‘ اپنے چھوٹے بیٹے علامہ اقبال سے بے حد محبت کرتی تھیں۔ اقبال بھی اُن کا بے حد احترام کرتے۔

 

جب اقبالؒ تعلیم کے لیے یورپ گئے تو وہ راتوں کو اُٹھ کر اُن کے بخیریت وطن واپس لوٹنے کی دُعائیں مانگتی ۔ جب آپ کا قیام لاہور میں تھا، سیالکوٹ جاتے تو آپ کی والدہ خوشی سے پھولے نہ سماتیں اور کہتیں ’’میرا بالی آ گیا۔‘‘ یہ الفاظ سن کر علامہ اقبالؒ ماں کے سامنے اپنے آپ کو بالکل ننّا سا بچہ تصور کرنے لگتے۔

 

’’بے جی‘‘ نے علامہ اقبالؒ کے لیے بچپن ہی سے رزقِ حلال کا پورا پورا اہتمام کیا اور مشتبہ کمائی سے دُودھ کا ایک قطرہ بھی اِن کے جسم میں نہیں جانے دیا۔ علامہ اقبالؒ کے والد نے ایک مرتبہ بچوں کو بتایا ’’تمہاری بے جی کو یہ وہم ہو گیا ہے کہ میری کمائی میں کچھ ملاوٹ ہے۔ دراصل اُن دِنوں میں ایک جگہ ملازمت کیا کرتا تھا۔امام بی بی کو خیال ہوا کہ جو تنخواہ مجھے وہاں سے ملتی ہے، وہ درست ذرائع سے حاصل نہیں ہوتی۔ میں نے اُنہیں بہت سمجھایا کہ ایسی کوئی بات نہیں اور اگر ہے تو بھی تو میں تو پوری دیانتداری اور محنت سے اپنا کام انجام دیتا ہوں۔ اِس لیے میری کمائی پر شک کی کوئی گنجائش نہیں مگر ان کی تسلی کسی طرح سے نہ ہو سکی اور اُنہوں نے اقبال کو اپنا دُودھ پلانا بند کردیا ۔ اپنا کچھ زیور بیچ کر ایک بکری خرید لی اور اُس کا دُودھ اقبال کو تب تک پلایا جب تک پوری تسلی نہ ہو گئی کہ میری آمدن بالکل پاک صاف ہے۔‘‘

 

۹؍نومبر ۱۹۱۴ء کا دن شاید حضرت علامہ اقبالؒ کی زندگی کا تاریک ترین دن رہا ہوگا کہ آخر وہ گھڑی آن پہنچی جب عزیز ترین ہستی اُن کی والدہ محترمہ بچھڑ گئیں اور وہ مجبور اور بے بس کچھ نہ کر سکے۔ میاں جی نے اپنی رفیقہ حیات کا کفن خودسیا اور خواتین کو میت پر واویلا کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا۔

 

حضرت علامہ اقبالؒ کی مشہور اور شاہکار نظم ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ کا ہر شعر اپنی جگہ ایک علیحدہ جہان لیے ہوئے ہے    ؎

 

آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے

 

سبزہ نورستہ اِس گھر کی نگہبانی کرے

 

(اشفاق نیاز)

 

 

 

علامہ اقبالؒ کے شفیقِ رھبر

 

سیالکوٹ کے کالج میں ایف اے کے درجے تک تعلیم تھی۔ بی اے کے لیے اقبالؒ کو لاہور آنا پڑا۔ اُنہیں علمِ فلسفہ کی تحصیل کا شوق تھا ۔اُنہیں لاہور کے اساتذہ میں نہایت شفیق اُستاد ملا جس نے فلسفے کے ساتھ اُن کی مناسبت دیکھ کر اُنہیں خاص توجہ سے پڑھانا شروع کیا۔ یہ پروفیسر آرنلڈ تھے جنھوں نے بعد ازاں اقبالؒ کو شاعری ترک کرنے سے روکا تھا۔ پروفیسر صاحب جو جو اب سر ٹامس آرنلڈ ہو گئے اور انگلستان میں مقیم ہیں، غیر معمولی قابلیت کے شخص ہیں۔ قوتِ تحریر اُن کی بہت اچھی ہے اور وہ علمی جستجو اور تلاش کے طریقِ جدید سے خوب واقف ہیں۔ اُنہوں نے چاہا کہ اپنے شاگرد کو اپنے مذاق اور اپنے طرزِ عمل سے حصہ دیں اور وہ ارادے میں بہت کچھ کامیاب ہوئے۔

 

پہلے اُنہوں نے علی گڑھ کالج کی پروفیسری کے زمانے میں اپنے دوست مولانا شبلی مرحوم کے مذاقِ علمی کے پختہ کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی، اب اُنہیں یہاں ایک اور جوہرِ قابل نظر آیا جس کے چمکانے کی آرزو اُن کے دل میں پیدا ہوئی۔جو دوستی اور محبت اُستاد اور شاگرد میں پہلے دن سے پیدا ہوئی، وہ آخرش شاگرد کو اُستاد کے پیچھے پیچھے انگلستان لے گئی اور وہاں یہ رشتہ اور بھی مضبوط ہو گیا، جو کہ آج تک قائم ہے۔ آرنلڈ خوش ہے کہ میری محنت ٹھکانے لگی اور میرا شاگرد علمی دُنیا میں میرے لیے بھی باعثِ شہرت افزائی ہوا۔اقبال معترف ہے کہ جس مذاق کی بنیاد سید میر حسن نے ڈالی تھی ، اُس کے آخری مرحلے آرنلڈ کی شفیقانہ رہبری سے طے ہوئے۔

 

ایک دن شیخ محمد اقبالؒ نے (قیامِ لندن کے دوران) مجھ سے کہا کہ اُن کا ارادہ مصمم ہوگیا ہے کہ وہ شاعری ترک کر دیں اور قسم کھا لیں کہ شعر نہیں کہیں گے اور جو وقت شاعری میں صرف ہوتا ہے، اُسے کسی اور مفید کام میں صرف کریں گے۔ میں نے اُن سے کہا کہ ان کی شاعری ایسی شاعری نہیں جسے ترک کرنا چاہیے بلکہ ان کے کلام میں وہ تاثیر ہے جس سے ممکن ہے کہ ہماری درماندہ قوم اور ہمارے کم نصیب ملک کے امراض کا کچھ علاج ہو سکے۔ اِس لیے ایسی خداداد طاقت کو بے کار کہنا درست نہ ہوگا۔

 

شیخ صاحب کچھ قائل ہوئے، کچھ نہ ہوئے اور یہ قرار پایا کہ آرنلڈ صاحب کی رائے پر آخری فیصلہ چھوڑا جائے۔ اگر وہ مجھ سے اتفاق کریں تو شیخ صاحب اپنے ارادۂ ترکِ شعر کو بدل دیں اور اگر وہ شیخ صاحب سے اتفاق کریں تو ترکِ شعر اختیار کیا جائے۔ فیصلہ یہی ہوا کہ اقبال کے لیے شاعری کو چھوڑنا جائز نہیں اور جو وقت وہ اِس شغل کی نذر کرتے ہیں، وہ اُن کے لیے اور اُن کے ملک و قوم کے لیے بھی مفید ہے۔ ایک تغیر جو ہمارے شاعر کی طبیعت میں آیا تھا، اُس کا یوں خاتمہ ہوا۔

 

(شیخ عبدالقادر)

 

تمہیں یوں قرآن مجید پڑھنا چاہیے

 

والد کے عقیدت مندوں میں ایک حجازی عرب بھی تھے جو کبھی کبھار آتے اور اُنہیں قرآن مجید پڑھ کر سنایا کرتے۔ میں نے بھی ان سے کچھ عرصے کے لیے قرآن مجید پڑھا ۔ وہ بڑے خوش الحان تھے ۔ والد صاحب بھی قرآن مجید سنتے، مجھے بلوا بھیجتے اور اپنے پاس بٹھا لیتے۔ ایک بار اُنہوں نے سر اُٹھا کر میری طرف دیکھا اور مرتعش لہجے میں بولے ’’تمہیں یوں قرآن پڑھنا چاہیے۔‘‘ اِسی طرح مجھے ایک بار مسدسِ حالی پڑھنے کو کہا اور خاص طور پر وہ بند جب قریب بیٹھے ہوئے میاں محمد شفیع نے دہرایا’’وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا‘‘ تو آپ سنتے ہی آبدیدہ ہو گئے۔

 

میں نے اُنہیں والدہ کی موت پر آنسو بہاتے نہ دیکھا مگر قرآن مجید سنتے وقت یا اپنا کوئی شعر پڑھتے یا رسول اﷲ ؐکا اسم مبارک کسی کی نوک زبان پر آتے ہی اُن کی آنکھیں بھر آیا کرتی۔ اپنی زندگی میں صرف دو بار اُنہوں نے مجھے سینما دیکھنے کی اِجازت دی۔ دونوں بار فلمیں انگریزی تھیں ۔ ایک تو فرانسیسی ادیب ایمائیل زولا کی حیات سے متعلق تھی اور دوسری فلم نپولین کے حالاتِ زندگی پر مبنی۔ والد دُنیا بھر کے جری سپہ سالاروں سے بڑی عقیدت رکھتے تھے۔ کہا کرتے تھے کہ ہر صاحب عمل کو صاحبِ فکر پر فوقیت حاصل ہے۔ مجھے اکثر خالد بن ولیدؓ اور حضرت فاروقِ اعظمؓ کی باتیں سنایا کرتے۔ ایک مرتبہ اُنہوں نے مجھے بتایا کہ نپولین کے اجداد عرب سے آئے تھے اور واسکوڈی گاما کو عرب جہازرانوں ہی نے ہندوستان کا رستہ دِکھایا ۔ میں دونوں فلمیں میاں محمد شفیع، آنٹی ڈورس اور منیرہ کے ساتھ دیکھنے گیا تھا۔

 

مجھے اُردو ادب سے متعلق کتب اور افسانے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ باغ و بہار (قصہ چہار درویش) حاتم طائی، طلسم ہوشربا اور عبدالحلیم شرر کے سب ناول پڑھ ڈالے۔ ساتویں جماعت کے امتحان کے قریب میرے ہاتھ الف لیلیٰ لگ گئی۔اِس کتاب سے میں اِس قدر مسحور ہواکہ رات گئے تک اِسے پڑھتا رہا۔ امتحان سر پر آ گئے لیکن میں نے الف لیلیٰ کو نہ چھوڑا بلکہ رات کو امتحان کی تیاری کے بجائے الف لیلیٰ پڑھتا رہتا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ساتویں جماعت کے امتحان میں فیل ہو گیا۔ جب والد کو علم ہوا کہ میں الف لیلیٰ میں منہمک ہونے کی وجہ سے امتحان میںفیل ہوا ہوں تو برہم نہ ہوئے بلکہ فرمایا’’اگر تم امتحان میں کامیاب ہو جانے کے بعد الف لیلیٰ پڑھتے تو تمہیں اور بھی لطف آتا۔‘‘

 

اُن کی وفات سے کوئی دو ایک ماہ پیشتر ایک شام پنڈت جواہر لعل نہرو کو اُن سے ملنے آنا تھا۔ میں نے والد سے پوچھا’’ پنڈت نہرو کون ہیں؟‘‘ آپ نے فرمایا ’’جس طرح محمد علی جناح مسلمانوں کے لیڈر ہیں ، اُسی طرح پنڈت نہرو ہندوؤں کے سربراہ ہیں۔‘‘ جب وہ تشریف لائے تو میں نے ڈیوڑھی میں بڑھ کر اُنہیں ’’السلام علیکم‘‘ کہا۔ اُنہوں نے ہاتھ جوڑ کر میرے سلام کا جواب دیا اور میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔

 

(جاوید اقبال)

 

علامہ اقبالؒ کی درویشانہ زندگی

 

کے ایک گواہ ، خادمِ خاص

 

علی بخش کی یادیں

 

س: اقبال صبح عموماً کب بیدار ہوتے تھے؟

 

ج: بہت سویرے۔ سچی بات یہ ہے کہ وہ بہت کم سوتے تھے۔ نمازِ فجر کی بہت پابندی کرتے اور نماز کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کرتے تھے۔

 

س: وہ قرآن کس انداز میں پڑھتے؟

 

ج: جب تک اُن کی آواز بیماری سے متاثر نہیں ہوئی تھی، وہ قرآن پاک کی تلاوت بلند آہنگ میں خوش الحانی سے کرتے تھے۔ آواز بیٹھ گئی تو بھی قرآن پڑھتے ضرور مگر بلند آواز سے نہیں۔

 

س: نماز اور تلاوت سے فارغ ہو کر کیا کرتے تھے؟

 

ج: آرام کرسی پر دراز ہو جاتے۔ میں حقہ تیار کر کے لے آتا۔ حقے سے شغل کرتے ہوئے اُس روز کے عدالتی کیسوں کے خلاصوں پر بھی نظر ڈالتے رہتے ۔اِس دوران گاہ گاہ شعر کی آمد بھی ہونے لگتی۔

 

س: آپ کیسے پہچانتے تھے کہ علامہ پر شعر گوئی کی کیفیت طاری ہو رہی ہے؟

 

ج: وہ مجھے پکارتے یا تالی بجاتے اور کہتے ’’میری بیاض اور قلمدان لاؤ۔‘‘ میں یہ چیزیں لاتا تو وہ اشعار لکھ لیتے، اگر اطمینان نہ ہوتا تو بہت بے چین ہو جاتے۔ شعر گوئی کے دوران اکثر قرآن مجید لانے کو کہتے۔ شعر گوئی کے علاوہ بھی دن میں ایک بار مجھے بلا کر قرآن مجید لانے کی ہدایت کرتے۔

 

س: وکالت کا کیا عالم تھا، بہت کام کرتے یا تھوڑا؟

 

ج: وکالت میں اپنے آپ کو زیادہ مصروف نہ ہونے دیتے۔ عام طور پر یوں تھا کہ ۵۰۰؍روپے فیس کے کیس آ جاتے تو مزید کیس نہیں لیتے تھے۔ دیگر سائلین کو اگلے ماہ آنے کا کہہ دیتے۔ اگر مہینے کے پہلے تین چار دِنوں میں چار پانچ سو روپے کا کام مل جاتا تو باقی مہینا مزید کوئی کیس نہ لیتے۔

 

س: یہ پانچ سو روپے کی حد کیوں لگائی گئی؟

 

ج: اُن کا تخمینہ تھا کہ اُنہیں ماہانہ اخراجات کے لیے اِس سے زیادہ پیسوں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔اِس رقم میں گھر کا کرایہ، نوکروں کی تنخواہیں، منشی کی تنخواہ اور گھر کے عمومی اخراجات شامل تھے۔ یہ اُن دِنوں کی بات ہے جب علامہ اقبالؒ انار کلی اور میکلوڈ روڈ پر رہا کرتے تھے۔

 

س: علامہؒ صاحب نے کتنے عرصے تک وکالت کی؟

 

ج: جب تک اُنہیں گلے کی بیماری لاحق نہیں ہوئی تھی، وکالت کرتے رہے۔ یہ اندازاً ۳۳۔۱۹۳۲ء کا زمانہ تھا۔

 

س: کھانے میں کیا پسند تھا؟

 

ج: پلاؤ، ماش کی دال، قیمہ بھرے کریلے اور خشکہ۔

 

س: کھانا کس وقت کھاتے تھے؟

 

ج: بارہ ایک بجے کے درمیان ایک ہی مرتبہ کھانا کھاتے۔ رات کے کھانے کا معمول نہ تھا۔

 

(علی بخش سے انٹرویو ۔ گفتگو ممتاز حسن)

 

خوش قسمتی ھے کہ اقبال سے

 

پڑھنے کا موقع ملا

 

حکیم الامت علامہ اقبالؒ کثیر الجہات شخصیت تھے۔ اُن کی معروف اور مقبول ترین حیثیت شاعر کی ہے مگر وہ روایتی شاعروں سے مختلف اور منفرد مقام رکھتے ہیں۔ اگر اقبالؒ کی سب حیثیتوں کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اقبالؒ نے ہمیں کسی نہ کسی شکل میں ایک نیا راستہ دِکھایا، کچھ نئے تصورات عطا کیے اور ایک نئے سرمدی نغمے کے ذریعے ہمارے سازِ دل کو چھیڑا…غور فرمائیے تو اِن سب حیثیتوں میں ایک معلم کی قدر مشترک نظر آتی ہے…شاعری ہو یا ان کے فلسفیانہ خطبات، دینی فکر کی تجدید ہو یا سیاسی جدوجہد کا مرحلہ… ہر قدم پر وہ ہمیں کچھ بتاتے، کچھ سکھاتے اور کسی نہ کسی نکتے کی تعلیم دیتے نظر آتے ہیں۔

 

یہ تو مختصر سا ذکر تھا ایک شاعر کی معلمانہ حیثیت کا … مگر اہم بات یہ ہے کہ اِس شاعر نے اپنی زندگی کا ایک حصہ لفظی اور لغوی معنوں میں بھی ’’معلم‘‘ کی حیثیت سے بسر کیا۔ علامہ کی معلمانہ زندگی کا آغاز یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور سے ہوا۔ ایم اے کرنے کے بعد ۱۳؍مئی ۱۸۹۹ء کو وہ اورینٹل کالج سے رُخصت لے کر گورنمنٹ کالج لاہور میں بھی درس دیتے رہے۔ ۱۹۰۵ء میں تین سال کی رُخصت لے کر اعلیٰ تعلیم پانے انگلستان چلے گئے۔ انگلستان میں قیام کے زمانے ہی میں اُنہوں نے معلمی کے بجائے وکالت کا پیشہ اپنانے کا فیصلہ کر لیا۔ انگلستان سے واپس آ کر بھی اُنہیں کچھ عرصہ گورنمنٹ کالج میں پڑھانا پڑا۔

 

میاں افضل حسین ،اقبال کے تلامذہ میں شامل ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ’’میں اِس زمانے میں بی ایس سی کا طالب علم تھا۔ اِس طرح ڈاکٹر محمد اقبال کا شاگرد بننے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اُنہوں نے ہمیں یہ دو کتابیں پڑھائیں:

 

1. Longer English Poems by Hale

 

2.Human Intercours by P.G Hamerton

 

ڈاکٹر اقبال اُن کتابوں کو پڑھانے کی بہترین اہلیت رکھتے تھے کیونکہ آپ بیک وقت شاعر تھے اور فلسفی بھی اور اُس وقت نفسیات بھی فلسفہ کا ایک حصہ تھی۔ لہٰذا وہ تخلیقی فکر کے ساتھ انسانی رویے کی تشریح کرتے تھے اور ایک شاعر اگر شاعری کا مضمون پڑھائے تو ہمیں اور کیا چاہیے اور حقیقت میں یہ ہماری بڑی خوش قسمتی تھی۔

 

ڈاکٹر اقبالؒ ہیمرٹن کے مشاہدات کو ذاتی تجربات کی روشنی میں واضح کرتے۔ اِس کتاب سے اُنہوں نے متعدد ایسی مثالیں پیش کیں جن سے ثابت ہوتا تھا کہ انسان اپنی روایت اور طرزِ تعلیم و تربیت کی بنا پر ایک ہی معاملہ میں مختلف رویہ اختیار کر سکتے ہیں۔

 

ہیل کی کتاب ڈاکٹر اقبالؒ نہایت عمدگی سے پڑھاتے۔ اقبالؒ ایسے عظیم شاعر کی زبان سے کسی نظم کی دلکشی اور دلچسپی کی وضاحت اور شاعر کے حقیقی مدعا کی تشریح سننا انتہائی مسرت کا باعث تھا۔ یہ ہماری انتہائی خوش بختی تھی کہ ہمیں اقبال جیسا اُستاد نصیب ہوا۔

 

(میاں افضل حسین)

 

اسلامی فقہ کی نئے سرے

 

سے تیاری کا منصوبہ

 

س: علامہ اقبالؒ سے تعلقات کس طرح نشوونما پائے ؟

 

ج: ایک دن علامہ کا خط یکایک حیدر آباد میں موصول ہوا۔ اُس میں لکھا تھا کہ تم پنجاب منتقل ہو جاؤ، کیونکہ جنوبی ہند آنے والے حالات کے لحاظ سے ایک محفوظ علاقہ نہیں۔ جو کام تم کر رہے ہو، اُس کے لیے پنجاب میں میدان ہے۔ اِس خط کو پڑھ کر مجھے یہ انداز ہوا کہ علامہ اقبالؒ مجھے جانتے ہیں۔ میں نے سوچا کہ جہاں مسجد شہید گنج کا ایجی ٹیشن چل رہا ہے، کچھ لوگ روپوش ہونے کی سوچ رہے ہیں، وہاں جا کر میرے جیسا آدمی کیا کر سکے گا، چنانچہ میں نے علامہ مرحوم کو لکھا کہ مجھے آپ کی اِس رائے سے اتفاق نہیں کہ جنوبی ہند کام کرنے کے لیے موزوں علاقہ نہیں ہے۔ پھر میں ۱۹۳۷ء ہی میں دہلی گیا اور اِس خیال میں تھا کہ سوچ سمجھ کر رائے قائم کروں کہ کس جگہ اپنا مستقر بنایا جائے۔

 

س: آپ کے جوابی خط کے بعد کوئی اور خط بھی ڈاکٹر صاحب نے لکھا؟

 

ج: جی ہاں، آنے سے قبل دو تین خط ملے اور بعد میں بھی۔ بد قسمتی سے پٹھان کوٹ سے جس عالم میں ہجرت کرنی پڑی، اُس کی وجہ سے کتابوں اور دوسرے کاغذات کے علاوہ میرے جمع شدہ خطوط کا قیمتی ذخیرہ بھی ضائع ہو گیا۔ متعدد شخصیتوں کے اہم خطوط میرے پاس تھے، ایک بھی نہیں بچا۔

 

س: آپ فرما رہے تھے کہ مستقر طے کرنے کا معاملہ آپ کے زیر غور تھا؟

 

ج: جی ہاں اِسی زمانے میں چودھری نیاز علی خاں ، جو دہلی آئے تھے، وہ بھی مجھ سے ملے اور وہ میرے پنجاب منتقل ہونے کے لیے اصرار کرتے رہے۔ مرحوم کا تقاضا یہ تھا کہ چل کر اِس تیاری کو دیکھ تو لیجئے جو ہم کر رہے ہیں۔ اِس خیال سے کہ اِس جگہ کو بھی دیکھ لوںاور علامہ اقبالؒ سے بھی مل لوں، میں نے سفرِ پنجاب کا فیصلہ کر لیا۔ شرقی صاحب نے جالندھر میں ٹھہرنے کے لیے اصرار کیا۔ وہیں پہلی بار میری ملاقات علامہ علاؤ الدین صدیقی مرحوم سے ہوئی۔ جالندھر سے لاہور آ کر میں اقبالؒ سے ملا۔ کچھ دیر گفتگو رہی ۔

 

بطورِ خلاصہ یہ بات مجھے یاد ہے کہ علامہ کا مجوزہ پروگرام یہ تھا کہ اسلامی فقہ کو نئے سرے سے مرتب کیا جائے۔ اُنہوں نے کہا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر اِس کام کے لیے تم تیار ہو جاؤ تو میں ہر سال چھ ماہ وہاں آتا رہوں گا اور مل کر کام کریں گے۔ میں نے کہا، میری اِس سے زیادہ کیا خوش قسمتی ہوگی کہ آپ کے ساتھ کام کروں۔ یہ میرے لیے اِتنی بڑی کشش تھی کہ میں نے حیدرآباد سے پنجاب منتقل ہونے کی تیاری شروع کر دی۔ مارچ ۱۹۳۸ء میں منتقل ہوا۔ ابھی سامان رکھوا ہی رہا تھا جس سے فارغ ہوتے ہی علامہ سے ملاقات کے لیے لاہور جانا تھا کہ اپریل ۱۹۳۸ء میں اُن کا انتقال ہو گیا۔

 

(مولانا مودودیؒ کے ایک انٹرویو سے اقتباس)

 

علامہ کے آنسو میرے دل

 

میں محفوظ رہ گئے

 

اقبالؒ کی زندگی کا غالباً وہ آخری سال تھا جبکہ مجھے ان کی خدمت میں پہلی اور آخری حاضری دینے کی سعادت حاصل ہوئی۔

 

میں نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں خواندگی کے ابتدائی مرحلے ہی میں مجھے اقبالؒ کی نظمیں پڑھنے کو ملیں۔ اُنہیں خوب پڑھا ، یاد کیا اور کچھ سمجھ کر اور کچھ بن سمجھے ان سے لطف لیا…اور پھر تعلیم کے ساتھ ساتھ اقبالؒ سے ذہنی قرب بڑھتا چلا گیا۔

 

ایک صاحب جن کی آمدو رفت اقبالؒ کے ہاں تھی، میرے بھی کرم فرما تھے۔ میری درخواست پر ایک موقع پر اُنہوں نے مجھ سے یہ وعدہ کیا کہ وہ مجھے اقبال کی خدمت میں لے چلیں گے…اور ایک دن وہ مجھے لے کر چل کھڑے ہوئے۔

 

میں جذبۂ احترام کے ساتھ جھجکتے جھجکتے جاوید منزل میں داخل ہوا اور اِسی جذبے کے ساتھ اقبالؒ تک پہنچا۔ ادب سے ہاتھ ملایا اور خاموش بیٹھ گیا۔

 

علامہ اقبالؒ کوٹھی کی اصل عمارت سے دُور ایک چھوٹے سے برآمدے میں تشریف فرما تھے۔ کھلا سر، اَدھ کھلی آنکھیں، سادہ سی قمیص اور دھوتی پر مشتمل لباس۔ بان کی چارپائی بغیر دری یا گدے کے، دیوار کی جانب حقہ رکھا ہوا، جس کے کش علامہ وقفے وقفے بعد لیتے۔ غرض ٹھیک وہی منظر جو جشم تصور میں تھا۔

 

زمانہ شہید گنج کے تنازع کا تھا۔ اِسی سلسلے میں کوئی لیڈر (غالباً نواب افتخار حسین خاں ممدوٹ تھے) اقبال سے بات چیت کرتے بتا رہے تھے کہ یہ ہوا اور وہ نہیں ہو سکا۔ اقبال نے سلسلۂ گفتگو میں دھیمی آواز میں یہ الفاظ کہے ’’افسوس! کوئی مخلص مسلمان نہیں ملتا۔‘‘ اِس پر اُن کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں اور مجھے یاد ہے کہ اُنہوں نے دھوتی کے پلو سے آنسو پونچھ ڈالے۔ میں بڑے عقیدت مندانہ انداز میں بغیر جنبش کے چپ چاپ یہ منظر دیکھتا رہا۔ یہ آنسو میرے دل میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گئے بلکہ شاید وہ میرے بعض اچھے جذبات کے لیے بیج ثابت ہو ئے۔

 

اِس دوران میں نے نہ کوئی گفتگو کی اور نہ بات چیت کرنے کا کوئی ارادہ ہی دل میں پیدا ہوا۔ اِس وقت خواہش صرف اِتنی ہی تھی کہ میں دیکھوں اور سنوں۔ ساتھ یہ احساس بھی تھا کہ میرا مقام نہیں کہ اقبال کو مخاطب کروں۔ آنے والے لیڈر جب اُٹھ گئے تو میرے مہربان بزرگ نے اقبال سے یہ کہہ کر تعارف کرایا ’’یہ نوجوان آپ سے بہت متاثر ہے اور بڑی صلاحیت رکھتا ہے۔‘‘ اِس پر فرمایا ’’ہاں قوم کو (یا اسلام کو) ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے ۔‘‘

 

یہ الفاظ سنتے ہی جب میں رُخصتی مصافحہ کر رہا تھا تو

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد