دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری
دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری

اقبال سے محبت۔۔مگر کیسے‘‘

حافظ مظفر محسنؔ101۔چراغ پارک شاد باغ لاہور+92003009449527muzaffarmohsin@yahoo.com

مسجد تو بنا دی شب بھر میں

ایماں کی حرارت والوں نے

من اپنا پرانا پاپی ہے

برسوں سے نمازی بن نہ سکا

اقبال شناسی کیسے ممکن ہے شاید اس کے لئے اقبالؒ کے اشعار میں ڈوب جانا ہو گا؟ میں اقبال ؒ شناس ہوں یا نہیں۔۔۔؟! میں علامہ سے کس قدر محبت کرتا ہوں۔۔۔؟! میں علامہ اقبالؒ کو کس مقام و مرتبہ پر فائز دیکھتا ہوں۔۔۔میں نے آنکھیں بند کیں اور اقبالؒ کے اشعار دل ہی دل میں پڑھتا چلا گیا۔۔۔ شکوہ اور جواب شکوہ شروع ہوا تو اشعار اترتے چلے گئے۔۔۔کہیں بریک لگنے کا احتمال نہ تھا۔۔۔ایک خاص کیفیت طاری ہوتی چلی جا رہی تھی ۔کلام اقبالؒ ہمارے دلوں میں بچپن سے موجود ہے اپنی پوری سپرٹ کے ساتھ۔۔ اس دوران۔۔کہیں موسیقیت بھی وارد ہو جاتی ۔۔۔خاص طور پر جہاں محترمہ نور جہاں کا پڑھا ہوا وہ حصہ۔۔آ جاتا۔۔۔ہے جو سننے والوں کے دلوں کو منور کر دیتا ہے۔۔۔ایک ایک لفظ اپنی طرف کھنچتا چلا جاتا ہے۔۔اس قرآنی تعلیمات کی تفسیر بیان کرنے والے عظیم شاعرکا کہ زمانہ جس سے بہت پیار کرتا ہے۔

ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن

کردار میں گفتار میں اللہ کی برھان

اور پھر سلسلہ چل نکلا۔۔۔۔۔۔

ہمسایہ جبریل امین بندہ خاکی

ہے اس کا نشیمن نہ نجارا نہ بدخشاں

یہ راز کسی کو نہیں معلوم کے مومن

قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن

 

 

پھر وہ اشعار مہدی حسنؔ صاحب نے جو پڑھے وہ دل و دماغ پر چھانے لگے۔۔۔ مہدی حسن کی مردانہ وجاہت سے بھر پور با رعب آ واز اور کلام اقبالؒ دل پر طاری ہو گیا۔۔۔جیسے وقت تھم گیا ہو۔۔صبح و شام ایک ہو گئے ہوں۔

 

یہ گنبد مینائی یہ عالم تنہائی

مجھ کو تو ستاتی ہے

 

اس دشت کی زیبائی

یہ گنبد مینائی

یہ عالم تنہائی

 

 

پھر اگلا نقشہ سامنے آ گیا۔۔۔ اور کیفیت بدلتی چلی گئی۔ محترمہ شبنم مجید صاحبہ نے کلام اقبالؒ کو دل کی گہرائیوں سے پڑھا اور یوں لگا جیسے مقصد حیات پا لیا۔۔۔ جذب ومستی کی کیفیت اور شبنم مجید صاحبہ کی زبان سے جاری آ فاقی کلام اور محویت۔۔۔کیا کہنے!

’’حافظ صاحب کیا ہو رہا ہے‘‘؟! ناصر ؔ مہمند کے اس فقرے نے آنکھیں کھول دیں۔۔۔ اقبالؒ ڈے ہے۔۔آؤ کسی محفل میں چلیں شہر میں تقریبات جاری ہیں۔۔۔ شام اقبالؒ کے ساتھ گزاریں ان کے مزار کے پاس۔۔جہاں استاد دامنؔ بھی سارا سارا دن بیٹھے رہتے ۔۔اک بار میں نے مذاق میں استاد دامن سے پوچھا۔۔۔ ’’استاد جی۔۔۔ حضوری باغ میں گرمی ہو سردی ہو۔۔۔آپ اس ’’بزرگ درخت‘‘ کے نیچے بیٹھے رہتے ہیں؟! میں نے بڑے سے درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔ اور بزرگ وہاں لیٹا ہوا ہے انہوں نے علامہ اقبالؒ کے مزار کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے مسکراتے ہوئے پوچھا۔۔۔میں کم علم۔۔۔ وقت کے عالم کے سامنے کیونکر بول سکتا تھا ۔۔۔لاجواب تھا۔۔۔ استاد اک فقرے میں سب کچھ کہہ ڈالتا۔۔ استاد کو میں نے ہمیشہ لوگوں کو لاجواب کرتے دیکھا۔۔۔بڑی باریک اور نہایت مختصر سی بات کرتے ہوئے۔۔۔ لیکن یہاں استاد کا مقصد و منشاء کبھی بھی کسی کی دل آزاری یا تذلیل نہ ہوتا۔۔واقعی حضوری باغ کے پاس بادشاہی مسجدکے زیر سایہ وہ بزرگ لیٹا ہے اور وقت کے حاکم وہاں آتے ہیں سر جھکا تے ہیں۔ پیار کرنے والے آتے ہیں سر جھکاتے ہیں اور دو آنسو بھی بہاتے ہیں۔۔۔ علم والے آتے ہیں۔۔۔سر جھکائے بیٹھے رہتے ہیں، دیکھتے چلے جاتے ہیں۔۔ شاید آنکھوں کی پیاس بجھاتے ہیں دل کی پر سکونی کا انتظام کرتے ہیں اپنی دوسری زندگی کا سامان تلاش کرتے ہیں۔جو ہمیشہ کے لئے ہو گی ہمارے عملوں کی بنیاد پر۔اور عمل کیسے تھے ہمارے شاعر مشرق کے، ہمارے اس قومی بزرگ کے کہ وہ آرام فرما رہیں ہیں لاہور کی سب سے بڑی اور عالمگیر شہرت کی حامل بادشاہی مسجد کے زیر سایہ کہ جہاں روزانہ ہزاروں عقیدت مند آتے ہیں اور خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

میری یہ تفصیل شاید ناصر مہمند کو اچھی لگی۔۔۔ وہ میرے پاس بیٹھ گیا۔۔۔’’حاف٭۔۔۔آپ جانتے ہیں کلام اقبالؒ کا حافظ کون ہے؟‘‘ ناصر مہمند نے معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔؟ ’’میں تو نہیں ہوں کم از کم‘‘۔۔۔میں نے ہنستے ہوئے کہا۔۔تو سن لیں۔۔۔ وہ شخص ہمارے درمیان موجود ہے لیکن ہم نہیں جانتے۔۔۔ ! ناصر خان یار۔۔۔ یہ بات آپ نے ایسی چھیڑدی۔۔اب دل بے قابو ہو رہا ہے۔۔ پلیز جلدی بتائیں؟ اچھا چلیں یہ بتائیں۔۔۔ علامہ اقبالؒ کا سب سے زیادہ احترام کون سا طبقہ کرتا ہے؟ نیا سوال ناصر مہمند نے پوچھا۔۔۔’’بچے۔۔۔نوجوان‘‘ ان کو کلام اقبال‘ ابھی تک ہمارے اسکول کالج کے روائتی اساتذہ ازبر کراتے ہیں۔میرے اس جواب پر ناصر مہمند ناراض ہو گیا۔۔۔۔ حافظ صاحب۔۔۔سن لیں۔۔۔کلام اقبالؒ کا حافظ ہمارے سیاسی راہنماء قاضی حسین احمد ہیں ’’واللہ‘‘ ۔۔۔’’میرے منہ سے نکلا‘‘۔۔۔’’سنیں قاضی حسین احمد کو علامہ اقبالؒ کا اردو کے ساتھ ساتھ فارسی کلام بہت یاد ہے اور وہ پڑہتے ہیں تو پڑہتے چلے چاتے ہیں اور اوپر سے ان کا فارسی کلام پڑہنے کا انداز اور تلفظ۔۔مجھے یاد آ گیا۔۔۔ناصر مہمند آپ تو سچ کہتے ہیں۔۔ میں نے دو تین سال پہلے شہر میں منعقدہ اک محفل میں قاضی حسین احمد سے کلام اقبال ؒ سنا تھا اور وہ پڑہتے ہی چلے جا رہے تھے اور وہاں۔۔فارسی کلام تو بلا شبہ یوں لگ رہا تھا جیسے۔۔ان پر خاص کیفیت بھی طاری تھی۔۔جذباتی انداز۔۔علامہ خود پڑھ رہے ہوں۔ میں نے وضاحت کی۔ ’’مجھے سب یاد ہے آپ بلاشبہ قاضی حسین احمد کو حافظ کلام اقبالؒ کہہ سکتے ہیں۔۔ اور وہ جو ڈاکٹر اسرار احمد ہیں‘‘۔۔ہاں میرے فقرے کو اچک لیا۔۔۔ ناصر خان مہمند نے۔۔یقیناًاس شعبہ میں یعنی اقبالؒ شناسی میں ڈاکٹر اسرار احمد بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ وہ نہ صرف علامہ اقبالؒ کا نام بہت احترام اور عزت و محبت سے لیتے ہیں۔ بلکہ اکثر مقامات پر ان کے بلند پایہ اشعار بھی حاضرین کو سناتے ہیں اور ان کے دلوں کو گرما تے ہیں روح کو جگاتے ہیں۔میں نے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی آنکھوں میں ایک محبت بھری چمک ہمیشہ دیکھی جب وہ علامہ اقبالؒ کی انقلابی شاعری پرہتے ہیں۔ڈوب جاتے ہیں۔۔۔ حاضرین کو ساتھ لے کر چلتے ہیں جیسے اقبالؒ سے محبت کرنے والوں کا قافلہ رواں دواں ہو۔۔کہ اقبالؒ سے محبت کرنے والوں کا قافلہ بہت بڑا ہے اور ہم سب اس سے محبت کرنے والے ساتھ ساتھ ہیں۔

معروف عالم دین، سماجی حلقوں میں بے حد مقبول علمی شخصیت علامہ احمد علی قصوری کا نام بھی اقبالؒ شناسوں میں ہوتا ہے۔ وہ بھی علامہ اقبال ؒ سے محبت کرنے والوں کی فہرست میں سر فہرست ہیں۔ فرماتے ہیں کہ علامہ اقبالؒ کا کلام محبت و عقیدت کا کلام بھی ہے لیکن یہ در اصل قران پاک کی تفسیر ہے علامہ احمد علی قصوری کے یہ ریمارکس عقیدت محبت کی معراج ہیں۔ قران پاک، اللہ تعالیٰ کی آخری الہامی کتاب اور آخری نبیﷺ جو صدیوں زمانوں کے لئے رحمت بن کر آئے ان پر نازل ہوا اور پھر اس الہامی کتاب کی تفسیر بیان کرنا یہ وہی کر سکتا ہے جو محو ہوگیا۔ جو ڈوب گیا جو ہر وقت درود پاک کا ورد کرے۔۔آنکھ بند ہو درود پاک کا ورد جاری آنکھ کھلے درود پاکﷺ کے ورد کے ساتھ سانس سرکار دو عالم ﷺ کی محبت سے لبریز۔۔۔ سرکار دوعالمﷺ کا ذکر مبارک ہو۔۔آنکھیں بھیگ جائیں۔۔ گال بھیگ جائیں۔۔۔ اس وجد کی کیفیت میں قران پاک کی تفسیر لکھی جا سکتی ہے سو بقول علامہ احمد علی قصوری علامہ اقبال ؒ کا کلام ہو بہو قران پاک کی تفسیر ہے۔

بہت سے گمنام چہرے چھپے بیٹھے ہیں جو کلام اقبال میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ ڈوب جانا ہی پا لینے کا دوسرا نام ہے۔۔۔ ورنہ حالت بالکل الٹ ہو جاتی ہے خود علامہ اقبالؒ نے علم و عمل سے دور رہنے والوں کے لئے کہ جو بیچ سمندر بھی پیاسے رہے، فرمایا ہے کہ۔۔۔

 

 

شاعر بھی ہیں پیدا علماء بھی حکماء بھی

خالی نہیں قوموں کی غلامی کا زمانہ

مقصد ہے ان اللہ کے بندوں کا مگر ایک

ہر ایک ہے گو شرح معافی میں یگانہ

بہتر ہے شیروں کو سکھا دیں رم آہو

باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہ

کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضا مند

تاویل مسائل کو بتاتے ہیں بہانہ

 

اور وہ غیر ملکی خاتون۔۔۔ ناصر خان مہمند نے سنا اور ہنس دیئے۔۔۔ ہاں ہاں۔۔ آپ ٹھیک کہتے ہیں محترمہ این میری شمل بھی جو کہ جرمن خاتو ن تھیں اور جنہوں نے کلام اقبال ؒ کو ازبر کر لیا اور ان کے کلام کی وسعت کو دیکھتے ہوئے اور اس کلام کو عالم انسانی کے لئے فلاح و امن کا پیغام جانا ور اس حوالے سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی اور دنیا بھر میں جہاں انہوں نے اقبالؒ سے محبت کرنے والوں میں خود کو شامل کیا وہیں خود بھی اس حوالے سے ان کو بے بہا شہرت نصیب ہوئی اور دنیا بھر کے علمی و ادبی حلقوں میں این میری شمل کا نام جانا پہچانا جانے لگا اور علامہ اقبال بھی شہرت کی بلندیوں پر پہنچے۔اہل لاہور نے لاہور کی نہر کنارے سڑک کو این میری شمل کے نام سے منسوب کر کے حق ادا کر دیا۔

ایران کے عوام اور حکومت بھی اس حوالے سے کسی سے پیچھے نہیں۔ اقبالؒ کے عاشقان ایران میں بہت زیادہ ہیں کیونکہ علامہ اقبالؒ کا بہت سا کلام فارسی زبان میں بھی تھا اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ علامہ فارسی زبان پر پوری دسترس رکھتے تھے اور فارسی کے عالم کے طور پر بھی جانے جاتے تھے۔ یوم اقبالؒ ۔۔۔ایران میں ہمیشہ شان و شوکت سے منایا جاتا ہے کیونکہ ایرانی عوام علامہ کو اپنا شاعر کہتے ہیں اور امام خمینی ؒ جو کہ دنیا میں ایک بہت بڑے اسلامی انقلاب کے بانی اور واحد راہنماء تھے انہوں نے بھی علامہ اقبال ؒ کی تعلیمات سے بہت کچھ حاصل کیا۔ راہنمائی پائی، مولانا سید ابولااعلیٰ مودوسیؒ بھی پاکستان کے نوجوانوں کو ہمیشہ کلام اقبالؒ سے رہنمائی کا درس دیتے اور ہمیشہ علامہ کو مسلم امہ کے لئے عظیم راہنماء قرار دیتے۔کہ جن کا اپنا ہی رنگ تھا۔۔انداز تھا۔اور قائد وہی ہوتا ہے جس کا انداز مختلف ہو منفرد ہو۔

یہ بات تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان کا حصول ایک اسلامی فلاحی مملکت کے طور پر کلام اقبالؒ کے بغیر ان کی ولولہ انگیز قیادت کے بغیر ناممکن تھا وہ عظیم ہستی آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہے ہماری روحوں پر اس کے اثرات ہیں۔کہ ایسے رہبر اور اس کے دل میں اتر جانے والے کلام کے بغیر یہ سب نا ممکن تھا۔

ادھر ہندوستان جہاں جامعہ دیو بند ایک مشہور دینی درس گاہ کی انتظامیہ جو کہ جید علماء کرام پر مشتمل ہے نے بھارتی مسلمانوں پربھارتی ترانہ’’وندے ماترم‘‘ پڑہنے پر نا صرف پابندی لگا دی ہے بلکہ اسے پڑھنا حرام قرار دے دیا گیا۔ اب بھارتی انتظامیہ جامعہ دارالعلوم دیو بند پر پریشر ڈال رہی ہے کہ علماء دیو بند یہ فیصلہ واپس لیں۔جو کہ اب ممکن نظر نہیں آتا۔کہ ہمارے مذہبی اداروں میں آج بھی اٹل فیصلے ہوتے ہیں۔اور ہمیشہ قراآن و حدیث کی تعلیمات کو مد نظر رکھا جاتا ہے اور مصلحت گوشی سے کام نہیں لیا جاتا۔

ادھر علامہ اقبال ؒ نے اپنے ایک ترانے میں۔۔۔۔

سارے جہاں سے اچھا۔۔۔ ہندوستان ہمارا

ہمارا۔۔۔۔ سارے جہاں سے اچھا۔۔۔

ہندوستان ہمارا۔۔۔

یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے۔۔۔ اس پر علیحدہ سے گفتگو ہو گی لیکنن یہاں یہ بات کرنا ضروری ہے کہ علامہ اقبالؒ اسلام کو ایک آفاقی مذہب قرار دیتے تھے اور مسلمانان عالم کو ایک واحد قوت گر دانتے تھے۔

بات ہو رہی تھی علامہ اقبالؒ سے بے انتہا محبت کرنے والوں کی اور ان علماء اور دانشور شخصیات کی کہ جنہوں نے کلام اقبالؒ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا اور ہر زاویہ نگاہ سے کلام اقبالؒ کو دیکھا اور اس کی وسعت اور کردار سازی کو آشکار اکیا۔

تبلیغی جماعت کے سینئر ترین بزر گ مولانا عبدالوہاب بھی اپنے خطاب میں جہاں لاکھوں کی تعداد میں لوگ بطور سامع موجود ہوتے ہیں۔۔۔کلام اقبالؒ کے حوالہ جات پیش کرتے ہیں اور جہاں بھی حضرت علامہ اقبالؒ کا تذکرہ آتا ہے بہت احترام بہت عزت سے ہمیشہ رحمتہ اللہ علیہ کے ایمان افراز دعائیہ کلمات سے کرتے ہیں یہ احترام یہ عزت اس سطح پر ملنا بلا شبہ علامہ اقبال ؒ کی علم دانش ان کے اسلام اور امت مسلمہ سے محبت کے باعث ہے اور اس پیار محبت اور عزت و احترام میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

قران پاک ایک معجزہ ہے اور سرکار دو عالمﷺ پر بطور آخری کتاب اور تمام جہانوں کے لئے رشدو ہدایت لئے نازل ہوا۔ اللہ نے اس پاک کتاب کی حفاظت کا ذمہ اپنے سر لیا۔ اور سرکار دو جہاں حضرت محمدﷺنے اپنے صحابہ کرامؓ کو قران پاک حفظ کرایا۔ اور آج دنیا بھر میں کروڑوں حفاظ کرام موجود ہیں جو اس پاک کتاب کو نہ صرف یاد رکھتے ہیں اس کو زیر زبر پیش اور صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھتے ہیں اور ہر سال رمضان المبارک میں عشاء کی نماز کے بعد نماز تراویح میں پڑھ کر رمضان المبارک کی راتوں میں ہی مکمل کر لیتے ہیں ثواب بھی اور دہرائی بھی سدا جاری رہنے والا عمل۔

دنیا میں سب سے زیادہ تعداد میں جو کتاب چھپی وہ قران پاک ہے اس کے بعد خلیل جبران کی مشہور زمانہ کتاب۔ ’’ٹوٹے ہوئے پر ‘‘ (Broken Wngs)ہے جو کہ بہت عرصہ تک امریکی عوام کرسمس کے موقع پر اک دوسرے کو بطور تحفہ پیش کرتے رہے ہیں۔اس کتاب کی اہمیت کا اس کی بے تحاشہ فروخت اور خاص طور پر کرسمس کے موقع پر اتنی بڑی تعداد میں فروخت سے لگایا جا سکتا ہے۔ایسے موقع پر ایسا تحفہ ہی دیا جاتا ہے جو سب سے عزیز ہو۔

ہمیں ’’ماؤزے تنگ‘‘ کی سرخ کتاب جو چینی انقلاب کا باعث بنی جس میں ماؤ جو کہ انقلاب کے بانی راہنماء تھے ۔ چینی عوام کے ان کے اقوال تھے جو سادہ سی تحریریں تھیں اور عام آدمی کی رہنمائی کے لئے ان میں بہت کچھ موجود تھا۔۔۔’’سرخ کتاب‘‘ ہر چینی کے پاس موجود تھی بلکہ دنیا بھر میں اس کی ترسیل ہوئی۔۔۔۔اس کتاب کی ایک کاپی میری لائبریری میں بھی ہے۔چینی اشاعت گھر شاید دنیا کا سب سے زیادہ متحرک اشاعتی ادارہ تھا۔

علامہ اقبالؒ کے یوم پیدائش کے سلسلہ میں پاکستان بھر کے اسکولوں کالجوں میں ’’زیرو پیریڈز‘‘ ہوئے یعنی اسکول باقاعدہ کھلنے سے پون گھنٹہ پہلے اساتذہ کرام اسکولوں کالجوں میں بچوں/طلبہ کو کلام اقبالؒ پڑھنا سکھاتے، مقابلے کروائے جاتے اور بچوں سے کلام اقبالؒ یاد کرنے کو کہا جاتا۔۔۔ یہ ایک نہایت خوش آئند بات ہے اور قومی و فکری حوالے سے تربیت کر دار کے لئے بہت ضروری ہے۔اس سلسلے کا جاری رہنا۔۔بہت خوشی کی بات ہے۔۔پانی دیا جاتا رہے تو پھول تروتازہ رہتے ہیں اور ان کی خوشبو ماحول کر معطر رکھتی ہے۔اور کلام اقبالؒ وہ خوبصورت شاعری ہے جو دنیا بھر کی زبانوں میں ترجمہ کے بعد دنیا کے کونے کونے میں موجود لائبریریوں میں ہونی چاہئے۔

لیکن وہ دانشور وہ عالم وہ ہستی جس نے پاکستان کا خواب دیکھا ۔۔جس نے نہ صرف قوم کی راہنمائی کی بلکہ رہنماؤں کی بھی تربیت کی اس کا کلام بھی بچوں کو /طلبہ کو مہنگے داموں خرید کر پڑھنا پرھتا ہے۔حالانکہ یہ کلام حکومت پاکستان کو چاہئے کہ وہ اپنے خرچ پر چھپوا کر جب کالجوں اسکولوں میں نئی کلاسز شروع ہوں مفت تعلیم کرے۔

حال ہی میں اکادمی ادبیات کے چیئر مین جناب فخر زمان نے اکادمی کے تحت محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے بارے میں بہت سی کتب کی اشاعت کی جو خاصی ضخیم تھیں لیکن ان کی قیمت مارکیٹ کے حساب سے بہت کم رکھی گئی۔۔۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ عوامی نوعیت کی کتابیں صرف اکادمی نے ان لوگوں کو ارسال کیں جن کی محترمہ شہید بی بی کے بارے میں تحریریں ان میں موجود تھیں۔۔۔۔گویا عام آدمی کی پہنچ سے دور۔حالانکہ یہ سب تو عام آدمی کے لئے ہونا چاہیے۔۔خاص لوگوں کو فرصت کہاں۔۔عام آدمی ہی ’’قوم‘‘ ہوتے ہیں۔اور محترمہ ایک ’’قومی‘‘راہنما ء تھیں۔اور قومی راہنماؤں کی خدمات کا اعتراف بھی ان کے شایان شان ہو تو ہی بہتر ہے۔۔۔اللہ کرے ہم اپنے ان عظیم راہنماء کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے نئی نسل کو بھی وہ سب بتائیں جو انہوں نے ہمارے لئے کیا؟

حکومت کو چاہیے کہ وہ کلام اقبالؒ پورے کا پورا نہ صحیح لیکن ایک بورڈ بنایا جائے جو علماء دانشوروں اور اقبالؒ سے محبت کرنے والون پر مشتمل ہو۔۔۔ وہ علامہ کا عام لوگوں میں مشہور و مقبول کلام اکھٹا کرے۔۔۔ ایک کتابی شکل میں نہایت خوبصورت انداز میں شائع کرے تا کہ وہ ہر طالب علم کو مفت پیش کیا جائے اور یہ قیمتی کلام۔۔۔ زندہ جاوید رہے۔۔۔ اور زمانہ اس سے راہنمائی حاصل کر سکے۔۔۔کیونکہ قاضی حسین احمد، ڈاکٹر اسرار احمد، این میری شمل، مولانا عبدالوہاب اور دیگر جید علماء کرام اور دانشوروں کے بعد نئی نسل میں بھی کلام اقبال ؒ یاد کرنے اس سے پیار کرنے اور اسے عام کرنے والے پید ہوں اور سدا موجود رہیں۔کہ ایسے عمل کا تسلسل بڑا ضروری ہے۔ اور اچھے عمل کا تسلسل ہو گا اگر یہ جھنڈا اچھے الوگوں کے ہاتھ آئے۔

موجودہ حالات کے عکاس میرے کچھ اشعار ملاحظہ کرین آپ پر واضح ہو جائے گا کہ ان حالات مین جب اسلامی امہ بھی مشکل میں ہے مسلمانان عالم مخمصے کا شکار ہیں، یہودی لابیء، ہندو دشمن اور امریکہ کی چالبازیوں کے باعث۔۔۔ہمیں کلام اقبالؒ سے راہنمائی بے حد ضروری ہے جہاں ’’شاہین‘‘ ’’عقاب‘‘ اور ایسی ہی کھلی آنکھوں۔۔۔ روشن دماغ والی نشبیات استعمال کی گئی ہیں۔۔یہ اقبالی/اصلاحات صدیوں تک ہماری راہنمائی کریں گے۔کہ راہنماء کے بغیر تربیت کے بغیر اور سچی لگن کے بغیر قومیں اپنا تشخص قائم نہیں رکھ پاتیں۔

 

 

میں صحرا میں کروں خواہش پھولوں کی

اور دریا میں نخلستان تلاش کروں

انسانوں سے میں مانگوں جب پیار کی بھیک

حیوانوں میں میں انسان تلاش کروں

بھائی بھائی مل بیٹھیں اور خوش خوش ہوں

احمق ہوں وہ دسترخوان تلاش کروں

جو نقشہ قائد نے دیا ہمیں اس کا

ہائے۔۔۔ ایسا پاکستان تلاش کروں

خنجر مجھ پر تان نہ رکھا ہو جس نے

شہر شہر میں وہ دربان تلاش کروں

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد