دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری
دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری

خطبات اقبال پر علامہ ندوی کا تبصرہ

خطبات اقبال پر علامہ سلیمان ندوی کا تبصرہ

سائنس اور فلسفے کی ضرورت:

اقبال مرحوم امام غزالی سے سخت نالاں تھے اور سمجھتے تھے کہ غزالی اور قدیم متکلمین اور فقہا نے فلسفے کی مذمت کر کے مسلمانوں پر ترقی، ارتقا اور سائنسی انقلاب کے دروازے بند کردیے ہیں۔ اگر یہ فقہا اور خصوصاً امام غزالی پیدا نہ ہوتے اور عالم اسلام میں فلسفے کی موت واقع نہ ہوتی تو مسلمانوں پر زوال نہ آتا۔ لیکن ان کے پاس اس سوال کا جواب نہ تھا کہ رسول اللہ اور صحابہ کرام کے پاس تو کوئی فلسفہ نہ تھا لیکن قیصر و کسریٰ کیسے فتح ہوگئے تھے؟۔۔۔وہ مغرب کی تمام تر ترقی کو اسلام ہی کا اثاثہ سمجھتے تھے جو بہت بڑی غلط فہمی تھی اور رفتہ رفتہ یہ غلط فہمی دور ہوگئی تھی۔ ان سے بار بار یہ پوچھتا تھا کہ اگر قرآن نے تفکرون تدبرون تعلقون کی دعوت دے کر تجربیت ، حواس کے استعمال کے ذریعے مغرب کی اس ترقی کو ممکن بنایا اور رسول اللہ کی آمد سے مغرب مغرب ہوگیا اور اسلام ہی نے تجربیت، عقلیت، ترقی، ارتقا کا درس دیا اور قرآن و سنت و خلافت راشدہ کا اسی لیے زریں دور تھاتو خود عہد اسلامی میں سائنس کا وہ ارتقا کیوں نہ ہوا جو مغرب میں ممکن ہوا؟ کیا کسی پیغمبر نے ایجادات سے انقلاب برپا کیا یا دعوت سے۔۔۔

اگر سائنس ترقی کی اصل اساس ہے تو انبیا کم از کم سائنس داں تو ہوتے اور انسانیت کے لیے کچھ ایجادات تو کرتے لیکن تاریخ اس تصور سے خالی ہے۔۔

۔جب مسلمانوں کے سامنے عاد ثمود اہرام مصر موجود تھے تو مسلمان قرآنی تجربیت کے ذریعے ان جیسی عمارتیں چودہ صدیوں میں کیوں نہ بنا سکے؟

یعنی ان میں نقل کرنے کی صلاحیت بھی نہ تھی؟ اس طرح پوری امت ایک ناکام امت ٹھہرتی ہے۔ سائنسی ترقی کے اس فلسفے کے نتیجے میں رسول اللہ پر زد پڑتی ہے کہ نعوذ باللہ اس پیغمبر کے زمانے میں تو کچھ نہ تھا۔ رسول اللہ کا گھر، مسجد نبوی، مدینہ النبی کے گھر عاد ثمود اہرام مصر کا عشر عشیر بھی نہ تھے۔ لہٰذا عہد رسالت سائنسی نقطۂ نظرسے دنیا کا ناکام ترین معاشرہ تھا جو ماضی کے علوم وفنون کا احیا کرنے سے قاصر رہا اور چٹائی، پتوں، ٹاٹ، جھونپڑی کی ثقافت سے اوپر نہ اٹھ سکا۔ کیا کسی معاشرے کی کامیابی اور ناکامی کا پیمانہ صرف مادی پیمانے سائنسی ترقی اور عروج ہے؟ اقبال مرحوم سے میں نے یہ بھی پوچھا کہ اگر مغرب کی ترقی اسلام اور قرآن سے ممکن ہوئی تو روم، ایران، مصر، چین، یونان، موئن جودڑو اور ہزاروں مدفون تہذیبوں کی ترقیوں کو آپ کس پیغمبر اور کس کتاب سے منسوب کریں گے؟ اقبال مرحوم کے پاس ان سوالوں کے جواب میں گہری خاموشی تھی (2۔111)۔

سرسید کا اجتہاد اور مولوی نذیر احمد کا تبصرہ:

سرسید اجتہاد کو اصلاح مذہب کا متبادل و مترادف گردانتے تھے۔ اجتہاد سے ان کی مراد دینی اصطلاح نہیں بلکہ الحاد تھا یعنی مغرب کے راستے میں دین کا جو حکم رکاوٹ بنے، اس کی تاویل کرکے بدل دیا جائے۔ اسے دین سے خارج کر دو۔ بے چارے نہ انگریزی جانتے تھے، نہ علوم اسلام پر عبور رکھتے تھے۔ قرآن کو کلام رسول اللہ مانتے تھے ، حالاں کہ کفار نے بھی اسے کلام خداوندی مانا ہے۔ یہ کفر کی حمایت میں کفر سے بھی بڑھ گئے تھے اور پیروی مغربی کو عام کرنے میں تقلید کو سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے۔ (105) لندن کی خادمہ انھیں ہندوستان کے اعلیٰ سے اعلیٰ خاندان کی بیٹی سے بہتر نظر آتی ہے۔ ایسے لوگ اجتہاد کریں گے تو کیا کریں گے۔ مولوی نذیر احمد نے اسی لیے سرسید کی تفسیر پر جو تبصرہ کیا ہے، ٹھیک تو کیا ہے۔ تبصرہ بہت بے ہودہ ہے، ثقاہت کے خلاف، لیکن مولوی صاحب دہلوی تھے اور محاورۂ روزمرہ پر عقائد، اکرام، تعظیم سب قربان کردیتے تھے۔ اس کا ثبوت "امہات الامہ" ہے۔ قرآن کے ترجمے میں زبان کس قدر کھردری ہے۔ کھڑی بولی پڑی بولی سب پر عبور رکھتے تھے۔ یہی مزاج سود کو حلال ٹھہراتا ہے۔ قرض سود پر دیتے تھے۔ پیسہ گن گن کر رکھتے تھے۔ مولوی بھی کہلاتے تھے۔ ان کی وجہ سے بے چارے مولوی بہت بدنام ہوئے۔ پہلے صرف بنیے یا پٹھان سود خوری کے لیے مشہور تھے، ڈپٹی صاحب نے مولوی پر بھی سود خوری کا الزام ثابت کردیا ۔ لیکن "ابن الوقت" میں جو کچھ لکھا ہے، لفظ بہ لفظ سچ لکھا ہے۔ (110)

یورپ کے اصولوں کی مدد سے اجتہاد:

یہ دلچسپ بات ہے کہ تمام جدیدیت پسند ، کرامت علی سے مشرقی اور اقبال مرحوم تک، سب اسلام کی اصلاح کے درپے ہیں، ایک بھی ایسا نہیں جو مغرب کی اصلاح چاہتا ہو۔۔۔سب اسلام کو بدلنا چاہتے ہیں اور اس کو بدلنے کی اہلیت بھی نہیں رکھتے۔ ان میں سے کچھ عربی نہیں جانتے، کچھ اسلام کو نہیں جانتے، کچھ مغرب کو نہیں جانتے۔۔۔مسلمانوں کا اصل انحطاط اور ذلت کی آخری حد یہی ہے کہ انھیں اپنے عروج کے لیے، اپنے آپ کو سنبھالا دینے کے لیے سہارا کہاں سے ملے گا؟ اللہ سے، اس کے رسول سے، اپنے نظریۂ حیات سے نہیں بلکہ یورپ کے اصولوں سے، تجربیت سے، سائنس سے، عقلیت سے، معتزلہ سے، نطشے سے، برگساں کے سپرمین اور وجدان سے۔ یہ پستی کی انتہا ہے۔ اسی لیے علما نے خطبات اقبال مرحوم کی شدید مخالفت کی، کفر کے فتوے بھی دیے گئے۔۔۔(63) یہ اقبال مرحوم کی سب سے بڑی غلطی ہے اور ناقابل معافی غلطی کہ مغرب کی سائنس اور فلسفے کو منہاج حقیقی بنا کر دین کی تعلیمات کو اس پیمانے پر پرکھا جائے نہ کہ دین کو اصل ، حقیقی اور درست منہاج سمجھ کر مغرب کے فکر و سائنس کو اس پیمانے سے پرکھاجائے۔۔۔۔خطبات اقبال مرحوم نے جہاں جہاں مغربی فکر و فلسفے کو قرآنی آیات سے ثابت کیا ہے، یہ تمام استدلال سرے سے غلط ہے۔اقبال مرحوم علم تفسیر سے ناواقف تھے اور انھوں نے قرآن کے انگریزی تراجم کے ذریعے قرآن کو سمجھا اور قرآن کی تشریح خالص عقل کی روشنی میں کی، لہٰذا جہاں جہاں بھی قرآنی آیات کو وہ اپنے موقف کے حق میں پیش کرتے ہیں ، وہاں وہاں وہ ٹھوکر کھاتے ہیں اور یہ ٹھوکریں تحریفات سے بھی بڑھ کر ہیں۔ (95)

کائنات میں تحرک اور تخلیقیت :

اقبال مرحوم نے۔۔۔کائنات اور اشیا میں ابدی سکون کی نفی کی اور یہ نفی اس حد تک وسیع ہوئی کہ انھیں کائنات مسلسل تخلیق کا عمل نظر آئی حتیٰ کہ خدا بھی تخلیق ہونے لگا۔۔۔خودی کی براقی و دراکی اور تخلیقیت کی شان نہ انبیا کو معلوم تھی نہ صحائف آسمانی میں ان کا ذکر ہے، نہ سلف کے علم میں تھی، نہ خلف کو اس کا پتہ ہے۔۔۔اب سائنس کے مفروضات کی بنیاد پر ذات خداوندی اور اس کی برپا کردہ کائنات کے بارے میں اس آزادانہ تبصرے کی جرأت اسلامی تاریخ میں اقبال مرحوم کے حصے میں آئی۔ (64) وہ کائنات کو خد ا کا تخلیقی عمل سمجھتے ہیں جو ہنوز ناتمام ہے، گویا خدا تخلیقیت میں مصروف عمل ہے۔۔۔بلکہ اس سے آگے بڑھ کر وہ انسان کا درجہ اس قدر بڑھاتے ہیں اور خد ا کا درجہ اس قدر گھٹا دیتے ہیں کہ تصور اس کے ادراک سے کانپتا ہے۔۔۔مغربی فلسفے نے اقبال مرحوم کو یہاں تک پہنچا دیا ہے کہ انھوں نے خطبات میں کہیں لکھا ہے کہ اللہ نے اپنی آزادی، طاقت حیات قدرت میں انسان کو شریک کرلیا ہے۔(100) تقلید کے جمود سے نکلنے کے لیے اقبال مرحوم نے حرکت کا ایک ایسا تصور اختیار کرلیا جو صحف سماوی کی تاریخ میں اور مذہبی تہذیبوں کی تاریخ میں خالصتاً اجنبی تصور ہے۔ اس تصور سے یہ تصور بھی نکلتا ہے کہ تقدیر کا کوئی اور کاتب نہیں ہے، وہ خود کاتب تقدیر ہے جس کی دسترس سے لوح محفوظ بھی محفوظ نہیں۔(101) اقبال مرحوم انکار کرتے ہیں کہ خدا کائنات سے باہر نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں جب کائنات ہماری دسترس میں آتی جا رہی ہے تو ذات خداوندی بھی دسترس سے باہر نہ رہ سکے گی۔۔۔یہ نقطۂ نظر بہت بڑی جسارت ہے۔ اس قسم کی جسارتیں ان کے یہاں عام ہیں۔۔۔(96)۔

مغربی فلسفے سے ناواقفیت:

ماڈرن ازم کے آغاز میں مغرب کادعویٰ تھا کہ حقیقت پہچاننے کے لیے انسان خود کفیل ہے۔ اسے وہ صلاحیتیں حاصل ہیں جس سے وہ حقیقت مطلقہ (absolute reality) تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ اقبال مرحوم اس دعوے کی تصدیق کرتے ہیں جب کہ کانٹ اس دعوے کی تردید کرتا ہے جو مغرب کا سب سے بڑا فلسفی اور ماڈرن ازم کا بنیادی فلسفی ہے۔ کیا اقبال مرحوم کانٹ سے بڑے فلسفی تھے اور مغرب کو مغرب سے بہتر جانتے تھے یا مغربی فلسفے پر کانٹ سے زیادہ عبور رکھتے تھے؟ (101)۔۔۔

اجتہاد کی اہلیت کا فقدان:

ترکی کے کمال مصطفی اتاترک اور ترکی کی پارلیمنٹ جیسے کافرانہ ملحدانہ اداروں سے اجتہاد کی توقع کرنا اقبال مرحوم کی فاش غلطی تھی۔ اقبال مرحوم نے نثر اور شاعری کے اشارات میں ان مجتہدین عصر پر لطیف طنز کیا ہے جو علوم نقلیہ میں رسوخ اور رسوخ فی الدین کے بغیر اجتہاد کے علم بردار بن گئے ہیں۔ لیکن ان کی مذمت کرتے ہوئے اقبال مرحوم خود اپنے مقام کا جائزہ نہیں لیتے۔ کیا وہ ان مباحث کو برپا کرنے کے اہل تھے؟ عربی زبان سے واقفیت کے بغیر اور علم اسلامی میں رسوخ کے بغیر ایک ایسے منصب پر فائز ہونے کی کوشش جہاں سے وہ ملت اسلامیہ کی تشکیل نو کا فریضہ بھی سنبھال لیتے ہیں اور اجتہاد کا طریقہ کار بھی خود طے کرلیتے ہیں۔۔۔اجتہاد کرنے کے لیے کم از کم مطلوبہ قابلیت تو پیدا کیجیے۔۔۔۔اقبال مرحوم یہ نکتہ فراموش کرتے ہیں کہ۔۔۔اجتہاد کے دور میں ہی تاتاریوں نے مسلمانوں پر غلبہ کیسے حاصل کر لیا۔۔۔پھر یہی غلبہ اچانک ختم ہوجاتا ہے اور مسلمان دوبارہ غالب آجاتے ہیں۔ یہ تبدیلی کس اجتہادی قوت کے ذریعے پیدا ہوئی؟۔۔۔اگر مسلمان تاتاری غلبے سے اجتہاد کے بغیر نکل سکتے ہیں تو مغربی تہذیب کے غلبے سے نکلنے کے لیے صرف اور صرف اجتہاد پر زور دینے کی کیا ضرورت ہے؟۔۔۔قرآن کی آیتوں اور حدیثوں کو حرکت و ترقی کا مظہر قرار دینا بڑی عجیب بات ہے۔ یہ فکر تاریخ اسلام کے لیے اجنبی فکر ہے۔۔۔۔اقبال مرحوم وہابی تاریخ کے غلبہ کو اجتہاد کا غلبہ اور امت کے لیے نیک شگون تصور کرتے ہیں۔ یہ رویہ دراصل ان کی روحانیت کا نتیجہ ہے جو ملت اسلامیہ کا عروج چاہتی ہے خواہ یہ عروج جبراً ہو، جب کہ عروج جبر سے کیسے آ سکتا ہے۔ (65۔64)

اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ:

قدیم علما نے اجتہاد کے لیے جو شرائط طے کیں ، وہ اقبال مرحوم کو عصر حاضر کے کسی فرد میں نظر نہ آئیں تو انھوں نے اجتماعی اجتہاد اسمبلی کے ذریعے کرنے کا اجتہاد فرمایا۔ جب شرائط اجتہاد فرد میں نہیں پائی گئیں تو اسمبلی میں کیسے اکٹھی ہوسکتی ہیں؟ سو صفر اکٹھے ہو کر ایک کیسے بن سکتے ہیں؟۔۔۔اسمبلی کے انتخابات کی بنیاد مساوات کے نظریے پر ہے، تمام انسان برابر ہیں۔۔۔اب علامہ اقبال مرحوم اور ایک بقال کا ووٹ برابر ہے اور دونوں یکساں طور پر جمہوری عمل کے ذریعے اسمبلی کے ممبر بن سکتے ہیں۔ اب بقال، حمال، حجام اور موچی اجتہاد کریں گے۔ اقبال مرحوم کا یہ نقطۂ نظر ان کی سطحیت کو واضح کرتا ہے۔ اس سطحیت کا احساس انھیں آہستہ آہستہ ہوتا گیا ، کیوں کہ شروع میں خطبات پر علی گڈھ میں بہت داد ملی اور ہندوستان کے پڑھے لکھے جو مغرب سے مرعوب تھے، انھیں اقبال مرحوم کے ذریعے اسلام کی فصیل میں نقب لگانے کا زبردست طریقہ مل گیا تھا۔ لیکن جب گرد بیٹھ گئی تو حقیقت بھی کھل گئی۔ بعد میں اقبال مرحوم ہندوستان کے ان پڑھے لکھوں سے بہت متنفر ہوئے اور ان سے مکمل مایوس ہوگئے بلکہ کہتے تھے کہ اگر میں آمر ہوتا تو ان کو ہلاک کردیتا۔ (78)

تعدد ازواج، طلاق اور عورتوں کے حقوق:

اقبال مرحوم مغرب کے Feminism سے شدید متاثر تھے۔ ایک مضمون میں انھوں نے لکھا تھا کہ تعدد ازواج اس عہد کے سیاسی اقتصادی ضرورتوں سے مشروط تھا اور فی زمانہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ "جو علما تعدد ازواج کی اجازت دیتے ہیں وہ امرائے قوم کو زنا کا شرعی بہانہ مہیا کرتے ہیں۔" یہ جسارت مغربی فکر و فلسفہ کا نتیجہ اور علوم اسلامی سے عدم واقفیت کے باعث تھی۔ لیکن آخر زمانہ میں اقبال مرحوم نے مغرب کی فحاشی عریانی بے حیائی دیکھی تو مجھے لکھا تھا کہ اسلام کے تعدد ازواج کے اصول کی اصل حقیقت تو مجھ پر اب واضح ہوئی ہے۔ اگر شارع علیہ السلام ہوتا تو چار کی تعداد میں مزید اضافہ کردیتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ عقل اور اجتہاد جب اصول دین بن جائیں تو اسی قسم کی افراط و تفریط لازمی ہے۔ پہلے دوسری کے بھی قائل نہ تھے، اب پانچویں کے بھی قائل ہوگئے۔ اسی لیے تقلید اجتہاد سے بہتر ہے اور اگر اجتہاد کرنا ہے تو ان تمام شرائط کا ہونا لازمی ہے جو علما نے بیان کی ہیں۔ بعد میں اقبال مرحوم نے عورتوں کے حدودکار، حجاب، تقسیم کار پر وہی موقف اختیار کر لیا تھا جس پر اجماع امت ہے۔ (79) فقہ اسلامی میں طلاق کے مسئلے کی تاریخی تحقیق سے بھی اقبال مرحوم گہری واقفیت نہ رکھتے تھے۔ لہٰذا انھوں نے وکالت کے پیشے میں جب طلاق کے مقدمات کثرت سے دیکھے تو اس ضمن میں فقہی احکامات سے متنفر ہوگئے۔ احکام کی علت اور روح کو سمجھے بغیر محض چند واقعات و حادثات سے متنفر ہوجانا دین کا مزاج نہیں ہے۔ عورت طلاق لیتی ہے، مرد طلاق دیتا ہے، یہ فقہ کا اصول نہیں قرآن کا حکم ہے۔ (79) ایک بار انھوں نے مجھ سے شکوہ کیا تھا کہ ہندوستانی معاشرے میں مسلمان لڑکیوں کو اپنی پسند کی شادی کرنے کی اجازت نہیں ہے، خصوصاً حنفی فقہ ولی کی شرط عائد کرتی ہے، یہ قرآن کے نصوص کے خلاف ہے۔ میں نے سوال کیا کہ اس سوال پر تو ہم بعد میں بات کریں گے کہ ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کو ولی کے بغیر نکاح ہونی چاہیے یا نہیں، پہلا سوال یہ ہے کہ آیا ہمارے معاشرے میں لڑکوں کو اپنی پسندسے شادی کرنے کی اجازت ہے یا نہیں۔ وہ چپ ہوگئے۔ میرا دوسرا سوال یہ تھا کہ آپ کی شادیاں کیا آپ کی مرضی سے ہوئیں؟ وہ غمگین ہو گئے۔ میں نے عرض کیا کہ جب اس عہد کا اتنا بڑا آدمی اپنی پسند سے شادی تو کیا طلاق بھی نہیں دے سکتا تو یہ کہنا کہ لڑکیوں کو پسند کی شادی کی اجازت نہ دینا ظلم ہے، خلط مبحث ہے۔(79)

اقبال مرحوم کو پنجاب میں ارتداد کے ذریعے تنسیخ نکاح کے مقدمات کی یلغار کا سامنا کرنا پڑا۔ بجائے اس کے کہ وہ پنجاب کی مقامی معاشرت، عادت، رسوم وروج پر غور کرتے تاکہ اتنے بڑے پیمانے پر تنسیخ نکاح کے مقدمات کی توجیہ کرسکتے، انھوں نے اسلامی فقہ اور حنفی فقہ میں خامیوں کی تلاش شروع کردی۔ وہ جزئیات کو لے کر کلیات اخذ کرنے کا ذہن رکھتے تھے۔ اسے ہم جدید اصطلاح میں سائنٹفک ذہن کہہ سکتے ہیں۔ اس سائنٹفک ذہن کا اطلاق سائنس پر کیا جاسکتا ہے، فقہ میں اس کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ علم اسلام کی آبادی تقریباً پچاس کروڑ ہے۔ شادی شدہ عورتوں کی تعداد بھی کم از کم دس کروڑ ہوگی۔ اگر دس کروڑ عورتوں میں سے پنجاب کی دوسو عورتوں نے ارتداد کے ذریعے تنسیخ نکاح کا راستہ دیکھا تو اسے فقہ اسلامی کی کمزوری نہیں بلکہ پنجابی معاشرے کی خامیاں سامنے آتی ہیں جو مسلمان تو ہوگئے لیکن عہد جاہلیت کے رسوم و رواج کے دائرے سے نہیں نکل سکے۔ (80)

جمہوریت و ملوکیت:

مغرب سے مغلوبیت نے اقبال مرحوم کو یہ باطل خیال پیش کرنے پر مجبور کیا کہ اسلامی قانون کی روح جمہوری ہے۔ جمہور اور اجماع کی اصطلاحات سے یہ نتیجہ اخذ کر بیٹھے کہ نئے مسائل پیش آنے پر جمہوری طریقے سے لوگوں کی رائے لے کر (ریفرنڈم وغیرہ) قانون وضع کر لیا جائے گا اور غالباً اسمبلی ان کی نظر میں اجماع اور جمہور کا متبادل تھا۔ فقہ اسلامی میں جمہور سے کیا عوام الناس مراد ہیں؟ اقبال مرحوم اس اصول سے تو آگاہ ہوں گے لیکن اس کی تفہیم انھوں نے مغربی منہاج میں کی تو یہ گمراہی خودبخود پیدا ہو گئی،ا ور اقبال مرحوم کے یہاں ایسی بے شمار گمراہیاں ملیں گی۔۔۔۔جمہوریت ایک خالص مغربی اصطلاح ہے، لہٰذا اسے اسلامی تاریخ اور فقہ میں ڈھونڈنا درست نہیں ہے۔ جمہوری اداروں کو اسلامی تاریخ میں تلاش کرنا اسلام کی تاریخ سے ناواقفیت کا ثبوت ہے۔ قرآن کریم میں ملوکیت کی مذمت اور جمہوریت کی مدحت کہا ں ہے۔۔۔ملوکیت قرآن سے ثابت ہے، اسے قابل نفرت قرار دینے کی شرعی توجیہ نہیں کی جاسکتی۔۔۔۔آزادی اور مساوات کو اسلام میں ڈھونڈنا اسلام سے ناواقفیت ہے۔۔۔۔اسلام اور آزادی دو متضاد نظریات ہیں۔ (82) جمہوریت اور جمہوری عمل کا اسلام سے کیا تعلق اور خلافت اسلامی سے کیا تعلق؟۔۔۔اسلامی جمہوریت ایک بے معنی اصطلاح ہے۔ شورائیت کہہ سکتے ہیں۔ قرآن بتاتا ہے کہ فرعون کی بھی شوریٰ تھی اور ملکہ سبا کی بھی شوریٰ تھی۔۔۔تو شورائیت تو نظام استبداد اور آمریت میں بھی رہتی ہے، ملوکیت میں بھی ہوتی ہے اور خلافت میں بھی ملتی ہے۔۔۔۔یہ کہنا کہ اسلام اور خلافت کا نظام خالصتاً جمہوری ہے، تاریخ اسلام کے لیے ایک اجنبی تصور ہے۔ اب دیکھیے حضرت ابوبکر کی خلافت کا اعلان پہلے کیا گیا، بیعت بعد میں ہوئی۔ خلیفہ تو انھیں مقرر کردیا گیا۔ اس تقرری کا فیصلہ عوام نے نہیں ارباب حل و عقد نے کیا۔ یہ کون لوگ تھے؟ کیا یہ منتخب ہوئے تھے؟ کیا رسول اللہ نے انھیں خلافت کے فیصلے کا اختیار دیا تھا؟ ۔۔۔ان کی حیثیت مسلمہ تھی۔ جس طرح اہل عرب اپنی اولاد کو پہچانتے تھے ، اسی طرح ان لوگوں کی اہمیت، حیثیت سے بخوبی واقف تھے، لہٰذا کوئی مزاحمت نہ ہوئی۔ ہر کہہ و مہہ کو خلافت کے فیصلے میں نہ شریک کیا جاسکتا تھا نہ شریک کرنے کی ضرورت تھی۔ اتنے اہم منصب کا فیصلہ ارباب حل و عقد کریں گے یا ہر ایک سے پوچھا جائے گا؟ قرآن کریم اس معاملے میں واضح ہدایات دیتا ہے جس سے جمہوریت کے فلسفۂ عوام کی نفی ہوتی ہے۔ ۔۔۔قرآن نے طالوت کو ملک کہا، ذوالقرنین کو ملک کہا، کہیں ملوکیت کی مذمت نہ کی۔۔۔لہٰذا یہ کہنا کہ قرآن ، اسلام ملوکیت کے خلاف ہے اور جمہوریت کے حق میں ہے، باطل خیال ہے۔ (1۔90)

مکاتب فکر اور اجماع:

اقبال مرحوم صاف لفظوں میں کہتے تھے کہ صرف مکاتب فکر کے اجماع کے تصور کو ختم کرکے اس تصور کو وسیع کردیا جائے۔ صرف اقبال کے کہنے سے مکاتب فکر ختم نہیں ہوسکتے۔ اس امت میں بے شمار مکاتب فکر تھے، سب ختم ہوگئے، صرف چار رہ گئے۔ غیر فطری طریقے سے جو مکاتب ابھرے ، وہ فطری طریقے سے ختم ہوگئے۔ خطبات لکھنے اور تقریر کرنے سے نہ کوئی مکتب فکر وجود میں آتا ہے ، نہ ختم ہوتا ہے۔ (92) اصلاً وہ فقۂ اسلامی کے قیمتی ذخیرے سے ناواقف تھے، اس پر ان کی گہری نظر نہ تھی۔ چند اہم مشہور کتابیں انھوں نے مترجم کی مدد سے پڑھ ڈالیں اور اس کمزور مطالعے کے بل پر لامحدود دعوے کردیے۔ اس میں ان کا اخلاص موجود ہے لیکن اخلاص علم کا متبادل نہیں ہوسکتا۔۔۔۔فقۂ احناف پر اقبال مرحوم کے تبصرے اس قدر سطحی ہیں کہ انھیں پڑھ کر دکھ ہوتا ہے۔ اقبال مرحوم کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ مختلف متحارب مکاتب فکر اور گروہوں کے لوگوں سے خط و کتابت کرتے تھے اور اس خط و کتابت سے حاصل شدہ معلومات کے تبادلے سے کچھ مفروضات قائم کرکے اپنی ذہانت سے بعض غیر معمولی نتائج اخذ کرلیتے تھے۔ ان میں وہ علمی اہلیت نہیں تھی کہ ان نکات کی تائید و تصدیق متعلقہ کتب سے براہ راست کرسکتے۔ وہ علم کے بجائے تعقلی وجدان کے سہارے دین پر نقد کرتے تھے۔ لہٰذا ہر محقق و مفسر نے اپنے حساب سے اخذ شدہ ادھوری، جانب دارانہ معلومات انھیں مہیا کردیں۔ انھی معلومات پر انھوں نے اسلامی علوم پر نقد فرمایا ہے۔ احمد دین امرتسری کے مکتب فکر سے بھی ان کے مراسم اور خط و کتابت تھی۔۔۔لہٰذا ممکن ہے کہ حنفیوں کے خلاف یہ جارحیت وہاں سے ملی ہو ، کیوں کہ احمد دین امرتسری صاحب اہل حدیث تھے۔ (4۔83)اقبال مرحوم کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ حدیث سے استدلال کا طریقہ استخراجی ہے یا استقرائی۔۔۔سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ حنفی مکتب فکر پر جمود، تقلید، ٹھہراؤ، یونانی منطق سے مرعوبیت کے بے بنیاد الزامات عائد کرنے کے باوجود خطبات میں تسلیم کرلیتے ہیں کہ دوسرے مکاتب کے مقابلے میں حنفی مکتب تخلیقی اکتساب کی بہت زیادہ قوت رکھتا ہے۔ اگر حنفی جامد مقلد اور یونای منطقی تھے تو پھر تخلیق کا سوتا ان کے مکتب فکر سے کیسے پھوٹ گیا؟ اقبال مرحوم کے یہاں اس طرح کے تضادات بے شمار ہیں کیوں کہ بیشتر آرا ان کے مطالعے کا حاصل نہیں ہیں بلکہ ادھر ادھر سے استفادہ کرکے اپنے نام سے دین کی تشکیل کا دعویٰ کردیا گیا ہے جو تضادات سے پر ہے۔ اسی لیے یہ دعویٰ کبھی قبولیت حاصل نہ کرسکا۔ (84)

اجماع کو لادینی سیاسی نظام کے جمہوری ادارے پارلیمنٹ کا متبادل سمجھنا اقبال مرحوم کی بہت بڑی غلطی تھی۔ آج وہ زندہ ہوتے تو اس خیال سے رجوع فرماتے۔ (93) وہ ترکوں کے الحاد کو اجتہاد کا ہم معنی سمجھتے تھے اور اسے بڑا کارنامہ قرار دیتے تھے۔ اس موضوع پر ان سے بہت تند و تلخ تبادلۂ خیالات بھی ہوا اور آخر میں وہ اس سے رجوع کرچکے تھے لیکن اس رجوع کا اظہار تحریری طور پر کرنے کی مہلت نہ ملی۔ (110)

دینی علوم سے کامل بے خبری اور اسلامی فقہ کے عظیم الشان ذخیرے اور علم التفسیر اور علم الحدیث کے اصولوں سے عدم واقفیت کے باعث اقبال مرحوم کے یہاں گمراہیوں کا ایک طویل سلسلہ در آتا ہے۔ "معارف" میں عموماًان گمراہیوں پر سکوت کا ایک سبب یہ تھا کہ اقبال مرحوم کی ذات سے اور ان کے شاعرانہ کمالات سے ملت کو جو فائدہ پہنچ رہا ہے، اس میں کوئی رکاوٹ نہ پیدا ہو۔ مولانا ماجد دریابادی تو اس معاملہ میں بہت غیرت مند تھے اور چاہتے تھے کہ اقبال مرحوم کے کفر کے خلاف جو کچھ لاوا ان کے دل میں ہے، کتابی صورت میں تحریر کریں لیکن ان کو قائل کرنا پڑا کہ صبر سے کام لیں۔۔۔۔،ماجد صاحب نے ان کے الحاد و کفر کو دلائل سے ثابت کرتے ہوئے انھیں متنبہ کیا تھا کہ وہ اس دریا کو پایاب نہ کریں۔۔۔۔مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ کسی قاری نے ان سے استفسار کیا تھا کہ کیا خطبات کا ترجمہ شائع ہورہا ہے، اب کیا ہوگا۔ تو ماجد صاحب نے تیکھے انداز میں "صدق" میں جواب دیا تھا کہ اقبال مرحوم، سرسید جب یورپ کے سامنے اسلام کو پیش کرتے ہیں تو ڈرتے رہتے ہیں کہ کوئی بات بھی زبان سے ایسی نہ نکل جائے جو یورپ کو ناگوار ہو۔ خطبات اگر ترجمہ ہوگئے تب بھی اس کے فروغ کا دائرہ بہت محدود رہے گا اور یہ فتنہ کبھی پھیل نہ سکے گا۔ مولانا دریابادی کا یہ اعتماد کتنا درست تھا؟ خطبات کو میں فتنہ اس لیے نہیں کہہ سکتا کہ اقبال مرحوم نے ان مباحث سے رجوع کرلیا تھا اور نظر ثانی کررہے تھے، انھیں اس کا موقع نہ ملا۔ (85) ماجد صاحب کی تنقید کے بعد اقبال مرحوم نے خطبات کا ارادہ ترک کردیا تھا۔ انھیں احساس ہو گیا کہ یہ مباحث اتنے سادہ نہیں کہ انھیں امہات کتب کے تراجم کی سماعت کے ذریعے طے کردیا جائے۔ غالباً کسی بیان میں اقبال مرحوم نے یہ کہا کہ میں Islam as I understand it کے نام سے کتاب لکھ رہا ہوں۔۔۔میرے خیال میں خطبات اقبال مرحوم کا نام اگر تبدیل کردیا جائے بلکہ خطبات اقبال مرحوم کا بہترین نام میری نظر میں Islam as I understand itہونا چاہیے کیوں کہ خطبات میں صرف وہی کچھ پیش کیا گیا ہے جو اقبال مرحوم سمجھتے تھے۔ خود اسلام کو علوم اسلامی، علمائے اسلام اور تعامل امت کے ذریعے سمجھنے کی روایت اقبال مرحوم نے ترک کردی ، لہٰذا قدم قدم پر ٹھوکر کھائی۔۔۔اقبال مرحوم کو قلق تھا کہ علما نے ان کے خطبات کا خیر مقدم نہیں کیا۔ وہ علما کی طاقت سے بخوبی واقف تھے اور تن تنہا ان سے مقابلہ کی سکت نہ پاتے تھے۔ انھیں ملال تھا کہ سرسید نے علما کا جو اثر کم کردیا تھا وہ خلافت کمیٹی کی سیاست کے بعد دوبارہ بحال ہوگیا ہے اور اسی اثر سے وہ خائف تھے۔ ماجد صاحب کی تنقید نے اقبال مرحوم کو بہت محتاط بنا دیا تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص احسان ہے ورنہ اقبال مرحوم جیسے قیمتی شخص کے قلم سے دشمنان اسلام کو بہت مہمیز مل سکتی تھی۔ (114) خطبات اقبال دراصل مسلم جدیدیت کی بائبل ہے لیکن اتنی ادق اور عسیر الفہم ہے کہ منکرین حدیث اپنے خاص موثر اسلوب میں زندگی بھر صرف خطبات اقبال مرحوم کی تشریح لکھ دیتے تو لاکھوں مسلمانوں کا ایمان متزلزل کردیتے۔۔۔۔اگر جدیدیت پسند طبقات میں سے ایک بھی خطبات کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیتا تو اس تحریک کو روکنا مشکل تھا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ مستقبل میں برعظیم کے مذہبی معاشروں کو تہس نہس کرنے کے لیے خطبات اقبال کو ایک طاقت ور قوت کے طور پر کام میں لایا جائے گا۔ (103)

اقبال مرحوم نے آیات کو سیاق و سباق سے کاٹ کر مطالب اخذ کیے ہیں۔ ان مطالب سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اقبال مرحوم کا فہم قرآن نہایت ناقص تھا۔ وہ قرآن کی تشریح و تفہیم پر قادر نہ تھے اور قرآنی الفاظ کا درست مفہوم نہیں سمجھ سکتے تھے، کیوں کہ ان کی عربی کی استعداد برائے نام تھی۔۔۔۔اسلام کی تشکیل جدید کا دعویٰ کرنے والے اگر قرآن ہی سے واقف نہیں ہیں تو انھیں تشکیل کا کیا حق پہنچتا ہے۔ (95) اقبال مرحوم کے یہاں تضادات کا یہ تنوع غالباً اس وجہ سے بھی ہے کہ اقبال مرحوم نے 1912 کے بعد سے مطالعہ کتب ترک کردیا تھا۔ وہ صرف قرآن پڑھتے تھے یا مثنوی۔ کبھی کبھار کوئی کتاب دیکھ لیتے۔ لہٰذا صرف قوت حافظہ، سابق مطالعہ اور زبردست قوت مشاہدہ کے زور پر وہ علمی و تحقیقی کام کرتے تھے۔ (96)

 

(ماخوذ از "جریدہ"، شمارہ 33، شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ، جامعہ کراچی۔ مدیر: خالد جامعی)

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد