دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری
دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری

اقبال شناسی یا اقبال تراشی؟ ۲

خرم علی شفیق نے ان تبصروں کے علامہ ندوی سے انتساب کے سلسلے میں کئی بیانات دیے ہیں: "امالی کے ملفوظات سید سلیمان ندوی صاحب سے منسوب کیے گئے ہیں (اگرچہ اس دعوے کو قبول کرنے میں مجھے تامل ہے)"۔..."کسی ثبوت کے بغیر یہ ماننے کو دل نہیں چاہتا کہ یہ ]علامہ ندوی[ہی کے ارشادات ہیں۔ جب تک ثبوت نہ مل جائے ہمیں مصلحت پسندی کا یہ چہرہ ]علامہ ندوی[ پر چپکانے کی کوئی ضرورت نہیں۔" ("احیائے علوم"، شمارہ 14، صفحہ 27۔)

 اس کے بعد صفحہ 31 پر انھوں نے علامہ ندوی پر تحقیق کرنے والوں کے بارے میں کہا ہے کہ "یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ معلوم کریں کہ یہ ملفوظات واقعی ]علامہ ندوی[کے ہیں یا نہیں۔" آگے چل کر کہتے ہیں: "یہاں بھی وہی شک گذرتا ہے کہ یہ ]علامہ ندوی[کے ارشادات ہیں یا کسی اور کا خامۂ ہذیان رقم!" (ص 33) مزید کہتے ہیں: "ان امالی میں جس قسم کی ذہنیت سامنے آتی ہے...اسے ]علامہ ندوی[سے منسوب کرنے میں ابھی مجھے تامل ہے مگر یہ ملفوظات جس کسی کے بھی ہوں، ہم دیکھ چکے ہیں کہ ایک الجھے ہوئے ذہن کو ظاہر کرتے ہیں۔" (ص37۔)

ان تمام بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ خرم علی شفیق یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ خیالات، جنھیں ڈاکٹر غلام محمد اور خالد جامعی نے علامہ ندوی سے منسوب کیا ہے، ان کے ہیں یا نہیں۔اگر انتساب کا کوئی حتمی ثبوت خالد جامعی نے پیش نہیں کیا (کہا نہیں جا سکتاکہ سینہ بہ سینہ زبانی روایت سے بڑھ کر کون سا ثبوت ہو سکتا تھا)تو سہیل عمر اور خرم علی شفیق نے بھی قطعی طور پر واضح نہیں کیا کہ یہ زبانی روایت اس مخصوص معاملے میں کیوں ناقابل قبول ہے۔ البتہ خرم علی شفیق نے ان خیالات کا علامہ ندوی کے معروف خیالات سے تضاد بڑی محنت اورقابلیت سے ظاہر کیاہے۔ تاہم بعض اہل قلم کے معاملے میں یہ دیکھا گیا ہے کہ مختلف ادوار میں ان کی رایوں اور خیالات میں نمایاں تضاد پایا جاتا ہے؛ اس قسم کے ادیبوں میں محمد حسن عسکری مثالی حیثیت رکھتے ہیں جنھوں نے تضادبیانی کو ایک فن لطیف کے درجے پر پہنچا دیا۔ خلاصہ یہ کہ خطبات اقبال پر ان تبصروں کے علامہ ندوی سے انتساب کا معاملہ ابھی حتمی طور پر طے ہوناباقی ہے؛ جیسا کہ خرم علی شفیق نے کہا ہے، علامہ ندوی پر تحقیق کرنے والوں کو چاہیے کہ معلوم کریں کہ یہ خیالات ان سے منسوب کیے جانے چاہییں یا نہیں۔

تاہم میری رائے میں "جریدہ" شمارہ 33 میں شائع ہونے والے خیالات کا علامہ ندوی یا کسی اور سے انتساب واحد اہم یا اہم ترین نکتہ نہیں۔ جیساکہ خرم علی شفیق کہتے ہیں، اگر یہ علامہ ندوی کے "ملفوظات نہیں ہیں تب بھی یہ خیالات کسی نہ کسی کا نتیجہ ٔ فکر تو ہوں گے،" چنانچہ ان کا محاکمہ کیا جانا جائز اورضروری ہے ، اور اکیڈمی کے نائب ناظم احمد جاوید نے اپنے مخصوص زاویۂ نظر سے ایسا کیا بھی ہے۔ میں نے بھی اپنے مختصر مضمون "اجتہاد اور فیصلہ سازی" میں ان میں سے بعض نکات پر اظہارخیال کیا تھا۔ میرے نزدیک یہ بات بھی نہایت اہمیت رکھتی ہے کہ ملک کی ایک بڑی یونیورسٹی کے زیراہتمام (اور ملک کے شہریوں سے وصول کردہ ٹیکسوں کی رقم کے صرف سے) اس قسم کے افسوسناک اور دقیانوسی خیالات کی اشاعت کی جا رہی ہے۔

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد