دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری
دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری

اقبال کا پیغام خودی


اقبال کے پیغام اور فکر کا مرکزی نقطہ ان کا تصور خودی ہے۔ یہ وہی تصور خودی ہے کہ جس نے اقبال کی شخصیت کو بقاء دوام عطا کیا اور یہی وہ ہے تصور ہے جس نے اقبال کو نظریہ پاکستان دینے پر مجبور کیا اور اسی تصور خودی میں خود پاکستان کی بقاء اور ملت اسلامیہ کا عروج مضمر ہے ۔ ۔ ۔


بقول اقبال !

خودی کے ساز سے ہے عمر جاوداں کا چراغ

خودی کے سوز سے روشن ہیں امتوں کے چراغ

 

خودی کیا ہے ؟ درحقیقت خود سے آگاہی ہے کہ اقبال کہ اس پیغام کی اصل حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ۔ ۔

 

مَنْ عَرَفَ نَفْسَه فَقَدْ عَرَفَ رَبَّه.

 

’’جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا۔ اس نے

اپنے رب کو پہچان لیا‘‘۔

 

گویا خودی کا یہ تصور خود شناسی سے شروع ہوکر بندے کو خدا شناسی تک لے جاتا ہے اور اس سفر میں بندہ کو بقاء و دوام تب نصیب ہوتا ہے کہ جب بندہ اپنی خودی کی حقیقت کو پہچان کر خود اپنی ہی خودی میں گم ہونے کی بجائے اپنی خودی کو خدا شناسی میں گم کردیتا ہے تب بندہ مقام فنا سے مقام بقا پر فائز ہوجاتا ہے ۔ یعنی انسان کا شعوری سفر اپنے احساس نفس سے اپنی معرفت اور پہچان کی حقیقت کے ساتھ جتنا آگے بڑھے گا اسے اتنا ہی اپنے رب کی معرفت حاصل ہوگی انسان جتنا اپنی ذات پر غور کرتا ہے، اپنی حقیقت کو پہچانتا ہے اتنا ہی اسے اپنے رب کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور یہ معرفت اس کو رب کی محبت میں فنایت پر مجبور کرتی ہے گویا جب بندہ اپنی خودی کو پہچانتا ہے تو وہ اس نتیجے پر پہنچتا کہ حقیقت میں وہ کیا ہے ایسے میں پھر وہ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے . . .

 

میں کیا ہوں ؟

اور مجھ میں میرا ہے ہی کیا ؟

یعنی کی میرے وچ میرا

 

اور اس طرح بندے کو اپنے عجز اور کمزوری کا حقیقی ادراک ہوجاتا ہے جو کہ بندہ کے لیے اپنے رب کے سامنے عاجزی و تذلل کا باعث بنتا ہے اور یوں بندہ اپنے رب کے سامنے عاجز ہوکر جھکتا چلا جاتا ہے اور ایسے میں جب بندہ اپنی کمزوری و عاجزی کا اعتراف کرتے ہوئے جتنی عاجزی سے جھکتا چلا جاتا ہے اتنی ہی وہ صمد ذات اپنی عظمت و رفعت اور شان کی معرفت و ادراک کے دروازے اس پر کھولتی چلی جاتی ہے اور پھر اسی معرفت شان معبودیت کے صدقے رب تعالیٰ اپنے بندے کو مقام عبدیت پر فائز کرتا ہے۔

 

لہذا جب بندے کو رب کی شان معبودیت اور اپنے مقام عبدیت کا علم ہوجاتا ہے تو اسے رب کی عظمت اور اپنی حقیقی عاجزی کا ادراک ہوجاتا ہے تو پھر وہ بندہ اپنی رضا، رب کی رضا میں گم کردیتا ہے۔ وہ اپنے ہر عمل میں رب تعالیٰ کی رضا، اس کی منشاء اور اس کے اذن کا طالب رہتا ہے۔ جب بندہ اس مقام پر پہنچتا ہے تو رب تعالیٰ اس کو شان عبودیت عطا کرتا ہے پھر وہ بندے کو وہ بھی عطا کرتا ہے جو اس کی (یعنی رب کی ) اپنی رضا ہوتی ہے اور وہ بھی عطا کرتا ہے جو خود بندے کی رضا ہوتی ہے اور یہی وہ مقام کہ جہاں پر آکر اقبال علیہ رحمہ کی روح ٹرپ اٹھی اور وہ تڑپ کر بول اٹھے کہ ۔ ۔۔۔

 

 

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے۔

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد