دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری
دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری

آئیے…اقبال سے ملتے ہیں

نومبر تو اصل میں اقبال کا ہی مہینا ہے۔ بڑے ناموں اور کاموں سے جڑنے والے دن، مہینے اور جگہیں اپنے آپ بڑی اور اہم ہو جاتی ہیں۔
’’
میں نے رومی کی طرح حرم میں آذاں دی
اور اسی سے اسرارِ جان سیکھے۔ دورِ کہن میں رومی تھا اور اور عصرِ رواں میں، میں ہوں۔ (ہم دونوں کو ایک ہی جیسے حالات کا سامنا ہے)
ء۹ نومبر کو دنیا میں لاکھوں لوگ پیدا ہوئے ہوں گے مگر ان میں سیالکوٹ کے محلہ چودھری وہاب (موجودہ اقبال سٹریٹ)میں شیخ نور محمد ولد شیخ محمد رفیق کے ہاں پیدا ہونے والا محمد اقبال کے ہی اقبال ایسے بلند ہوئے کہ شمس العلماء مولوی سید میر حسن جیسے استاد سے واسطہ پڑا کہ جس کے بارے میں خود اقبال نے کہا:
مجھے اقبال اس سید کے گھر سے فیض پہنچا ہے
پکے جو اس کے دامن میں وہی کچھ بن کر نکلے ہیں



مجھے اقبال اس سید کے گھر سے فیض پہنچا ہے
پکے جو اس کے دامن میں وہی کچھ بن کر نکلے ہیں

والدین اور اساتذہ کی اچھی تعلیم و تربیت کے بغیر مثالی انسان پیدا نہیں ہو سکتے۔ اقبال کی والدہ نے بیٹے میں قرآن پاک کی تلاوت کا شوق پیدا کیا ۔ والد نے سمجھایا قران پاک یوں پڑھو جیسے تم پر ہی نازل ہو رہا ہے۔
تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشافؔ

سید میر حسن نے شاگردِ عزیز کو شاعری کی طرف یوں مائل کیا کہ اقبال سکول کے دنوں میں ہی شعر کہنے لگا۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے فلسفہ کے دوران انہیں فلسفہ کے اس سکالر ’’پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ کی راہنمائی مل گئی کہ سر سید اور شبلی نعمانی بھی جس کی علمی مہارت اور قابلیت کے قدر دان تھے۔ آرنلڈ جیسا شفیق اور خلیق استاد ہی کہہ سکتا تھا ’’اقبال ایسا شاگرد استاد کو محقق اور محقق تر بنا دیتا ہے۔‘‘
اقبال ہمارے اپنے ہیں مگر سچ یہ ہے کہ کتابوں میں بند ہمارے دِلوں سے دُور۔ اس برس بہت جی چاہا کہ آپ سے کہوں کہ اُنھیں کتابوں سے نکالیے، اُن سے ملیے، اُن کو بہت سی مشکلوں سے رہائی ملے گی۔
’’
اسرار و رموز‘‘ میں اقبال نے ایک نوجوان کی حکایت بیان کی ہے جو دشمنوں کے خوف سے نجات کا خواہاں ہے۔
فرمایا’’ اے رازِ حیات سے ناواقف نوجواں!
تُو زندگی کے آغاز اور انجام سے غافل ہے۔ تُو دشمنوں کا خوف دل سے نکال دے۔ تیرے اندر ایک قوت خوابیدہ موجود ہے، اسے بیدار کر جب پتھر اپنے آپ کو شیشہ سمجھنے لگتا ہے تو شیشہ بن جاتا اور شیشے کی طرح ٹوٹنے لگتا ہے۔ جب مسافر اپنے آپ کو کمزور سمجھتا ہے تو اپنی جان کی نقدی بھی راہزن کے سپرد کر دیتا ہے۔ تو اپنے آپ کو کب تک پانی اور مٹی کاپتلا سمجھتا رہے گا۔ تجھے چاہیے اپنے اندر شعلۂ طور پیدا کر، یوسف کی طرح خود شناس ہو، تا کہ اسیری سے شہنشاہی تک پہنچے۔‘‘
اس نومبر میںاقبال پر بات کرتے ہوئے ۲ کتابوں کا تذکرہ بھی ضروری لگتا ہے۔ ایک دل آویز کتاب ’’روح دین کا شناسا اقبال‘‘ سید علی گیلانی نے لکھی ہے ۔ اسے منشورات، منصورہ لاہور نے چھاپا ہے اور دوسری کتاب ’’زندہ اقبال ‘‘ قیوم نظامی نے لکھی ہے۔ اسے جہانگیر بک ڈپو ریواز گارڈن نے چھاپا ہے۔ دونوں مرشد کی کیا خوب یاد تازہ کرتی ہیں۔  مدیر

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد