دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری
دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

دنیا کا چکمتاستارہ مصور ریاست اسلامی

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لاہوری

علامہ اور پیغام وحدت امت

علامہ محمد اقبال اور پیغام وحدت امت

’’ پیغام وحدت امت‘‘ خالصتاً فکر اسلامی ہے جس پہ کوئی وہم کا گذر بھی نہیں۔ تصورِ اتحادِ امت اسلامی تصور ہے جس کا مرکزی نقطہ انفرادیت کو اجتماعیت میں ضم کرنا ہے۔ حضرت اقبال نے جب یورپی قومیت کا پورے طریقے سے تجزیہ کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ قومیت ایک سیاسی نظام کی حیثیت سے غیر انسانی نظام ہے۔ یورپ سے انہوں نے اس کے عملی نتائج دیکھے تو انہیں یہ خدشہ ہوا کہ یہ جذبہ اسلامی ممالک کے لئے نہایت خطرناک ہے۔

ادامه مطلب ...

شاعر مشرق کی تعلیم و تربیت


………محمد افضل گُھرکی

علامہ اقبال کے حوالے سے کچھ لکھنے کو دل چاہا‘ سوچا کیا لکھوں؟ جو ہماری نوجوان نسل کے لیے مشعل راہ ہو‘ کبھی سوچا کہ علامہ اقبال کی شاعری پہ کچھ لکھوں‘ سیاست پہ لکھوں یا ان کے اس خواب کے بارے میں لکھوں جو انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست کا دیکھا تھا یہ تمام باتیں ایک طرف۔ میرے ذہن میں جو بات آئی وہ یہ کہ میں آج مفکر پاکستان‘ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی ’’تعلیم و تربیت‘‘ کے بارے میں قارئین کو آگاہ کروں۔

ادامه مطلب ...

اسلامی اخلاق از نظر علامہ

علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ اور اسلامی اخلاق حافظ شکیل احمد طاہر

حکیم الامت، فلسفی اسلام علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ اسلامیان عالم کی آنکھوں کا تارا۔ ان کی فکر رسا نے فکر و عمل کے ہر میدان میں سامانِ ہدایت فراہم کیا۔ افکارِ اقبال، نظریاتِ اقبال اور تصورات اقبال کو جمع کرلیا جائے تو حاصل تصورات جمیع ’’تصور اخلاق اسلامی‘‘ ہے۔ تصور خودی، تصور بے خودی، تصور انسان کامل، تصور شاہین اور تصور فقر کا حاصل تصور اخلاق اسلامی ہے۔ حضرت حکیم الامت علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ کے تمام تر تصور کا اساسی نقطہ یہی ہے۔ :

ادامه مطلب ...

اقبال شناسی یا اقبال تراشی؟ ۱

لاہور سے شائع ہونے والے ماہانہ رسالے "احیائے علوم"میں پچھلے کچھ شماروں سے اجتہاد کے موضوع پر مضامین اور پڑھنے والوں کے خطوط کا ایک سلسلہ جاری ہے۔ اسی دوران کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ کے رسالے "جریدہ" کے شمارہ 33میں اقبال کے ان خطبات پر، جن کے مجموعے کا عنوان Reconstruction of Religious Thought in Islam ہے، قدامت پرست مذہبی نقطۂ نظر سے کیے گئے طویل تبصرے شائع کیے گئے

ادامه مطلب ...

اقبال شناسی یا اقبال تراشی؟ ۲

خرم علی شفیق نے ان تبصروں کے علامہ ندوی سے انتساب کے سلسلے میں کئی بیانات دیے ہیں: "امالی کے ملفوظات سید سلیمان ندوی صاحب سے منسوب کیے گئے ہیں (اگرچہ اس دعوے کو قبول کرنے میں مجھے تامل ہے)"۔..."کسی ثبوت کے بغیر یہ ماننے کو دل نہیں چاہتا کہ یہ ]علامہ ندوی[ہی کے ارشادات ہیں۔ جب تک ثبوت نہ مل جائے ہمیں مصلحت پسندی کا یہ چہرہ ]علامہ ندوی[ پر چپکانے کی کوئی ضرورت نہیں۔" ("احیائے علوم"، شمارہ 14، صفحہ 27۔)

ادامه مطلب ...

اقبال شناسی یا اقبال تراشی؟ ۳

جہاں تک خطبات کے بعد اقبال کی طرف سے مختلف موضوعات پر اپنے موقف سے مفروضہ رجوع یا اس پرنظرثانی کا تعلق ہے، خرم علی شفیق نے مرزا منور، خالد جامعی، علامہ ندوی (یا چلیے ان کے راوی ڈاکٹر غلام محمد) وغیرہم کے مفروضات و دعاوی کا بڑی خوبی سے سدباب کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خطبات کے بین الاقوامی ایڈیشن کے لیے متن کو اقبال نے خود حتمی شکل دی اور یہ ایڈیشن 1934 میں شائع ہوا۔ "

ادامه مطلب ...

اقبال شناسی یا اقبال تراشی؟ ۴

سہیل عمر کی تصنیف "خطبات اقبال نئے تناظر میں" ان کے ایم فل کے مقالے کا کتابی روپ ہے۔ اس تصنیف میں سہیل عمر نے "خطبات اقبال" کے مباحث کے تجزیے کی بنیاد مندرجہ ذیل تین مفروضات پر استوار کی ہے:

(1)پہلا مفروضہ یہ ہے کہ خطبات اقبال کے مخاطبین ایک خاص ذہنی پس منظر رکھتے تھے جو اقبال کے اپنے ذہنی پس منظر سے جدا تھا۔اس مفروضے کی تفصیل سہیل عمر کے الفاظ میں یہ ہے:

ادامه مطلب ...

اقبال شناسی یا اقبال تراشی؟ ۵

آئیے خطبات میںاظہار پانے والے اقبال کے نقطۂ نظر کے بعض ایسے نکتوں پر نظر ڈالیںجن سے سہیل عمر متفق نہیں ہیں اورجو "جریدہ" میں شائع کیے جانے والے ان اعتراضات کا بھی ہدف بنے ہیں جن کو علامہ ندوی سے منسوب کیا گیا ہے۔اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں ان نکات پر کم و بیش ایک ہی ردعمل ظاہر کر رہے ہیں، فرق ہے تو بس جذبے کی شدت اور لفظوں کے انتخاب کا۔ خطبات کے درج ذیل اقتباسات میں سہیل عمر کی کتاب "خطبات اقبال نئے تناظر میں" سے نقل کر رہا ہوں

ادامه مطلب ...

اقبال شناسی یا اقبال تراشی؟ ۶

اقبال خطبات میں ظاہر کیے گئے اپنے خیالات سے جزوی یا کلی طور پر رجوع کرنے پر آمادہ تھے یا نہیں، یہ بحث بہت سے لوگوں نے مختلف موقعوں پر اٹھائی ہے۔ پروفیسر مرزا منور کی رائے خود سہیل عمر نے (تائید اور تحسین کے انداز میں)درج کی ہے کہ "علامہ کی سوچ 1929ء تک پہنچ کے رک نہ گئی تھی۔ 'فکراقبال تشکیل جدید کے بعد' ایک مستقل کتاب کا تقاضا کرنے والا عنوان ہے۔" یہ مستقل کتاب میری معلومات کے مطابق اب تک نہیں لکھی گئی،اس لیے اس کے مفروضہ نتائج کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا ممکن نہیں،

ادامه مطلب ...

اقبال شناسی یا اقبال تراشی؟ ۷

"خطبات اقبال" پر علامہ ندوی سے منسوب تبصروں پر اقبال اکیڈمی کے نائب ناظم احمد جاوید نے بھی اظہارخیال فرمایا ہے۔ اس اظہارخیال کی ترکیب استعمال کو ان سے منسوب مضمون کے آخری پیراگراف میں یوں بیان کیا گیا ہے:

ان امالی کے بنیادی اعتراضات پر جو تبصرے کیے گئے ہیںوہ بھی فی البدیہہ ہیں انہیں اسی طرح سے پڑھنا چاہیے۔ جیسے کسی گفتگو کا مطالعہ کیا جائے۔ باقاعدہ تحقیقی جواب لکھنے کے لیے وقت بھی زیادہ چاہیے تھا اور تحریر میں طوالت بھی پیدا ہو جاتی اس لیے اس کی نوبت نہیں آئی ۔ ویسے بھی یہ اعتراضات علمی انداز میں نہیں کیے گئے۔ ان پر گفتگو کا یہی اسلوب مناسب تھا۔("احیائے علوم"،شمارہ 14، صفحہ26)

نائب ناظم موصوف کی ابتدائی وجہ شہرت چند برس پیشتر کی وہ گفتگو تھی جو انھوں نے اپنے دو عدد مرعوب مداحوں، آصف فرخی اور قیصرعالم کے ساتھ فرمائی تھی اور جس کا موضوع تینوں محوگفتگوحضرات کے سابق پیرومرشدمحمد حسن عسکری کے کمالات تھے۔ (اس گفتگو کے غیرمدون متن کو الٰہ آباد کے مرحوم رسالے "شب خون" میں شائع کیا گیا تھا، لیکن جب اس گفتگو کے غیرمہذب لہجے اور اوٹ پٹانگ نفس مضمون پر دو غیرمرعوب نقادوں مبین مرزا اور صابر وسیم نے سختی سے گرفت کی تو اس متن کو پاکستان میں شائع کرانے کا ارادہ مصلحتاً ٹال دیا گیا۔اس گفتگوکو پاکستان میں اب تک شائع نہیں کرایا گیا ہے۔ ) معلوم ہوتا ہے بے تکان زبانی گفتگونے احمد جاوید کے اظہارذات کے اصل اسلوب کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔

ادامه مطلب ...

اقبال سے محبت۔۔مگر کیسے‘‘

حافظ مظفر محسنؔ101۔چراغ پارک شاد باغ لاہور+92003009449527muzaffarmohsin@yahoo.com

مسجد تو بنا دی شب بھر میں

ایماں کی حرارت والوں نے

من اپنا پرانا پاپی ہے

برسوں سے نمازی بن نہ سکا

اقبال شناسی کیسے ممکن ہے شاید اس کے لئے اقبالؒ کے اشعار میں ڈوب جانا ہو گا؟ میں اقبال ؒ شناس ہوں یا نہیں۔۔۔؟! میں علامہ سے کس قدر محبت کرتا ہوں۔۔۔؟! میں علامہ اقبالؒ کو کس مقام و مرتبہ پر فائز دیکھتا ہوں۔۔۔میں نے آنکھیں بند کیں اور اقبالؒ کے اشعار دل ہی دل میں پڑھتا چلا گیا۔۔۔ شکوہ اور جواب شکوہ شروع ہوا تو اشعار اترتے چلے گئے۔۔۔کہیں بریک لگنے کا احتمال نہ تھا۔۔۔ایک خاص کیفیت طاری ہوتی چلی جا رہی تھی ۔کلام اقبالؒ ہمارے دلوں میں بچپن سے موجود ہے اپنی پوری سپرٹ کے ساتھ۔۔ اس دوران۔۔کہیں موسیقیت بھی وارد ہو جاتی ۔۔۔خاص طور پر جہاں محترمہ نور جہاں کا پڑھا ہوا وہ حصہ۔۔آ جاتا۔۔۔ہے جو سننے والوں کے دلوں کو منور کر دیتا ہے۔۔۔ایک ایک لفظ اپنی طرف کھنچتا چلا جاتا ہے۔۔اس قرآنی تعلیمات کی تفسیر بیان کرنے والے عظیم شاعرکا کہ زمانہ جس سے بہت پیار کرتا ہے۔

ادامه مطلب ...

اقبال کی آفاقی شاعری کے حفاظ


حافظ مظفر محسنؔ101۔چراغ پارک شاد باغ لاہور+92003009449527muzaffarmohsin@yahoo.com

’’اقبال کی آفاقی شاعری کے حفاظ‘‘

مسجد تو بنا دی شب بھر میں

ایماں کی حرارت والوں نے

من اپنا پرانا پاپی ہے

برسوں سے نمازی بن نہ سکا

اقبالؒ شناسی کیسے ممکن ہے شاید اس کے لئے اقبالؒ کے اشعار میں ڈوب جانا ہو گا؟ میں اقبال ؒ شناس ہوں یا نہیں۔۔۔؟! میں علامہ سے کس قدر محبت کرتا ہوں۔۔۔؟! میں علامہ اقبالؒ کو کس مقام و مرتبہ پر فائز دیکھتا ہوں۔۔۔میں نے آنکھیں بند کیں اور اقبالؒ کے اشعار دل ہی دل میں پڑھتا چلا گیا۔۔۔ شکوہ اور جواب شکوہ شروع ہوا تو اشعار اترتے چلے گئے۔۔۔کہیں بریک لگنے کا احتمال نہ تھا۔۔۔ایک خاص کیفیت طاری ہوتی چلی جا رہی تھی ۔کلام اقبالؒ ہمارے دلوں میں بچپن سے موجود ہے اپنی پوری سپرٹ کے ساتھ۔۔ اس دوران۔۔کہیں موسیقیت بھی وارد ہو جاتی ۔۔۔خاص طور پر جہاں محترمہ نور جہاں کا پڑھا ہوا وہ حصہ۔۔آ جاتا۔۔۔ہے جو سننے والوں کے دلوں کو منور کر دیتا ہے۔۔۔ایک ایک لفظ اپنی طرف کھنچتا چلا جاتا ہے۔۔اس قرآنی تعلیمات کی تفسیر بیان کرنے والے عظیم شاعرکا کہ زمانہ جس سے بہت پیار کرتا ہے۔

ادامه مطلب ...

خطبات اقبال پر علامہ ندوی کا تبصرہ

خطبات اقبال پر علامہ سلیمان ندوی کا تبصرہ

سائنس اور فلسفے کی ضرورت:

اقبال مرحوم امام غزالی سے سخت نالاں تھے اور سمجھتے تھے کہ غزالی اور قدیم متکلمین اور فقہا نے فلسفے کی مذمت کر کے مسلمانوں پر ترقی، ارتقا اور سائنسی انقلاب کے دروازے بند کردیے ہیں۔ اگر یہ فقہا اور خصوصاً امام غزالی پیدا نہ ہوتے اور عالم اسلام میں فلسفے کی موت واقع نہ ہوتی تو مسلمانوں پر زوال نہ آتا۔ لیکن ان کے پاس اس سوال کا جواب نہ تھا کہ رسول اللہ اور صحابہ کرام کے پاس تو کوئی فلسفہ نہ تھا لیکن قیصر و کسریٰ کیسے فتح ہوگئے تھے؟۔۔۔وہ مغرب کی تمام تر ترقی کو اسلام ہی کا اثاثہ سمجھتے تھے جو بہت بڑی غلط فہمی تھی اور رفتہ رفتہ یہ غلط فہمی دور ہوگئی تھی۔ ان سے بار بار یہ پوچھتا تھا کہ اگر قرآن نے تفکرون تدبرون تعلقون کی دعوت دے کر تجربیت ، حواس کے استعمال کے ذریعے مغرب کی اس ترقی کو ممکن بنایا اور رسول اللہ کی آمد سے مغرب مغرب ہوگیا اور اسلام ہی نے تجربیت، عقلیت، ترقی، ارتقا کا درس دیا اور قرآن و سنت و خلافت راشدہ کا اسی لیے زریں دور تھاتو خود عہد اسلامی میں سائنس کا وہ ارتقا کیوں نہ ہوا جو مغرب میں ممکن ہوا؟ کیا کسی پیغمبر نے ایجادات سے انقلاب برپا کیا یا دعوت سے۔۔۔

اگر سائنس ترقی کی اصل اساس ہے تو انبیا کم از کم سائنس داں تو ہوتے اور انسانیت کے لیے کچھ ایجادات تو کرتے لیکن تاریخ اس تصور سے خالی ہے۔۔

۔جب مسلمانوں کے سامنے عاد ثمود اہرام مصر موجود تھے تو مسلمان قرآنی تجربیت کے ذریعے ان جیسی عمارتیں چودہ صدیوں میں کیوں نہ بنا سکے؟

ادامه مطلب ...

مقدمہ "اسرار خودی

مقدمہ "اسرار خودی" از پروفیسر نکلسن.
مغربی دنیا میں علامہ محمد اقبال کے فکر و فلسفہ کا ابتدائی تعارف اس وقت ہوا جب کمبرج یو نیورسٹی کے پروفیسر آر-اے-نکلسن (م ١٩٤٥)نے مثنوی "اسرار خودی" کا انگریزی ترجمہ کیا.پروفیسر نکلسن نے اپنے مقدمے میں لکھا تھا .

ادامه مطلب ...

آئیے…اقبال سے ملتے ہیں

نومبر تو اصل میں اقبال کا ہی مہینا ہے۔ بڑے ناموں اور کاموں سے جڑنے والے دن، مہینے اور جگہیں اپنے آپ بڑی اور اہم ہو جاتی ہیں۔
’’
میں نے رومی کی طرح حرم میں آذاں دی
اور اسی سے اسرارِ جان سیکھے۔ دورِ کہن میں رومی تھا اور اور عصرِ رواں میں، میں ہوں۔ (ہم دونوں کو ایک ہی جیسے حالات کا سامنا ہے)
ء۹ نومبر کو دنیا میں لاکھوں لوگ پیدا ہوئے ہوں گے مگر ان میں سیالکوٹ کے محلہ چودھری وہاب (موجودہ اقبال سٹریٹ)میں شیخ نور محمد ولد شیخ محمد رفیق کے ہاں پیدا ہونے والا محمد اقبال کے ہی اقبال ایسے بلند ہوئے کہ شمس العلماء مولوی سید میر حسن جیسے استاد سے واسطہ پڑا کہ جس کے بارے میں خود اقبال نے کہا:
مجھے اقبال اس سید کے گھر سے فیض پہنچا ہے
پکے جو اس کے دامن میں وہی کچھ بن کر نکلے ہیں

ادامه مطلب ...

اقبال کی شگفتہ مزاجی

علامہ اقبال سنجیدہ اور متین ہونے کے باوجود بڑے بذلہ سنج اور خوش طبع تھے۔ گفتگو خواہ کسی قسم کی ہو، مزاح کا پہلو ضرور ڈھونڈ لیتے۔ مہذب و شائستہ لطائف کی قدر کرتے۔ خود بھی لطائف بنا کر دوست احباب کو ہنساتے رہتے، بعض اوقات لطائف کے ذریعے اہم مسائل بھی حل کر دیتے تھے۔

ادامه مطلب ...

حکمِ اذاں

حکمِ اذاں
(علامہ اقبال کی نظم ’’لاالٰہ الا اللہ‘‘ کا مطالعہ)
حکیم الامّت، شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری کا خاصہ یہ ہے کہ انہوں نے فن اور مقصد کو یوں یک جان کر دیا جیسا ان سے پہلے کسی سے نہ ہوا تھا۔ علامہ کی شاعری میں زبان و بیان کی چاشنی کے ساتھ ساتھ عمیق افکار کا وہ رچاؤ پایا جاتا ہے جس کی مثال اردو شاعری میں کہیں اور نہیں ملتی۔ ان کے کلام کی خاص بات عالمانہ سلاست ہے۔فنِ شعر کی عمومی اصطلاح ’’سلاست‘‘ اقبال کے کلام پر یوں موزوں نہیں بیٹھتی کہ ان کے ہاں سادہ اور آسان فہم الفاظ کی بجائے فارسی کی بھاری بھرکم تراکیب زیادہ مستعمل ہیں۔ سحرطرازی کی بات یہ ہے قاری کو ان تراکیب کی ثقالت کا احساس تک نہیں ہوتا، اور وہ انہیں سلاست کے ساتھ پڑھتا چلا جاتا ہے۔ ان کی تلمیحات ان کی دقیق بصیرت کا پتہ دیتی ہیں، بلکہ بہت سے مقامات پر یہ تلمیحات استعارے بن جاتی ہیں۔ کلامِ اقبال کے اسی وصفِ خاص کو ہم نے ’’عالمانہ سلاست‘‘ کا نام دیا ہے۔
ادامه مطلب ...

اقبال کو اقبال کیسے ملا

جنگ آزادی۱۸۵۷ء میں ناکامی کے بعد مسلمانانِ ہند کو مایوسی اور نا اُمیدی نے اپنی بانہوں میں جکڑ لیا۔ لیکن اﷲ نے سرسید، حالی، علامہ اقبال اور بہت سے مسلمان رہنما، دانشور اور شاعر اُمت مسلمہ کی بیداری اور رہنمائی کے لیے بھیج دیے۔

علامہ اقبال نے خصوصاً اپنے کلام کے ذریعے مسلم قوم میں زندگی کی لہر دوڑا دی۔ آپ نے واضح کیا کہ مسلمانوں کا معاشی و مادی ابتلا کا شکار ہو جانا کوئی اِتنا بڑا حادثہ نہیں کہ وہ مایوس ہو کر بیٹھ جائیں۔ قوموں کی زندگی میں اِس طرح کے حادثات آتے ہی رہتے ہیں، مگر زندہ اقوام بحرانوں سے مضمحل اور ضعیف نہیں ہوتی بلکہ انہیں اپنی قوت و شوکت کے لیے چیلنج سمجھ کر عروجِ نو کے لیے بطور زینہ استعمال کرتی ہیں۔

ادامه مطلب ...