دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری
دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری

اقبال شناسی یا اقبال تراشی؟ ۴

سہیل عمر کی تصنیف "خطبات اقبال نئے تناظر میں" ان کے ایم فل کے مقالے کا کتابی روپ ہے۔ اس تصنیف میں سہیل عمر نے "خطبات اقبال" کے مباحث کے تجزیے کی بنیاد مندرجہ ذیل تین مفروضات پر استوار کی ہے:

(1)پہلا مفروضہ یہ ہے کہ خطبات اقبال کے مخاطبین ایک خاص ذہنی پس منظر رکھتے تھے جو اقبال کے اپنے ذہنی پس منظر سے جدا تھا۔اس مفروضے کی تفصیل سہیل عمر کے الفاظ میں یہ ہے:

 

"علامہ کے مخاطبین دوگونہ مشکلات کا شکار تھے۔ ایک طرف وہ صرف انھی مقولات (Categories) کے آشنا یا انھی مقولات کے قائل تھے جو حسیت پرستی (Empiricism) کے عملی پس منظر نے انہیں فراہم کیے تھے۔ دوسری طرف وہ ان اشکالات اور فکری الجھنوں میں مبتلا تھے جو حسیات پرستی کے مقولات کو ان کے جائز دائرۂ کار سے باہر وارد کرنے سے پیدا ہوئی تھیں۔" (ص23) (یہاں میں اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ Empiricism کا ترجمہ "حسیت پرستی" محل نظر ہے اور اس طرزتحقیق پر ایک خاص طرح کا اخلاقی حکم لگانے کا قرینہ ہے جس کا قطعی جواز نہیں۔ ایک اور جگہ، صفحہ 28 پر، وہ اسی اصطلاح کا زیادہ مانوس اور درست ترجمہ "تجربیت "کرتے ہیں۔ اس دورنگی کی مذکورہ تصنیف میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔)"علامہ کے مخاطبین ادراک بالحواس کے اسیر ہیں۔" (43)"وہ وحی کے روایتی معنوں میں قائل نہیں ہیں اور جدید علوم کے تحت تشکیل پانے والے ذہن کے نمائندہ ہیں۔" (48) "علامہ کے مخاطبین...اس معروضی اقلیم ربانی کے بارے میں طبقۂ متشککین سے تعلق رکھتے تھے..." (ص53-54)صفحہ 95 پر انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اقبال "مخالف اور متشکک سامعین سے خطاب" کر رہے تھے۔

ان نہایت سنگین مفروضات (بلکہ الزامات) کے سلسلے میں کوئی شہادت پیش نہیں کی گئی اور نہ کہیں یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اقبال کے خطبات کے سامعین کے بارے میں ان معلومات کا ماخذ کیا ہے۔اس سلسلے میں سہیل عمر نے دو مقامات پر خود اقبال کا درج ذیل بیان اقتباس کیا ہے، جس سے مذکورہ بالا مفروضات کی کسی بھی طرح تصدیق نہیں ہوتی۔ (صفحہ 10 پر یہ اقتباس پیش کرتے ہوے وہ کہتے ہیں کہ "علامہ کے متعدد بیانات سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ ایک نمائندہ اقتباس دیکھیے۔" مفروضے کی سنگینی کا تقاضا تھا کہ ان متعدد بیانات کوسامنے لایا جاتا اور ان سے تشفی بخش شہادت حاصل کی جاتی کہ واقعی اقبال اپنے مخاطبین کے بارے میں یہ رائے رکھتے تھے۔اگر یہ واقعی ان متعدد بیانات کا نمائندہ اقتباس ہے تو اس سے اس کی ہرگز وضاحت نہیں ہوتی۔) صفحہ 22 پر دوبارہ اسی اقتباس کو پیش کرتے ہوے سہیل عمر نے اپنی طرف سے یہ تبصرہ کیا ہے کہ اقبال کے مخاطبین کے "ذہنی مسائل" (گویا ذہنی امراض!) سابقہ نسلوں سے مختلف تھے۔ بہرکیف، اقبال کے بیان کا پیش کردہ اقتباس دیکھیے:

ان لیکچروں کے مخاطب زیادہ تر وہ مسلمان ہیں جو مغربی فلسفے سے متاثر ہیں، اور اس بات کے خواہش مند ہیںکہ فلسفۂ اسلام کو فلسفۂ جدید کے الفاظ میں بیان کیا جائے، اور اگر پرانے تخیلات میں خامیاں ہیں تو ان کو رفع کیا جائے۔

اس اقتباس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال اپنے خطبات کے ان مخاطبین کے بارے میں اس قسم کی کوئی منفی رائے نہیں رکھتے جیسی سہیل عمر رکھتے ہیں، اوروہ ان تعلیم یافتہ مسلمانوں کی خواہش کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ اس موضوع پر اپنے تجزیے کو خطبات کی صورت میں تحریر کر کے ان کے سامنے پیش کرنے کو تیار ہیں۔ علاوہ ازیں، وہ دانش حاضر سے روشنی پانے والے ان جدید مسلمانوں کے اس خیال کو بھی قابل قبول پاتے ہیں کہ اس موضوع پر "پرانے تخیلات"(گویا مذہب اسلام کی اس سے پہلے کی، یا روایتی، تعبیروں) میں خامیوں کا ہونا ممکن ہے، اور ان خامیوں کو رفع کیا جانا چاہیے۔

سہیل عمر نے اس بات کے حق میں کسی قسم کی کوئی دلیل یا شہادت پیش نہیں کی کہ اقبال کے خطبات کے ان سامعین کو کس بنا پر اقبال کے "مخالف" نقطۂ نظر کا حامل سمجھا جائے۔ انھوں نے اقبال کا ایک اور بیان ان کی اپنی "افتاد طبع" کے بارے میں صفحہ 22 پر پیش کیا ہے۔ (جس شے کو انھوں نے خطبات کے سامعین کے "ذہنی مسائل"—گویا ذہنی امراض— قرار دیا تھا وہی شے اقبال کے معاملے میں ان کی "افتاد طبع"— گویا مجبوری — کے طور پر پیش کی گئی ہے۔اگر دونوں مقامات پر ان اصطلاحوں کو "نقطۂ نظر" سے بدل دیا جائے تو وہ تضاد یا تخالف غائب ہو جاتا ہے جسے سہیل عمر ان دونوں اقتباسات میں دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔) اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کرتے ہوے اقبال کہتے ہیں:

میری عمر زیادہ تر مغربی فلسفے کے مطالعہ میں گزری ہے اور یہ خیال ایک حد تک طبیعت ثانیہ بن گیا ہے۔ دانستہ یا نادانستہ میں اسی نقطۂ نگاہ سے حقائق اسلام کا مطالعہ کرتا ہوں۔

اقبال کا یہ بیان ان خطبات میں ان کے طرزاستدلال کو سمجھنے کی بہت اہم کلید فراہم کرتا ہے۔ اس بیان میں اس امر پر کسی قسم کی شرمندگی نہیں پائی جاتی کہ وہ مغربی فلسفے کے نقطۂ نگاہ سے حقائق اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں ؛وہ اسے ایک جائز طریق کار (یا منہاج) سمجھتے ہیں۔"دانستہ یا نادانستہ" کے الفاظ سے واضح ہو جاتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ کوئی غلط بات نہیں۔ اقبال کے ان دونوں اقتباسات سے یہ نتیجہ غیرمبہم طور پر برآمد ہوتا ہے کہ ان کا نقطۂ نظر وہی ہے جو ان کے خیال میں ان کے مخاطبین کا ہے، اور اسی بنا پر خطبات اقبال کی ایک نہایت اہم اور بنیادی نوعیت کی فکری سرگرمی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خطبات کی تکمیل کے بعد کی پوری زندگی میں اقبال کے قول اور عمل سے یہ بات ظاہر ہے کہ وہ اپنے ان خطبات کو اپنا ایک اہم اور بنیادی کام سمجھتے رہے اور ان خطبات کے مشمولات یا طرزاستدلال میں انھوں نے کسی ترمیم کی ضرورت محسوس نہ کی؛ اپنی وفات سے چار برس پہلے ان خطبات کا دوسرا، بین الاقوامی ایڈیشن مرتب کرتے ہوے بھی نہیں۔

(2)سہیل عمر کے تجزیے کا دوسرا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ چونکہ اقبال اپنے مخاطبین کو اپنے مخالف نقطۂ نظر کا حامل سمجھتے تھے، اس لیے انھوں نے ان کے "ذہنی مسائل"، "اشکالات اور فکری الجھنوں"، "استعداد و افتاد فکر" وغیرہ کی رعایت کرتے ہوے ، استدلال کی غرض سے وہ نقطۂ نظر اختیار کیا ہے جو سہیل عمر کی رائے میں اقبال کے اپنے نقطۂ نظر سے مختلف بلکہ کہیں کہیں تو اس کی عین ضد ہے۔سہیل عمر "مصلحت وقت" کواقبال کے اس مفروضہ طریق کار کی اس کی ایک اور وجہ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔

یہ ایک بہت بڑا مفروضہ ہے اور سہیل عمر کی تصنیف کے متن کی حد تک کسی قسم کی بنیاد سے قطعی عاری ہے۔انھوں نے اس کے حق میں کوئی دلیل یا شہادت پیش کرنا ضروری نہیں سمجھا؛ اقبال کا کوئی بیان ایسا نہیں پیش کیا جس سے اس مفروضے کا خفیف ترین جواز بھی نکل سکتا ہو۔ اس نہایت سنگین سقم کے ہوتے ہوے اسے اقبال کے بارے میں سہیل عمر کی بہت بڑی، اور بلاجواز، جسارت سمجھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس مفروضے کے تحت اپنی زیرِنظر تصنیف میں ان کا تجزیاتی طریق کار کچھ اس قسم کا دکھائی دیتا ہے: (الف) وہ اقبال کے خطبے سے ایک اقتباس پیش کرتے ہیں، اور اس کے بعد اس کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر بیان کرتے ہیں۔(ب) جب یہ واضح ہو جاتا ہے کہ خطبے کے اقتباس میںسائنس، فلسفے یا مذہب کے زیربحث قضیے کی بابت ظاہر کیا گیا موقف خود سہیل عمر کے نقطۂ نظر سے مختلف (بہت سے موقعوں پر متضاد ) ہے تو وہ اپنے ہی قائم کردہ بلاجواز مفروضے کو ایک دلیل کے طور پر پیش کرتے ہوے کہتے ہیں کہ دراصل اقبال کا اپنا نقطۂ نظر وہی تھا جو خود سہیل عمر کا ہے، اور مذکورہ اقتباس میں پیش کردہ موقف انھوں نے صرف "مصلحت وقت" یا مخاطبین کے "ذہنی مسائل" کی رعایت سے اختیار کیا تھا۔سہیل عمر کا یہ طریق کار اس قدر ناقص، غیراطمینان بخش اور افسوسناک ہے کہ اسے درست یا جائز تسلیم کرناممکن ہی نہیں۔ یہ کچھ اس طرح کی بات ہے جیسے کہا جائے کہ اقبال سہیل عمر کے نقطۂ نظر کی موافقت میں دن کو سیاہ سمجھتے تھے، لیکن چونکہ ان کے مخاطبین "خوگر محسوس" ہونے کی وجہ سے یا مغربی تعلیم پانے کے باعث دن کو روشن دیکھنے کے عادی تھے، اس لیے اقبال نے مصلحت سے کام لیتے ہوے اپنے خطبے میں دن کو سفید قرار دے دیا۔ اب ہمیں چاہیے کہ خطبات میں جہاں جہاں دن کی صفت کے طور پر سفید کا لفظ آئے، اسے سیاہ سمجھیں۔

خطبات اقبال اور ان کے بارے میں اقبال کے قول و عمل سے یہ بات عیاں ہے کہ ان کی نسبت ایسے معاملے میں جو ان کے فکری اور جذباتی وجود کے لیے اس قدر قریبی اہمیت رکھتا تھا، کسی قسم کی مصلحت پسندی کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ اسی طرح انھیں مخاطبین کے کسی قسم کے ذہنی و نفسیاتی مسائل کے سلسلے میں ان کو تسکین پہنچانے کی قطعی کوئی مجبوری لاحق نہ تھی۔اس کے برعکس، وہ اپنے اس فکری عمل میں ان لوگوں کو شریک کرنا چاہتے تھے جو ان کا خیال تھا کہ اس شرکت کی اہلیت اور علمی تیاری رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے یہ بات کہی:

مگر میں خیال کرتا ہوں کہ اردوخواں دنیا کو شاید اس سے فائدہ نہ پہنچے کیونکہ بہت سی باتوں کا علم میں نے فرض کر لیا ہے کہ پڑھنے والے (یا سننے والے) کو پہلے سے حاصل ہے۔ اس کے بغیرچارہ نہ تھا۔(ص22)

اردوخواں دنیا کو فائدہ نہ پہنچنے کی وجہ یہ نہیں کہ اردوخواں لوگ ان "ذہنی مسائل" سے آزاد ہیں جو سہیل عمر کے خیال میں اقبال کے مخاطبین کو لاحق ہیں؛ اس واضح بیان کی روشنی میں،وجہ یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک یہ لوگ،مغربی فلسفے کے پس منظر سے ناواقف ہونے کے باعث، ان مباحث کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے جن پر ان خطبات میں گفتگو کی گئی ہے۔

(3)سہیل عمر کے تجزیے کا تیسرا بنیادی مفروضہ وہ ہے جسے انھوں نے صدر شعبۂ فلسفہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،ڈاکٹر ظفرالحسن، کے اس خطبۂ صدارت سے اخذ کیا ہے جو اقبال کے چھ خطبات کے سلسلے کے اختتام پر پیش کیاگیا۔ ڈاکٹر ظفرالحسن کا خیال ہے کہ(الف) اقبال نے جو کام کیا ہے وہ "اسلام میں فلسفۂ دین کی تشکیل نویا، بالفاظ دیگر، ایک نئے علم کلام کی تخلیق" کا کام ہے۔ (ب) علم کلام کا کام یہ واضح کرنا ہے کہ حقائق دینی اور فلسفہ و سائنس میں کوئی عدم مطابقت نہیں ہے، اور (ج)ڈاکٹر صاحب سرسید کے "اصول تفسیر اور دیگر تحریروں"کے حوالے سے کہتے ہیں کہ علم کلام کا یہ مقصددو طریقوں سے حاصل ہو سکتا ہے، اور اقبال کا اختیارکردہ طریقہ یہ ہے کہ یہ ثابت کیا جائے کہ "مذہب جو کہتا ہے وہ حقیقت ہے اور فلسفہ و سائنس اس سے متفق ہیں۔ جن مقامات پر اختلاف و تناقض پیدا ہو، وہاں فلسفہ و سائنس کی تردید کی جائے۔" سہیل عمر اقبال کے اس مفروضہ طور پر اختیارکردہ طریق کار کو "اصول تطبیق" کا نام دیتے ہیں اور ان کا کہنا یہ ہے کہ خطبات کے مباحث کو ڈاکٹر ظفرالحسن کی اسی رائے کی روشنی میں دیکھا جا سکتا ہے یا دیکھا جانا چاہیے۔کہتے ہیں، "ڈاکٹر ظفرالحسن صاحب کے تبصرے سے یہ واضح ہوا کہ علامہ کا اختیارکردہ منہاج علم اصول تطبیق سے عبارت ہے۔" (ص21) مزید یہ کہ: "ہم یہ دیکھیں گے کہ اصول تطبیق کو مطمح نظر بنا کر اور مقولات مسلمہ کو بنیاد بنا کر علامہ نے یہ کام کیسے انجام دیا۔" (ص37)

خطبات اقبال اپنے موضوع پر اتنا بنیادی نوعیت کا کام ہے اور اپنے محتاط اور کہیں کہیںپیچیدہ طرزتحقیق و استدلال کے اعتبار سے اتنا عمیق کہ اسے مختلف زاویہ ہاے نگاہ سے پڑھا اور پرکھا جانا ناگزیر ہے۔ ڈاکٹر ظفرالحسن کا اختیارکردہ زاویۂ نظر بلاشبہ خطبات کے مطالعے کاایک جائزطریقہ ہے لیکن واحد یا اہم ترین یا دیگر تمام طریقوں کو کالعدم کر دینے والا طریقہ ہرگز نہیں۔ سہیل عمر نے اپنی تصنیف میں اسی زاویۂ نظر کو اختیار کیا ہے، جو بلاشبہ ان کا حق تھا، لیکن وہ اسے قول فیصل یا حرف آخر کے طور پر پیش کرتے معلوم ہوتے ہیں اور پڑھنے والے کے لیے اس سے اتفاق کرنا ضروری نہیں۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر ظفرالحسن نے یہ خطبہ ٔصدارت اقبال کی موجودگی میں دیا تھا۔ اگر اقبال نے اس موقعے پر یا بعد میںان کے بیان کردہ زاویۂ نگاہ کی اپنے کسی بیان میں تائید کی ہوتو میں اس سے لاعلم ہوں۔ سہیل عمر نے بھی ایسا کوئی بیان پیش نہیں کیا جس سے اس کی بابت اقبال کی پسندیدگی یا ترجیح ظاہر ہوتی ہو۔سہیل عمر کا کہنا ہے کہ اقبال نے " اصول تطبیق کو مطمح نظر " اور " مقولات مسلمہ کو بنیاد " بنایا تھا، اور یہ دعویٰ دلیل یا شہادت کا محتاج ہے، جو فراہم نہیں کی گئی۔ اور جب اقبال کے اپنے بیانات اس زاویۂ نظر کی تردید کرتے دکھائی دیں تو اسے تسلیم کرنا اور بھی دشوار ہو جاتا ہے۔

اقبال ان خطبات میں کیا کرنا چاہتے ہیں، اس سلسلے میں ان کا بیان قطعی غیرمبہم ہے: وہ مغربی فلسفے کے نقطۂ نگاہ سے حقائق اسلام کا مطالعہ کر رہے ہیں، نہ کہ اسلام کے نقطۂ نگاہ سے مغربی فلسفے کا۔اور میری رائے میں یہ کہنا ممکن ہے کہ ان کا یہ طریق کارمذکورہ اصول تطبیق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ وہ یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جدید مغربی تعلیم سے روشنی پایا ہوا ذہن (جو خود اقبال کا ذہن ہے اور ان کے مخاطبین کا بھی)مذہب اسلام کے حقائق کو کس طرح سمجھ سکتا ہے، اور کیا اس جدید ذہن میں مذہب کے لیے گنجائش موجود ہے۔خطبات میں زیربحث آنے والے پیچیدہ سوالات سے نبردآزما ہو کر وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مغربی فلسفے کی روشنی میں مذہب اسلام کو سمجھنا اور ماننا قطعی ممکن ہے۔ان کا استدلال متعدد مقامات پر "پرانے تخیلات"سے متصادم ہے، اور ایسا ہونا ناگزیر ہے، کیونکہ ان "پرانے تخیلات"سے، ان کی ممکنہ خامیوں کے باعث،غیرمطمئن ہونے کے احساس ہی کے نتیجے میں اقبال کو حقائق اسلام کا جدید مغربی تعلیم کی روشنی میںمطالعہ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔

خود سہیل عمر بھی خطبات میں پیش کیے ہوے استدلال کا تجزیہ کرتے ہوے اسے متعدد مقامات پر مذہب کے روایتی تصور (بقول اقبال "پرانے تخیلات") سے مختلف یا متصادم پاتے ہیں۔اس کا اظہار سہیل عمر کئی مختلف طریقوں سے کرتے ہیں، مثلاً: "مذکورہ استدلال کی رو سے تو شر کو بھی اسی مبدأ سے منسوب کرنا ہو گا اور یہ چیز مذہبی شعور کے لیے قابل قبول نہیں۔" (ص87)"شعورِ مذہبی جو تقاضا رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان چونکہ قدرت مطلقہ نہیں رکھتا لہٰذا اس کا خالق قادر مطلق ہونا چاہیے۔ یہاں فکراستدلالی اور مذہبی شعور میں فرق واقع ہوتا ہے۔"(ص88-89)"یہ نکتہ اﷲ کے علم پر ایک تحدید عائد کرتا ہے اور شعور مذہبی اسے قبول نہیں کر سکتا۔" (ص91)"اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ دعا کی معنویت اور جواز کا مندرجہ بالا بیان کس حد تک ہمیں اس تصور کے قریب لے جاتا ہے جو قرآن اور آثار نبوی سے ملتا ہے۔...اس ضمن میں پہلا فرق تو یہ نظر آتا ہے کہ اگرچہ عبادت و دعا کا دینی مفہوم بھی نتائجیت کا پہلو لیے ہوئے ہے تاہم اس کی عملی تاثیر اور نتائج اخروی نوعیت کے ہیں۔ علامہ نے نتائجیت کے پہلو پر زیادہ زور دیا ہے اور... ]قرآن کے[نصوص سے عبادت کے مقصود کا جو تصور ابھرتا ہے ]اسے[ مصلحتاً اجاگر نہیں کیا۔" (ص95) "...وحی کے بارے میں قرآن میں جو نصوص ملتی ہیںان سے بھی وحی کے معروضی، موجود فی الخارج اور ماوراء طبیعی ہونے ہی کا مفہوم ملتا ہے۔ ان کے مقابلے میں علامہ کے الفاظ سے ایک اشکال پیدا ہوتا ہے۔ اس کا حل اس صورت میں ممکن ہے کہ اسے سابقہ مقامات کی طرح سامعین کی رعایت کے لیے قریب الفہم اصطلاح کے استعمال سے تعبیر کیا جائے۔ ان کے سامعین حیاتیاتی علوم، سائنسی تصور اور جغرافیائی احوال سے اچھی طرح واقف تھے۔ ان کی اس ذہنی افتاد اور عملی پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے مصلحت خطاب اور مصلحت تفہیم کی خاطر یہ اسلوب اختیار کیا گیا۔" (ص138)"شعور مذہبی" کے علاوہ سہیل عمر کے بیان میں ان کے روایتی اور اقبال کے غیرروایتی نقطۂ نظر کا فرق جابجا"اشکالات"، "خطرات"، "خدشات" جیسے لفظوں سے ظاہر کیا جاتا ہے۔

یہی "اشکالات"، "خطرات"، "خدشات"، نیز "شعورمذہبی" سے اختلاف یا تصادم وغیرہ کے ذہنی مسائل ہیں جن کے سبب مثلاً احمد جاوید، نائب ناظم اقبال اکیڈمی، کو اقبال کے بعض بیانات نقل کرتے وقت "نعوذباﷲ" کہنا پڑتا ہے (موصوف کے کمالات کا قدرے تفصیلی ذکر آنے کو ہے)، اور انھی مسائل کا اظہار روایتی تصور مذہب کے حامل علما نے اقبال کی زندگی میں اور مابعد اپنی برافروختگی اور فتویٰ پردازی کی شکل میں کیا۔ "جریدہ" کے شمارہ 33 میں خطبات اقبال پر جو تبصرے ڈاکٹر غلام محمد کی زبانی روایت کی سند پر علامہ ندوی سے منسوب کیے گئے، ان میں بھی یہی باتیں زیادہ غیرمصلحت بیں اوردوٹوک انداز سے کہی گئی ہیں۔خرم علی شفیق نے اپنے مضمون میں واضح کیا ہے کہ اس قسم کے قدامت پرست ردعمل نے اقبال کو آخر تک تشویش میں مبتلا نہیں کیا اور وہ کسی بھی موقعے پر خطبات میں ظاہر کیے گئے اپنے خیالات سے رجوع کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے تھے۔سہیل عمر چونکہ ان حضرات کے برخلاف، بوجوہ، اقبال کے خیالات کی بابت نسبتاً نرم رویہ رکھتے ہیں، اس لیے انھوں نے تاویل کی یہ انوکھی راہ نکالی کہ اقبال کو اپنے بیان کردہ طرزاستدلال سے پیدا ہونے والے "اشکالات"، "خطرات"، "خدشات" وغیرہ کا بخوبی احساس تھا، لیکن مصلحت وقت کے تقاضے اور مخاطبین کے ذہنی مسائل کے لحاظ نے انھیں یہ طرزاستدلال اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ سہیل عمر کی نیک نیتی اور تاویل کا انوکھاپن اپنی جگہ، لیکن کسی دلیل کی غیرموجودگی میں اسے تسلیم کرنا ممکن نہیں۔

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد