دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری
دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری

اقبال شناسی یا اقبال تراشی؟ ۱

لاہور سے شائع ہونے والے ماہانہ رسالے "احیائے علوم"میں پچھلے کچھ شماروں سے اجتہاد کے موضوع پر مضامین اور پڑھنے والوں کے خطوط کا ایک سلسلہ جاری ہے۔ اسی دوران کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ کے رسالے "جریدہ" کے شمارہ 33میں اقبال کے ان خطبات پر، جن کے مجموعے کا عنوان Reconstruction of Religious Thought in Islam ہے، قدامت پرست مذہبی نقطۂ نظر سے کیے گئے طویل تبصرے شائع کیے گئے

 اور یہ اطلاع دی گئی کہ یہ علامہ سید سلیمان ندوی کے خیالات ہیں جنھیں ان کے ایک عقیدت مند مرید ڈاکٹر غلام محمد نے روایت کیا ہے۔ ان تبصروں کو میں نے اسی بحث کی روشنی میں پڑھا جو "احیائے علوم" میں جاری ہے اور اسی پس منظر میں ان تبصروں کے بعض نکات پر اپنے مختصر مضمون "اجتہاد اور فیصلہ سازی" میں اظہارخیال کیا۔ اپنا مضمون "احیائے علوم" کے مدیر سید قاسم محمود کو بھجواتے ہوے مجھے یہ مناسب معلوم ہوا کہ علامہ ندوی سے منسوب ان تبصروں کے وہ اقتباسات الگ سے نقل کر دوں جنھوں نے میرے خیالات کو تحریک دی تھی۔میں نے ان اقتباسات پر مشتمل متن بھی"خطبات اقبال پر علامہ سلیمان ندوی کا تبصرہ" کے عنوان سے سید قاسم محمود کو بھجوا دیا۔ اس متن کے آخر میں یہ وضاحت موجود تھی: "(ماخوذ از "جریدہ"، شمارہ 33، شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ، جامعہ کراچی۔ مدیر: خالد جامعی)"۔یہ دونوں متن "احیائے علوم" کے شمارہ 13 میں الگ الگ مقامات پر شائع ہوے۔ (ملاحظہ کیجیے، ضمیمہ 1 اور 2۔) میرے مضمون کے عنوان میں کوئی تبدیلی نہ کی گئی البتہ اقتباسات کے متن کو یہ سرخی دی گئی: "خطبات اقبال، علامہ سید سلیمان ندوی کا بصیرت افروز تبصرہ"۔اس کے علاوہ اس متن کے ساتھ علامہ ندوی کی ایک تصویر بھی شائع کی گئی۔"احیائے علوم" کے اس شمارے کی اشاعت کے بعد اقبال اکیڈمی کی طرف سے اکیڈمی کے ناظم محمد سہیل عمر، نائب ناظم احمد جاوید اور ان کے علاوہ خرم علی شفیق اور چند دیگر اصحاب کا ردعمل سامنے آیا۔ان تحریروں میں مذکورہ تبصروں کے علامہ ندوی سے منسوب کیے جانے پر شبہات ظاہر کیے گئے اور بعض اعتراضات کا جواب دینے کی کوشش کی گئی۔ یہ تحریریں اکیڈمی کی طرف سے شائع کیے جانے والے کتابچے "میارابزم بر ساحل کہ آنجا" میں شامل کی گئیں اور ان میں سے تین بعد میں "احیائے علوم" کے شمارہ14 میں شائع ہوئیں۔

مذکورہ شمارہ 14 کا انشائیہ نما اداریہ بعنوان "کمپیوٹر کی شرارت" پڑھ کر مجھے بہت حیرت ہوئی۔اس تحریر میں مجھے جن ناکردہ گناہوں کا قصوروار ٹھہرایا گیا ہے ان کا ذکر توذرا آگے چل کر ہو گا، لیکن حیرت کا بڑا سبب یہ ہے کہ کمپیوٹر تک سے اداریہ نویس نے ایسے افعال و اعمال منسوب کر دیے ہیں جو عموماً اس سے منسوب نہیں کیے جاتے۔سید قاسم محمود صاحب، جن کا نام اس رسالے پر مدیر کے طور پر چھپتا ہے، اداریے میں فرماتے ہیں:"اب کمپیوٹر ایڈیٹر بن بیٹھا ہے۔ جو چیز چھپنے کے لیے آتی ہے، غڑاپ سے اپنے پیٹ میں ڈال کر سڑاپ سے باہر نکال دیتا ہے..." کمپیوٹر اور ای میل کا استعمال اب اردو کے اخباروں اور رسالوں میں خاصا عام ہو گیا ہے اور مدیروں کواشاعت کے لیے بھیجی جانے والی بہت سی تحریریں الیکٹرانک ذرائع سے موصول ہوتی اورکمپیوٹر کی مدد سے اشاعت کے لیے مرتب کی جاتی ہیں، تاہم کمپیوٹر کی غڑاپ اور سڑاپ کے درمیان عموماً رسالے کامدیر واقع ہوتا ہے جو اس ذریعے سے موصول ہونے والی ہرتحریر کا پرنٹ آؤٹ نکال کر(یا نکلوا کر) اسے غور سے پڑھنے کے بعد ہی اس کے قابل اشاعت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔ "احیائے علوم" غالباً اردو کا پہلا رسالہ ہے جس میں مدیر نے یہ پورا عمل کمپیوٹر کو سونپ کر اس کا رابطہ براہ راست شرکت پریس سے کرا دیا ہے اور خود چین کی بنسی بجانے کا شغل اختیار کر لیا ہے۔ میں اردو کے اس پہلے مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ رسالے کے اجرا پر مبارک بادپیش کر نا چاہتا ہوں، لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ مبارک باد سید قاسم محمود کو دی جائے یا براہ راست ان کے کمپیوٹر کو۔

لیکن جہاں تک زیربحث مضامین کا تعلق ہے، ان کے سلسلے میں کمپیوٹر کی اس غڑاپ سڑاپ کی قطعی کوئی اہمیت نہیں، کیونکہ یہ دونوں تحریریں جنھیں "احیائے علوم" کے شمارہ 13 میں مختلف مقامات پر شائع کیا گیا، مدیر کے نام خط کے ساتھ ہارڈ کاپی یعنی کاغذ پر نکالے ہوے پرنٹ آؤٹ کی شکل میں (بقول اداریہ نویس"رجسٹری سے")بھیجی گئی تھیں، اور خط میں مدیر سے یہ گذارش کی گئی تھی کہ اگر وہ انھیں شائع کرنے کا فیصلہ کریں تو ان کی سافٹ کاپی بذریعہ ای میل الگ سے بھیجی جا رہی ہے، اس متن کو استعمال کر لیں تاکہ انھیں نئے سرے سے کمپوزنگ نہ کرانی پڑے اور پروف کی غلطیاں نہ ہوں۔ رسید کے طور پر سید قاسم محمود کا 26 جولائی کا لکھا ہواخط موصول ہوا کہ "آپ کے مرسلہ دونوں مضامین دونوں ذریعوں سے مل گئے ہیں۔ توجہ فرمائی کا شکریہ۔ ہمیں ایسے ہی مضمونوں کی ضرورت ہے،" وغیرہ وغیرہ۔اب جیساکہ اداریے میں دیے گئے حلفیہ بیان سے انکشاف ہوا ہے، اگر محترم مدیر نے یہ باتیں خط کے ساتھ منسلک مضامین کو پڑھے بغیر ہی لکھ بھیجیں، اور پھر اشاعت کے لیے منتخب کرتے وقت (یا شائع ہونے کے بعد)بھی انھیں پڑھنے کی زحمت نہ کی تو ظاہر ہے کہ اس طرزعمل کا قصوروارکمپیوٹر کے سوا کس کو ٹھہرایا جا سکتا ہے؟یہ فیصلہ بھی یقیناکمپیوٹر نے کیا ہو گا کہ رسالے کے کن صفحات پر کن تحریروں کو جگہ دی جائے، ان پر کیا عنوان قائم کیا جائے اور کون سی تصویر کہاں لگائی جائے۔ واہ کمپیوٹر جی واہ!

سید قاسم محمود صاحب میرے بزرگ ہیں اور میرے لیے قابل احترام ہیں۔میں نے ان سے بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کی ہے، مثبت اور منفی دونوں طریقوں سے۔ یعنی ایک طرف رسالوں کو دیدہ زیب اور دلچسپ بنانے کے بہت سے طریقے ان کی مرتب کی ہوئی مطبوعات کو غور سے پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کی، تو دوسری طرف یہ بھی سیکھا کہ اشاعت کے لیے آنے والی تحریروں کو پڑھے بغیر شائع کرنا سید قاسم محمود کا ایسا عمل ہے جس کی پیروی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ واقعہ اردو رسالوں میں کمپیوٹر کے مروج ہونے سے برسوں پہلے کا ہے جب ان کی ادارت میں نکلنے والے ایک ڈائجسٹ میں ممتاز مفتی کا سفرنامۂ حج "لبیک" قسط وار شائع ہوا تھا۔ جب یہ سفرنامہ کتاب کے طور پر چھپا تو اس میں سید قاسم محمود کی ایک تحریر بھی شامل تھی جس میں انھوں نے یہ انکشاف کیا تھا کہ وہ ان قسطوں کو پڑھے بغیر رسالے میں شائع کیا کرتے تھے۔

اپنے رسالے کے مشمولات اور ان کے مضمرات سے ناواقف ہونے کے باعث ، اقبال اکیڈمی کے سرکاری عمال کے شوروغوغا سے سید قاسم محمود اس قدر گھبرا گئے کہ انھوں نے ہر چیز سے اپنی برأت کا اعلان کرتے ہوے یہ بھی نہ دیکھا کہ "خطبات اقبال" پر جن تبصروں سے اقتباسات منتخب کر کے شائع کیے گئے ہیں وہ کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ تصنیف و تالیف کے رسالے "جریدہ" کے شمارہ 33 سے لیے گئے ہیں اور اس رسالے کا مکمل حوالہ دیا گیا ہے بلکہ ان میں سے ہر اقتباس پر مذکورہ رسالے کا صفحہ نمبر بھی درج کیا گیا ہے۔ان تبصروں کو علامہ سید سلیمان ندوی سے"جریدہ" کے مدیر خالد جامعی نے منسوب کیا تھا ، اس لیے اس انتساب کی ذمے داری انھی کے سر جاتی ہے، نہ کہ سید قاسم محمود (یا ان کے کمپیوٹر) کے۔جہاں تک میرا تعلق ہے میں تویہ ذمے داری اپنے سر لینے سے قطعی قاصر ہوں۔خالد جامعی نے وضاحت کے طور پر بتایا ہے کہ علامہ ندوی کے ان خیالات کے راوی ڈاکٹر غلام محمد ہیں ،اور بظاہرخالد جامعی کو اس امر پر اطمینان معلوم ہوتا ہے کہ ان کی روایت معتبر ہے۔ڈاکٹر غلام محمد کون تھے، میں اس سے ناواقف ہوں، اور شمارہ 14 میں اقبال اکیڈمی کے زیراہتمام تیار کیے ہوے جو وضاحتی مضامین شائع کیے گئے ہیں ان میں بھی ان صاحب کا تعارف نہیں کرایا گیا۔ تاہم محمد سہیل عمر اور خرم علی شفیق نے علامہ ندوی اور ڈاکٹر غلام محمد کے ناموں پر رحمت اﷲ علیہ کی علامت لگائی ہے جس سے ان دونوں مرحومین کی بابت ان دونوں کا احترام ظاہر ہوتا ہے۔ ان حضرات نے اس بارے میں کوئی بحث نہیں کی کہ ڈاکٹر غلام محمد کی گواہی علامہ ندوی کے بارے میں (جو بقول خالد جامعی،ڈاکٹر غلام محمد کے شیخ تھے) کس بنیاد پر نامعتبر ہے۔ بہرحال، چونکہ اس بارے میں شکوک پائے جاتے ہیں، خالد جامعی اس بات کے مکلف ہیں کہ ان شکوک کو رفع کریں۔

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد