دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری
دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری

اقبال شناسی یا اقبال تراشی؟ ۶

اقبال خطبات میں ظاہر کیے گئے اپنے خیالات سے جزوی یا کلی طور پر رجوع کرنے پر آمادہ تھے یا نہیں، یہ بحث بہت سے لوگوں نے مختلف موقعوں پر اٹھائی ہے۔ پروفیسر مرزا منور کی رائے خود سہیل عمر نے (تائید اور تحسین کے انداز میں)درج کی ہے کہ "علامہ کی سوچ 1929ء تک پہنچ کے رک نہ گئی تھی۔ 'فکراقبال تشکیل جدید کے بعد' ایک مستقل کتاب کا تقاضا کرنے والا عنوان ہے۔" یہ مستقل کتاب میری معلومات کے مطابق اب تک نہیں لکھی گئی،اس لیے اس کے مفروضہ نتائج کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا ممکن نہیں،


البتہ خرم علی شفیق کے مضمون میں اس موضوع پر خاصی بحث ملتی ہے جس کی روشنی میں یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اقبال کی فکر ترقی پا کر مرزا منور ، خالد جامعی وغیرہم کی سطح تک نہیں پہنچی تھی (بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس قسم کی ترقی کو اصطلاحاً "ترقئ معکوس" کہا جاتا ہے) اور ان کے خیالات آخردم تک وہی رہے جو انھوں نے خطبات میں بیان کیے تھے۔اس مضمون کے جز 4 میں شاہ ولی اﷲ کی "حجتہ اﷲ البالغہ" کے اس اقتباس کے معاملے کا تجزیہ کیا گیا ہے جو اقبال نے اپنے خطبۂ اجتہاد میںپیش کیا تھا۔ "جریدہ" میں علامہ ندوی سے منسوب تبصروں میں اس معاملے کا جو ذکر آتا ہے ، اسے خرم علی شفیق نے "رجوع کی ایک اور فینٹسی" کے تبصرے کے ساتھ یوں نقل کیا ہے:

شاہ ولی اﷲ کے نام سے غلط حوالہ پیش کرنا ایک ایسے خطبے میں جسے علما کی نظر سے گذرنا تھا بڑی جرأت کی بات تھی۔ ماجد صاحب نے اس غلطی کو بھی واضح کیا تھا لیکن مرحوم پر یہ غلطی اس وقت واضح نہ ہو سکی۔ جب اقبال مرحوم پر یہ بات واضح ہو گئی کہ ان سے بہت بڑی غلطی ہوئی اور امت کے اجماع کے برعکس رائے دی گئی ہے اور دلیل بھی محرف ہے تو وہ دل گرفتہ ہوئے۔ مجھ سے خط و کتابت کے ذریعے استفسار کیا۔دوسرے علما سے بھی رجوع کیا۔ خطبات پر نظرثانی کا وعدہ کر لیا لیکن مہلت نہ ملی۔اقبال مرحوم کے مسودات میں نظرثانی شدہ عبارتیں مل سکتی ہیں۔ ("احیائے علوم"، شمارہ 14، صفحہ36)

خرم علی شفیق کہتے ہیں کہ اس موضوع پر علامہ ندوی سے اقبال کی مراسلت میں اس "دل گرفتگی" کا کوئی شائبہ نہیں ملتا، بلکہ "پہلے اجتہاد پر خطبہ دیا تھا، اب پوری کتاب لکھنے کا ارادہ ہے، اور یہ وفات سے صرف بیس مہینے قبل کی بات ہے۔...وہ نظرثانی کا وعدہ کب کیا؟ خطبات کے مباحث سے اقبال کا رجوع ایک ...فینٹسی ہے..." (ص 37)

عجب اتفاق ہے کہ سہیل عمر کی کتاب کے آخر میں ضمیمہ 3 کے طور پر شامل ان کے مضمون "سزا یا ناسزا" میں اقبال کے اسی خطبے میں شاہ ولی اﷲسے منسوب اسی اقتباس کا کم و بیش اسی انداز میں ذکر آیا ہے جس انداز میں علامہ ندوی سے منسوب مندرجہ بالا تبصرے میں۔(فرق صرف اتنا ہے کہ جس شے کو مندرجہ بالا اقتباس میں "دل گرفتگی" کہا گیا اسے سہیل عمر اقبال کے "تحیر" سے موسوم کرتے ہیں۔ باقی مضمون واحد ہے۔)دونوں کی اطلاع یہ ہے کہ اقبال نے مذکورہ اقتباس شبلی کی "الکلام" سے لیا تھا۔ سہیل عمربتاتے ہیں کہ "شبلی نے جو عبارت الکلام میں درج کی اور جسے علامہ نے اپنے استدلال کے لیے شبلی کے بھروسے پر بنیاد بنایا اس میں اور شاہ ولی اﷲ کی اصل عبارت میں اختلاف ہے۔" (ص201)

آئیے پہلے یہ دیکھیں کہ اقبال نے شاہ ولی اﷲ کی اس عبارت کو اپنے خطبے میں کس طرح استعمال کیا ہے۔ موضوع زیربحث یہ ہے کہ مذہبی روایات (احادیث)کے کون سے حصوں کا تعلق قانونی معاملات سے ہے اور کن کا قانون کے سوا دیگر معاملات سے۔ قانون سے متعلق روایات میں سے بعض ایسی ہیں جو قبل از اسلام زمانے میں عرب میں مروج تھیں اور جنھیں جوں کا توں اسلامی روایت میں شامل کر لیا گیا۔اقبال شاہ ولی اﷲ کی عبارت کا اپنے الفاظ میں خلاصہ پیش کر کے اس نتیجے پر پہنچتے ہیںکہ جرائم کی سزاؤں سے متعلق روایات کو، جو عرب قوم کی عادات اور حالات کے مطابق تھیں، جوں کا توں اختیار یا نافذ کیا جانا مناسب نہیں۔

سہیل عمر کہتے ہیں کہ اقبال نے شاہ ولی اﷲ کی مذکورہ عبارت کو "اپنے استدلال کے لیے...بنیاد بنایا۔" میرے خیال میں یہ بات درست نہیں۔ شاہ ولی اﷲ کا ذکر آنے سے پہلے کے جملوں میں وہ اپنا یہ نقطۂ نظر بیان کر چکے ہیں کہ دونوں قسم کی روایات میں فرق کیا جانا ضروری ہے،یعنی دونوں قسم کی روایات کو نافذیا اختیار کرنے میں ایک جیسی سختی مناسب نہیں ۔شاہ ولی اﷲ کی عبارت کو اقبال نے دلیل کے طور پر نہیں بلکہ اپنے نقطۂ نظر کی ایک "illuminating" وضاحت کے طور پر استعمال کیا ہے۔خطبات میں کسی بھی جگہ کسی اسلامی یا مغربی شخصیت کے قول کو دلیل کے طور پر استعمال نہیں کیا گیابلکہ اقبال نے ہر قول کواپنی دانش کے مطابق پرکھ کر یہ طے کیا ہے کہ وہ اس سے کس حد تک اتفاق یااختلاف رکھتے ہیں ۔شاہ ولی اﷲ کے قول کو دلیل کے طور پر استعمال کرنا، خود سہیل عمر کے مذکورہ بالا مفروضات کی رو سے بھی، ناموزوں معلوم ہوتا ہے۔ آپ خود سوچیے، اقبال جن لوگوں سے مخاطب ہیںوہ آپ کے خیال کے مطابق "وحی کے وجود یا اس کے ممکن ہونے کے بارے میں ہی متشکک" (ص183)ہیں، اور قرآنی نصوص تک کو کوئی اہمیت نہیں دیتے؛ پھر بھلاشاہ ولی اﷲ کا قول ان کے لیے استدلال کی بنیاد کیونکر بن سکتا ہے؟شاہ ولی اﷲ سے منسوب عبارت کا خلاصہ اقبال نے اس بنا پر اپنے خطبے میں استعمال کیا ہے کہ وہ ان کے اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کرتا ہے۔ خرم علی شفیق نے علامہ ندوی کے نام اقبال کے 7 اگست 1936 کے خط کا حوالہ دیا ہے جس میں اقبال انگریزی زبان میں ایک کتاب تحریر کرنے کا ارادہ ظاہر کرکے کہتے ہیں: "اس کتاب میں زیادہ تر قوانینِ اسلام پر بحث ہو گی کہ اس وقت اسی کی زیادہ ضرورت ہے۔" اگراقبال کا موقف اسلام میں شامل قانونی روایات کو(یعنی مثلاًان سزاؤں کو جنھیں ہمارے یہاں بعض لوگ غلط فہمی میں "اسلامی سزائیں" یا "شرعی سزائیں" کہتے ہیں) جوں کا توں نافذ کرنے کے حق میں ہوتا تو یہ موقف تو "پرانے تخیلات" میں پوری وضاحت سے بیان کردہ موجود ہی تھا، اس پر بحث کی ضرورت کیوں محسوس کی جاتی؟ صاف ظاہر ہے کہ اقبال کا موقف یہ تھا کہ ان سزاؤںکا تعلق عرب کی قبل از اسلام روایات سے تھا جنھیں، اس "خاص قوم کی عادات اور حالات کی بنا پر"، اسلامی روایات میں قائم رکھا گیا تھا اور دیگر قوموں اور دیگر حالات میں ان کو جوں کا توں نافذ نہیں کیا جانا چاہیے۔اور خرم علی شفیق کی بحث سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اقبال نے اپنے اس موقف میں آخر تک ترمیم نہ کی۔(اقبال کے علاوہ شبلی بھی اسی رائے کے معلوم ہوتے ہیں۔) سہیل عمر کا موقف اقبال سے متضاد ہے، جیساکہ خطبات کے دیگر متعدد مقامات پر ہے، جو کوئی عجیب بات نہیں۔

پاکستان میں یہ بحث نئے سرے سے اس وقت شروع ہوئی جب جنرل ضیا الحق کے دوراقتدار میں، جسے پاکستانی عوام کی بہت بڑی تعداد (ایک موقف کے مطابق اکثریت) غاصبانہ آمریت کا دور سمجھتی ہے، وہ عمل شروع کیا گیا جسے اسلامائزیشن کانام دیا جاتا ہے۔اس عمل میں ان سزاؤں کا نفاذبھی شامل تھا، جوایک غیرنمائندہ اور غیرمنتخب اقتدار کے زور پر، کسی مذہبی، آئینی یا اخلاقی اختیار کے بغیر کی گئی قانون سازی تھی، جسے بہت سے لوگ مذہب کی ایک مخصوص تعبیر کو پاکستانی عوام پر ان کی مرضی کے خلاف، یا کم از کم ان کی آزادانہ مرضی معلوم کیے بغیر، زبردستی مسلط کرنے کا عمل سمجھتے ہیں۔ ان قوانین سے پاکستان کے عوام کی بہت بڑی تعداد (یااکثریت) سخت اختلاف رکھتی ہے اور ان کو منسوخ کرنے کے حق میں ہے۔جدید دور میںاجتہاد کے پوری طرح اہل مجتہد کے طور پراقبال کا موقف بھی اس موجودہ عوامی موقف کی واضح طور پر تائید کرتا ہے۔ سہیل عمر اور ان کے ہم خیال حضرات کو اس کے مخالف موقف پر قائم رہنے کا حق حاصل ہے، لیکن انھیں یہ حق حاصل نہیں کہ اپنے موقف کو متفق علیہ قرار دیں جبکہ دوسرے موقف کی موجودگی اور جمہورامت کی اس کے لیے حمایت کسی ابہام کے بغیر عیاں ہے، اور یہ حق بھی حاصل نہیں کہ تاویل کے ذریعے سے اقبال کو اپنے موقف کا حامی ظاہر کرنے کی کوشش کریں جبکہ اقبال نے اپنے خطبے میں اپنا موقف کسی ابہام کے شائبے کے بغیر بیان کر دیا ہے۔سہیل عمر کا کہنا ہے:

شاہ صاحب کے پورے فکری تناظر میں یہ سوال تو اٹھایا ہی نہیں جا سکتا کہ آج اتنی صدیاں گزرنے کے بعد اور اقوام و ملل کی رنگارنگی اور تنوع کے روبرو اسلام کی شرعی سزاؤں کو باقی رکھا جائے یا تبدیل کر دیا جائے؟ یہ سوال ہمارے اقبال شناسی کے حلقوں کا ہو تو ہو، شاہ صاحب کا نہیں ہے۔ (212)

دیانت داری کا تقاضا یہ تھا کہ سہیل عمر اقبال شناسوں کے ساتھ اقبال کو بھی شامل کرتے، کیونکہ یہ سوال ان کا بھی ہے۔اوراس سوال پر غور کرنے کے بعد اقبال اس غیرمبہم نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ان سزاؤں کو نافذ نہیں کیا جانا چاہیے۔

یہ سوال شاہ ولی اﷲ کا ہے یا نہیں، اس نکتے کا تعلق مذکورہ عبارت کے انتساب سے ہے۔ سہیل عمر کے خیال میں اقبال کی بیان کردہ عبارت کو شاہ ولی اﷲ سے منسوب کرنا درست نہیں۔ لیکن یہ بھی متفق علیہ موقف نہیں۔ جن اہل رائے حضرات سے سہیل عمر نے اس سلسلے میں استصواب کیا، ان میں سے کئی ایک نے دستیاب شہادتوں کی روشنی میںیہ رائے دی کہ شبلی نے شاہ ولی اﷲ کے موقف کی جو ترجمانی کی ہے وہ درست ہے اور اقبال نے اگر شبلی کی تعبیر کو اختیار کیا ہے تو ٹھیک کیا ہے۔سہیل عمر کا کہنا ہے کہ شاہ ولی اﷲ کے فکری تناظر میں یہ سوال نہیں اٹھایا جا سکتا؛ بعض دوسرے اہل علم حضرات کا کہنا ہے کہ شاہ ولی اﷲ کا مقصودکلام وہی ہے جو شبلی اور اقبال نے بیان کیا۔

بحث کے تیسرے نکتے کے طور پر اپنے مضمون میں سہیل عمر اس بات کے حق میں بحث کرتے ہیں کہ اقبال شاہ ولی اﷲ سے اس عبارت کے انتساب سے مطمئن نہیں تھے اور اپنے خطبے پر نظرثانی کرنا چاہتے تھے، لیکن "علامہ کی حیات نے اس خطبے کے ترجمے کی نظرثانی یا اصل متن کی نظرثانی شدہ اشاعت مکرر تک وفا نہ کی۔" (ص216) سہیل عمر صاحب! کیا آپ اب بھی یہی کہیں گے کہ آپ سے جو رائے منسوب کی گئی تھی اس کا گذر آپ کے حاشیۂ خیال میں بھی کبھی نہیں ہوا؟بہرکیف، اقبال نے ممکن ہے خطبے کا متن تیار کرتے وقت شاہ ولی اﷲ کی کتاب کا اقتباس شبلی کی "الکلام" سے لیا ہو ، لیکن بعد میں (خرم علی شفیق کی تحقیق کے مطابق 1929ء میں) انھوں نے علامہ ندوی کے نام خط میں لکھا تھاکہ "شاہ ولی اﷲ کی کتاب بھی نظر سے گذر گئی ہے۔" ("احیائے علوم"، شمارہ 14، ص36)

سہیل عمر مزید کہتے ہیں: "علامہ اقبال کا وہ خطبہ جس میں یہ عبارت وارد ہوتی ہے اپنی اولین شکل میں 1924 کے لگ بھگ تصنیف ہوا۔ موجودہ شکل میں 1928 میں تیار کیا گیا۔" ("خطبات اقبال نئے تناظر میں"،ص216) "بہرکیف 1928 تک کی تحقیقات اور مجموعۂ معلومات کی بنیاد پر جو نتائج فکر مرتب ہوئے انھیں علامہ نے لکھ دیا اور دیگر خطبات کے ہمراہ یہ خطبہ بھی حیدرآباد اور بعد ازاں علی گڑھ میں پیش کیا گیا۔پھر یہ خطبات طباعت کے مرحلے سے بھی گذر گئے۔" (ص218) "گذر گئے"یوں تو بات کہنے کا ایک طریقہ ہے، لیکن اس سے گمان ہوتا ہے کہ خطبات طباعت کے مرحلے سے (غالباً اپنے اندرونی داعیے پر) یوں گذر گئے جیسے "احیائے علوم" اس مرحلے سے دبے پاؤں گذر جاتا ہے اور مدیر کو کانوں کان خبر نہیں ہونے پاتی! یایہ کہ خطبات اقبال کے علم، مرضی یا اجازت کے بغیر شائع کر دیے گئے تھے۔تاہم، دستیاب شہادتوں سے ایسا اندازہ نہیںہوتا۔یہی نہیں، بلکہ خرم علی شفیق نے اطلاع دی ہے کہ 1934 میں خطبات کا بین الاقوامی ایڈیشن اقبال کی نہ صرف مرضی سے بلکہ ان کی نگرانی میں شائع ہوا۔اس کے بعد اس قیاس آرائی (خرم علی شفیق کے الفاظ میں "فینٹسی") کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ اقبال اس عبارت کے انتساب سے مطمئن نہیں تھے اور اس پر، یا اس موضوع کے بارے میں اپنے موقف پر، نظرثانی کرنا چاہتے تھے۔

\

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد