دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری
دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری

اقبال شناسی یا اقبال تراشی؟ ۵

آئیے خطبات میںاظہار پانے والے اقبال کے نقطۂ نظر کے بعض ایسے نکتوں پر نظر ڈالیںجن سے سہیل عمر متفق نہیں ہیں اورجو "جریدہ" میں شائع کیے جانے والے ان اعتراضات کا بھی ہدف بنے ہیں جن کو علامہ ندوی سے منسوب کیا گیا ہے۔اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں ان نکات پر کم و بیش ایک ہی ردعمل ظاہر کر رہے ہیں، فرق ہے تو بس جذبے کی شدت اور لفظوں کے انتخاب کا۔ خطبات کے درج ذیل اقتباسات میں سہیل عمر کی کتاب "خطبات اقبال نئے تناظر میں" سے نقل کر رہا ہوں

 اور ہر انگریزی اقتباس کے آخر میںدیا گیا صفحہ نمبر بھی اسی کتاب سے تعلق رکھتا ہے۔ میں نے انگریزی عبارت کو اردو ترجمے پر ترجیح دی ہے کیونکہ میں نے اردو ترجمے کو بیشتر جگہوں پر اقبال کے انگریزی متن کے مقابلے میں گنجلک، اور بعض مقامات پر ناقص پایا۔ہر اقتباس کے بعد سہیل عمر کا تبصرہ درج کیا گیا ہے جس میں انھوں نے اقبال کے نقطۂ نظر کی بابت اپنے تحفظات ظاہر کیے ہیں:

Religious experience, I have tried to maintain, is essentially a state of feeling with a cognitive aspect, the contents of which cannot be communicated to others, except in the form of a judgement. Now when a judgement which claims to be the interpretation of a certain region of human experience, not accessible to me, is placed before me for my assent, I am entitled to ask, what is the guarantee of its truth? Are we in possession of a test which would reveal its validity.... Happily we are in possession of tests which do not differ from those applicable to other forms of knowledge. These I call the intellectual test and the pragmatic test. By the intellectual test I mean critical interpretation, without any presuppositions of human experience, generally with a view to discover whether our interpretation leads us ultimately to a reality of the same character as is revealed by religious experience.... In the lecture that follows, I will aply the intellectual test. (p-54-55)

 

سہیل عمر: "سطوربالا میں مذکور امتحان اول کو اس طرح کے وجدان کے لیے قبول کیا جا سکتا ہے جسے ہم نے Psychic تجربات سے منسوب کیا تھا۔ لیکن اس امتحان کو اس ذات کے مشاہدے پر کیونکر لاگو کیا جا سکتا ہے جو ہرتجربے اور واردات سے بالا ہے۔ نیز اگر اس کسوٹی، اس آزمائش کو مشاہدۂ حق کا معیار مان لیا جائے تو Mystic اس وحی قرآنی پر ایمان کی ضرورت سے مستغنی ہو جائے گا جو آنحضرت پر نازل ہوئی کیونکہ اس پیمانے پر تو وہ براہ راست علم حق حاصل کرنے کی استعداد کا حامل قرار پائے گا۔" (ص55)

The search for rational foundations in Islam may be regarded to have begun with the Prophet himself. His constant prayer was: “God! Grant me knowledge of the ultimate nature of things.” (p-48)

 

سہیل عمر: "اس دعا کی معنویت پر ہمیں ذرا غور کرنا ہو گا۔ نیز یہ بھی غور کرنا ہو گا کہ نبی علیہ السلام کے عمیق ترین ایقان اور ایک عام آدمی کے ایمان کے مابین کیا فرق ہے: عام آدمی جو حصول یقین کی خاطراپنے ایمان کی عقلی بنیادیں تلاش کر رہا ہو۔ نیز یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کسی عقیدے کی عقلی بنیادوں کی تلاش کسی معاشرے میں کب جنم لیتی ہے۔ (ص48-49)

Plato despised sense perception which, in his view, yielded mere opinion and no real knowledge. How unlike the Qur'an, which regards hearing and sight as the most valuable Divine gifts and declares them to be accountable to God for their activity in this world. (p-50)

 

اقبال کا نقطۂ نظر بالکل واضح ہے: ادراک بالحواس کے بارے میں افلاطون کا خیال قرآن سے متصادم ہے۔ سہیل عمر کا خیال ہے کہ افلاطون کا قول قرآن سے متصادم نہیں ہے۔

He [Ghazali] failed to see that thought and intuition are organically related… (p-51)

 

سہیل عمراس نکتے پر اقبال سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ غزالی کے مطابق "وجدان بہ اعتبار کیفیت و نوعیت فکر سے مختلف نہیں ہے۔ فکر اپنے درجۂ کمال کو پہنچ کر وجدان میں ڈھل جاتی ہے۔" (ص51)

The heart is a kind of inner intuition or insight which, in the beautiful words of Rumi, feeds on the rays of the sun and brings us into contact with aspects of Reality other than those open to sense perception. It is, according to the Qur'an, something which sees; and its reports, if properly interpreted, are never false…. To describe it as psychic, mystical or supernatural does not detract from its value as experience. (p-53)

 

سہیل عمرکا خیال یہاں بھی اقبال سے مختلف ہے۔"قرآن میں 'فواد' یا 'قلب' کا لفظ بہت سی جگہ آیا ہے۔معانی کے کئی رنگ اس سے متعلق ہیں مگر ہماری سمجھ کے مطابق کہیں بھی اسے حقیقت اولیٰ کا علم حاصل کرنے والی ایسی استعداد کے معنی میں نہیں لایا گیا جو اس عمل میں کوئی فاعلی حیثیت رکھتی ہو۔" (ص53)

The problem of Christian mysticism alluded to by Professor James has been in fact the problem of all mysticism. The demon in his malice does counterfeit experiences wich creep into the circuit of the mystic state. As we read in the Qur'an: "We have not sent any Apostle or Prophet before thee among whose desires Satan injected not some wrong desire, but God shall bring to naught that which Satan has suggested. Thus shall God affirm His revelation, for God is Knowing and Wise." (22:25) (p-57)

 

سہیل عمرکہتے ہیں: "اس استدلال پر کئی اشکالات پیدا ہوتے ہیں۔ نذیر نیازی صاحب نے اپنے ترجمے کے حاشیے میں صاف لکھا ہے کہ ان کے خیال میں آیت مذکورہ بالا اس جگہ منطبق نہیں ہوتی۔" (ص58) (نذیر نیازی کا خیال اپنی جگہ، لیکن کیا یہ اقبال کے ردمیں کافی دلیل ہے جن کا واضح طور پر یہ کہنا ہے کہ یہ آیت اس جگہ منطبق ہوتی ہے؟ اس سے تو بس اتنا معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کا موقف نذیر نیازی اور سہیل عمر سے مختلف ہے۔)

All I mean to say is that the immediacy of our experience in the mystic state is not without a parallel. It has some sort of resemblance to our normal experience and probably belongs to the same category. (p-62)

The interpretation that the mystic or the prophet puts on the content of his religious consciousness can be conveyed to others in the form of propositions, but the content itself cannot be so transmitted…(p-63)

The incommunicability of mystic experience is due to the fact that it is essentially a matter of inarticulate feeling, untouched by discursive intellect. (p-63)

Inarticulate feeling seeks to fulfil its destiny in idea, which, in its turn, tends to develop… out of itself its own visible garment. (p-64)

 

سہیل عمر: "اگر اس خصوصیت پر زور دیا جائے تو وحی اور الہام کے درمیان امتیاز کی دیوار ڈھے جائے گی کیونکہ علامہ کے الفاظ میں ہر دو صورتوں میں تجربے کے حاصلات اور مافیہ کو منتقل نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی فکری تعبیر بصورت منطقی قضایا کا ابلاغ کیا جاتا ہے۔ اگر ایسا کیا جائے تو اس سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ وحی نبوی کے الفاظ ربانی نہیں ہوتے بلکہ نبی کے اپنے ہوتے ہیں اور قرآن کے الفاظ براہ راست منزل من اﷲ نہیں ہیں۔" (ص64)

The infinity of the Ultimate Ego consists in the infinite inner possibilities of His creative activity of which the universe 'as known to us' is only a partial expression. (p-85)

From the Ultimate Ego only egos proceed…. Every atom of Divine energy, however low in the scale of esixtence, is an ego. (p-87)

 

سہیل عمرکہتے ہیں: "یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ظہورذات کا یہ عمل اس عمل خوددمیدگی سے کس طرح مختلف ہے جو اقلیم نامیات یا نموپذیر اشیا میں سامنے آتا ہے نیز یہ کہ اگر انائے مطلق کا ظہورپذیر ہونا اس کے عمل تخلیق کے مترادف ہے تو صفحۂ ہستی پر ظاہر ہونے والی ہر شے کا مبدا اور اصل اس انائے مطلق کی فطرت ہی ہو گا۔ اگر ہر انا ربانی اور قدسی ہے تو اس کا فعالیت کا ہر معلوم بھی ربانی اور قدسی صفت ہو گا: لیکن امرواقعہ یوں نہیں ہے۔ دوسری طرح دیکھئے تو صفحۂ ہستی پر صرف مظاہرخیر ہی نہیں بلکہ شر اور شیطان کے آثار بھی موجود ہیں۔ مذکورہ استدلال کی رو سے تو شر کو بھی اسی مبداء سے منسوب کرنا ہو گا اور یہ چیز مذہبی شعور کے لیے قابل قبول نہیں۔"(ص87)

No doubt, the emergence of egos endowed with power of spontaneous and hence unforeseeable action is, in a sense, a limitation on the freedom of the all-inclusive Ego. But the limitation is not externally imposed. It is born out of His own creative freedom whereby He has chosen finite egos to be participators of His life, power and freedom. (p-89)

 

سہیل عمر: "مگر اختیار یا آزادی مقولات مذہبی میں سے ایک ہے اور انسان کے اخلاقی اور مذہبی شعور کا جزو ہے اگر اس کو بے ساختہ اور ازخود فعلیت کا ہم معنی قرار دیا جائے تو اس کی معنویت جاتی رہے گی اس اعتبار سے تو پودے بھی جزواً آزاد اور جانور پوری طرح آزاد ہیں کیونکہ وہ کسی خارجی دباؤ کے تحت حرکت نہیں کرتے بلکہ اندرونی داعیے سے متحرک ہوتے ہیں۔"(ص89)

The spirit of all true prayer is social. (p-94)

The Islamic form of association in prayer, therefore, besides its cognitive value, is further indicative of the aspiration to realize this essential unity of mankind as a fact in life by demolishing all barriers which stand between man and man. (p-95)

 

سہیل عمر: "عبادت کی معنویت اس کی فی نفسہٖ اور بالذات قدروقیمت سے متعین ہونا چاہیے نہ کہ ان سماجی، نفسیاتی اور عملی نتائج سے جو اس کے ذیلی ضمنی اثرات تو شمار ہو سکتے ہیں مگر اس کا جواز وجود قرار نہیں دیئے جا سکتے۔"(ص95)

A colony of egos of a lower order out of which emerges the ego of a higher order, when their association and interaction reach a certain degree of co-ordination. It is the world reaching the point of self-guidance wherein the Ultimate Reality, perhaps, reveals its secret, and furnishes a clue to its ultimate nature. (p-102)

The Ultimate Ego that makes the emergent emerge is immanent in Nature. (p-102)

 

سہیل عمر: "تخلیق کا تصور جو مذہب کا ایک جزو ہے وہ یہاں پس منظر میں چلا جاتا ہے اور اس کی جگہ ارتقائے صدوری Emergent Evolution کو مل جاتی ہے۔ شعور مذہبی کے لیے آفرینش کا یہ نظریہ بہت وحشت انگیز ہے کیونکہ اس میں پہلا خطرہ تو یہ ہے کہ اس سے انسان اور خدا کی غیریت اور دوئی مٹتی معلوم ہوتی ہے نیز تنزیہ پر زد پڑتی ہے ۔پھر یہ کہ شر اور خیر ایک کل کا جزو دکھائی دیتے ہیں اور یہ بھی قبول کرنا مشکل ہے۔ سوم یہ کہ یہاں غیرنامیاتی اور غیرذی حیاتinorganic سطح وجود سے انکار نظر آتا ہے جو امرواقعہ کے خلاف ہے۔"(ص102)

A prophet may be defined as a type of mystic consciousness in which unitary experience tends to overflow its boundaries… (p-115) (p-117)

Another way of judging the value of a prophet's religious experience, therefore, would be to examine the type of manhood that he has created, and the cultural world that has sprung out of the spirit of his message. (p-116)

 

سہیل عمر: "یہاں یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ اس استدلال کے منطقی نتیجے میں ولایت اور نبوت کا فرق اپنی اساس میں باقی نہیں رہتا۔...مسئلہ یوں اٹھتا ہے کہ نبوت کو اختباریت کی کسوٹی پر پرکھنا ایک مناسب بات ہو گی یا نہیں؟"(ص102) "اس عبارت میںنبی اور نبوت کے تصور کی تفہیم کے لیے اس کو نابغہ کی تشبیہ سے سمجھانے کی سعی کی گئی ہے۔ اس لیے یہ مشکل پیدا ہوتی ہے بظاہر یہ تصورخدا سے منقطع لگتا ہے اور سماجی مصلح یا تخلیقی فنکار سے زیادہ مشابہ معلوم ہوتا ہے اور اسے خدا کے حوالے کے بغیر بھی کائنات کے لیے استعمال کرنا ممکن ہے۔" (ص117)

The way in which the word wahy (inspiration) is used in the Qur'an shows that the Qur'an regards it as a universal property of life; though its nature and character are different stages of the evolution of life. (p-117)

 

سہیل عمر: "اس عبارت سے پہلا اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا مفہوم یہ لیا جا سکتا ہے کہ وحی فوق الطبیعی اور عالم غیب کی چیز نہیں ہے بلکہ ایک کاملاً طبعی مظہر ہے۔...ایک اصطلاح شرعی جو شعورمذہبی کا لازمہ ہے اور معروضی حقیقت کے طور پر مذہب کے امرواقعہ ہونے کا لازمی تقاضا ہے۔ سابقہ صفحات میں بیان کردہ تصور وحی کا اس تصور سے منطبق ہونا مشکل نظر آتا ہے۔" (ص118)

The abolition of priesthood and hereditary kingship in Islam, the constant appeal to reason and experience in the Qur'an and the emphasis that it lays on Nature and History as sources of human knowledge, are all different aspects of the same idea of finality. (p-119) (p-121)

 

سہیل عمر: "...حکومت کو وراثت سے مشروط کسی بھی دین اور تمدن نے تسلیم نہیں کیا۔ البتہ موروثی شہنشاہیت کو یکے از امکانات کے طور پر قبول کیا ہے یا پھر مظاہرزوال میں اس نے غلبہ کر لیا ہے۔ خود اسلام کی تاریخ میں جو ایک طویل سلسلہ ملوکیت نظر آتا ہے وہ اسی امکان کا وقوع درتاریخ ہے۔ اسے رد کرنے سے ہمیں اپنی تاریخ کو رد کرنا ہو گا اور اس سے ان گنت مسائل پیدا ہو جائیں گے۔" (ص122-123) لفظ "ملوکیت" کے استعمال کی وضاحت کے طور پر حاشیے میں کہتے ہیں: "یہ لفظ بعض مصنفین کی تحریروں میں ایک منفی اور تحقیری مفہوم کا حامل بن کر ابھرا ہے۔ ہم اسے اس کے لغوی معنی میں برت رہے ہیں اور اس سے صرف ایک طرزحکمرانی کی شناخت مقصود جانتے ہیں جو اچھی بھی ہو سکتی ہے اور بری بھی۔" (ص131)

The world-life intuitively sees its own needs, and at critical moments defines its own direction. This is what, in the language of religion, we call prophetic revelation. It is only natural that Islam should have flashed across the consciousness of a simple people untouched by any of the ancient cultures, and occupying a geographical position where three continents meet together. (p-135)

 

سہیل عمر: "اس اقتباس میں جو لفظ World Life استعمال کیا گیا ہے ...یہ اصطلاح ایک الٰہ شخصی پر ایمان کو مستلزم نہیں ہے۔ اس میں ایک طبیعی تصور کی جھلک ملتی ہے جس سے مذہب مظاہر طبیعی میں سے ایک چیز معلوم ہونے لگتا ہے اور عام انسانی تجربے کی سطح پر آ کر حیاتیاتی تصورات کے قبیل میں سے محسوس ہونے لگتا ہے۔" (ص136)وغیرہ۔

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد