دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری
دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری

خودی کا نشیمن تیرے دل میں ہے

سید ماجدحسین رضوی

علامہ اقبال ایک ایسی شخصیت ہے جس کو دنیا شاعر مشرق کے نام سے جانتی ہے دنیا اقبال کے تعارف کی محتاج نہیں ہے ۔اقبال نے دنیا کے مسلمانوں کو ایک عظیم فکر دی جس سے مسلمان بیدار ہوگئے ۔ 

اقبالؒ کے اندر مسلمانوں کے لئے ایک ایسا درد تھا جس نے اقبا لؒ کو بے قرار کیا ، جس نے اقبالؒ سے سکون چھین لیا ، جس نے اقبالؒ سے نالے اگلوائے ۔اقبالؒنے پورے مشرق میں خودی وخوداعتمادی ، عزت نفس، جہاں بینی،اور جہاں بانی کا ولولہ پیدا کیا ۔اقبالؒ نے پورے مشرق میں خودی وخوداعتمادی ، عزت نفس، جہاں بینی،اور جہاں بانی کا ولولہ پیدا کیا ۔ اقبالؒ نے نہ صرف مشرق کواپنا کھویا ہوا وقار اور لٹی ہوئی آبرو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے جھنجھو ڑا بلکہ مغرب کے گمراہ کن تعقل اورفتنہ جوتجربہ ومشاہدہ کے سا ئنٹفک منہاج کووحی الٰہی اور پیغمبرانہ اسوہ سے مزین کرکے انسانیت کےلئے فیض بخش اور حقیقی ارتقاءکا ذریعہ بنانے کی کوشش کی۔اقبالؒ نے نہ صرف شاعری کی دنیا میں ایک جدید شعور کا اظہار کیا بلکہ ایک ایسا شعور جو مغربی تہذیب اور صنعتی تمدن کی بنیادی خامیوں سے باخبر تھا بلکہ اس سے ایک ایسے ادراک سے روشناس کرایا جو ماضی ،حال اور مستقبل تینوں پر محیط تھا اقبالؒ ماضی کی تابناک شعاعوں سے حال کی تاریکیوں کو دور کرنا چاہتے تھے اور ایک ایسے طلوع ہونے والے آفتاب کی بشارت دے رہے تھے جو ایک نئی روحانی و اخلاقی تبدیلی کا نقطہ آغاز ہوگا

 

اس دور میں تعلیم ہے امراض ملت کی دوا

 ہے خون فاسد کے لئے تعلیم مثل نیشتر

 

علامہ اقبال ؒ ایک ہمہ جہت شاعر ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ فقط ایک شاعر ہی نہیں ، مفکر اور فلسفی بھی ہیں، ایک ایسے مفکر جنہوںنے حیات و کائنات کے مختلف اور متنوع مسائل پر غوروفکر کیا اور برسوں کی سوچ و فکر کے بعد شاعری اور نثر کے ذریعے ایسے حکیمانہ اور بصیرت افروز خیالات پیش کئے جو حکمت آموز اور بصیرت افروز ہیں اور انھیں اقبالؒ کی ندرت فکر کا شاہکار کہا جاسکتا ہے۔علامہ اقبالؒ نے انسان کو خودی کا درس دیا ہے۔ علامہ اقبالؒ کی خودی ، خود پرستی نہیں ہے ۔ خود سوزی نہیںہے بلکہ خود شناسی ہے یعنی خود کو پہچانا ،یعنی خود کی معرفت حاصل کرنا ،یعنی انسان کو اﷲنے اس دنیا میں کیوں بھیجا ہے کہاں جانا ہے کس لئے آیا ہے ۔اقبالؒ کی خودی خانقاہی نہیں ہے ،اقبالؒکی خودی خود شناسی ہے ،معرفتِ نفس ہے ۔ خود شناسی خدا شناسی ہے

 

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراخ زندگی

 

 تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

 

اقبالؒ کے نزدیک خودی کے اثبات ،پرورش اور استحکام ہی سے اسے غیر فانی بنایا جاسکتا ہے ۔ خودی اپنی پختگی ہی سے حیاتِ جاوداں حاصل کر سکتی ہے یعنی بے مثل ا نفرادیت کواس طرح قائم و بر قرار رکھے کہ موت کا دھچکا بھی اس کا شیرازہ نہ بکھیر سکے ۔ خودی کا جوہر ہے یکتائی ۔ وہ کسی دوسری خودی میں مدغم نہیں ہوسکتی ۔ نہ اس کا ظہور کسی دوسری خودی کے طور پر ہوسکتا ہے ۔ نہ وہ کسی کمتر خودی میں منتقل ہوسکتی ہے اگر خودی کی تربیت نہیں کی گئی تو اس کا مستقبل مخدوش ہے وہ فنا بھی ہوسکتی ہے

 

خودی کی پرورش و تربیت یہ ہے موقوف

 کہ مشت خاک میں پیدا ہو آتش ہمہ سوز

 

اقبال ؒ کا پیغام یا فلسفہ حیات کیا ہے اگر چاہیں تو اس کے جواب میں صرف ایک لفظ ’خودی ‘کہہ سکتے ہیں ،اس لئے کہ یہی ان کی فکر و نظر کے جملہ مباحث کا محور ہے اور انھوں نے اپنے پیغام یا فلسفہ حیات کو اسی نام سے موسوم کیا ہے اور محور تک اقبالؒ کی رسائی ذات وکائنات کے بارے میں بعض اہم سوالوں کے جوابات کی تلاش میں ہوئی ہے۔ انسان کیا ہے ؟ انسانی زندگی کیا ہے ؟ کائنات اور اس کی اصل کیا ہے ؟ آیا یہ فی الواقع کوئی وجود رکھتی ہے یا محض فریب نظر ہے؟ اگر فریب نظر ہے تو اس کے پس پردہ کیا ہے ؟ اس طرح کے اور نہ جانے کتنے سوالات ہیں جن کے جوابات کی جستجو میں انسان شروع سے ہی سرگرداں رہا ہے ۔

 

اقبالؒ کے فلسفہ خودی یا پیغام کی تخلیق کا خاص پس منظر ہے ۔قیامِ یورپ کے زمانے میں انہوں نے فلسفے کا گہرا مطالعہ کیا تھا ۔ایران کی مختلف ادبی اور لسانی تحریکوں اور لٹریچر کو غور کی نظر سے دیکھا تھا اور اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اسلامی تہذیب کی ابتری خصوصیت سے جنوبی ایشیاءمیں مسلمانوں کی تباہی کی ذمہ دار وہ فارسی شاعری بھی ہے جس نے افلاطونی فلسفے کی موشگافیوں میں پھنس کر حیات کے سر چشموں کو خشک کر دیا ۔ اس کے بعد سکون بے عملی کو زندگی کا عین تصور کیا جانے لگا ۔افراد میں خودی اور خودداری کی بُو نہ رہی اور ذلت و نکبت موجب فخر سمجھی جانے لگی اور روگ آہستہ آہستہ پوری قوم کے رگ و پے میں سرایت کرتا گیا اور اردو ادب بھی اس سے مستثنیٰ نہ تھا ۔

 

خودی“ کا لفظ اقبالؒکے پیغام یا فلسفہ حیات میں تکبر و غرور یا اردو ،فارسی کے مروجہ معنوں میں استعمال نہیں ہوا ۔ خودی اقبالؒ کے نزدیک نام ہے احساسِ غیرت مندی کا ، جذبہ خودداری کا ۔اپنی ذات و صفا ت کے پاس و احساس کا ،اپنی اناکو جراحت وشکست سے محفوظ رکھنے کا ،حرکت وتوانائی کو زندگی کی ضامن سمجھنے کا مظاہرات فطرت سے بر سر پیکار رہنے کا اور دوسروں کا سہارا تلاش کرنے کے بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا ۔ یوں سمجھ لیجئے کہ اقبالؒ کے نقطہ نظر سے” خودی“زندگی کا آغاز وسط اور انجام سبھی کچھ ہے ،فردو ملت کی ترقی و پستی ،خودی کی ترقی وزوال پر منحصر ہے ،خودی کا تحفظ زندگی کا تحفظ خودی کا استحکام زندگی کا استحکام ازل سے ابد تک خودی ہی کی کار فرمائی ہے، اس کی کامرانیاں اور کارکشائیاں بے شمار اور اس کی وسعتیں اور بلندیاں بے کنار ہیں ۔ اقبالؒنے ان کا ذکر اپنے کلام میں جگہ جگہ نت نئے انداز سے کیا ہے

 

خودی کیا ہے راز درون حیات

 خودی کیا ہے بیداری کائنات

 ازل اس کے پیچھے ابد سامنے

 نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے

 زمانے کے دھار میں بہتی ہوئی

 ستم اسکی موجوں کی سہتی ہوئی

 ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر

 ہوئی خاک آدم میں صورت پزیر

 خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے

 فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے

 

کہیں یہ ظاہر کیا ہے کہ لا اِلٰہ اللہ کا اصل راز ”خودی“ ہے تو حید خودی کی تلوار کو آب دار بناتی ہے اور خودی توحید کی محافظت کرتی ہے

 

خودی کا سر ِنہاں لا اِلٰہ اِﷲ

 

خودی ہے تیغ فساں لا اِلٰہ اِﷲ

 

کہیںیہ بتایا ہے کہ انسان کی ساری کا میابیوں کا انحصار خودی کی پرورش و تربیت پر ہے ۔ قوت اور تربیت یافتہ خودی ہی کی بدولت انسان نے حق و باطل کی جنگ میں فتح پائی ہے ۔خودی ہی زندہ اور پائندہ ہو تو فقر میں شہنشاہی کی شان پیدا ہو جاتی ہے اور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے تصرف میں آجاتا ہے

 

خودی ہے زندہ تو ہے فقر میں شہنشاہی

 نہیں ہے سنجر وطغرل سے کم شکوہ فقیر

 خودی ہو زندہ تو ہے دریائے بیکراں نایاب

 خودی ہو زندہ تو کہسار پر نیاں و حریر

 

بعض جگہ خودی کو فرد اور ملت کی زندگی کا مرکز خاص قرار دیا اس مرکز کا قرب سارے جہاں کا حاصل اور اس سے دوری موت کا پیغام ہے

 

قوموں کے لئے موت ہے مرکز سے جدائی

 ہو صاحب مرکز تو خودی کیا ہے خدائی

 

--------------------------

 

ہر چیز ہے محو خود نمائی

 ہر ذرہ شہید کبریائی

 بے ذوق نمود زندگی موت

 تعمیر خودی میں ہے خدائی

 

خودی کے اوصاف میں اقبالؒ کے بے شمار بیانات ، ان کی تصانیف میں بکھرے پڑے ہیں اور بے شما ر ایسے اشعار ہیں جن میں خودی کا والہانہ تذکرہ آیا ہے ۔اقبالؒ کا یہ فلسفہ حیات یا پیغام خودی جس پر اس نے اتنا زور دیا ہے اور اسے فرد و قوم کی بقا و ترقی کی اساس ٹھہرایاہے ۔جذبات کے لمحاتی جوش کا نہیں بلکہ انسان کے نفس اور اس کی تہذیبی زندگی پر کامل غورو فکر کا نتیجہ ہے ۔بعض مقامات پر خودی اور خدا کے وجود کو لازم وملزوم بتا کر وجود کی تعریف یہ کی ہے کہ جوہر خودی کی نمود کا دوسرا نام وجود ہے اس لئے انسان کو اپنے وجود کا ثبوت دینے کے لئے خودی کی نمود سے غافل نہ رہنا چاہئے ۔ خودی کی بھر پور نمودانسان کو امر بنا دیتی ہے

 

زندگانی ہے صدف قطرئہ نیساں ہے خودی

 وہ صدف کیا ہے جو قطرے کو گہر کر نہ سکے

 ہو اگر خود نگر و خود گرو خوگیر خودی

 یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے

 

خودی کو زندہ و پائندہ رکھنے اور اسے توانا و طاقتور بنانے کے عوامل کا تذکرہ تھا اس کے بعد خودی کی تربیت کی ارتقائی منزلیں زیر بحث آتی ہیں یہ تین مراحل ہیں: اطاعت، ضبطِ نفس اور نیابت اِلٰہی ۔اطاعت سے مراد فرائض کی ادائیگی اور شریعتِ الٰہیہ کی عملی تائید ہے جو شخص ان سے بھاگتا ہے وہ گویا دینِ محمدی کے آئین کے خلاف ورزی کرتا ہے اور اس کی حدود سے باہر قدم رکھتا ہے ۔ ضبط نفس سے مراد ،نفسانی خواہشوں اور ذاتی اغراض پر قابو پاناہے چونکہ انسان کے نفس میں خوف اور محبت کے دو عنصر ایسے ہیں جو اسے راہ راست سے اکثر ہٹا دیتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ اس پر کڑی نظر رکھی جائے ،نفس کو مغلوب ہونے سے بچایا جائے ۔ جب اطاعت و ضبط نفس کی منزلوں سے کسی فرد کی خودی کامیاب ہو کرگزر جاتی ہے تو گویا اعلیٰ وارفع کے منصب پر فائز ہوجاتا ہے جو تخلیق انسانی کا مقصدِخاص ہے ۔نیابت اور جس حصول کے لئے انسان روز اول سے سرگرم عمل اور مزاحمتوں سے بر سر پیکار ہے ۔ اقبالؒ فرد کو اپنی خودی کی حفاظت وتربیت اس طور پر کرنی چاہئے کہ وہ ترقی کی انتہائی منزلوں تک پہنچ کر خدا کا نائب حتٰی کہ خدا کی توجہ کا مرکز اور اس کے مد مقابل بن جائے

 

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

 خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

 

علامہ اقبالؒ کے فلسفہ حیات یا پیغام کی تخلیق اس طور پر کرسکتے ہیں کہ فرد کی طرح ملت کی بھی خودی ہوتی ہے ۔ چنانچہ فرد کی خودی کی تربیت و استحکام کے ساتھ ساتھ لازم آتا ہے کہ ملت کی خودی کو بھی مرتب و مستحکم بنایا جائے ۔اس کی صورت یہ ہے کہ فرد اپنی خودی کو ملت کی خودی میں اس طرح خم کر دے یا اس کا تابع بنا دے کہ ملت کی خودی کو فرد کی خودی پر فضیلت حاصل ہوجائے کہ ذاتی اغراض ومفادات پر ملت کے اغراض و مفادات کو ترجیح دی جائے اور مقدم سمجھا جائے۔ایسا کرنے سے فرد کی خودی مجروح نہیں ہوتی ،تقویت حاصل کر لیتی ہے ۔اس میں جماعت کی سی قوت پیدا ہوجاتی ہے اور جماعت میں مزید پختگی آجاتی ہے۔

 

در جماعت خود شکن گردو خودی

 نارِ گل ،برگ چمن گردو خودی

 کثرت ہم مدعا وحدت شود

 پختہ چوں وحدت شود ملت شود

 

انفرادی اور اجتماعی خودی کی تربیت وتنظیم اور استحکام و استقلال کے لئے وعہد حاضر کی ساری ملتوں میں ملت اسلامیہ ہی موزوں ترین ہے اور اس وقت دنیا میں جتنے آئین مروج ہیں ان سب میں آئین اسلامی یعنی قرآن مجید ہی ایک ایسا آئین ہے جس کے تحت فرد اور جماعت کی خودی اطاعت اور ضبط نفس کی منزلوں سے کامیاب گزر کر نیابتِ الٰہی کے منصب پر فائز ہونے کے لئے اہل بن سکتی ہے ۔فرد قوم کی خودی پر اظہار خیال کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ مسلمان اور ملت اسلامیہ کی خودی کی شرائط اور فتوحات دوسروں کی خودی سے بہت مختلف ہیں اور اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ اس کا مزاج دوسری قوموں کے مزاج سے مختلف ہے۔

 

اپنی ملّت پر قیاس اقوام ِ مغرب کا نہ کر

 خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

 

اگر مسلمانوں نے ترکیب رسول ہاشمی اپنائی ہوتی تو آج مسلمانوں کی یہ حالت نہ ہوتی ۔مسلمانوں نے اپنی خودی کو نہیں پہچانا اس لئے دوسروں کی تقلید کی اور مسلمان اس حالت پر پہنچے کہ آج مسلمان مظلوم ہے ۔ہمارا قُدس مُبارک امریکی پِٹھو اسرائیل کے ہاتھوں پائمال ہوتا جا رہا ہے اور مسلمان ابھی بھی سوئے ہوئے ہیں۔مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے ۔مسلمان ممالک ویران کئے جارہے ہیں اور ہم ذاتی اغراض میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ کسی کو اقتدار کی بھوک ،کسی کو گھر بار اور مال ومتاع کی بھوک۔ جب تک مسلمانوں کا صفا یا ہوجائے گا تب تک ہم سوئے رہیں گے ۔کب تک ہم مغرب کی غلامی کریں گے اور یہی مغرب والے مسلمان کومسلمان سے لڑاتے ہے ۔ اگر مسلمان خود شناس اور متحد ہوتے تو اہل مغرب کی مجال نہ ہوتی کہ پیغمبر اسلام کی شان میں توہین کرتے ۔اے کاش! اقبالؒ کی آرزو پوری ہوتی کہ ملت اسلامیہ میں خودی کا مقام حاصل ہوجائے اور ہم مسلمان آباد ، خوشحال اور امن امان میں رہتے اور روحِ اقبالؒ خوش ہوجاتی۔

 

اقبالؒ کسی خاص علاقے یا ملت کا شاعر نہیں ہے ،وہ پورے عالم انسانیت کا شاعر ہے اور اس کا پیغام صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ سب کے لئے ہے

 ہر درد مند دل کو رونا میرا رُلا دے

بے ہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگا دے

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد