دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری
دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری

اقبال شناسی یا اقبال تراشی؟ ۷

"خطبات اقبال" پر علامہ ندوی سے منسوب تبصروں پر اقبال اکیڈمی کے نائب ناظم احمد جاوید نے بھی اظہارخیال فرمایا ہے۔ اس اظہارخیال کی ترکیب استعمال کو ان سے منسوب مضمون کے آخری پیراگراف میں یوں بیان کیا گیا ہے:

ان امالی کے بنیادی اعتراضات پر جو تبصرے کیے گئے ہیںوہ بھی فی البدیہہ ہیں انہیں اسی طرح سے پڑھنا چاہیے۔ جیسے کسی گفتگو کا مطالعہ کیا جائے۔ باقاعدہ تحقیقی جواب لکھنے کے لیے وقت بھی زیادہ چاہیے تھا اور تحریر میں طوالت بھی پیدا ہو جاتی اس لیے اس کی نوبت نہیں آئی ۔ ویسے بھی یہ اعتراضات علمی انداز میں نہیں کیے گئے۔ ان پر گفتگو کا یہی اسلوب مناسب تھا۔("احیائے علوم"،شمارہ 14، صفحہ26)

نائب ناظم موصوف کی ابتدائی وجہ شہرت چند برس پیشتر کی وہ گفتگو تھی جو انھوں نے اپنے دو عدد مرعوب مداحوں، آصف فرخی اور قیصرعالم کے ساتھ فرمائی تھی اور جس کا موضوع تینوں محوگفتگوحضرات کے سابق پیرومرشدمحمد حسن عسکری کے کمالات تھے۔ (اس گفتگو کے غیرمدون متن کو الٰہ آباد کے مرحوم رسالے "شب خون" میں شائع کیا گیا تھا، لیکن جب اس گفتگو کے غیرمہذب لہجے اور اوٹ پٹانگ نفس مضمون پر دو غیرمرعوب نقادوں مبین مرزا اور صابر وسیم نے سختی سے گرفت کی تو اس متن کو پاکستان میں شائع کرانے کا ارادہ مصلحتاً ٹال دیا گیا۔اس گفتگوکو پاکستان میں اب تک شائع نہیں کرایا گیا ہے۔ ) معلوم ہوتا ہے بے تکان زبانی گفتگونے احمد جاوید کے اظہارذات کے اصل اسلوب کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔

 اقبال اکیڈمی کے جریدے "اقبالیات" میں احمد جاوید کے ملفوظات شائع کیے جاتے ہیں۔جنوری تا مارچ 2006 کے شمارے میںیہ ملفوظات "اقبال–تصورزمان ومکاںپر ایک گفتگو" کے عنوان سے شامل ہیں اور ان کے "ضبط و ترتیب" کا سہرا کسی طارق اقبال کے سر باندھا گیا ہے جو یا تو اکیڈمی میں نائب ناظم کے ماتحت ہونے کی وجہ سے بندگی بیچارگی کے شکار ہوں گے یا پھر موصوف کے مریدوں میں شامل ہوں گے، جن کی تعداد میں اس وقت سے تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جب سے انھوں نے ٹیلی وژن کے ایک تجارتی چینل پر وعظ فروشی کا دلچسپ مشغلہ اختیار کیا ہے۔(یہ مشغلہ علمائے حق کے اس واضح فیصلے کے باوجود اختیار کیا گیا ہے کہ ٹیلی وژن دیکھنا اور اس پر جلوہ افروز ہونا قطعی حرام ہے، اور اس مشغلے سے ہونے والی آمدنی رزق حرام کی تعریف میں آتی ہے۔ حوالے کے لیے ملاحظہ کیجیے مولانا یوسف لدھیانوی کی تصنیف "آپ کے مسائل اور ان کا حل۔") قدرت اﷲ شہاب کے مبینہ خلیفہ اشفاق احمد کے گزر جانے کے بعد ٹیلی وژن کے مہااُپدیشک کی یہ پُول (slot) خالی پڑی تھی، جس میں نائب ناظم نے خود کو بخوبی دھانس لیا (جاے خالی را دیو می گیرد) تاکہ انٹرٹینمنٹ کے رسیا ناظرین کی لذت اندوزی کے تسلسل میں خلل نہ پڑے۔ ان مواعظ کے درمیان واقع ہونے والے تجارتی وقفوںمیں ناظرین کو دیگر فروختنی اشیا خریدنے کی بھی ترغیب دی جاتی ہے۔ خیر، جب انٹرٹینر اور انٹرٹینڈ دونوں فریق اس سودے سے خوش ہیں تو ہمارا آپ کا کیا جاتا ہے۔ رہا نائب ناظم موصوف کا ایمان، تو اس کاذکر ہی کیا، رہا رہا نہ رہانہ رہا۔

اوپر کے اقتباس کی روشنی میں عسکری اور اقبال کی مثالوں سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ احمد جاویدجس موضوع کو "غیرعلمی انداز" کا حامل خیال فرماتے ہیں اس پر گفتگو کا یہی اسلوب مناسب سمجھتے ہیں۔ اور یہ بات کم و بیش ہر موضوع پر صادق آتی ہے۔ اس طرزعمل کا ایک ضمنی فائدہ یہ بھی ہے کہ ملفوظات کا متن شائع ہونے پر کوئی اعتراض سامنے آئے تو صاحب ملفوظات بڑی آسانی اور بے نیازی سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ تو زبانی گفتگو تھی جو کسی تیاری اور حوالوں کی موجودگی کے بغیر کی گئی تھی، اور اسے اسی طرح پڑھا جانا چاہیے جیسے کسی گفتگو کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ تاہم اس امر کی حکمت بہت سے لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ مناسب تیاری کے ساتھ معروف تحقیقی اسلوب میں اظہار خیال سے اجتناب کیوں ضروری ہے۔

اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ دانش و علامگی کا فی البدیہہ وفور اس قدر منھ زور ہے کہ کاغذ اور قلم اس کا ساتھ نہیں دے پاتے۔ پھر موصوف کی پاٹ دار آواز اور پاٹے خانی لہجہ خود ان کے کانوں کواس قدربھانے لگا ہے کہ نالے کوذرا دیر کے لیے بھی سینے میں تھامنا ان کے لیے قریب قریب ناممکن ہو گیا ہے۔(گفتگو سے اور بڑھ جاتا ہے جوش گفتگو۔)علاوہ ازیں اس سے اپنی ذات کے بارے میں موصوف کے فرضی تصور کی تصدیق ہوتی ہے کہ کسی اونچی جگہ پر بیٹھے فانی انسانوں کے اشکالات کو اپنی بے مہار گفتگو سے رفع کیے چلے جا رہے ہیں۔(بقول اقبال:اس بلندی سے زمیں والوں کی پستی اچھی) اپنے اس تصور کی غمازی ان کے فقروں میں اختیارکردہ لہجے سے جابجا ہوا کرتی ہے۔ چند مثالیں درج ذیل ہیں۔ "اقبالیات" کے محولہ بالا شمارے میں "استفسارات"کے عنوان سے ایک گوشہ قائم کیا گیا ہے جس میں علامہ احمد جاوید کے سامعین اقبال کی شاعری کے بارے میں اپنے استفسارات و اشکالات پیش کرتے ہیں اور پھر موصوف کے جوابات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ (حسن اتفاق سے طارق اقبال اپنے تہہ کیے ہوے زانوے تلمذ، یا بقول یوسفی زانوے تلذذ ،کے ساتھ یہاں بھی موجود ہیں۔) ذیل کی مثالیں نائب ناظم کی گفتگو پر مبنی اسی متن سے لی گئی ہیں: "یہ سوال اس لحاظ سے اچھا ہے کہ اس کے ذریعے سے شعرفہمی کے بعض ضروری قاعدے سامنے آ جائیں گے۔ کچھ باتیں نمبروار عرض کی جا رہی ہیں، ان پر غور فرمالیں، تو یہ مسئلہ بلکہ اس طرح کے دیگر مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں۔" (ص240) "آئیے آپ کے اشکالات کی طرف چلتے ہیں۔" ( 243) "اقبالیات" کے اسی شمارے میں نائب ناظم نے اقبال کے ایک شارح خواجہ محمد ذکریا کی "تفہیم بال جبریل"کی "اغلاط اور نقائص" پر گرفت اور خواجہ صاحب کے مفروضہ اشکالات کو رفع کرنے کی سعی فرمائی ہے۔ لہجہ بدستور پاٹے خان سے مستعارہے: "پہلے خواجہ صاحب کی عبارت یا اس کا خلاصہ انھی کے لفظوں میں نقل کیا جائے گا اور پھر تبصرہ کے عنوان سے اس فہرست کے مشمولات کو کھولا جائے گا۔ اس کے بعد فرہنگ کا جائزہ لیا جائے گا۔ لیکن پیشتر اس کے اس عمل کا باقاعدہ آغاز کیا جائے، مناسب ہو گا کہ ایک آدھ بات شعر کی تشریح و تفہیم کے اصول و آداب کے حوالے سے عرض کر دی جائے۔" (ص 145)"امید ہے اب یہ بات واضح ہو گئی ہو گی کہ اس شعر کے بارے میں یوں کہنا چاہیے..." (ص167)۔وغیرہ۔ لیکن یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ لہجہ صرف پروفیسر خواجہ محمد ذکریا اور طارق اقبال جیسے لوگوں کے سلسلے میں اختیار کیا جاتا ہے۔باعث تخلیق اقبال اکیڈمی—یعنی اقبال— کا بھی ذکر ہو تو اندازگفتگو ویسا ہی مربیانہ ، بلکہ سرپرستانہ رہتا ہے۔ موصوف اپنے ملفوظات میں ایک مقام پر فرماتے ہیں: "سردست ہم اپنی توجہ اسی نکتے پر مرتکز رکھیں گے کہ اقبال دو چیزوں میں پائے جانے والے صریح تناقض کو رفع کیسے کرتے ہیں اور کیوں؟ کیسے کا جواب تو یہ ہے کہ وہ وجہ تناقض کو نظرانداز کر دیتے ہیں، اور جہاں تک کیوں کا تعلق ہے تو اس کا جواب ہم دے چکے ہیں: کسی پہلے سے موجود خیال کو استدلال اور بیان کی سطحوں پر ثابت اور مستحکم کرنے کے لیے۔" (ص106) ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے، "پیام مشرق میں اقبال نے ابلیس سے اپنا دفاع اسی پوچ اور بے اصل دعوے اور استدلال پر کروایا ہے..." (ص159-160) بال جبریل کی غزل کے شعر (اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لامکاں خالی/خطا کس کی ہے یارب! لامکاں تیرا ہے یا میرا) کے ضمن میں ارشاد ہوتا ہے: "میں خود اس شعر کی تشریح اس لیے نہیں کرنا چاہتا کہ مجھے یہ شعری اعتبار سے معمولی اور فکری اعتبار سے غلط اور قابل اعتراض لگتا ہے۔...اس شعر میں بنیادی طور پر یہی کہا گیا ہے جو میں نے نعوذباﷲ پڑھ کر لکھا۔" (ص158)بال جبریل ہی کی ایک اور غزل کے شعر (باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں/ کارجہاں دراز ہے، اب مرا انتظار کر) کے متعلق فرماتے ہیں: "...یا تو خدا کو انتظار کروانے والی تعلّی پر ڈھنگ سے گرفت کی جانی چاہیے تھی یا اس کی کوئی ایسی تاویل ہونی چاہیے تھی کہ پڑھنے والا گستاخی کے تاثر سے نکل آتا..." (ص169)یوں تو نائب ناظم کی گفتگو غیرارادی مزاح کے نمونوں سے ایک سرے سے دوسرے سرے تک اٹی ہوئی ہوتی ہے، لیکن اس شعر کے ذکر میں انھوں نے دانستہ مزاح پیدا کرنے کی بھی کوشش فرمائی ہے: "'کارجہاں کی درازی' کاوہ مطلب ہرگز نہیں ہے جو چاندرات کو خیاطوں کے ذہن پر چھایا ہوتا ہے..." (ص169) اسی غزل کے ایک اور شعر (روزحساب جب مرا، پیش ہو دفترعمل/آپ بھی شرمسار ہو، مجھ کو بھی شرمسار کر) پر اپنے مچان کی اونچائی سے خواجہ ذکریا کو ڈپٹتے ہوے فرماتے ہیں: "اﷲ کا ندامت محسوس کرنا اﷲ کو نہ ماننے والے کے دماغ میں بھی نہیں آ سکتا۔ اس انتہائی فضول غلطی میں کچھ دخل اس شعر کا بھی ہے لیکن باقی کارنامہ شارح کا ہے۔" (ص170)

محمد حسین آزاد کے اسلوب میں کہا جائے تو احمد جاوید کا پیشہ خوداطمینانی ہے اور تعلّی و مشیخت سے اسے رونق دیتے ہیں۔ انا کے گیس بھرے غبارے کا دھاگا چٹکی میں تھام کر وہ جس اونچائی پر جا پہنچے ہیں وہ انھیں فلک ہشتم معلوم ہوتی ہے جہاں سے پروفیسر ذکریا، محمد حسن عسکری، مبین مرزا، صابر وسیم اور باقی سب بندگان خدا انھیں حشرات الارض سے بیش دکھائی نہیں دیتے۔(بقول اقبال،"زیروبالا ایک ہیں تیری نگاہوں کے لیے"اور "غرور زہد نے سکھلا دیا ہے واعظ کو/کہ بندگان خدا پر زباں دراز کرے") حد تو یہ ہے کہ اقبال سے بھی وہ یوں خطاب فرماتے ہیں جیسے طارق اقبال سے مخاطب ہوں۔ اب نائب ناظم کویہ تنبیہ کرنا تو ان کے پیرومرشد کا فرض ہے کہ صاحبزادے، نیچے اتر آئیے، گر پڑے تو خواہ مخواہ پاؤں میں موچ آ جائے گی۔لیکن ان حضرت نے انھیں ٹی وی پر اداکاری کرنے کے فعل ِحرام سے نہ روکا تو ان سے اپنے برخودغلط مرید کی بہی خواہی کی بھلا کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔ کیاعجب کہ احمد جاوید کے ہاتھوںان کے سابق پیرومرشد عسکری کی درگت دیکھ کر انھوں نے موصوف کو نصیحت کرنے کا ارادہ ترک کر دیا ہو، کہ اپنی عزت اپنے ہاتھ ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ وہ بھی اپنے پہنچے ہوے مرید کی طرح یہی رائے رکھتے ہوں کہ اقبال اکیڈمی کے نائب ناظم کا درجہ (نعوذباﷲ) اقبال سے بڑھ کر ہے۔

ٰٰحقیقت یہ ہے کہ"احیائے علوم" کے شمارہ 14اور "اقبالیات" کے جنوری تا مارچ 2006 کے شمارے میں شامل احمد جاوید کے فرمودات پڑھ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ اکیڈمی کا دستورِ زباں بندی اقبال کو اسی حد تک اپنی بات کہنے کی آزادی دیتا ہے جہاں تک وہ اکیڈمی کے کارپردازان سے متفق ہوں۔ اس حد کو پار کرنے پر انھیں جلالی نائب ناظم کی جھڑکی سننی پڑتی ہے کہ یہاں اقبال سے غلطی ہوئی ہے، یا ان کا "شعر جس مضمون پر مبنی ہے وہ نرا شاعرانہ ہے اور عرفانی روایت سے باہر کی چیز ہے۔" ("اقبالیات" ،ص 171) گویا اقبال اکیڈمی نہ ہوئی عرفانی روایت اکیڈمی ہو گئی کہ اقبال کی نثرونظم کا جتنا حصہ نام نہاد عرفانی روایت سے باہر ہے وہ اکیڈمی کی اقبال شناسی کے دائرے سے بھی باہرر ہے گا۔ نائب ناظم اس سے بالکل بے نیاز ہیں کہ عرفانی روایت کی جس محدود، تنگ نظر اور متنازعہ فیہ تعریف کوانھوں نے اپنی بیعت کے نتیجے میں اپنی قید بنا رکھا ہے، اس کی پابندی کسی اور پر، یہاں تک کہ اقبال پر بھی لازم نہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ نائب ناظم کو اپنی ذاتی رائے، خواہ وہ کتنی ہی احمقانہ، بے بنیاداور اقبال دشمن کیوں نہ ہو، رکھنے اور اس کا اظہار کرنے کا حق حاصل نہیں؛ عبرت کا مقام تو یہ ہے کہ یہ بات زور دے کر کہنی پڑ رہی ہے کہ اقبال اکیڈمی کے تنخواہ دار عمال کے مقابلے میں اقبال کو بھی تو اپنی رائے کا اظہار کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔اگر اقبال شناسی کی اصطلاح کا وہی مطلب ہے جو اس کے لغوی معنوں سے سمجھ میں آتا ہے، تو یہ عمل اس بات پر مرکوز ہونا چاہیے کہ اپنے اردو اور فارسی کلام، خطبات، اور دیگر تحریروں میں اقبال نے اپنا جو "نرافکری" اور "نرا شاعرانہ" اظہار کیا ہے ، اسے اس کے درست پس منظر میںسمجھنے کی کوشش کی جائے ، اور اس پر ریاست کی پالیسی یا نائب ناظم وغیرہ کے تنگ نظر، دقیانوسی اور قطعی غیرمتفق علیہ مذہبی و سیاسی نظریے کو ٹھونسنے کی کوشش سے باز رہا جائے۔دوسری صورت میں اس عمل کے لیے اقبال شناسی کے بجاے اقبال تراشی کی اصطلاح زیادہ موزوں ہوگی۔

احمد جاوید اپنی ایک خلقی معصومیت کے باعث بھی اقبال کو سمجھنے کی اہلیت سے عاری دکھائی دیتے ہیں۔ حقائق کو دریافت کرنے، گہرائی میں جاننے اور درست تناظر میں سمجھنے کی جو تڑپ اور جستجو اقبال کی تمام تحریروں میں، بشمول شاعری اور خطبات،نمایاں طور پر پائی جاتی ہے، وہ موصوف کو بالکل اسی طرح کورا چھوڑ دیتی ہے جیسے مردناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر رہتا ہے۔وجہ یہ ہے کہ انھیں تجسس کی خصوصیت سے منزہ پیدا کیا گیا ہے۔ (بقول اقبال،"درد استفہام سے واقف ترا پہلو نہیں/جستجوئے رازقدرت کا شناسا تو نہیں") ان کے خیال میں نام نہاد عرفانی روایت میں ہر چیز کا جواب پہلے سے فراہم کر دیا گیا ہے اور تمام حقائق گویالفافوں میں بندموصوف کے سامنے سلیقے سے چنے ہوے رکھے ہیں۔ جب کبھی کوئی سوال(یانائب ناظم کی مرغوب اصطلاح میں "اشکال") سر اٹھاتا ہے، موصوف فال نکالنے والے طوطے کی سی مستعدی سے متعلقہ لفافے تک پہنچتے ہیں اور اسے کھول کر نہایت خوداطمینانی کے ساتھ اقبال (یا طارق اقبال) کے بارے میں اپنا فیصلہ صادر فرما دیتے ہیں کہ زیربحث شعر یا قول سے بذریعۂ تاویل یہ نکتہ متبادر ہوتاہے کہ سوئی کی نوک پر ڈھائی فرشتے بیٹھ سکتے ہیں جبکہ عرفانی لفافے میں پونے تین کی تعدادلکھی ہوئی آئی ہے، چنانچہ یہاں اقبال سے غلطی ہوئی، مگر نہ اتنی شدید کہ...وعلیٰ ہذالقیاس۔ نہ صرف یہ حکم لگانا نائب ناظم کا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے کہ اقبال کا کون سا "نرا شاعرانہ" مضمون، یا خطبات وغیرہ میں بیان کردہ "نرا خطیبانہ"موقف، نام نہاد عرفانی روایت کے اندر یا باہر ہے، بلکہ یہ فیصلہ بھی وہ چٹکی بجاتے میں کر دیتے ہیں کہ اس کا تعلق حقیقت کے مروجہ عرفانی درجوں میں سے کس درجے سے ہے اور اس کی روشنی میں اقبال وغیرہ کے اعتقادات قابل قبول قرار پاتے ہیں یا نہیں۔ایسا جناتی "منہاج" رکھنے والے نائب ناظم سے یہ توقع کرنا نادانی ہو گی کہ وہ لفافوں کے حلقے سے باہر نکل کر اقبال کے فکری اور شاعرانہ کارنامے کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کریں جس کی بنیاد ہی اقبال کے وجود کی یہ بے قراری تھی کہ وہ بنے بنائے فرسودہ جوابی لفافوں (یا "پرانے تخیلات")کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور اپنے عہد کے بڑے سوالوں سے نبردآزما ہو کران کے تخلیقی جواب وضع کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔اس عمل میں انھیں بہت سے لکیرالدین فقیروں کے اعتراضات اور فتووں وغیرہ کابارہاسامنا ہوا ، جنھیں اقبال نے کبھی اہمیت نہ دی۔ احمد جاوید،ہماری آپ کی بدقسمتی سے، نائب اقبال شناس کے سرکاری عہدے پر فائز ہو گئے ہیں، لیکن ان کا اصل مقام انھی معترضین اور فتویٰ پردازوں کے درمیان ہے جو اقبال کی زندگی میں بھی اپنے فضول کام میں لگے رہے اور بعد کے دور میں بھی۔ ان حضرات کی سمجھ میں اقبال کی وہ سادہ سی بات آنے سے رہی جو انھوں نے اپنی نظم "زہد اور رندی" میں بیان کی ہے (اس نظم کا متن آگے پیش کیا جا رہا ہے) اور جسے کشورناہید نے اپنے لفظوں میں یوں کہا ہے کہ ریش مبارک کی لمبائی چوڑائی اور دبازت کا سخن فہمی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

علامہ ندوی سے منسوب اعتراضات کا بزعم خود جواب دیتے ہوے، کئی مقامات پر احمد جاوید کا موقف معترض کے موقف کے نہایت قریب جا پہنچتا ہے، اور یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ فروعی اختلافات کے باوجود دونوں حضرات اس پر متفق ہیں کہ اقبال کی آزادفکر کے بارے میں فیصلہ "پرانے تخیلات"ہی کے تنگ دائرے میں رہ کر صادرکرنا ہے۔فکرِ ا قبال کی رواں دواں آبجو کو اپنے تنگ خیال نقطۂ نظر کے لوٹے میں بند کرنے کی بے سود مگر پرجوش کوشش دونوں حضرات میں مشترک دکھائی دیتی ہے۔ نمونے کے طور پرعلامہ نائب ناظم کے چند ارشادات دیکھیے:

انھوں نے مغرب کو اسلام پر غالب نہیں کیا بلکہ اسلام کو مغرب کے لیے قابل قبول بنانے کی کوشش کی اور یہ دکھایا کہ اسلام سے پیدا ہونے والی فکر مغرب کے اسلوب حصول سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔ گو کہ میری ذاتی رائے میں مذہبی فکر میں اس طرح کی تطبیق کا عمل ہمیشہ مضر ہوتا ہے اور اس کا ضرر خطبات اقبال میں بھی جابجا نظر آتا ہے ۔ جب ہم دو مختلف چیزوں میں تطبیق کی کوشش کرتے ہیں تو اس میں فریق ثانی یعنی جس سے تطبیق دینا مقصود ہے لامحالہ مرکزی اور غالب حیثیت اختیار کر لیتا ہے ۔ اسلام اور مغرب میں تالیف و تطبیق کا کوئی بھی عمل مغرب کی مرکزیت اور یک گو نہ فوقیت کے اثبات پر ختم ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ("احیائے علوم"، شمارہ 14،ص10)

اپنے فلسفہ حرکت کے بیان میں اقبال جب خدا کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں تو اس میں کئی الجھنیں سر اٹھاتی ہیں لیکن ان میں سے کوئی غلطی قاری کو یہاں تک نہیں پہنچاتی کہ وہ یہ باور کر سکے کہ اقبال یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ معاذ اللہ خدا یعنی خالق بھی مسلسل تخلیق ہو رہا ہے۔(ص11)

عصر حاضر میں زندگی کے تمام شعبوں میں رونما ہونے والے مظاہر ترقی کو حیات اجتماعی کی فلاح کے اسلامی اصول تک پہنچنے کا ذریعہ بنانا چاہتے تھے۔ اس عمل میں انہیں مغرب یا جدیدیت سے تصادم مول لینے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی اس کی وجہ سے کچھ ناہمواریاں تو یقینا پیدا ہوتی ہوں گی لیکن یہ کہنا صحیح نہ ہو گا کہ اقبال کے دینی افکار مغربی فلسفے سے ماخوذ ہیں یا انھوں نے مغربی خیالات کو اسلامی لباس پہنا دیا۔(ص11)

جہاںتک اجتہادمطلق کا معاملہ ہے اس میں اقبال سے غلطی ہو ئی۔ اس غلطی کی شدت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب ہم یہ دیکھیں کہ اقبال کے ہاں اجتہاد مطلق اپنے حالات کے موافق دین کو ایک بالکل نئی تعبیر دینے کے لیے ہوتا ہے ۔ اقبال کے ہاں اجتہاد کا دائرہ محض قانونی امور پر محدود نہیں رہتا بلکہ شریعت کی ان قوتوں اور مصلحتوں کا بھی احاطہ کرتا ہے جن کی بنیاد پر مسلم تہذیب متشکل ہوتی ہے۔(ص12)

اس پورے تصور]جمہوریت[ میں فقط ایک چیز ایسی ہے جو محفوظ نہ رہے تو انتشار کاموجب بن سکتی ہے اور وہ ہے رائے دینے کی اہلیت ، جس کا اثبات مخالف رائے رکھنے والا بھی کرے۔ اقبال نے اپنے اس خیال میں اس نقطے کو ملحوظ نہیں رکھا کہ یہاں محض عددی اکثریت کافی نہیں ہے بلکہ اصحاب الرائے کی اکثریت درکار ہے۔ جسے مرجوع قرار پانے والی اقلیت بھی رائے دینے کا اہل مانتی ہو۔ (ص14)

حرکت اور ارتقا پر اقبال کا یقین بعض مواقع پر ایسی جذباتیت میں بدل جاتا ہے جو آدمی کو اپنی ہی بات سے برآمد ہونے والے فوری نتائج سے بھی غافل کر دیتی ہے حیاتیاتی ارتقاء اور تاریخی حرکت کے تصورات کو یک جان کر کے دین کی حقیقت کے بارے میں چند کلی نوعیت کے مفروضے وضع کر لینا ، اقبال کا مزاج تھا۔(ص15)

اقبال کے اس قول میں کچھ خطرات اس طرح سرایت کیے ہوئے ہیں کہ ان سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔ (ص15-16)

دینی زندگی کمال وجامعیت کے منتہا پر ایمان (Faith) کی قدر اعلیٰ پر استوار ہوتی ہے۔ یہ استواری جب کمزور پڑنے لگتی ہے تو فکر (Thought) بنیادی قدر بن جاتی ہے فکر ایمان کو اپنی خلقی منطق کے مطابق جب تصور سازی اور تعقل کے عمل سے گزارنے میں عاجز ہو جاتی ہے تو یہ چند ان گھڑ تخیلات کی اساس پر ایک ایسا نظام محسوسات پیدا کر لیتی ہے جو حواس کے دائرہ فعلیت سے باہر نکل سکنے کا امکان باور کروا دیتی ہے۔ فکر تھک ہار کر تخیل بن جاتی ہے اور تخیل ظاہر ہے کہ محسوسات میں واقع ہونے والے التباس کا منبع ہے۔...گویا اقبال جس کو ترقی کہہ رہے ہیں وہ اصل میں ایمان کی دست برداری کا نام ہے۔ فکر اور تجربے کے حق میں ۔... اقبال کی پوری بات میں ایک اور خطرہ یہ بھی پوشیدہ ہے کہ وہ]کذا[ ماہیت ذہن یعنی انفعال کو ایمان کے سائے سے نکال کر تجربیت کے تحت لانا پڑتا ہے۔(ص16)

علم نفسیات کے بعض غیر ضروری اثرات کی وجہ سے اقبال نے نبی اور وحی کو بھی اپنے زمانے میں مروج نفسیاتی تجزیے کا موضوع بنا لیا اور اس اصول کو نظر انداز کر دیا کہ وحی کی تنزیل اور نبی کا اسے وصول کرنا کوئی تجربہ نہیں ہے بلکہ واقعہ ہے۔(ص17)

اقبال کے یہاں Ego یا Selfکا تصور بعض اخلاقی اور نفسیاتی کمالات کے باوجود انسان اور خدا کے بارے میں ان مذہبی تصورات سے اصلاً متصادم ہے جن پر آج تک کی مذہبی فکر متفق چلی آ رہی ہے۔ (ص18)

وہ ]معترض اقبال[اگر یہ پوزیشن اختیار کرتے کہ مذہبی زندگی اور اس کے کمالات کی تحقیق کا یہ انداز خود دین کے متعین کردہ کمالات بندگی سے مختلف ہے اور اس سے صحابہ رضوان اللہ علیہم کی دین داری کم تر درجے پر نظر آتی ہے، تو ایک بات بھی تھی۔(ص19)

ان کا تصور انفرادیت بالکل غیر روایتی ہے اور ایک حد تک ان کے مطالعہ مغرب کا نتیجہ ہے۔ اقبال انسانی انفرادیت کے حدود میں ایسی رومانوی توسیع کر دیتے ہیں کہ بعض مقامات پر آدمی اور خدا کا امتیاز ایک رسمی چیز بن کر رہ جاتا ہے۔(ص21)

ان کا تصور خدا بہرحال لائق اعتبار نہیں ہے اور بعض ایسے نتائج تک پہنچا دیتا ہے جہاں خدا کو ماننا محض ایک تکلف لگتا ہے۔ علامہ کے نظام الوجود میں انسان مرکزی کا شور اتنا زیادہ ہے کہ خدا کی آواز دب جاتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ خدا کا ہونا انسانی وجود کی تکمیل ایک ذریعہ ہے اور بس۔ (ص22)

ذات الٰہی اور ذاتِ انسانی ، یا الوہی ذاتیت اور انسانی ذاتیت کے تقابل کی ہر جہت میں اقبال جن نتائج تک پہنچتے ہیں، وہ مابعد الطبیعیات کی منطق پر پورے نہیں اترتے۔ اور ان مباحث سے بننے والی فضا میں اجنبی معلوم ہوتے ہیں۔...ذات یا انا کے مقولے کو مدار بنا کر اقبالؒ نے خدا اور انسان کے تقابل کی جو فضا ایجاد کی ہے اس میں انسان تو اپنی انفرادیت ثابت کر دیتا ہے لیکن خدا کی انفرادیت دب کر رہ جاتی ہے۔ (ص22)

مذہبی یا روحانی واردات میں نفس کی شمولیت سے جو حسی وفور پیدا ہو جاتا ہے، اقبال اسے حقیقت کے علم یا تجربے کی قابل قبول اساس تصور کر لیتے ہیں ۔ اس معاملے میں ان کا انہماک یہاں تک بڑھا ہوا ہے کہ وہ حسی ، نفسی ،روحانی حسی کہ تنزیل وحی کے تجربے کو اصلاً ہم نوع قرار دینے سے دریغ نہیں کرتے ۔ہماری رائے میں اس سنگین غلطی کا بڑا سبب ان کے تصور خودی میں پوشیدہ ہے۔ (ص24-25)

'جنت و دوزخ احوال ہیں نہ کہ مقامات'۔ ۔۔ اور 'حیات بعد الموت ہر انسان کا استحقاق نہیں ہے'۔ ۔۔اقبال کے یہ تصورات ظاہر ہے کہ قرآنی محکمات سے متصادم ہیں۔ (ص26)

ایک مقام پر تو نائب ناظم موصوف نے حد ہی کر دی۔ فرماتے ہیں:

یہاں ہم بھی مجبور ہیں کہ اقبال کی مدافعت کے ارادے کے باوجود ہاتھ کھڑے کر دیں۔(ص22)

احمد جاوید کے مرشدمعزول عسکری اگر زندہ ہوتے تو شاید اس قسم کا فقرہ چست کرتے کہ "ذراآپ کو دیکھیے اور آپ کے ارادے کو دیکھیے!" لیکن خرم علی شفیق تو بحمداﷲ بقیدحیات ہیں اورکہہ ہی سکتے ہیں کہ یہاں کچھ ایسا تاثر ملتا ہے گویا نائب ناظم کی مدافعت اقبال کے شامل حال نہ ہوتی تو وہ شاعر مشرق کے مقام پر بھی ٹھہر نہ پاتے۔ خرم علی شفیق نے اس قسم کے طرزعمل کی مثال کے طور پرلاہور کی مسجد وزیرخاں کے خطیب دیدار علی کا ذکر کیا ہے جنھوں نے اقبال کے خلاف کفر کا فتویٰ جاری کیا تھا۔"اس میں اقبال کے خلاف ایسے دلائل پیش کیے جن کے بعد کم سے کم ایک عام مسلمان کی نظر میں اقبال کا ایمان مشکوک ہو جانا چاہیے تھا...نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا۔ اقبال کو اپنے دفا ع میں کچھ کہنے کی ضرورت بھی پیش نہ آئی، خواص اور عوام نے خطیب دیدار علی صاحب ہی کو رد کر دیا۔" ("احیائے علوم"، شمارہ 14، ص 29) خود اقبال نے ان جانے پہچانے فتویٰ پرداز کرداروں کے بارے میں ایک پرلطف نظم "زہد اور رندی"کے عنوان سے لکھی تھی جو "بانگ درا" میں شامل ہے اور احمد جاویدپر بھی پوری طرح صادق آتی ہے۔ آئیے اس نظم کا ایک بار پھر لطف اٹھائیں:

اک مولوی صاحب کی سناتا ہوں کہانی        تیزی نہیں منظور طبیعت کی دکھانی

شہرہ تھا بہت آپ کی صوفی منشی کا            کرتے تھے ادب ان کا اعلی و ادانی

کہتے تھے کہ پنہاں ہے تصوف میں شریعت     جس طرح کہ الفاظ میں مضمر ہوں معانی

لبریز مئے زہد سے تھی دل کی صراحی         تھی تہہ میں کہیں درد خیال ہمہ دانی

کرتے تھے بیاں آپ کرامات کا اپنی           منظور تھی تعداد مریدوں کی بڑھانی

مدت سے رہا کرتے تھے ہمسائے میں میرے   تھی رند سے زاہد کی ملاقات پرانی

حضرت نے مرے ایک شناسا سے یہ پوچھا     اقبال کہ ہے قمریٔ شمشاد معانی

پابندیٔ احکام شریعت میں ہے کیسا            گو شعر میں ہے رشک کلیم ہمدانی

سنتا ہوں کہ کافر نہیں ہندو کو سمجھتا          ہے ایسا عقیدہ اثر فلسفہ دانی

ہے اس کی طبیعت میں تشیّع بھی ذرا سا        تفضیل علی ہم نے سنی اس کی زبانی

سمجھا ہے کہ ہے راگ عبادات میں داخل      مقصود ہے مذہب کی مگر خاک اڑانی

کچھ عار اسے حسن فروشوں سے نہیں ہے      عادت یہ ہمارے شعرا کی ہے پرانی

گانا جو ہے شب کو تو سحر کو ہے تلاوت        اس رمز کے اب تک نہ کھلے ہم پہ معانی

لیکن یہ سنا اپنے مریدوں سے ہے میں نے     بے داغ ہے مانند سحر اس کی جوانی

مجموعۂ اضداد ہے اقبال نہیں ہے             دل دفتر حکمت ہے طبیعت خفقانی

رندی سے بھی آگاہ شریعت سے بھی واقف    پوچھو جو تصوف کی تو منصور کا ثانی

اس شخص کی ہم پر تو حقیقت نہیں کھلتی        ہوگا یہ کسی اور ہی اسلام کا بانی

القصہ بہت طول دیا وعظ کو اپنے            تا دیر رہی آپ کی یہ نغز بیانی

اس شہر میں جو بات ہو اڑ جاتی ہے سب میں    میں نے بھی سنی اپنے احبّا کی زبانی

اک دن جو سر راہ ملے حضرت زاہد           پھر چھڑ گئی باتوں میں وہی بات پرانی

فرمایا شکایت وہ محبت کے سبب تھی          تھا فرض مرا راہ شریعت کی دکھانی

میں نے یہ کہا کوئی گلہ مجھ کو نہیں ہے        یہ آپ کا حق تھا زرئہ قرب مکانی

خم ہے سر تسلیم مرا آپ کے آگے            پیری ہے تواضع کے سبب میری جوانی

گر آپ کو معلوم نہیں میری حقیقت         پیدا نہیں کچھ اس سے قصور ہمہ دانی

میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا         گہرا ہے مرے بحر خیالات کا پانی

مجھ کو بھی تمنا ہے کہ اقبال کو دیکھوں        کی اس کی جدائی میں بہت اشک فشانی

اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے            کچھ اس میں تمسخر نہیں واللہ نہیں ہے

 

اس قسم کے مئے زہدسے سرشار اور دُردِ خیالِ ہمہ دانی سے معمور کرداروں کو پاکستانی ٹیکس گذاروں کے خرچ پر اقبال شناسی کی ذمے داری سونپ دینا بالکل ایسا ہی ہے جیسے پریس برانچ کے چودھری محمد حسین کا ماہانہ وظیفہ عوامی خزانے سے باندھ کر انھیں منٹو شناسی پر مامور کر دیا جائے۔لیکن اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ اقبال اکیڈمی کے عمال کو جو کام دراصل سونپا گیا ہے وہ اقبال شناسی کانہیں بلکہ اقبال تراشی کاہے، یعنی یہ کہ کاٹ پیٹ کر انھیں ریاستی اور عرفانی روایت کے سانچے میں کچھ اس طرح فٹ کیا جائے کہ اقبال کے پاکستانی پڑھنے والے ان کی شاعری اور نثر کے مضر اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔ اور یہی وہ سرکاری طور پر تراشا گیا بے ضرراقبال ہے جس کی مدافعت کا ارادہ اکیڈمی کے نائب ناظم باندھتے اورکھولتے رہتے ہیں۔ سرکاری نوکری کی انھی نزاکتوں کا کرشمہ ہے کہ وہ اقبال کے خلاف اپنی مرغوب عرفانی روایت کی رو سے خاصے سنگین اور بنیادی نوعیت کے عتراضات کرنے کے باوجود، اور ان کے متعدد غیرمحتاط خیالات پر نعوذباﷲ،استغفراﷲ اور لاحول ولا پڑھتے رہنے کے باوجود، اقبال کے ایمان کے بارے میں صاف صاف کوئی فتویٰ جاری کرنے سے باز رہتے ہیں اورمحض ان کے اعتقادات کے بارے میں شکوک پیدا کرنے اور ان کی مفروضہ لغزشوں پر ناشائستگی سے انھیںسرزنش کرتے رہنے پر اکتفا کرتے ہیں ۔ جانتے ہیں کہ عرفانی روایت کا لوٹا اٹھا کر موصوف بھی ظروف بردارفتویٰ پردازوں کی لمبی قطار میں لگ گئے تو اس سے اقبال کا تو کچھ بگڑنے سے رہا،الٹا اکیڈمی کی طرف سے ہر پہلی تاریخ کو ملنے والالفافہ ہاتھ سے جاتا رہے گا اور اپنا اور بال بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے محض ٹیلی وژن کی اداکاری کے اکل حرام پر انحصار کرنا پڑے گا

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد