دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری
دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری

اقبال شناسی یا اقبال تراشی؟ ۸

اقبال اکیڈمی کے سابق ناظم مرزا منور نشان دہی کرتے ہیں کہ اقبال کی فکر خطبات تک پہنچ کر رک نہ گئی تھی۔ موجودہ ناظم سہیل عمر سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر اقبال صرف شاعری کرتے اور خطبات نہ لکھتے تو ان کا مقام کیا ہوتا۔ اقبال کا مقام تو خیر جو کچھ بھی ہوتا،یہ بات یقینی ہے کہ اگرانھوں نے خطبات نہ لکھے ہوتے تو اقبال اکیڈمی کے کارپردازان کی زندگی زیادہ آسان ہوتی

اور وہ رات کو اس فکر میں پڑے بغیر چین کی نیند سویا کرتے کہ خطبات میں اختیارکردہ واضح فکری طریق کار، اور استدلال کے ذریعے وضع کیے ہوے غیرمبہم اجتہادی نتائج کی اہمیت کو کس طرح کم کر کے پیش کیا جائے کہ اقبال کا نقطۂ نظرریاست کی سیاسی پالیسی اور قدامت پرست مذہبی نظریے سے ہم آہنگ دکھائی دینے لگے۔قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کو ایک بڑے شاعر اور اسلامی نظریات کے مفکر اوراجتہاد کی بے مثال صلاحیت رکھنے والے مجتہد کے طور پر اپنے مقام اور اس کی ذمے داریوں کی تو آگاہی تھی، لیکن انھیں اس کا گمان تک نہ تھا کہ بعدازمرگ انھیں ریاستی اسٹیبلشمنٹ کے تسلیم شدہ سرکاری شاعر و مفکر کے (قطعی غیرشایان شان) عہدے پر تعینات کیا جانے والا ہے جس کے تقاضے اور مصلحتیں ان کی اختیارکردہ ذمے داریوں سے قطعی مختلف، بلکہ بعض مقامات پر متضاد ہوں گی۔ چنانچہ ظاہر ہے کہ اقبال اکیڈمی وغیرہ کو انھیں اس بعدازمرگ وضع کردہ سانچے میں فٹ کرنے میں بڑی دقتیں پیش آتی ہیں اور ان عمال کے دل میں یہ حسرت پیدا ہوتی ہے کہ کاش اقبال نے اپنے ناخواندہ مقام اور ان حضرات کی نوکریوں کا خیال کرتے ہوے کسی قدر احتیاط کا ثبوت دیا ہوتا۔ بدقسمتی سے اقبال نے ایسا نہیں کیا، چنانچہ ان دقتوں کواپنے پیشے کی مشکلات کے طور پر قبول کر کے انھوں نے ان دقتوں سے عہدہ برآ ہونے کے چند دلچسپ طریقے وضع کیے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ وہ ہے جو سہیل عمر نے اپنی کتاب "خطبات اقبال نئے تناظر میں" میں اختیار کیا، اور جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔

اقبال اکیڈمی کے سابق ناظم مرزا منور نشان دہی کرتے ہیں کہ اقبال کی فکر خطبات تک پہنچ کر رک نہ گئی تھی۔ موجودہ ناظم سہیل عمر سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر اقبال صرف شاعری کرتے اور خطبات نہ لکھتے تو ان کا مقام کیا ہوتا۔ اقبال کا مقام تو خیر جو کچھ بھی ہوتا،یہ بات یقینی ہے کہ اگرانھوں نے خطبات نہ لکھے ہوتے تو اقبال اکیڈمی کے کارپردازان کی زندگی زیادہ آسان ہوتی اور وہ رات کو اس فکر میں پڑے بغیر چین کی نیند سویا کرتے کہ خطبات میں اختیارکردہ واضح فکری طریق کار، اور استدلال کے ذریعے وضع کیے ہوے غیرمبہم اجتہادی نتائج کی اہمیت کو کس طرح کم کر کے پیش کیا جائے کہ اقبال کا نقطۂ نظرریاست کی سیاسی پالیسی اور قدامت پرست مذہبی نظریے سے ہم آہنگ دکھائی دینے لگے۔قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کو ایک بڑے شاعر اور اسلامی نظریات کے مفکر اوراجتہاد کی بے مثال صلاحیت رکھنے والے مجتہد کے طور پر اپنے مقام اور اس کی ذمے داریوں کی تو آگاہی تھی، لیکن انھیں اس کا گمان تک نہ تھا کہ بعدازمرگ انھیں ریاستی اسٹیبلشمنٹ کے تسلیم شدہ سرکاری شاعر و مفکر کے (قطعی غیرشایان شان) عہدے پر تعینات کیا جانے والا ہے جس کے تقاضے اور مصلحتیں ان کی اختیارکردہ ذمے داریوں سے قطعی مختلف، بلکہ بعض مقامات پر متضاد ہوں گی۔ چنانچہ ظاہر ہے کہ اقبال اکیڈمی وغیرہ کو انھیں اس بعدازمرگ وضع کردہ سانچے میں فٹ کرنے میں بڑی دقتیں پیش آتی ہیں اور ان عمال کے دل میں یہ حسرت پیدا ہوتی ہے کہ کاش اقبال نے اپنے ناخواندہ مقام اور ان حضرات کی نوکریوں کا خیال کرتے ہوے کسی قدر احتیاط کا ثبوت دیا ہوتا۔ بدقسمتی سے اقبال نے ایسا نہیں کیا، چنانچہ ان دقتوں کواپنے پیشے کی مشکلات کے طور پر قبول کر کے انھوں نے ان دقتوں سے عہدہ برآ ہونے کے چند دلچسپ طریقے وضع کیے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ وہ ہے جو سہیل عمر نے اپنی کتاب "خطبات اقبال نئے تناظر میں" میں اختیار کیا، اور جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔

ایک اور طریقہ یہ ہے کسی طرح شاعری کو خطبات کے مدمقابل ٹھہرایا جائے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جائے کہ ان کی شاعری سے، تشریح و تعبیر کی مدد سے ایک ایسا نقطۂ نظر برآمد کیا جا سکتا ہے جو خطبات میں سامنے آنے والے نقطۂ نظر سے مختلف اور قابل ترجیح ہے۔جو لوگ اس کے برعکس رائے رکھتے ہیں ان کا ذکر سہیل عمر نے اس طرح کیا ہے:"ان کی عام دلیل یہ ہے کہ خطبات سوچے سمجھے، جچے تلے، اور غیرجذباتی نثری اظہار کا نمونہ ہیں اور شاعری اس کے برعکس یا بہرحال اس سے کم تر۔یہ لوگ وہ ہیں جو شاعری پڑھنے یا سمجھنے کے اہل ہی نہیں...اس رویے کا نتیجہ شعرفراموشی ہی ہو سکتا ہے، اور یہی ہوا بھی ہے۔"(ص12) میں نہیں جانتا کہ یہ کن لوگوں کا ذکر ہے، کیونکہ سہیل عمر نے یہ بات کسی شخص کا نام لیے یا کوئی حوالہ دیے بغیر لکھی ہے۔ تاہم ان نامعلوم افراد کے دفاع میں وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ شاعری پڑھنے یا سمجھنے کی اہلیت ایسی چیز نہیں جس کا اقبال اکیڈمی کے باہر پایا جانا ممکن نہ ہو،لیکن سہیل عمر کے اس بیان میں ایک مغالطہ ایسا ہے جس کی تردیدضروری ہے۔ خطبات کو "سوچے سمجھے، جچے تلے، اور غیرجذباتی نثری اظہارکا نمونہ" قرار دینے کا یہ مطلب کہیں سے بھی نہیں نکلتا کہ "شاعری کو اس کے برعکس یا بہرحال اس سے کم تر"ٹھہرایا جا رہا ہے۔ شاعری میں بعض جگہ شاعر کے غیرمبہم نقطۂ نظر کو پالینا ناممکن نہیں ہوتا۔اقبال کی شاعری میں جابجا مختلف اہم معاملات پر ان کا نقطۂ نظر بھی صراحت سے سامنے آتا ہے جس کی موجودگی میں ان کی فکر پر اس سے متضاد نقطۂ نظر سے حکم لگانا ممکن نہیں رہتا۔ چند مثالیں دیکھیے جو کسی خاص کوشش کے بغیر چنی گئی ہیں:

تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خود کشی

رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے

بادہ ہے نیم رس ابھی شوق ہے نارسا ابھی

رہنے دو خم کے سر پہ تم خشت کلیسا ابھی

گیا ہے تقلید کا زمانہ مجاز رخصت سفر اٹھائے

ہوئی حقیقت ہی جب نمایاں تو کس کو یارا ہے گفتگو کا

شریعت کیوں گریباں گیر ہو ذوق تکلم کی

چھپا جاتا ہوں اپنے دل کا مطلب استعارے میں

نہیں جنس شراب آخرت کی آرزو مجھ کو

وہ سوداگر ہوں میں نے نفع دیکھا ہے خسارے میں

آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا

منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

لیکن شاعری صرف نقطۂ نظر یا اعتقادات کے اظہار یا اعلان پر مشتمل نہیں ہوتی(اگرچہ اکیڈمی کے نائب ناظم کا سلوک اقبال کے شعر کے ساتھ کچھ اس قسم کا ہوتا ہے کہ پھرتی سے شعر کے قارورے کا امتحان کر کے رپورٹ دے دی جائے کہ اس کی روشنی میں اقبال کا عقیدہ قابل قبول ٹھہرتا ہے یا نہیں)۔ اس کے برعکس خطبات کا متن ایسا ہے جسے اقبال نے ان اجتہادی نتائج کو ممکنہ حد تک واضح اور قابل فہم انداز میں بیان کرنے کی غرض سے تحریر کیا جن پر وہ اپنے اختیارکردہ مخصوص طریق کار اورطرز استدلال کی مدد سے پہنچے تھے۔ علاوہ ازیں، شاعری میں اقبال کا خطاب کسی مخصوص گروہ سے نہیں ہے جس کی خصوصیات کے بارے میں کوئی مجموعی حکم لگایاجا سکتا ہو، جبکہ خطبات کے سلسلے میں یہ امر اقبال کے ذہن میں پوری طرح واضح ہے: یہاں وہ برصغیر کی سیاسی اور تہذیبی تاریخ کے ایک مخصوص مقام پر ان جدید ذہن رکھنے والے مسلمانوں سے خطاب کر رہے ہیں جو مغربی فلسفے کی تعلیم سے روشنی حاصل کرنے کی بدولت اقبال کے نزدیک ان مباحث کو سمجھنے کے اہل ہیں جن پر خطبات میں گفتگو کی گئی ہے۔ اس میں شاعری کو خطبات کے برعکس یا کم تر سمجھنے کا مفہوم کہاں سے پیدا ہو گیا؟ اور اس کا نتیجہ شعرفراموشی کی صورت میں کیونکر اور کب نکلا؟

حقیقت یہ ہے کہ جس طرح بانیِ پاکستان محمد علی جناح کے 11 اگست 1947 کو پاکستان کی دستورساز اسمبلی سے خطاب کے متن نے ، جس میں انھوں نے نئی قائم شدہ ریاست کے سیاسی نظام کے رہنما خطوط واضح طور پر بیان کیے تھے، ملک کو اس کے عین مخالف سمت میں لے جانے والے چیرہ دست حکمرانوں اور ان کے سرکاری عمال کے لیے چنددرچنددشواریاں پیدا کی ہیں، اسی طرح اقبال کے خطبات نے بھی ان حلقوں کو متواتر مشکل میں ڈالے رکھا ہے۔جس کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ اقبال کی شاعری سے نمٹنا ان کے لیے آسانی سے ممکن ہوا ہے۔ البتہ شاعری میں تشریح و تعبیر کی گنجائش نثر میں دیے گئے واضح بیان کی بہ نسبت زیادہ ہوتی ہے اور نائب ناظم کی قبیل کے شارحین اسی گنجائش کو تاویل کے کھیل کے میدان کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

احمد جاوید نے جب اقبال اکیڈمی میں نوکری پانے کے لیے درخواست دی ہوگی تو یقینا انٹرویو کے لیے بھی پیش ہوئے ہوں گے، اور ثقافت اور کھیل کی وفاقی وزات کے ارباب اختیار کو یقین دلایا ہو گا کہ وہ وزارت اور اکیڈمی کے مطلوبہ مقاصد کو پورا کرنے کے لیے موزوں قابلیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے کھیلوں سے اپنی دلچسپی کے نمونے کے طور پر چڑی ماری کے کھیل میں اپنی کارکردگی کو پیش کیا ہو گا اور انھیں اطمینان دلانے میں کامیاب ہو گئے ہوں گے کہ اس کھیل کے کرتبوں سے شعرِ اقبال اور فکر اقبال کے طائران لاہوتی کو بھی شکار کیا جا سکتا ہے۔ بعد میں، جولائی 2003 میں، انھیں کسی اور معاملے میں ناسازگار حالات پیش آنے پر مجبور ہو کرچڑی ماری سے تحریری طور پر توبہ کرنے کا اعلان کرنا پڑا، جس کا متن آپ کراچی کے رسالے "دنیازاد"، شمارہ 9 کے صفحہ 330پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔لیکن توبہ کے باوجود اقبال پر ان کی غلیل بازی بدستور جاری ہے، جس کے چند نمونے آپ اوپر ملاحظہ کر چکے ہیں جن میں ان کا لایا ہوا یہ نادر نکتہ بھی شامل تھاکہ چاند رات کو اپنے پیشے کی دشواریوں کے ہاتھوں خیاطوں کی کیا ذہنی کیفیت ہوتی ہے۔ نوکری کی عائدکردہ ذمے داریوں کے ہاتھوں خود موصوف کی اپنی ذہنی کیفیت بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف معلوم نہیں ہوتی۔ "اقبالیات" کے محولہ بالا شمارے میں اقبال کے تصور زمان و مکاں سے ہاتھاپائی کرتے ہوے وہ ان سرکاری ذمے داریوں کی تفصیل کچھ یوں بیان کرتے ہیں:

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کم از کم اس معاملے میں اکثر مقامات پر محسوس ہوتا ہے کہ شعر میں ان کا مؤقف خاصا بدلا ہوا ہے، بلکہ کہیں کہیں تو نثر میں بیان شدہ مؤقف کے الٹ ہے۔( ص 93) دیکھنا یہ ہے کہ یہ فرق حقیقی ہے یا میڈیم کی تبدیلی سے محض تاثر کی سطح پر پیدا ہوا۔ اگر یہ فرق حقیقی ہے تو یہ معلوم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ تاریخی اعتبار سے اقبال کا نیا مؤقف کہاں بیان ہوا ہے، اور بالفرض اس فرق میں اگر کوئی حقیقت نہیں ہے تو بھی صرف میڈیم کی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والا یہ امتیاز خطبات میں بیان شدہ مؤقف کو علیٰ حالہٖ رہنے دیتا ہے یا نہیں؟ اور پھر یہ بھی کہ شاعری کی وجہ سے کہیں کوئی ایسی چیز تو پیدا نہیں ہوتی جو خطبات میں اظہار پانے والے نقطۂ نظر کو اقبال کا حتمی نقطۂ نظر نہ ماننے پر مجبور کرتی ہو؟ (ص93-94)

اگر کوئی ایسی چیز فطری طریقے سے پیدا ہونے کو تیار نہیں ہوتی تو اسے نظریۂ ضرورت کے تحت زبردستی پیدا کیا جائے گا، کیونکہ مقصودحقیقی "خطبات میں اظہار پانے والے نقطۂ نظر" کا، بقول یوسفی، دف مارنا ہے۔اس کے دو طریقے مروج ہیں: ایک تو یہ کہ اقبال کے ظاہرکردہ کسی بھی ناپسندیدہ نقطۂ نظر کے سلسلے میں کسی طرح یہ ثابت کیا جائے کہ انھوں نے اس پر نظرثانی کر لی تھی، یا کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن حیات نے وفا نہ کی، وغیرہ۔ دوسرا طریقہ یہ کہ تاویل کے ذریعے سے یہ دکھانے کی کوشش کی جائے کہ جہاں کہیں اقبال نے دن کو سفید قرار دیا وہاں دراصل ان کی مراد سیاہ رنگ سے تھی۔یہ کون بڑی بات ہے؛ آخر تاویل ہی سے تو "پرانے تخیلات" کے حامل حضرات، بقول اقبال، قرآن کو پاژند بنایا کرتے تھے۔ نائب ناظم بھی ایسا ہی مبارک ارادہ رکھتے ہیں:

...جو تصور بھی اقبال کے شعر میں آیا ہے وہ بعض اوقات اپنے نثری اظہار سے مختلف بلکہ متصادم نظر آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ خود فکر کا اندرونی تضاد نہیں ہے بلکہ دو صورتیں ممکن ہیں: یا تو اس طرح کی صورتِ حال فکری ارتقا سے پیدا ہوتی ہے ورنہ ذریعۂ اظہار کی تبدیلی اس فکر کے بنیادی اجزا کی ترکیب میں کوئی انقلاب پیدا کردیتی ہے جس سے اس کی تکمیلی ساخت بدلی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ہمارے خیال میں اقبال کے ہاں یہ دونوں صورتیں کارفرما ہیں۔ کچھ مسائل میں وقت گذرنے کے ساتھ انھوں نے اپنی راے پر نظر ثانی کی اور بعض معامالات میں موضوع مشترک ہونے کے باوجود ان کے poetic self اور philosophic self کا امتیاز برقرار رہا۔ ایسے مواقع پر تاویل درکار ہے جو اس امتیاز کو محو کیے بغیر کسی فکری دو لختی کے تاثر کو ختم کرسکے۔ ہم یہ کوشش بھی کریںگے۔ (ص 94)

بسم اﷲ، ضرور کیجیے کوشش، لیکن ذرا احتیاط سے کام لیجیے گا۔اگر آپ نے دھاندلی کرتے ہوئے اقبال پر ان نظریات کو منڈھنے کی کوشش کی جو ان کے نہیں تھے، تواقبال کو پڑھنے والے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو آپ کے 'academic' self کو، یعنی نائب ناظم کے طور پر آپ کی نوکری کی مجبوریوں کو خاطر میں نہیں لاتے اور نہ آپ کے electronic self یعنی 'ٹیلی اُپدیشک' ہونے سے متاثر ہوتے ہیں، ان میں سے کوئی نہ کوئی آپ کو ٹوکے گا ضرور، اور پھرکہیں ایسا نہ ہو کہ مجبور ہو کر آپ کو اپنی اس سرگرمی سے بھی توبہ کا اعلان کرنا پڑ جائے۔چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی۔

حقیقت یہ ہے کہ خطبات میں اقبال نے اپنا نقطۂ نظرجابجا اتنے صاف لفظوں میں بیان کر دیا ہے کہ اس سلسلے میں کنفیوژن پھیلانے کی گنجائش بہت کم رہ جاتی ہے۔ خطبات کے درج ذیل اقتباسات میں، جنھیں سہیل عمر کی تصنیف میں نقل کیا گیا ہے، اقبال کا نقطۂ نظر بالکل واضح ہے ، اور اکیڈمی کے پسندیدہ نقطۂ نظر سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔

…eternal principles when they are understood to exclude all possibilities of change which according to the Qur'an is one of the greatest signs of God, tend to immobilize what is essentially mobile in its nature…. [T]he immobility of Islam during the last five hundred years illustrates [this principle]. (p-139-140)

…conservative thinkers regarded this movement [of Rationalism] as a force of disintegration , and considered it a danger to the stability of Islam as a social polity. Their main purpose, therefore, was to preserve the social integrity of Islam, and to realize this the only course open to them was to utilize the binding force of Shari'ah and to make the structure of their legal system as rigorous as possible. (p-142)

The search for rational foundations in Islam may be regarded to have begun with the Prophet himself. His constant prayer was: “God! Grant me knowledge of the ultimate nature of things.” (p-48)

 

اس پر احمد جاویدفرماتے ہیں " Rationalism کا اقبال سے دور کا تعلق بھی نہیں ہے۔... Rationalism اپنی ہر نوع میں اور ہر جہت میں وحی کا انکار ہے۔ اس کا انحصار ہی اس تصور اور دعوے پر ہے کہ حقیقت تک رسائی کے لیے عقل کافی ہے اور اسے باہر سے کسی رہ نمائی کی حاجت نہیں ہے۔" ("احیائے علوم"، شمارہ14، ص24)

This spirit of total other-worldliness in later Sufism… offering the prospect of unrestrained thought on its speculative side, … attracted and finally absorbed the best minds in Islam. The Muslim state was thus left generally in the hands of intellectual mediocrities, and the unthinking masses of Islam, having no personalities of a higher caliber to guide them, found their security only in blindly following the schools. (p-142-143)

The fear of further disintegration, which is only natural in such a period of political decay, the conservative thinkers of Islam focused all their efforts on the one point of preserving the uniform social life for the people by a jealous exclusion of all innovations in the law of Shari'ah as expounded by the early doctors of Islam. (p-143)

... a false reverence for past history and its artificial resurrection constitute no remedy for a people's decay. (p-30)

The most remarkable phenomenon of modern history however is the enormous rapidity with which the world of Islam is spiritually moving towards the West. There is nothing wrong in this movement, for European culture, on its intellectual side, is only a further development of some of the most important phases of the culture of Islam. (p-29)

The theory of Einstein has brought a new vision of the universe and suggest new ways of looking at the problems common to both religion and philosophy. No wonder then that the younger generations of Islam in Asia and Africa demand a fresh orientation of their faith. With the reawakening of Islam, therefore, it is necessary to examine, in an independent spirit, what Europe has thought and how far the conclusions reached by her can help us in the revision and, if necessary, reconstruction, of theological thought in Islam (p-29-30)

They disclose new standards in the light of which we begin to see that our environment is not wholly inviolable and requires revision. (p-30-31)

I propose to undertake a philosophical discussion of some of the basic ideas of Islam, in the hope that this may, at least, be helpful towards a proper understanding of the meaning of Islam as a message to humanity. (p-30)

The only course open to us is to approach modern knowledge with a respectful but independent attitude and to appreciate the teachings of Islam in the light of that knowledge. (p-99)

The truth is that all search of knowledge is essentially a form of prayer. The scientific observer of Nature is a kind of mystic seeker in the act of prayer. (p-94)

The question which confronts him [the Turk] today, and which is likely to confront other Muslim countries in the near future, is whether the Law of Islam is capable of evolution; a question which will require great intellectual effort, and is sure to be answered in the affirmative. (p-146)

In order to create a really effective political unity of Islam, all Muslim countries must first become independent; and then in their totality they should range themselves under one Caliph. Is such a thing possible at the present moment? If not today, one must wait. In the meantime the Caliph must reduce his own house to order and lay the foundations of a workable modern State. (p-145-146)

The republican form of government is not only thoroughly consistent with the spirit of Islam, but has also become a necessity in view of the new forces that are set free in the world of Islam. (p-144)

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد